
چین کے سب سے بڑے قائد ڈینگ ژیاؤ پنگ نے فروری ۱۹۷۹ء میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے تین لاکھ سپاہیوں کو جنوب مغربی ویتنام میں داخل ہونے کا حکم دیا تھا، تب چین کے حوالے سے بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا۔ محض ایک ماہ کی مدت میں چینی فوج نے شمالی اور مغربی ویتنام کے ایک درجن سے زائد شہروں پر آسانی سے قبضہ کرلیا تھا کیونکہ ویتنامی فوج قدرے چھوٹی اور جدید ترین ہتھیاروں سے بہت حد تک محروم تھی۔ پھر یہ ہوا کہ ۱۶ مارچ کو چینی فوج یہ کہتی ہوئی ویتنام سے نکل گئی کہ اس نے ویتنامی قیادت کو سبق سکھا دیا ہے۔
ظاہری طور پر تو بیجنگ ویتنام کو اس بات کی سزا دے رہا تھا کہ وہ خطے میں (سابق) سوویت یونین کو آگے بڑھنے کا نام دے کر چین کی راہ مسدود کر رہا ہے، لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔ چینی فوج کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے پیپلز لبریشن آرمی کے ایک سابق کرنل کا کہنا ہے کہ کہنے کو تو ویتنام کو سوویت یونین سے تعلقات بہتر بنانے کی سزا دی جارہی تھی، مگر ڈینگ ژیاؤ پنگ دراصل چینی فوج کو منظم کرنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ چین کی فوج کسی بھی بڑی اور خطرناک صورتِ حال میں فوری ریسپانس دینے کی پوزیشن میں رہے اور عوام کا اس پر اعتماد بھی بڑھے۔ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ سے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ چینی فوج ایک طویل مدت سے لڑی نہیں تھی اور ڈینگ ژیاؤ پنگ چاہتے تھے کہ ویتنام پر حملے کی صورت میں چینی فوج کی کمزوریاں ظاہر ہوں تاکہ اُن کے تدارک کی تدبیر کی جاسکے۔
ویتنام پر لشکر کشی کی صورت میں صرف ویتنام کو نہیں، چین کو بھی اچھا خاصا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ غیر جانب دار ذرائع کہتے ہیں کہ اس عسکری مہم جوئی میں ۸۰ ہزار ویتنامی مارے گئے تاہم ۷ ہزار چینی فوجی بھی موت کے گھاٹ اترے اور زخمی چینی فوجیوں کی تعداد ۱۵ ہزار سے زیادہ تھی۔ ویتنام جیسے چھوٹے اور کمزور ملک کے ہاتھوں چینی فوج کو پہنچنے والے اتنے بڑے جانی نقصان سے ڈینگ ژیاؤ پنگ کو چینی فوج میں کم و بیش پندرہ لاکھ کی کٹوتی یقینی بنانے اور تربیت پر زیادہ زور دینے کا موقع مل گیا۔
چار عشروں کے بعد اب چین دوسری بڑی معیشت کا درجہ پاچکا ہے اور اس کی فوج جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے اور خاص طور پر چینی بحریہ بھرپور تربیت اور مشق کی مدد سے اس قابل ہوچکی ہے کہ دنیا بھر میں قومی مفادات کا بہتر انداز سے دفاع کرسکے۔
۱۹۷۰ء کے عشرے کو یاد کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ چینی فوج کو کس قدر بحران کا سامنا تھا۔ تب چینی فوج کو اندرونی سطح پر انتظامی حوالے سے غیر معمولی نا اہلی اور ناموزونیت کا سامنا تھا۔ چینی انقلاب کو جو خطرات لاحق تھے اُن کے تدارک کے لیے چینی فوج پر دباؤ بڑھ گیا۔ بہت سے شہروں کے علاوہ دیہی علاقوں کو بھی فوج کے ہاتھ میں دینا پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوج کی نفری کم و بیش ۶۰ لاکھ تک پہنچ گئی۔ چیئرمین ماؤ زے تنگ کے مخالفین کو کچلنے کے لیے فوج سے غیر معمولی حد تک مدد لی گئی۔ اہلِ دانش کو بھی کچلنے سے دریغ نہیں کیا گیا۔ یہ سب کچھ ۱۹۷۶ء میں ختم ہوا۔
ویتنام کے حوالے سے جو مہم جوئی کی گئی اس نے چینی فوج کے لیے شدید بحرانی کیفیت پیدا کی۔ ایک طرف تو اخراجات بڑھنے سے تربیت اور انتظامی امور کے لیے کچھ زیادہ خرچ کرنے کی گنجائش معدوم سی ہوگئی اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ جدید ترین ہتھیاروں کی کمی یا انہیں چلانے کے حوالے سے دی جانے والی ناقص تربیت کے باعث اچھا خاصا جانی نقصان اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کا پیدا کردہ تھا۔ علاوہ ازیں کمانڈ کا بھی مسئلہ تھا۔ چینی فوج کو معلوم ہی نہیں تھا کہ کہاں کس کا حکم ماننا ہے۔ گویا بد نظمی کی کیفیت تھی۔ لازم ہوگیا کہ چینی فوج کا حجم کم کیا جائے اور اُسے نئے سرے سے ترتیب دیا جائے۔ یہ سب کچھ اس لیے ضروری تھا کہ ڈینگ ژیاؤ پنگ کی قیادت میں چین کو باقی دنیا سے کٹ کر رہنے کے بجائے مل کر آگے بڑھنے کی پالیسی اپنانا تھی۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ تک تو یہ تھا کہ چینی قیادت باقی دنیا سے کٹ کر، الگ تھلگ، اپنی چھوٹی سی دنیا میں مگن تھی اور اسے اس بات سے کچھ خاص غرض نہ تھی کہ چین کے بارے میں باقی دنیا کیا سوچتی ہے۔ اصلاحات کے ابتدائی دو عشروں کے دوران چینی فوج کو ایک طرف سے دفاعی بجٹ میں کٹوتیاں جھیلنا پڑیں۔ اس کے علاوہ کم و بیش نصف درجن بار اسٹرکچرل اوور ہالنگ ہوئی یعنی فوج کا ڈھانچا ہی تبدیل کردیا گیا اور تقریباً ۳۵ لاکھ فوجیوں کو غیر متحرک کیا گیا۔ ان فوجیوں کی بظاہر کچھ خاص ضرورت نہ تھی۔ فوج کا بجٹ کم کیا گیا تو مسائل پیدا ہوئے۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ نے فوج کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ کاروبار کرے اور اپنے مالیاتی مسائل خود حل کرے۔ فوج کے کئی یونٹس نے اپنی زمین پر اگائی ہوئی فصلوں کو فروخت کرنا شروع کیا۔ کئی دوسرے یونٹس نے کمپنیاں قائم کرکے کاروبار شروع کیا۔ یوں فوج کے لیے مالی وسائل کے حوالے سے پیدا ہونے والے بحران پر قابو پانے میں مدد ملی۔ فوجی اسپتالوں اور ہوٹلوں کے دروازے جلد ہی عام شہریوں کے لیے کھل گئے۔ بیرکس اور گودام کرائے پر دیے جانے لگے اور فوج نے تعمیرات کے شعبے میں اپنی مہارت سویلین تجارتی شعبے کو پیش کیں۔
یہ سب کچھ بظاہر بہت پرکشش تھا۔ فوج کے لیے آسانی پیدا ہوئی۔ جب وہ اپنے لیے وسائل خود پیدا کرنے کی راہ پر گامزن ہوئی تو اس کی کاروباری صلاحیت بھی اچھی ہوگئی، مگر ایک بڑا نقصان یہ پہنچا کہ کرپشن کو عروج ملا۔ فوج کی گاڑیاں اور نمبر پلیٹس اسمگلنگ کے لیے بھی استعمال کی جانے لگیں۔ آج یہ ایک کھلا راز ہے کہ ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشروں میں چین کے ساحلی شہروں میں اسمگلنگ غیر معمولی حد تک بڑھی۔ آبدوزیں اور بڑے جہاز، کاریں اور گھریلو استعمال کے برقی آلات اسمگل کرنے کے لیے استعمال کیے گئے۔ بحری جہازوں کے ذریعے ایندھن بھی اسمگل کیا گیا۔ بہت سے سینئر فوجی افسران نے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کیا اور یوں کرپشن کا دائرہ پھیلتا چلا گیا۔ معاملات اس حد تک بگڑے کہ ۱۹۹۸ء میں اس وقت کے چینی قائد جیانگ ژی من نے فوج کی تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی۔ اس کے نتیجے میں فوج کو جس خسارے کا سامنا ہوسکتا تھا، اس کے تدارک کے لیے دفاعی بجٹ نمایاں طور پر بڑھادیا گیا۔ تب تک چین کی معیشت اس قابل ہوچکی تھی کہ دفاعی بجٹ میں غیر معمولی اضافہ بھی جھیل سکے اور پھر ۲۰۱۳ء میں صدر شی جنگ پنگ نے پیپلز لبریشن آرمی کو کنٹرول کرنے والے انتہائی طاقتور سینٹرل ملٹری کمیشن پر اپنا تصرف قائم کرلیا۔ صدر شی جن پنگ نے فوج میں پائی جانے والی بدعنوانی پر قابو پانے کے لیے ایک بھرپور مہم شروع کی۔ اس مہم کے نتیجے میں سینٹرل ملٹری کمیشن کے دو سابق چیئرمین بھی احتساب سے نہ بچ سکے۔ پیپلز لبریشن نے اکتوبر ۲۰۱۷ء میں بتایا کہ پانچ برس میں ۱۳ ہزار سے زائد فوجی افسران کو بدعنوانی میں ملوث ہونے کی بنیاد پر سزائیں سنائی گئی ہیں۔
ڈینگ ژیاؤ پنگ نے اوپن اپ کی پالیسی اپنائی، جس کے نتیجے میں چین کو مغرب میں قبول کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ واشنگٹن کے قدامت پسند تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے مرکز برائے چائنیز اسٹریٹجی کے ڈائریکٹر مائیکل پلزبری کہتے ہیں کہ امریکا نے چین کی طرف غیر مخاصمانہ انداز سے دیکھنا شروع کردیا۔ ویتنام میں چین کی فوج کو جو کچھ بھی برداشت کرنا پڑا تھا اس کے ازالے کے طور پر امریکا نے چین کو عسکری امداد دینا شروع کی۔ اپنی کتاب ’’دی ہنڈریڈ ایئر میراتھن‘‘ میں مائیکل پلزبری نے لکھا ہے کہ چین کو جدید ترین ہتھیاروں کی ضرورت تھی۔ امریکا نے اسے مجموعی طور پر ایک ارب ڈالر کی مالیت کے ۶ ویپن سسٹم فراہم کیے۔
بیجنگ میں چینی فوج کے بعض اعلیٰ ذرائع نے ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کو بتایا کہ امریکا نے چین کو ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ویتنام سے سابق سوویت یونین کے تعلقات کے حوالے سے خفیہ معلومات بھی فراہم کی تھیں۔ مائیکل پلزبری کے مطابق امریکی قیادت نے چینی قیادت کو یہ پیشکش بھی کی کہ جینیٹک انجینئرنگ اور اسپیس فلائٹ جیسے اعلیٰ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں مہارت پیدا کرنے کے لیے مراکز بھی قائم کرکے دیے جاسکتے ہیں۔
عسکری سطح کے تعلقات کی بہرحال ایک حد تھی، جس سے آگے نہیں جایا جاسکتا تھا۔ بعد میں چند ایک ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے سیاسی قیادت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ ۱۹۸۹ء میں تیان من اسکوائر کے واقعے کے بعد امریکا نے چین کو اسلحے کی فراہمی روک دی اور اس کے بعد ۱۹۹۲ء میں تائیوان کو امریکا نے ۱۵۰؍ ایف ۱۶ طیارے فراہم کیے۔ یوں دونوں طاقتوں کے تعلقات میں ایک بار پھر سرد مہری پیدا ہوئی۔ بہر کیف، امریکا کی عسکری برتری نے چین کو دفاع کے معاملات میں بہتر ہونے کی تحریک دی۔ کوسوو اور دیگر خطوں میں امریکا نے فضائی قوت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ چینی قیادت کے پاس فائٹر جیٹ کی ٹیکنالوجی اپ گریڈ کرنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ لندن کی ایوی ایشن انٹیلی جنس ویب سائٹ فلائٹ گلوب کا کہنا ہے کہ ایک زمانے میں چین کا مدار برّی افواج پر تھا، مگر اب چین کے پاس فائٹر جیٹس اور ہیلی کاپٹروں کی تعداد تین ہزار سے زائد ہے، جو امریکا اور روس کے بعد سب سے بڑی فضائی قوت ہے۔
چین نے بحری قوت کو بڑھانے پر بھی توجہ دی ہے۔ اس وقت چینی بحریہ کے پاس ایک طیارہ بردار جہاز ہے۔ ایک جہاز بہت جلد چینی بحریہ کا حصہ بنادیا جائے گا اور ۲۰۳۰ء تک مزید چار طیارہ بردار جہاز چینی بحریہ کا حصہ ہوں گے۔ قوت کے اعتبار سے اس وقت چینی بحریہ امریکا کے بعد سب سے بڑی بحری قوت ہے۔ چین کے پاس میزائل بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ ان میں ڈی ایف ۱۴ قسم کے میزائل بھی شامل ہیں، جن کی رسائی ۷۵۰۰ کلو میٹر تک ہے اور بعض ذرائع کہتے ہیں کہ چین ان میزائل کے ذریعے امریکا میں کسی بھی مقام کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتا ہے۔
چینی فوج کے ذرائع اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ چین کی فوج اب تک ٹیکنالوجی کے معاملے میں پوری طرح خود کفالت کی منزل تک نہیں پہنچ سکی۔ ٹیکنالوجی کے حوالے سے اسے اب بھی بیرون ملک سے حاصل ہونے والے بہت سے پرزوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف تو چین نے روس سے بڑے پیمانے پر جیٹ فائٹرز خریدے اور ان کی ٹیکنالوجی بھی پائی اور دوسری طرف تیسرے ممالک کی مدد سے مغربی دنیا کے جدید ترین دفاعی نظام بھی خریدے۔ تیار مصنوعات کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی خریدنے پر بھی چین نے خاص توجہ دی ہے۔
مکاؤ سے تعلق رکھنے والے عسکری امور کے ماہر انتونی وانگ ڈانگ کہتے ہیں کہ چینی ماہرین نے ایک مدت تک مغربی دنیا کی ٹیکنالوجی کی نقالی کی مگر وہ مہارت پیدا کرنے سے دور رہے ہیں، جو فطری علوم اور عسکری معاملات میں بہت آگے لے جانے کے لیے درکار ہوا کرتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ چین کو دفاع کے حوالے سے اب بھی بہت سے ترقی یافتہ اور بالخصوص مغربی ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
ڈینگ ژیاؤ پنگ کی خواہشات کو عملی روپ دینے کی گھڑی آچکی ہے۔ چین کی فوج ۲۰۵۰ء تک دنیا کی سب سے بڑی فوج بننے کی تیاری کرچکی ہے۔ تائیوان سے بھرپور لڑائی کی بظاہر تیاری کی جاچکی ہے۔ بحیرۂ مشرقی و جنوبی چین میں بھی چینی فوج نے بھرپور مناقشوں کی تیاری کر رکھی ہے۔ اس بار چینی قیادت کوئی بڑی غلطی کرنے یا کسر چھوڑنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتی۔ دوبارہ حاصل کیے جانے والے چند جزائر پر چین نے فوجی اڈے قائم کیے ہیں۔ ان اڈوں کے ذریعے وہ پورے خطے پر نظر رکھنے کے قابل ہوگیا ہے۔ اور کسی بھی صورتِ حال میں چینی فوج فوری ریسپانس کی پوزیشن میں بھی آچکی ہے۔
افریقی ملک جبوتی کے بعد چین اب پاکستانی شہر گوادر میں بھی بحری اڈا بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ چین ان دونوں اڈوں کو بحرہند میں امن مشن یا امدادی کارروائیوں کے حوالے سے اپنی لاجسٹک پوسٹ شمار کرتا ہے۔ چین نے ہزاروں فوجیوں کو اقوام متحدہ کے امن مشن میں بھی تعینات کر رکھا ہے اور صومالیہ کے پانیوں میں قزاقوں کے خلاف کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ ان تمام حقائق کے باوجود بحری معاملات میں چین کے عزائم شک و شبہے کی نظر سے دیکھے جارہے ہیں۔ بین الریاستی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تیزی سے پھیلتی ہوئی تجارتی جنگ ایشیا میں بہت سے ممالک کو امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں سے شراکت داری بڑھانے کی تحریک دے سکتی ہے۔
سنگاپور کے ایس راجا رتنم اسکول آف انٹر نیشنل اسٹڈیز کے دفاعی امور کے ماہر کولن کو سوی لین کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں امن مشن میں پیپلز لبریشن آرمی کی شمولیت کو دنیا نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے مگر تائیوان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوششوں اور بحیرۂ جنوبی چین میں بندر گاہوں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر خطیر سرمایا کاری نے چین کے عزائم کے حوالے سے علاقائی ممالک ہی نہیں، عالمی برادری کو بھی تشویش میں مبتلا کیا ہے۔
کولن کوہ سوی لین کہتے ہیں کہ صدر شی جنگ پنگ کی قیادت میں چین زیادہ پرعزم ہے۔ وہ اپنی بھرپور طاقت کو بروئے کار لانے کی تیاری کرچکا ہے اور اس حوالے سے ابتدا کے لیے بے چین ہے۔ اس کا اعتماد غضب کا ہے۔ وہ اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ چینی فوج اس حوالے سے مکمل تیاری کی حالت میں ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“How China’s military helped the nation open up”. (“inkstonenews.com”. Dec.7, 2018)
Leave a Reply