بعد کے عشروں میں شرح خواندگی بڑھی اور اعلیٰ تعلیم کے رجحان کا گراف بھی بلند ہوا۔ مختلف شعبوں میں ٹیلنٹ کو پروان چڑھانے سے قومی معیشت کو غیر معمولی فائدہ پہنچا۔ مختلف شعبوں کے ماہرین تیار کرنے میں مدد ملی اور بیرون ملک کام کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ گاؤکاؤ نظام تعلیم سے صرف ایک مشکل سامنے آئی ہے … یہ کہ اس کے نتیجے میں محض رٹنے کے رجحان کو تقویت ملی ہے اور طلبہ میں اپنے طور پر کچھ سوچنے کے بجائے معاشرے اور ریاست کے نظریات کو جوں کا توں قبول کرنے کا میلان پروان چڑھا ہے۔
گریجویٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد نے کمیونسٹ پارٹی کے لیے ایک بڑا دردِ سر بھی پیدا کیا کیونکہ بہت بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع فراہم کرنا بھی لازم ہوگیا۔ ساتھ ہی ساتھ دیہی علاقوں کے نوجوانوں کا یہ شِکوہ بڑھ گیاکہ اُن سے ناانصافی ہو رہی ہے۔ آج بھی اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں شہری علاقوں کے نوجوانوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور دیہی علاقوں میں ہائی اسکول کی سطح پر تعلیم و تدریس کا نظام کمزور ہے۔ دیہی علاقوں کے نوجوان شہری علاقوں کے تعلیمی اداروں تک رسائی پانے میں بہت حد تک ناکام رہتے ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ دیہی علاقوں کے نوجوان روزگار کے معاملات میں الجھے ہوئے ہونے کے باعث اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ دیہی علاقوں کے بہت سے نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا ایک ہی طریقہ دکھائی دیتا ہے … یہ کہ کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہوا جائے۔
محبت، نہ کہ شادی!
جیمزنی کا تعلق کمیونسٹ پارٹی سے نہیں مگر پھر بھی وہ بہت آگے نکلنے میں کامیاب رہا ہے، اس کی کمپنی ’’ملی‘‘ اس وقت برطانیہ کے معروف سوکر کلب مانچسٹر یونائٹیڈ کی آفیشل پلو اینڈ میٹریس پارٹنر ہے۔ جیمزنی چاہتا ہے کہ اس کی کمپنی ایک انٹر نیشنل برانڈ میں تبدیل ہو۔ جیمز نے ایک زمانہ دیکھا ہے۔ اس نے گریجویشن ایسے دور میں کی تھی جب نجی املاک رکھنے کی اجازت نہ دی تھی۔ پھر جب اجازت ملی تو جیمزنی نے آگے بڑھنے اور اپنا کاروبار شروع کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چین میں نجی کاروبار کے حوالے سے اب بھی ریاستی سطح پر بہت سی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیمزنی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو کسی بھی صورتِ حال میں ہمت ہارنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ کہتا ہے کہ نجی کاروبار کرنے والوں کو اب بھی بہت سی مسائل کا سامنا ہے۔ سرکاری سطح پر کام کرنے والے کاروباری اداروں کو بہت سے معاملات میں واضح سہولت حاصل ہے۔ اس کے باوجود اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ترقی کا عمل اس قدر تیز ہے کہ اس میں ہر شخص کے لیے کچھ نہ کچھ ہے۔ جو بھی تھوڑی محنت کرے وہ اپنے حالات بدل سکتا ہے۔
جیمزنی کی کمپنی اس وقت کم و بیش ۴۰کروڑ ڈالر کی ہے۔ وہ صوبائی حکام سے دور رہتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے کاروبار کو وسعت دینے اور بعض معاملات میں سہولیات حاصل کرنے کے لیے صوبائی حکام کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جیمزنی ایسا کچھ بھی نہیں کرتا۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ کاروبار کو کاروبار ہی رہنے دیا جائے، اُسے سیاست سے آلودہ نہ کیا جائے۔
چین میں عمومی کاروبار کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا رہا ہے۔ کنفیوشس کی تعلیمات میں منافع خوری کو بہت برا سمجھا گیا ہے۔ عام چینی عشروں تک نجی کاروبار کو اِسی لیے بُرا سمجھتا رہا۔ مغرب کی تیز رفتار ترقی دیکھ کر چینی قیادت نے یہ نکتہ سمجھا کہ سب کچھ سرکاری ملکیت میں رکھنا کسی بھی طور سود مند نہیں۔ چینی قیات نے مغرب کے اطوار سیکھ کر نجی کاروبار کی اجازت دی تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ لوگوں کو منافع خوری اور سرمایہ کاری کی طرف جانے دیا جائے بلکہ اصل مقصود صرف یہ تھا کہ لوگوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا بھرپور موقع ملے اور وہ زیادہ دل جمعی سے کام کریں۔ ساتھ ہی ساتھ چین کو بین الاقوامی معاشی کردار کے لیے تیار کرنا بھی مقصود تھا۔
چین میں بہت سوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ جب لوگوں کو نجی املاک رکھنے اور کاروبار کرنے کی اجازت دی جائے گی تو ایک متوازی اقتصادی قوت کھڑی ہوجائے گی، جو ریاستی قوت سے ٹکرائے گی۔ مغرب کے تجزیہ کار کہتے رہے ہیں کہ جب سرمایہ دارانہ نظام کو اپنایا جائے گا تو لوگ رفتہ رفتہ جمہوریت کی طرف بھی جائیں گے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ چین میں آج بھی جو لوگ سیاسی وابستگی نہیں رکھتے وہ اس خیال کے حامل ہیں کہ ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ جیمزنی کا ارادہ کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہونے کا نہیں مگر وہ اس یقین کا حامل ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت مجموعی طور پر ملک کے مفاد میں سوچتی ہے اور عام چینی کو کچھ نہ کچھ دینا چاہتی ہے۔ جیمزنی کی طرح کروڑوں چینی کسی بھی سطح پر سیاسی وابستگی نہ رکھنے کے باوجود انتہائی محب وطن ہیں اور ہر سطح پر ملک کے مفاد کو دیگر تمام معاملات پر مقدم رکھتے ہیں۔ دوسرے کروڑوں چینیوں کی طرح جیمزنی کے نظر میں بھی مادرِ وطن کا غیر معمولی احترام ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وطن ہی سے ہم ہیں اور ہمیں ہر حال میں اس سرزمین پر خوش رہنا چاہیے۔
ہانگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ہیومنٹیز اور سوشل سائنسز کے ڈین کیلی سائی کہتے ہیں کہ ۱۹۷۹ء میں باضابطہ طور پر نجی کاروبار کرنے اور نجی املاک رکھنے کی اجازت دی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ سرمایہ داروں کو کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت دینے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ یہ سب کچھ اس لیے ضروری تھا کہ چینی معیشت کو ایک نیا رخ دیا جانا تھا۔ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مسابقت کا سامنا کرنے کے لیے لازم تھا کہ چین میں بھی کھلے بازار کی معیشت کے اصول ایک خاص حد تک اپنائے جائیں۔
ایسا نہیں ہے کہ کاروبار کرنے کی اجازت ملنے پر جن چینیوں نے اپنی صلاحیت اور سکت کو آزمانا چاہا وہ کامیاب ہو ہی گئے۔ جیمزنی نے پہلا کاروبار سوفٹ ویئر فروخت کرنے کا کیا، جو ناکام رہا۔ جب شو رومز میں میموری فوم پلوز کی بلند قیمتیں دیکھیں تو جیمزنی نے بیڈنگ بزنس میں قدم رکھا۔ یہاں بھی ابتدا میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بنیادی سبب یہ تھا کہ سرکاری کاروباری اداروں کو تو بینک کا قرضہ آسانی سے مل جاتا تھا، نجی کاروبار کرنے والوں کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
جیمزنی نے اپنے اہل خانہ، رشتہ داروں اور احباب کی مدد سے ۶۰ ہزار ڈالر جمع کیے اور نئے عزم کے ساتھ کاروبار شروع کیا۔ چین میں اعتماد کا نیٹ ورک بہت عمدگی سے کام کر رہا ہے۔ جن لوگوں کو بینک اور دیگر مالیاتی ادارے آسانی سے قرضے نہیں دیتے انہیں خاندان کے لوگ اور احباب قرضے دیتے ہیں تاکہ سود دینے سے بھی جان چھوٹے اور چھوٹی موٹی مشکلات کا سامنا کرنے میں بھی کوئی الجھن پیش نہ آئے۔
جیمز نے جیانگ ژو صوبے کے شہر نانتونگ میں کاروباری پھیلایا تو مقامی کمیونسٹ پارٹی کے عہدیدار متوجہ ہوئے تاہم انہوں نے کسی بھی سطح پر مداخلت نہیں کی کیونکہ جیمزنی نے تمام متعلقہ قوانین اور قواعد کا پورا خیال رکھا ہے، تین ہزار سے زائد افراد کو روزگار دیا ہے اور ٹیکس ادا کرنے کے معاملے میں بھی بالکل درست راہ پر گامزن رہا ہے۔ حکام بھی خوش ہیں کیونکہ جب نجی کاروباری اداروں کے بھرپور فروغ سے صوبہ ترقی کرتا ہے تو اُن کا کیریئر بھی مستحکم تر ہوتا جاتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ’’نی‘‘ کی غیر سیاسی حیثیت کو آسانی سے قبول کرلیا گیا۔ چار سال قبل کمپنی کے ڈپٹی جنرل منیجر نے جیمزنی کو بتایا کہ مقامی عہدیدار چاہتے ہیں کہ ’ملی‘ میں بھی کمیونسٹ پارٹی کا یونٹ کھولا جائے۔ جیمزنی نے صاف انکار کردیا۔ یہ تجویز دراصل نچلی سطح کے عہدیداروں کی طرف سے آئی تھی جو اعلیٰ عہدیداروں کو خوش کرنا چاہتے تھے۔
صدر شی جن پنگ کی قیادت میں ملک کی کارکردگی اچھی تو رہی ہے مگر وہ بھی کاروبار کے معاملے میں ریاست کو اولین ترجیح دینے کے حق میں ہیں۔ انہوں نے متعدد مواقع پر تسلیم کیا ہے کہ نجی کاروباری اداروں نے چین کی ترقی میں فقید المثال کردار ادا کیا ہے، تاہم ساتھ ہی ساتھ وہ اس نکتے پر بھی زور دیتے رہے ہیں کہ چین کی حقیقی ترقی ریاستی سیٹ اپ کے تحت قائم کاروباری اداروں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے میں مضمر ہے۔
بائیں بازو کے اسکالر، بلاگر اور سرکاری حکام نے چند برسوں کے دوران اس بات پر زور دیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ کاروبار سرکاری ملکیت میں ہو۔ نجی کاروباری اداروں کے حوالے سے اب تک عمومی سطح پر ناگواری کا احساس تو خیر نہیں پایا جاتا تاہم ایسا لگتا ہے کہ اب کمیونسٹ پارٹی کی قیادت راہ بدل رہی ہے اور نجی کاروباری اداروں کو زیادہ پنپنے نہیں دینا چاہتی۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں چائنا اسٹڈیز کے پروفیسر ولیم سی کربی کہتے ہیں کہ اس وقت چین میں تاریخ کی سب سے بڑی بیورو کریسی کام کر رہی ہے، جو کسی بھی معاملے میں مداخلت کی پوزیشن میں ہے۔ معاملات صرف نظریے کا نہیں ہے۔ ایسے کئی گروپ ہیں جو مقابلے کی فضا کو پسند نہیں کرتے۔ وہ اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔
جیمزنی بہت کچھ سیکھنا چاہتا ہے۔ وہ علی بابا کے مالک جیک ما کو اپنے آئیڈیل کے روپ میں دیکھتا ہے۔ جیک ما اس وقت چین کا امیر ترین آدمی ہے۔ اس نے آجروں کی نئی نسل کو ایک نئے اور مسابقت سے اٹے ہوئے دور کے کے لیے تیار کرنے کی غرض سے خصوصی پروگرام تشکیل دیا ہے۔ جیمزنی نے اس پروگرام کے لیے انرولمنٹ کرائی ہے۔ وہ کاروبار کے تمام جدید اطوار سیکھنا چاہتا ہے تاکہ زیادہ اعتماد اور تیاری کے ساتھ کاروبار کو آگے بڑھایا جاسکے۔
جیک ما نے کئی مواقع پر صاف الفاظ میں کہا ہے کہ نجی کاروباری اداروں کے لیے سب کچھ آسان نہیں ہے۔ بہت سے معاملات میں الجھنیں بھی پائی جاتی ہیں۔ کھینچا تانی جاری رہتی ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ نجی کاروباری اداروں کو کمیونسٹ پارٹی کے سیٹ اپ سے دور ہی رہنا چاہیے۔ ان کا ایک مشورہ جیمزنی نے دانتو سے پکڑ رکھا ہے … یہ کہ محبت کرو، شادی نہ کرو!
جیک ما نے ابھرتے ہوئے چینی کاروباری طبقے کو ایک بات اور سکھائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وطن کو ہر حال میں ترجیح دی جائے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بہت سے چینیوں نے امریکا اور یورپ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہیں رہنے پر چین واپس جانے کو ترجیح دی ہے۔ مس ہوا ییجیا نے ۱۹۹۶ء میں چین چھوڑا۔ امریکا کے شہر بوسٹن میں انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور کنسلٹنٹ کی حیثیت سے بہت اچھی جاب حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہیں تاہم پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وطن واپس جاکر کچھ کرنا چاہیے۔ انہیں یہ احساس ستا رہا تھا کہ وطن کو ان کی ضرورت ہے۔ چین کو بہت بڑے پیمانے پر مغرب کے تعلیم و تربیت یافتہ نوجوانوں کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنایا جاسکے۔ مس ہوا ییجیا نے گیارہ سال بعد یعنی ۲۰۰۷ء میں وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ وہ اس خیال سے سرشار تھیں کہ وہ اب اپنے وطن کے لیے کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
چین میں ایسے نوجوانوں کی کمی نہیں جنہوں نے مغرب میں اعلیٰ تعلیم و تربیت پانے کے بعد وطن واپس جاکر اہلِ وطن کی خدمت کو ترجیح دی۔ ہوا ییجیا کی عمر اب ۴۴ سال ہے۔ ان کی ایک بیٹی ہے جسے اسکول میں چینی اقدار خصوصی طور پر پڑھائی جارہی ہیں تاکہ زندگی کا معیار زیادہ سے زیادہ بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی جڑوں کا بھی احساس رہے۔ ہوا ییجیا کو وطن واپسی کے فیصلے پر کبھی افسوس یا شرمندگی نہیں ہوئی۔ وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ وطن کو ان کی ضرورت ہے۔ انہوں نے امریکا اور یورپ میں شاندار کیریئر چھوڑ کر وطن واپسی کو ترجیح دی اور تب سے اب تک اپنے حصے کا کام پوری محنت اور دیانت سے کرتی آئی ہیں۔ انہیں کسی بھی مرحلے پر یہ دکھ محسوس نہیں ہوا کہ آج امریکا میں ہوتیں تو زیادہ کامیاب اور خوشحال ہوتیں۔ وہ ایک وینچر کیپٹل فرم میں شراکت دار ہیں۔
جب چین میں متوسط طبقہ مضبوط ہوا تو اس طبقے سے تعلق رکھنے والے لڑکوں اور لڑکیوں نے امریکا اور یورپ کی جامعات کا رخ کیا۔ وہاں جمہوریت دیکھ کر اُن کے دلوں میں بھی یہ خواہش جاگی کہ چین میں بھی یہ سب کچھ ہونا چاہیے۔ مغرب کے بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جن لاکھوں چینی نوجوانوں نے امریکا اور یورپ کے تعلیمی اداروں میں بہت کچھ سیکھا ہے اُنہوں نے جمہوری اقدار کو بھی دیکھا ہے۔ یہی نئی نسل واپس جاکر چین میں کسی بڑی سیاسی تبدیلی کی راہ ہموار کرے گی۔
چین میں بیشتر والدین کو اس بات سے پریشانی لاحق ہے کہ معاشرے میں ایک طرف تو دباؤ اور دوسری طرف مادّہ پرستی بڑھتی جارہی ہے۔ لوگ روحانی اقدار سے دور ہو رہے ہیں۔ ہوا ییجیا بھی چاہتی ہیں کہ ان کی بیٹی کو معلوم ہو کہ چین ایک عظیم زرعی ملک رہا ہے اور تاریخ کے مختلف ادوار میں غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے اپنے وجود کو برقرار رکھنا میں کامیاب رہا۔ وہ چاہتی ہیں کہ ملک کی حقیقی روحانی اور اخلاقی اساس کا نئی نسل کو زیادہ سے زیادہ احساس رہے۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی نے حب الوطنی کا گراف بلند رکھنے پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ نئی نسل کو یہ بات بہت اچھی طرح سمجھائی جاتی ہے کہ چین ایک عظیم ملک رہا ہے اور اسے اپنی عظمت برقرار رکھنی ہے۔ عام چینی مجموعی طور پر محب وطن ہی ہوتا ہے۔ اس بات کو ذرا آگے لے جاکر نئی نسل کو سمجھایا جاتا رہا ہے کہ اُسے ملک کے لیے کچھ کرنا ہے۔ جو چینی ملک سے باہر جاتے ہیں وہ وہاں جو کچھ بھی کماتے ہیں اُس کا بڑا حصہ ملک کے کام آتا ہے۔ عام چینی کے دل و دماغ میں یہ احساس ہمیشہ تازہ اور توانا رہتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی ہے اپنے وطن کے دم سے ہے اور اُسے آگے بڑھنے کے لیے وطن ہی کا سہارا لینا پڑے گا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اس بات کو بھی سمجھتا ہے کہ اگر اسے آگے بڑھنا ہے تو ملک کا مضبوط ہونا بھی لازم ہے۔ یہی سبب ہے کہ چینیوں کی واضح اکثریت اپنے فیصلوں میں قومی مفاد کو ملحوظِ خاطر رکھتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی نے بھی کم کوششیں نہیں کیں تاہم چین کی ترقی میں اصل کردار اس حقیقت نے ادا کیا ہے کہ چینیوں میں وطن سے محبت بہت نمایاں ہے۔ اب کمیونسٹ پارٹی کی قیادت اس امر کے لیے کوشاں ہے کہ کسی بھی بڑی سیاسی تبدیلی کی راہ روکی جائے اور عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ چین کے لیے حکمرانی کا جو سخت نظام اپنایا گیا ہے وہ اگر نہ رہا تو ملک شدید انتشار کی نذر ہو جائے گا۔
کلیرمونٹ مک کینا کالج میں امورِ حکمرانی کے پروفیسر منگزن پائی کہتے ہیں کہ چینی قوم پرستی کا عجیب پہلو یہ ہے کہ یہ ہر چینی کو کمیونسٹ پارٹی سے تو جوڑتی ہے مگر چینیوں کو آپس میں نہیں جوڑتی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ چینی کمیونسٹ پارٹی نظریاتی سطح پر اپنی کشش کھوچکی ہے۔ صدر شی جن پنگ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک کو ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو انتشار کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کرسکے۔ اب عام چینی کو یہ باور کرانے پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ ایک عظیم روایات کا امین ہے۔ یہ کہ چین ہر دور میں ایک عظیم سلطنت رہا ہے اور اب اس عظیم سلطنت کی تاریخ، روایات، علوم و فنون اور ثقافتی ورثے کو نئی نسل تک منتقل کرنا لازم ہے۔ چینیوں میں وطن پرستی اور قوم پرستی کی جڑیں گہری کرنے پر توجہ دی جارہی ہے تاکہ وہ سب کچھ بھول کر قومی مفاد کو یاد رکھیں۔
شنگھائی کے اسکالر اور ثقافتی امور کے تجزیہ کار ژھو ڈیک کہتے ہیں کہ چینی ثقافت کسی بھی دور میں بند یا مقید نہیں۔ مغرب سے کچھ نیا سیکھنے میں بھی کچھ برائی نہیں۔ چین کے تاریخی، ثقافتی اور علمی ورثے کو کسی بھی اعتبار سے بیرونی اثرات سے معرّیٰ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چین نے ہر دور میں باہر کی دنیا سے بہت کچھ لیا ہے مگر آج چین میں کم لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اُن کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونسی گئی ہے کہ چین میں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ ہر اعتبار سے صرف اپنا ہے، اپنا پروان چڑھایا ہوا ہے۔
ہوا ییجیا اور دوسرے بہت سے چینی والدین اس بات سے پریشان ہیں کہ حب الوطنی اور قوم پرستی کو اس حد تک پروان چڑھایا جارہا ہے کہ اب ملک کی خرابیوں پر تنقید کرنا غداری سمجھا جانے لگا ہے۔ ہر معاملے میں سینسر شپ بڑھتی جارہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ کسی خرابی کو دیکھ بھی لیتے ہیں تو چپ رہتے ہیں، کچھ کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ ہوا ییجیا اپنی بیٹی کو دور افتادہ دیہی علاقوں میں لے جاتی ہیں تاکہ اُسے بتایا جاسکے کہ ملک بھر میں عدم مساوات ہے۔ کچھ لوگ بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور ہمیں اُن کے مفادات کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔
ہوا ییجیا کو یقین ہے کہ ان کی بیٹی ایک ایسے چین میں بڑی ہوگی، جس میں باہر کی دنیا کے لیے زیادہ برداشت اور رواداری ہوگی۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کی بیٹی میں غیر معمولی حب الوطنی ہو مگر ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی اقدار سے بھی جُڑی رہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک وہ بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل نہ ہوسکے گی۔
“How China’s rulers control society: Opportunity, nationalism and fear”.(“New York Times”. NOV. 25, 2018)
Leave a Reply