میں مسلمان کیسے ہوا۔۔۔؟

گذشتہ سے پیوستہ

سعودی عرب

میں عربی زبان سے بالکل نابلد تھا، بلکہ مجھے اس سے نفرت بھی تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ اس زبان کی بین الاقوامی طور پر کوئی اہمیت نہیں، اس لیے اسے سیکھنا اور سمجھنا غیرضروری ہے۔ میں اورمیرے ساتھی سعودی عرب کے مشرقی حصے میں ایک بینک کے تمام کمپیوٹرز اور دیگر ایسے آلات کی اصلاح کرتے تھے۔ میرے ساتھ کام کرنے والے تمام انجینئر انگریزی زبان سے خوب آشنا تھے، اس لیے بھی ہمیں عربی بولنے اور سیکھنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔

ایک دن میں نے دمام شہر میں ایک ٹیکسی کرائے پر لی اور اس سے پندرہ ریال کرایہ طے کیا۔ ڈرائیور نہایت صاف ستھرے لباس میں تھا، اس کی خوب لمبی داڑھی بھی تھی۔ دیکھنے سے نہایت معقول آدمی معلوم ہوتا تھا۔ اس نے یہ بھانپ کر کہ میں اجنبی ہوں، سفر کے دوران مجھ سے زیادہ کرائے کا اصرارکرنے لگا۔ یہاں تک کہ سفر کے اختتام پر کرائے پر جھگڑا ہو گیا‘ مجھے بہت غصہ آیا۔ میں نے ٹیکسی سے باہر چھلانگ لگائی اور اس سے کہا کہ کیا تم پانچ وقت نماز نہیں پڑھتے؟ یہ سنتے ہی اس نے کہا کہ مجھے صرف پندرہ ریال ہی دو۔ میں نے اسے پندرہ ریال دیے اور وہ خاموشی سے روانہ ہو گیا۔ جب میں نے اس واقعہ پر غور و خوض کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ ڈرائیور دل کا یقینا اچھا آدمی تھا۔ یہ میرے لیے پہلا مثبت تجربہ تھا۔ اس کے بعد میں نے سمجھ لیا کہ یہاں کے باشندے بنیادی طور پربہت اچھے لوگ ہیں۔

عبداللہ العمری صاحب اس بینک میں میرے انچارج تھے۔ عربی ان کی مادری زبان تھی لیکن انگریزی پر بھی ان کو عبور حاصل تھا۔ وہ ہم سے انگریزی میں ہی بات چیت کرتے اور ہم سے خوب گھل مل کر رہتے۔ وہ کسی حد تک باتونی بھی تھے‘ ایک دن وہ مجھے ایک کہانی سنانے لگے۔ اس کہانی کے دوران ان کے منہ سے لفظ جیسس (Jesus) نکلا۔ میں نے انہیں فوراً ٹوک دیا اور جوش سے کہا جیسس تو میرا ہے، آپ کون ہوتے ہیں جیسس کی بات کرنے والے۔

میں نے پہلی بار ایک مسلم کے منہ سے جیسس کا لفظ سنا، مجھے بہت حیرت ہوئی۔ میں دو سال سے سعودی عرب میں مقیم تھا لیکن کسی مسلمان نے مجھ سے مذہب کے بارے میںآج تک بات نہیں کی تھی۔ مسلمانوں کے بارے میں میری سوچ بھی نرالی ہی تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ مسلمان سورج کی پوجا کرتے ہیں کیونکہ وہ سورج نکلنے، ڈوبنے اور آسمان پر بلند ہونے کے اوقات میں عبادت کرتے ہیں۔ غالباً سورج ان کا دیوتا ہے۔

عبداللہ صاحب میری بات سن کر چند لمحے تو خاموش رہے۔ پھر انہوںنے بتدریج سب پیغمبروںکے ناموں کا تذکرہ کیا۔ مثلاً نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے کہا یہ سب ہمارے پیغمبر ہیں، چونکہ ان پیغمبروں کے نام بائبل میں درج ہیں۔ اس لیے میں ان سے خوب متعارف تھا۔ عبداللہ صاحب کے اس انکشاف کے بعد مجھے خیال آیا کہ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔

اسلام میں دلچسپی

اب میں نے اسلام کے بارے میں چھان بین کرنا شروع کر دی تاکہ یہ جان سکوں کہ آخر عبداللہ صاحب کا مذہب کیسا ہے؟ میں دمام میں جریر بک اسٹور پر گیا تاکہ اسلام کے بارے میں کتابیں خرید سکوں۔ جب میں نے کتابوں کی الماریوں پر نظر دوڑائی تو اس اسٹور میں مختلف مذاہب کے موازنے سے متعلق کئی کتب موجود تھیں، ایک کتاب کا عنوان مجھے بہت عجیب لگا۔

“Jesus, not God, Son of Mary.”

میں نے یہ کتاب اور ایسی ہی چار اور کتابیں خرید لیں اور بھاگم بھاگ گھر آیا تاکہ انہیں پڑھوں، ان کتابوں میں بائبل سے اقتباسات تھے، میں نے جلدی اپنی بائبل نکالی تاکہ ان اقتباسات کی ایک ایک کرکے تصدیق کر سکوں۔ جب میں نے کتاب میں دی ہوئی پہلی کوٹیشن کو بائبل میں دیکھا تو وہ ہوبہو وہی تھی، مجھے حیرت ہوئی، لیکن میں نے سوچا کہ مجھے جھانسا دینے کے لیے ایک فقرہ ہوبہو لکھ دیا گیا ہے۔ جلدی جلدی دوسری کوٹیشن کا موازنہ کیا تو وہ بھی ٹھیک نکلی۔ میں نے خیال کیا کہ چند فقرے ٹھیک لکھ کر آئندہ صفحات میں کوئی نہ کوئی چکر بازی ضرور ہوگی۔ چونکہ بائبل میں مجھے خاصا عبور تھا، اس لیے میں نے کتاب کی ہر ایک کوٹیشن کو آسانی سے چیک کر لیا اور میری توقع کے خلاف سب اقتباسات درست نکلے۔ اس سے میرا تجسس اور بڑھ گیا۔

اس دوران میں نے عبداللہ صاحب سے پوچھا کہ کیا اس شہر میں اسلام کی تبلیغ کا کوئی مرکز ہے۔ انہوں نے ایک کی نشاندہی کی جو میرے گھر کے قریب ہی تھا۔ میرے ملک کے زیادہ باشندے قریب کے شہر الخبرمیں مقیم ہیں۔ جب میں دوستوں سے اس شہر میں ملنے گیا تو دیکھا کہ الخبر میں بھی اسلام کی تبلیغ کا مرکز ہے۔ میں اس مرکز میں داخل ہوا تو وہاں بھی ویسی ہی کئی کتابیں دیکھیں۔ چونکہ میں پانچوں کتابوں کا مطالعہ کر چکا تھا، اس لیے میں نے اس مرکز سے چند اور کتابیں چن لیں۔ قیمت پوچھی تو مجھے بتایا گیا کہ یہ مفت ہیں۔ میں مفت چیزیں لینے کا عادی نہ تھا۔ میں نے قیمت ادا کرنا چاہی تو مجھے دوبارہ یہ جواب ملا کہ یہ سب کتابیں مفت ہیں۔ آپ بلاجھجھک لے جاسکتے ہیں۔ میںنے صاف کہہ دیا کہ قیمت ادا کیے بغیر کتابیں نہیں لوں گا۔ میرے اصرار پر انہوں نے مجھ سے تھوڑی سی قیمت وصول کر لی تاکہ میں کتابیں لے جائوں۔ یہ سارا منظر ایک سعودی باشندہ دیکھ رہا تھا۔ وہ صاحب مجھے ایک طرف لے گئے اورمجھ سے نہایت مروت اور شفقت کے ساتھ پیش آئے۔مختصر مگر معنی خیز بات چیت کی۔ اس کے بعد میں کتابیں بغل میں دبائے اپنی کار تک پہنچا اور نہایت سرعت سے گھر آیا تاکہ ان کتابوں کا مطالعہ کر سکوں۔ میرے مکان کے ہم نشین اور ہم وطن ساتھی میرے اس تذبذب اور کتابوں کے ذخیرے کو خاموشی سے دیکھتے رہے۔

میںنے ان کتب کا بھی مطالعہ کیا اور میں نے ہر کوٹیشن کو اپنی بائبل کے مطابق پایا لیکن ان سب کے باوجود مجھے مسلمان بننے میں ہچکچاہٹ تھی۔ میں اسلام کے تبلیغی سینٹر میں دوبارہ گیا۔ ایک صاحب نے میرا تذبذب بھانپ لیا۔ انہوںنے مجھے ایک ویڈیو دیکھنے کی دعوت دی۔ یہ ویڈیو احمد دیدات صاحب اور ایک عیسائی پادری کے درمیان مناظرے کی تھی۔ میں نے دل میں ٹھان لیا کہ میں یہ ویڈیو وسعت نظر سے دیکھوں گا اور کسی قسم کے تعصب کا شکار نہ ہوں گا۔ ویڈیو دیکھنے کے بعدمیں ذاتی طور پر اس نتیجے پر پہنچاکہ عیسائی عالم اپنے مذہب کا ٹھیک طریقہ سے دفاع نہیں کر سکتے اور اس مقابلہ میں ہار گئے ہیں۔ میں نے سوچا کہ جب ایک پادری اپنے مذہب کا دفاع نہیں کر سکا تو میرے جیسے پیروکار کی کیا حیثیت ہے۔ اس موقع پر پہلی بار میرا پیدائشی ایمان کمزور ہونا شروع ہوا اور عیسائیت سے جی اُکتانے لگا اور اندر ہی اندر ایک خلجان سا پیدا ہو گیا، لیکن اس کا حل سمجھ میں نہ آرہا تھا۔

قبول اسلام

ایک دن میں ایک فلپائنی دوست کے ساتھ ڈارٹ کھیل رہا تھا۔ ہمارے ساتھ ایک فلپائنی مسلمان دوست بھی تھے، ان کا نام رضوان عبدالسلام تھا۔ میں نے کمرے کے ایک کونے میں جا کر ان سے اسلام کے بارے میں دریافت کیا۔ جبکہ ہمارے دوسرے فلپائنی بھائی کھیل میں ہمہ تن مشغول تھے۔ رضوان صاحب نے مجھے کوئی لمبا چوڑا لیکچر نہ دیا، بلکہ کھیل ختم ہونے پر وہ مجھے اپنے گھر لے گئے اور مجھے قرآن کا انگریزی ترجمہ اور چند پمفلٹ دیے۔ میں نے قرآن کا ترجمہ پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی لیکن ترجمہ آسان زبان میں نہ تھا، اس لیے مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔ پمفلٹ ویسے ہی تھے جیسی میری کتب۔ مجھے یہاں یہ اعتراف کرنا ہے کہ رضوان صاحب نے مجھے اسلام قبول کرنے پر کبھی مجبور کیا نہ ہی میرے سعودی انچارج عبداللہ صاحب نے۔ اسی طرح جب بھی میں اسلامی تبلیغی مرکز میں گیا تو کسی صاحب نے بھی مجھ پر زور نہ ڈالا کہ بغیر سوچے سمجھے دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائو، بلکہ ہر ایک نے مجھے صرف ضروری معلومات فراہم کیں اور اسلام قبول کرنے کا معاملہ میری ذات پر چھوڑ دیا۔ اسی وجہ سے میں بار بار تبلیغی مرکز میں چلا گیا۔ اگر کوئی مسلمان مجھ پر دبائو ڈالتا تو میں یقینا ان سے دور بھاگ جاتا۔

اس گہرے مطالعہ او ر چھان بین سے تین چیزیں مجھ پر واضح ہو گئیں۔

۱۔ عیسیٰ علیہ السلام خدا نہیں ہیں۔

۲۔ بائبل اصل شکل میں نہیں ہے۔ اس میں گڑبڑ کی گئی ہے، کیونکہ اس میں اکثر متضاد باتیں ملتی ہیں۔ میرے مذہب کی بنیاد جو کتاب ہے، جب وہ کتاب ہی صحیح نہیں تو مذہب کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے۔ اگر میں بائبل میں دیے ہوئے متضاد خیالات کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو معاملہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے دو ہی راستے ہیں یا تو اس مذہب کو بلاچوں چرا قبول کرو بصورت دیگر اس مذہب سے خارج ہو جائو۔

۳۔ اسلام کا یہ دعویٰ کہ کوئی معبود قابل عبادت نہیں سوائے اللہ کے، نہایت سادہ اور عام فہم فقرہ ہے۔ اس نے میرے دل و دماغ سے تمام دبائو دور کر دیا۔ میںنے محسوس کیا کہ میں اب ایک آزاد شخص ہوں اور تمام غیرضروری ذہنی الجھنوں سے پاک ہو گیا ہوں۔ اس سکون کی وجہ سے میں نے اس فقرے پر اور زیادہ غور و خوض شروع کر دیا، خاص طور پر میں دوران سفر کیسٹ لگا کر سنتا تو مذکورہ فقرہ مزید دلنشین ہو جاتا۔ اب میرا ذہن مجھے آواز دے رہا تھا کہ تم حقیقت سے تو آشنا ہو گئے ہو، آگے بڑھو اور فیصلہ کرو۔ میرا اس حقیقت پر ایمان اور یقین اتنا بڑھ گیا کہ مجھے اب یہ فکر نہ رہی کہ اگر میں مسلمان ہو جائوں تو میرے دوست رشتہ دار کیا کہیں گے۔ بس اب میں اس دھن میں تھا کہ مسلمان کیسے بنوں؟ چنانچہ میں ایک دن بھاگا بھاگا الخبر کے تبلیغی مرکز میں گیا۔ میں نے دیکھا کہ ہر کمرے میں مختلف زبانوں میں لیکچر ہو رہے ہیں۔ میں فلپائنی گروپ کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ہمارے ٹیچر کا نام فرید اوکینڈو تھا۔ جوں ہی لیکچر ختم ہوا میں نے سوال کیا کہ اسلام قبول کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟ انہوں نے پوچھا کہ تم اسلام قبول کرنا چاہتے ہو؟ میں نے فوراً جواب دیا‘ جی ہاں! سب لوگ میرا منہ تکنے لگے اور دل ہی دل میں سوچنے لگے کہ یہ شخص پہلی بار آیا ہے اور فوراً اسلام قبول کرنا چاہتا ہے۔ مسٹر فرید نے مجھ سے پو چھا‘ کیا تم واقعی اسلام قبول کرنا چاہتے ہو؟ اور کیا تم نے اسلام کے بارے میں مکمل مطالعہ کیا ہے؟ میںنے جواب دیا‘ جی ہاں! مجھے اس لمحے بھی تعجب ہوا کہ کوئی شخص مجھے اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کر رہا بلکہ مطالعے کی تلقین کی جا رہی ہے۔

فرید صاحب نے مجھے بتایا کہ اسلام میں داخل ہونے کا طریقہ نہایت آسان ہے۔ مجھے صرف یہ کہنا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی سوا کوئی اور معبود نہیں اور یہ کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔

کلمۂ شہادت کے بعد سعودی بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے کونسا نام پسند ہے۔ میںنے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ میرا نام وہی ہو گا جو اس شخص کا تھا جس نے اسلام کے بارے میں پہلی بار اس سینٹر میں مجھ سے بات کی تھی۔ کیونکہ انہوںنے نہایت شائستہ، مدلل اور جامع بات کی تھی۔ میں ان صاحب کو پہچانتا نہ تھا، اس لیے میں نے استقبالیہ پر کتابیں دینے والے سے استفسار کیا کہ آپ سے جب میں نے کتابیں خریدی تھیں، اس کے بعد جن صاحب نے میرے ساتھ گفتگو کی تھی، ان کا کیا نام ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ شیخ صالح تھے۔ یہ سنتے ہی میں نے کہا کہ میرا نام بھی صالح ہو گا۔

اس کے بعد مجھے یہ ہدایت کر دی گئی کہ گھر جا کر غسل کرو‘ نمازیں ادا کرو اور دعائوں میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو جس نے راہِ ہدایت سے روشناس فرمایا۔

میں نے گھر پہنچتے ہی غسل کیا اور خوب گہری نیند سویا۔ علی الصبح فجر کی نماز کے لیے مسجد گیا۔ مسجد میں داخل ہونے میں ہچکچاہٹ ہوئی، کیونکہ میں طریقہ نماز سے متعارف نہ تھا اور میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اب کیا کروں؟ تھوڑی دیر میں ایک سوڈانی بھائی کا ادھر سے گزر ہوا۔ اُس نے میری ہچکچاہٹ کو محسوس کر لیا اور کہنے لگے کہ کیوں رکے ہوئے ہو، اندر آجائو۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے کل رات ہی اسلام قبول کیا ہے۔ میں فی الحال نماز پڑھنے کے طریقہ کار سے آگاہ نہیں ہوں۔ سوڈانی نے کہا: مسجدمیں آئو میں تمہیں بتاتا ہوں۔ انہوںنے پہلے مجھے استنجا کرنے کا طریقہ بتایا، پھر وضو کا طریقہ بتایا۔ انہوںنے کہا کہ نماز میں محض ہماری اتباع کرو او رآخر میں دعا کرو۔

جب میں نے پہلا سجدہ کیا تو مجھے ناقابل بیان سکون ملا۔ میں ہر روز اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اپنے فضل و کرم سے میرے پہلے سجدہ کی سی کیفیت پھر پیدا کر دے، علاوہ ازیں مجھ پر اللہ تعالیٰ کا یہ بھی احسان رہا کہ میں نے پہلے دن سے اب تک کوئی نماز ترک نہیں کی۔ میں نے باقاعدگی سے ہر شام تبلیغی مرکز جانا شروع کر دیا اور کئی گھنٹے تعلیم حاصل کرتا۔
تعلیم کے دوران مجھے یہ بتایا گیا کہ سود حرام ہے۔ اس لیے میں جلد از جلد بینک کی نوکری سے استعفیٰ دینا چاہتا تھا۔ اسی طرح مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ ہر وہ کھانا حرام ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے نام کی دعا کی جائے۔ میں دل و جان سے ان تعلیمات پر عمل کرنا چاہتا تھا۔ پس میری زندگی ایک نئے دور میں داخل ہو چکی تھی، لیکن میرے گھر اور کام کے ساتھیوں اور افسروں کو اس کی خبر نہ تھی۔

قبول اسلام کا ردعمل

میں پانچ فلپائنی ساتھیوں کے ساتھ ایک گھرمیں مقیم تھا۔ ہر کمرے میں دو دو فرد تھے۔ میرے کمرے میں میرا اسکول اور کالج کا پرانا ساتھی تھا۔ اس کی دوستی نبھانے کے لیے ہی میں یہاں سعودی عرب آیا تھا۔ ہم سب کھانا اکٹھا ہی پکاتے اور مل کر کھاتے تھے اور مل کر ہی بازار اور کھیل کے میدان میں جاتے۔ اس سلسلے میں دو واقعات قابل ذکر ہیں۔

میرے ساتھیوںنے نئے سال کی تقریب کے لیے پرتکلف کھانا تیار کیا اورمجھے بھی دعوت دی۔ میں نے جواباً کہا کہ میں اس دعوت میں اس شرط پر شریک ہوں گا کہ تم کھانے کے دوران کسی قسم کی دعا نہیں کرو گے۔ سب متفق ہو گئے۔ جب کھانے کا وقت آیا تو انہوںنے حسب معمول عیسائیوں کی طرح دعا کی۔ میں چپ چاپ کھانے کی میز سے اٹھ کر چل دیا۔ کیونکہ انہوںنے وعدہ خلافی کی تھی۔

ایک اور ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ ہم سب مل کر دوپہر کا کھانا کھاتے تھے، میں ہر روز ان سے کھسک جاتا اور علیحدگی میں نماز ادا کرنے کے بعد کھانے میں شریک ہوتا۔ اس طرح مجھے قدرے دیر ہو جاتی۔ ایک دن مجھے خاصی تاخیر ہو گئی اور یہ سب کھانے سے فارغ ہو کر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ صرف میرے کمرے والا ساتھی موجود تھا۔ اس نے مذاقاً مجھ سے پوچھا‘ کیا تم نماز ادا کر رہے تھے؟ میں نے اس سے کہا کہ تم نے آج میرے راز سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ میں نماز ہی تو ادا کر رہا تھا۔ اس نے کہا کہ کیا تم مذاق کر رہے ہو؟ میں نے اسے صاف صاف بتا دیا کہ میں اسلام قبول کر چکا ہوں۔ اس نے یہ خبر دوسرے ساتھیوں تک بھی پہنچا دی، اس طرح سے ہماری دوستی پر ضرب پڑ گئی۔

ایک دن سب فلپائنی ساتھی میرے کمرے میں جمع ہو گئے اور مجھے غدار اور اسی قسم کے الفاظ سے منسوب کیا۔ پھر مجھ سے کئی سوال پوچھنے لگے۔ مثلاً اسلام کیا ہے اور تمہیں کیوں اچھا لگا؟ میں ان کے ہر سوال کا مدلل جواب دیتا۔ میری زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ اسلام کے بارے میں دوسروںسے بحث مباحثہ کر رہا تھا۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ میں دوبارہ عیسائی بن جائوں۔ میں رواداری اور تحمل سے پیش آیا۔ ان کے پاس میرے دلائل کا کوئی توڑ نہ تھا۔ بالآخر انہوں نے اپنی بائبل بند کر دی اورایک ساتھی نے کہا‘ تم کیا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہو؟ میں نے کہا‘ یہ حقیقت ہے کہ اسلام سچا مذہب ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام خدا یا اس کے بیٹے نہیں، بلکہ اللہ کے پیغمبر ہیں۔ اس پر انہیں بہت مایوسی ہوئی اور وہ اٹھ کر چلے گئے۔ اس کے بعد اس سلسلے میں ہماری کوئی بات چیت نہ ہوئی۔

معمولات میں تبدیلی

مقامی تبلیغی مرکز میں قرآن پاک کی تعلیم کے لیے ایک مصری ٹیچر مقرر تھے، ان کا نام محمد تھا۔ ان کی قرآن پاک کی قرأت بہت دلکش تھی۔ وہ مرکز میں اعزازی طور پر خدمت انجام دے رہے تھے۔ دن بھر ایک ادارے میں بطور خادم کام کرتے تھے‘ جس سے اپنی دال روٹی چلاتے تھے۔ ایک دن میں اور رضوان ان کے گھر ان سے ملنے گئے، وہ ایک تنگ و تاریک کمرے میںمقیم تھے، بدحالی آشکار تھی، البتہ ان کی ایک المار ی میں قرآن پاک کے کیسٹ تھے، ہم نے ان سے درخواست کی کہ وہ ہمارے ساتھ ہمارے کمرے میں منتقل ہو جائیں۔ انہیں کرایہ ادا کرنا ہو گا اور نہ ہی بجلی کا بل۔ ہاںایک شرط ہے، وہ یہ کہ وہ ہمیں قرآن پاک پڑھائیں گے۔ جناب محمد نے بخوشی ہماری یہ تجویز قبول کر لی۔ اب اللہ کی مہربانی سے وہ ہر روز فجر کی نماز کے بعد ہمیں قرآن پڑھاتے۔

مجھے بچپن سے ہی گیٹار اور پیانو بجانے کا شوق تھا۔ ان کے ساتھ خوب لے سے گاتا بھی تھا۔ اس وجہ سے میں گیٹار اور باجا اپنے ساتھ سعودی عرب لایا تھا، چونکہ میں موسیقی کا دلدادہ تھا اس لیے میرے پاس موسیقی کی اعلیٰ قسم کی کیسٹوں کا ذخیرہ تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے گیٹار اور کیسٹ معمولی داموں میں فروخت کر کے ان سے نجات حاصل کر لی۔ ایک شخص نے باجے کی قیمت پوچھی تو میں نے وہ اسے مفت دے دیا۔

میں اپنی سالانہ چھٹیوں پر فلپائن جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ رضوان صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کی اہلیہ اور دو بچیاںبھی بفضل خدا مسلمان ہو چکی ہیں اور وہ منیلا میں مقیم ہیں۔ انہوں نے مجھ سے یہ استدعا کی کہ میں ان کے گھر جا کر اہل خانہ سے ملوں اور حسب توفیق ان کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کروں۔

چند دنوںکے بعد میں منیلا پہنچ گیا۔ میرے والدین میرے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھے، ہمارے عیسائی پیشوا نے ہمیں یہ تعلیم دی تھی کہ جب والدین سے ملو تو ان کے احترام کے طور پر باری باری ان کاہاتھ اپنے ماتھے پر رکھو۔ جب میں والدین سے ایئرپورٹ پر ملا تو میں نے ایسا نہ کیا، بلکہ باری باری ان کا ماتھا چوما، دونوں قدرے حیران ہوئے۔ بہرحال ہم خوشی خوشی گھر پہنچ گئے۔

میرے والد نے زیادہ تر ملازمت فوج میں کی تھی۔ اس کا اثر ان پر ابھی تک باقی ہے۔ ان کا چہرہ اکثر سنجیدہ ہی رہتا ہے اور بات بھی کم کرتے ہیں۔ اس کے برعکس میری والدہ کالج میں بطور ٹیچر کام کرتی رہی ہیں۔ ان سے ہر عنوان پر بات کرنا آسان ہے۔ میں نے اپنی امی سے کہا کہ میں اسلام قبول کر چکا ہوں اور مجھے سور کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں۔ اس پر میرے والدین چونک گئے اور کہنے لگے کہ ہم نے خاص طور پر تمہاری خاطر سور کی پسلیوں کا اہتمام کیا ہے۔ سور کی بھنی ہوئی پسلیاں ہمارے ملک میں بہت بڑی ضیافت سمجھی جاتی ہے۔ میں نے نہ صرف اس پرتکلف ضیافت کو ٹھکرا دیا بلکہ ان پر واضح کیا کہ میں سور کے گوشت سے بنی ہوئی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگائوں گا۔ میرے والدین نے میری خاطر حلال خوراک کا انتظام کیا۔

منیلا میں قیام کے دوران میں نے والدین اور رشتہ داروںکو اسلام کی دعوت دی۔ مجھے اسلام کی دعوت دینے کا تجربہ نہ تھا۔ میں نے ان سے اسلام قبول کرنے کے لیے پرزور اصرار کیا۔ میں چاہتا تھاکہ وہ جلد از جلد سچائی کو پالیں۔ اس لیے میرا ان سے ایک جھگڑا سا رہتا اور گھر کے ماحول میں کشیدگی رہتی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ میری دعوت کے اثرات جلد از جلد ظاہر ہوں۔ لیکن کئی سالوں کے بعد مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ میرا دعوت کا اسلوب صحیح نہ تھا اور مجھے افسوس بھی ہوتا ہے کہ اپنی ناتجربہ کاری کے باعث میں نے انہیں ذہنی اذیت دی۔ علاوہ ازیں اصل ہدایت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

دوسری بار میں اور رضوان صاحب اکٹھے فلپائن گئے۔ مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ رضوان صاحب کی فیملی اسلامی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو چکی تھی اور ان کی بیوی اور بچیاں اسلامی حجاب کا اہتمام کرتی تھیں۔ منیلا کے قیام کے دوران رضوان صاحب نے مجھے دعوت دی کہ میں ان کی بڑی بیٹی کو رفیقِ حیات بنا لوں۔ میں نے عرض کیا کہ انشاء اللہ عنقریب جواب دوں گا۔ ان دنوں میرے گھر کا ماحول بہت پراگندہ تھا۔ میں گھریلو الجھنوں کے باعث بروقت رضوان صاحب کے گھر نہ پہنچ سکا۔ اس دوران وہ سعودی عرب کے لیے روانہ ہوگئے۔ چھٹیاں ختم ہونے کے بعد میں بھی سعودی عرب پہنچا۔ میںنے مدینہ منورہ سے رضوان صاحب کو بذریعہ ٹیلی فون اپنی گھریلو مشکلات سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی یہ اطلاع بھی دی کہ میں ان کی بیٹی سے شادی کرنے کے لیے رضامند ہوں لیکن تھوڑی سی مہلت چاہیے۔

دوسری طرف میری والدہ صاحبہ نے بہت کوشش کی کہ میں دوبارہ عیسائی مذہب اختیار کر لوں۔ انہوں نے ایک پادری کو گھر بلایا جس نے میرے ساتھ کافی دیر مکالمہ کیا، لیکن وہ اپنے مقصد میں ناکام رہا۔
میری والدہ نے ایک اور پادری کو گھر بلایا اور خود بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئیں تاکہ ہماری باہمی بات چیت کو سن کر بحث کا تجزیہ کر سکیں۔ میرے والد صاحب پودوں کو پانی دینے کے بہانے ہم سے تھوڑے فاصلے پر کھڑے ہو گئے۔ ان کے کان بھی ہماری طرف ہی لگے ہوئے تھے۔ میں نے پادری کو ہر سوال کا جواب اپنی کتابیں کھول کھول کر دکھایا۔ اس کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہ تھی۔ آخرمیں ہمارے گھر سے جاتے ہوئے کہنے لگے کہ اپنے سے بڑے پادری کے ہمراہ دوبارہ حاضر ہوں گے۔ میں نے انہیں جواباً عرض کیا کہ مجھے اس کا بیتابی سے انتظار رہے گا لیکن میرے منیلا قیام کے دوران وہ کبھی واپس نہ آئے۔

پادری کے جانے کے بعد میرے والد صاحب ہمارے قریب آئے اور میری والدہ سے کہنے لگے۔ تمہارے بیٹے کا علم تمہارے پادری سے زیادہ ہے۔ میں نے زیادہ بات نہ کی تاکہ والدہ کے جذبات مجروح نہ ہوں۔

مجھے رشتہ کی پیشکش ہو چکی تھی لیکن میں شادی سے پہلے بینک نوکری کو چھوڑنا چاہتا تھا۔ میں نے سعودی عرب میں کئی علماء سے رائے لی‘ سب نے بہت اچھی تلقین کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نوکری سے چھٹکارے کی مخلصانہ نیت کر لو اور دوسرا کام ملنے تک نوکری نہ چھوڑو‘ اگر تم نے نوکری فوراً چھوڑ دی تو تمہیں اپنے ملک جانا پڑے گا۔

میں عرب نیوز میں ہر روز ملازمت کے اشتہار دیکھتا۔ ایک جگہ فیکس آپریٹر کی ضرورت تھی۔ میں نے انٹرویو دیا۔ وہ پوچھنے لگے کہ تم اچھے کام کو چھوڑ کر معمولی تنخواہ پر کیوں کام کرنا چاہتے ہو؟ میں نے جواباً کہا کہ ایک ذاتی وجہ ہے۔ انہوںنے کہا کہ تمہاری تعلیم اور لیاقت اس کام سے کہیں بالا و برتر ہے، اس لیے ہم تمہیں یہ کام نہیں دے سکتے۔

ایک اور کمپنی کو کمپیوٹر انجینئر درکار تھے، اس کے لیے بھی تنخواہ میری موجودہ تنخواہ سے کم تھی۔ جب میں انٹرویو کے لیے گیا تو میںنے صاف کہہ دیا کہ میں ان سے زیادہ تنخواہ کا مطالبہ نہیں کروں گا۔ مجھے اپنے کام میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ اس فرم نے مجھے قبول کر لیا اور میں اس نئی کمپنی سے منسلک ہو گیا۔ اس میں اللہ کی ایسی حکمت مخفی تھی کہ مجھے دمام کے بجائے مدینہ منورہ میں کام مل گیا اور ایک نہایت مقدس اور پرسکون شہر میں زندگی گزارنے کا موقع مل گیا۔

اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے سگریٹ پینا چھوڑ دی تھی‘ فحش موسیقی سے نجات حاصل کرلی تھی‘ بینک کی نوکری چھوڑ دی تھی اور میں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پس اب شادی کی باری تھی۔ اگلے سال میں اور رضوان صاحب دوبارہ اکٹھے فلپائن گئے اور میری شادی کا پروگرام بن گیا۔ میں نے والدین اور دیگر رشتہ داروں پر واضح کر دیا کہ میری شادی اسلامی طریقے سے ہو گی۔ وہ میری شادی میں شمولیت کے لیے رضامند ہو گئے۔

اب میرے والدین مجھ سے کافی تعاون کرنے لگے تھے۔ مثلاً رمضان کے چند دن منیلا میں مقیم رہا تو میری والدہ صاحبہ افطار کے لیے اچھے کھانے کا اہتمام کرتیں۔ چھٹیوں کے بعد مدینہ منورہ آگیا اور کچھ عرصہ بعد میری اہلیہ بھی مدینہ منورہ آگئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دو بیٹیاں عطا کی ہیں۔ ہم نے ان کا نام صفا اور مروہ رکھا ہے۔ ان دنوں حسبِ معمول بطور انجینئر ڈیوٹی دے رہا ہوں کہ بہت محنت طلب اور ذمہ داری کا کام ہے۔ علاوہ ازیں ہفتہ میں ایک روز اعزازی طور پر مدینہ منورہ کے تبلیغی مرکز میں نئے مسلمانوں کی حتی المقدور مدد کر رہا ہوں تاکہ ان کا ایمان مزید پختہ ہو جائے اور یہ کہ وہ میری کہانی سے مستفید ہو سکیں۔

***

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*