
۸ مئی کو کابل میں ایک اسکول کے باہر بم دھماکے میں کم از کم ۶۸؍ افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ ۱۶۰ سے زائد زخمی ہوئے۔ اگرچہ کسی نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، لیکن اس دھماکے نے افغانستان کے مستقبل پر گہرے سائے ڈال دیے ہیں، کیوں کہ رواں برس گیارہ ستمبر تک امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے گی۔
اگلے ہی دن چینی وزارتِ خارجہ نے حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی جانب سے افغانستان سے مکمل انخلا کے اچانک اعلان کے نتیجے میں اس طرح کے حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس طرح کے تبصرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی انخلا کے حوالے سے چین کس طرح سوچ رہا ہے۔ بیجنگ افغانستان میں امریکی موجودگی اور جلد انخلا کے حوالے سے طویل عرصے تک امریکا پر تنقید کرتا رہا ہے۔ چین میں خارجہ پالیسی سے تعلق رکھنے والے افراد خطے میں امریکی ارادوں کے حوالے سے شک کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ وہ امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد اپنی مغربی سرحد پر انتشار اور عدم استحکام کے بارے میں شدید خدشات کا شکار ہیں۔
پچھلے ۲۰ برس کے دوران چین نے افغانستان میں امریکی موجودگی کے حوالے سے متضاد رویہ اختیار کیا ہے۔ ایک طرف چین امریکی موجودگی کو عدم استحکام اور افغان سیاست میں مداخلت کے طور پر دیکھتا ہے۔ بیجنگ کے خیال میں طویل جنگ انسدادِ دہشت گردی کے اپنے اصل مقصد سے ہٹ چکی ہے اور اب اس جنگ نے چین اور یوریشیا کو قابو کرنے کے منصوبے کی شکل اختیار کرلی ہے، جس کی وجہ سے امریکی فوج کی افغانستان میں موجودگی انتہائی منفی اثرات رکھتی ہے اور علاقائی عدم استحکام کا باعث ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ چین امریکی فوجی انخلا کے حوالے سے اتنا واضح موقف نہیں رکھتا، جس طرح چینی وزارتِ خارجہ نے ۸مئی کے دھماکے کے بعد افغانستان کی خراب صورتحال کا امریکا کے غیر ذمہ دارانہ انخلا کو قرار دیا۔ چین افغانستان کی خراب صورتحال، شہر ی علاقوں میں ممکنہ خانہ جنگی اور بم دھماکوں کا ذمہ دار امریکا کو ٹھہرانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی کے بارے میں چین کا متضاد رویہ بیجنگ کے کثیر الجہتی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ چین امریکا کو امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ میں الجھا دیکھنا چاہتا ہے، کیونکہ یہ جنگ خطے اور پوری دنیا میں امریکا کی دولت اور اخلاقی ساکھ میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔
درحقیقت چین نے افغانستان اور عراق میں امریکی جنگوں کو خدائی مدد کے طور پر دیکھا، جس نے چین کو سنہری اسٹریٹجک مواقعوں سے نوازا اور وہ ۲۰۰۱ء کے بعد امریکا کی توجہ حاصل کیے بغیر تیزی سے مضبوط ہوتا چلا گیا۔ چین نے امریکا کی افغانستان میں جنگ کو ہمیشہ منفی اور مثبت اثرات کے اعتبار سے دیکھا ہے۔ چین کو امید ہے کہ افغانستان، واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تعاون کا نیا میدان بن سکتا ہے۔ امریکا اور چین نے گزشتہ برسوں میں افغانستان پر مشاورت کا ایک سرکاری چینل کھلا رکھا ہے۔ بیجنگ کا خیال ہے کہ وہ امریکا اور چین کے لیے افغانستان سمیت مشترکہ تشویش کے امور کو استعمال کرکے اپنے لیے امریکی مخالفت کو کم کرسکتا ہے۔ یعنی افغانستان جیسے مسئلے میں تعاون کرکے امریکا سے دیگر امور میں مراعات حاصل کرسکتا ہے۔ چینی تجزیہ کاروں کے مطابق پچھلے کئی اجلاسوں میں اس حوالے سے بات چیت بھی ہوئی۔ حقیقت میں چین نے بائیڈن انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے سے قبل ہی شمالی کوریا، افغانستان، ایران اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے امریکا سے بات چیت کی تیاری کرلی تھی۔ چینی حکام بہت واضح تھے کہ سنکیانگ، ہانگ کانگ، تائیوان اور تبت پر چینی موقف پر حمایت کے بدلے امریکا سے تعاون کیا جاسکتا ہے۔ تاہم مارچ میں الاسکا میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور سیکرٹری خارجہ اینٹونی بلنکن، چینی پولٹ بیورو کے ممبر یانگ جیچی اور وزیر خارجہ وانگ یی کے مابین کشیدہ ماحول میں مذاکرات کے بعد دونوں ممالک میں تعاون کا امکان کم ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود بیجنگ کو اب بھی امید ہے کہ واشنگٹن مدد کے لیے چین کا رخ کرے گا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو شاید چین اس کا بہت مثبت جواب دے گا۔ امریکی فوجوں کی واپسی کے حوالے سے چینی بیانیہ میں غیر معمولی بات امریکی انخلا پر مستقل شک و شبہ کا اظہار ہے۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا واقعی امریکا افغانستان سے کنارہ کشی اختیار کررہا ہے۔
چینی نقطہ نظر سے اگر امریکا اپنے فوجی دستوں کو واپس بلا بھی لے گا تو بھی ممکنہ طور پر کابل میں امریکا اپنی سکیورٹی موجودگی برقرار رکھے گا، امریکا کا نجی سکیورٹی فورسز، دفاعی ٹھیکیداروں اور مقامی شراکت داروں پر اثر و رسوخ برقرار رہے گا۔ اس وقت بھی افغانستان میں ۲۵۰۰؍امریکی فوجی موجود ہیں اور اس میں خصوصی دستے بھی شامل ہوجائیں تو یہ تعداد ۳۳۰۰ بنتی ہے۔ فوج کی اس مختصر تعداد کے ذریعے جنگ میں کوئی فیصلہ کن کردار نہیں ادا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن امریکا اس علامتی تعداد کے ذریعے واضح پیغام دے رہا ہے کہ وہ اب بھی خطہ میں موجودگی برقرار رکھنے کے لیے سیاسی طور پر پُرعزم ہے۔ لہٰذا فوجیوں کی واپسی صرف علامتی ہے۔ چینی تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا متعدد طریقوں کے ذریعے کابل پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے گا۔ امریکی سکیورٹی اہلکاروں کا ایک بڑا دستہ افغانستان میں موجود رہے گا۔ اس کے علاوہ وسیع سیاسی رابطے اور شراکت داری کے ذرائع بھی امریکا کے معاون ثابت ہوں گے۔ امریکا نے افغانستان میں سیاسی اشرافیہ کے ساتھ شراکت داری اور سرپرستی کا جامع نیٹ ورک قائم کرلیا ہے اور یہ تعلقات ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے رہیں گے۔ چونکہ امریکا کے لیے جنوبی ایشیا میں اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ تعلقات اہم ہیں تو بیجنگ کی نظر میں آئندہ افغان حکومت میں بھی امریکا کا مرکزی کردار موجود رہے گا۔ چین کے لیے جوبائیڈن کی جانب سے فوجی دستوں کی واپسی کا مقصد امریکی سیاست میں ایک ذلت آمیز باب کو بند کرنے کی کوشش ہے اور امریکی اثر و رسوخ میں کمی کے بغیر افغانستان کے حوالے سے اپنی مادی اور اخلاقی ذمہ داریوں سے دستبرداری ہے۔
امریکی انخلا واشنگٹن کو طویل ترین جنگ کے علامتی اور سیاسی بوجھ سے آزاد کرائے گا اور اس کے ذریعے امریکا کو بغیر عوامی جواب دہی کے افغانستان میں کام کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہوجائے گی۔ چینی نظر میں یہ انخلا امریکی سیاسی اور مالی ذمہ داریوں کو کم کرتا ہے جبکہ امریکا کی افغانستان کے حالات کو متاثر کرنے کی صلاحیت برقرار رہے گی۔
یہ یقینی طور پر چین کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ ایک بار جب امریکا اپنی مالی اور اخلاقی ذمہ داریوں سے آزاد ہو جائے گا تو اس کے لیے اپنے وسیع ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کام کرنا آسان ہو جائے گا۔ چین اور عظیم طاقتوں کے درمیان جاری مقابلے پر توجہ دینے کی ضرورت نے ہی افغانستان سے امریکی انخلا کے فیصلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ بیان کے مطابق اب امریکا اپنی توانائی اور وسائل چین سمیت دیگر اہم معاملات سے نمٹنے پر لگائے گا۔ یہ بیان چین کی سوچ کی تصدیق کرتا ہے کہ افغان مسئلے سے آزادی امریکا کی چین سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کردے گا۔ جس کے چین کے لیے کئی سطحوں پرمضمرات ہوں گے۔ بیجنگ کے لیے امریکا کی فوجی ذمہ داریوں میں کمی معاملات کو مزید پیچیدہ کرے گی، کیوں کہ امریکا افغانستان میں چین کے امکانی کردار کو روکنے کے ساتھ اپنے مفادات کا تحفظ بھی کرے گا۔ چین کے لیے سب سے پریشانی کی بات یہ ہے کہ جنگی مشن کے خاتمے کے بعد امریکا افغانستان کو خطے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرے گا۔ غلط ہی سہی لیکن چین کو یقین ہے کہ وہ امریکا ہی تھا جس نے افغانستان پر روسی قبضے کے خلاف جنگ کے لیے اسامہ بن لادن اور ان کے حامیوں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کیا۔ اگرچہ چین کبھی بھی افغانستان پر فوجی حملہ نہیں کرے گا لیکن پھر بھی سنکیانگ اور چین کی سلامتی کے لیے امریکی موجودگی سنگین مضمرات رکھتی ہیں۔ امریکا اور چین کی مسابقت کے تناظر میں افغانستان دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان سیاسی اور عسکری اثرات بڑھانے کا میدان جنگ بن جائے گا۔ چینی پالیسی سازوں میں بحث ہے کہ کیا افغانستان سے امریکی انخلا چین کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ۔ اس حوالے سے بیشتر چینی تجزیہ کار مایوس نظر آتے ہیں۔ ان کے خیال میں اشرف غنی کی حکومت طالبان کا زیادہ عرصے تک مقابلہ نہیں کرسکے گی، شاید کچھ مہینے یا کچھ سال، اور اس کے نتیجے میں ملک پھر خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے، جس کے چین پر اثرات ہوں گے۔ جس سے اسلامی انتہا پسندی میں اضافہ ہوگا۔ اس لحاظ سے امریکا کے جانے کے بعد افغانستان شدید عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا اور چین سمیت خطے کے دیگر ممالک کو پیچھے رہ جانے والے گند سے نمٹنا ہوگا۔ لیکن گزشتہ برس کے مقابلے میں چین نے افغانستان سے امریکی انخلا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم استحکام سے نمٹنے کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں۔ ۲۰۱۷ء سے چین، پاکستان اور افغانستان کے درمیان مکالمہ جاری ہے۔ یہ چین کے لیے بنیادی چینل ہے، جس کے ذریعے اسٹریٹجک مکالمہ، انسداد دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق مشاورت اور تعاون کو بڑھایا جارہا ہے۔ چین نے استنبول کے امن عمل میں حصہ لیا ہے اور وہ دوحہ اور ماسکو مذاکرات میں بھی شامل رہا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ نومبر میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ نے تنازع کے خاتمے کے بعد تعمیر نو کے لیے افغان رابطہ گروپ کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ چین کے لیے بہتر صورت یہ ہے کہ افغانستان میں ایک عبوری حکومت بنے، جس کے بعد عام انتخابات کے ذریعے ایک مخلوط حکومت تشکیل دی جائے، جو موجودہ اشرف غنی انتظامیہ اور طالبان پر مشتمل ہو۔ اس صورت میں ہی افغانستان کے مقامی فریقوں میں تنازع ختم ہوسکتا ہے۔ بدترین صورت یہ ہے کہ مفاہمتی عمل ناکام ہوجائے اور تمام علاقائی ممالک بھی کوئی حل نکالنے میں ناکام رہیں تو چین اقوام متحدہ سے افغانستان کے استحکام کے لیے مداخلت کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
چینی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر امریکی انخلا کے بعد سنکیانگ کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو چین اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق افغانستان میں امن فوج بھیجنے کے بارے میں غور کرسکتا ہے۔
یہ ایک اشارہ ہے چین کے ممکنہ ردعمل کے بارے میں۔
اس حوالے سے سرحد پر چین کا سکیورٹی بڑھا دینا پوری طرح قابل فہم عمل ہے، باہمی تعاون کے بینر تلے چین سکیورٹی انتظامات کو افغانستان کے اندر تک پھیلا سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ان سرگرمیوں کے شواہد ملے ہیں، چین واکھان راہداری میں افغانستان کو گشت میں مدد فراہم کرتا رہا ہے۔
گزشتہ جنوری میں افغانستان میں چینی جاسوسی نیٹ ورک بھی پکڑا گیا تھا۔ چین اب بھی پرامید ہے کہ معاشی ترقی سے افغانستان مستحکم ہوسکتا ہے۔ سکیورٹی صورتحال کے حوالے سے یہ تجزیہ حقیقت پسندانہ ہے۔ اس مقصد کے لیے چین افغانستان کو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل کرنا چاہے گا۔ یہ سی پیک کا توسیعی منصوبہ ہوگا۔ یہ تجویز سب سے پہلے ۲۰۱۷ء میں سامنے آئی تھی اور پچھلا سال اس حوالے سے کافی حوصلہ افزا رہا، جب گوادر پورٹ کے ذریعے افغانستان نے تجارت کا آغاز کیا۔ چین کی نظر میں امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں معاشی ترقی اور علاقائی تجارت کا فروغ کافی مشکل ہوگا۔ بہرحال یہ ایک بڑا مقصد ہے اور چین اپنی اس پالیسی پر عمل درآمد جاری رکھے گا۔ چین کے افغانستان میں معاشی مفادات پاکستان کے خود کو خطے کے تجارتی مرکز میں تبدیل کرنے کی خواہش سے جڑے ہیں۔ اس سے چین کی اس یقین کی عکاسی بھی ہوتی ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں استحکام کے لیے پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔ چین بخوبی واقف ہے کہ پاکستان افغانستان کے حوالے سے اپنے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور حریفانہ عمل کے ذریعے اپنے مفادات کو آگے بڑھاتا ہے۔ تاہم چین کی نظر میں مبالغہ آمیز ہی صحیح لیکن افغانستان میں پاکستان کا اثر سیاسی حقیقت ہے، جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مزید یہ کہ اگرچہ افغانستان میں چینی اور پاکستانی مقاصد ایک جیسے نہیں لیکن باہم منسلک ہیں اور خاص کر بھارت سے مقابلے کے لیے تو چین اور پاکستان ساتھ ساتھ ہیں۔ چین کا افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بارے میں رد عمل کافی پیچیدہ ہے۔ بیجنگ کو تشویش ہے کہ امریکی فوج کے بغیر جلد ہی افغانستان انتشار کا شکار ہوجائے گا اور لامحالہ اسلامی انتہا پسندی کا گڑھ بن جائے گا۔ بہرحال چینی پالیسی ساز طویل عرصے سے امریکی ارادوں پر شک کا اظہار کرتے آئے ہیں، ان کی نظر میں امریکا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے افغانستان پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے گا اور اس کو استعمال بھی کرے گا۔ بیجنگ کو خدشہ ہے کہ امریکا افغانستان میں فوجی ذمہ داریوں سے سبکدوشی کے بعد اس ملک کو چین کی علاقائی حیثیت اور کلیدی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرے گا۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“How China views the U.S. withdrawal from Afghanistan”. (“warontherocks.com”. May 13, 2021)
Very very nice information about Afghanistan