میں امریکا کے شہر ٹرینٹن، نیوجرسی (Trenton, New Jersy) میں پیدا ہوا، میرے والد صاحب ایک انجینئر تھے، چونکہ امریکی سوسائٹی میں نقل و حرکت بہت زیادہ ہے، ان کا تقرر مختلف شہروں اور ملکوں میں ہوتا رہا۔ مثلاً میں نے ابتدائی تعلیم ریاست انڈیانا (Indiana) میں شروع کی لیکن ہائی اسکول کے دوران مجھے والد صاحب کے ساتھ ایک دوسرے ملک برازیل (Brazil) جانا پڑا۔ میں والدین کے ہمراہ برازیل میں چھ ماہ رہا۔ مجھے وہاں ایک بالکل نئی اور انوکھی تہذیب نظر آئی، وہاں کی زبان بھی مختلف تھی، مجھے پہلی بار یہ احساس ہوا کہ امریکی طرزِ حیات کے علاوہ زندگی بسر کرنے کے اور بھی طریقے ہیں، اس سے میرے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوئی۔
جب میں والدین کے ہمراہ واپس امریکا آیا تو میں نے ہائی اسکول کی باقی ماندہ تعلیم انڈیایا ریاست میں ہی مکمل کی، اس کے بعد میں نے ٹیکساس کی یونیورسٹی (University of Texas) میں بزنس ایڈمنسٹریشن میں داخلہ لیا، تاکہ مستقبل میں ایک اچھی نوکری حاصل کر سکوں۔
میرے رجحان میں تبدیلی
ایک دن میں اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا لاطینی امریکا (Latin America) کی تہذیب کے بارے میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا، اس کے مطالعہ سے مجھے محسوس ہوا کہ بزنس ایڈمنسٹریشن بہت خشک مضمون ہے اور لاطینی امریکا کی تہذیب بہت دلچسپ ہے، اس لیے میں کالج گیا اور بزنس ایڈمنسٹریشن کو خیرباد کہہ کر لاطینی امریکا سے متعلقہ مضامین چُن لیے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ میرے والدین میرے ذاتی معاملات میں کسی قسم کی دخل اندازی نہ کرتے تھے۔ اب میں نے پبلک لائبریری سے کئی اور تہذیبوں مثلاً بدھ مت اور ہندومت سے متعلقہ کتابیں بھی حاصل کیں تاکہ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کی سوچ اور طرزِ معاشرت سے مستفید ہو سکوں۔
ایک عجیب واقعہ
کالج میں میرا ایک ہندو دوست تھا،اس نے مجھے بتایا کہ آج شام ایک چرچ میں گھریلو پکا ہوا کھانا ہے، اگر میں اس کے ہمراہ اس دعوت پر جائوں تو وہ میرا تعارف اپنے سعودی دوست سے کروائے گا۔ پس ہم چرچ گئے اور وہاں ایک سعودی طالب علم سے میرا تعارف کرایا گیا۔ کھانے کے اختتام پر ایک پادری صاحب کھڑے ہوئے اور بورڈ پر لکھی ہوئی عبارت کو گا گا کر پڑھنے لگے۔ ہمیں بھی اپنے ساتھ دہرانے کو کہا۔ اس پر ہمارا سعودی دوست ابوحسین پھرتی سے کھڑا ہو گیا اور ہمیں اس مجلس کو خیرباد کہنے کا اشارہ کیا۔ ہماری میزبان لڑکی نے کافی کوشش کی کہ ہم رُک جائیں لیکن ابوحسین نے دوٹوک کہا: ہمارا اس مجلس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا، پس ہم چرچ سے باہر آ گئے۔ اس واقعہ نے ہمیں قریب تر کر دیا یہاں تک کہ ہم نے باہم طے کیا کہ ہم سب مل کر ایک مکان کرایہ پر لیں گے اور اس میں مل جل کر زندگی بسر کریں گے، چند دنوں بعد ایک ایرانی طالب علم بھی ہمارے ساتھ اس مکان میں رہنے لگا۔ اس طرح مجھے کئی تہذیبوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مجھے دوسرے ملکوں کے کھانے بہت پسند تھے۔
میرا مذہب
میں اور میرے والدین عیسائی مذہب کے پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ میں محض والدین کے احترام کے طور پر ان کے ساتھ چرچ جاتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ چرچ سماجی سرگرمیوں کے لیے ہے۔ مذہب میں سب سے اہم چیز اخلاق اور کیریکٹر ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں میرے خیالات بہت الجھے ہوئے تھے اور میں کسی سے بحث مباحثہ کی جرأت بھی نہ کرتا تھا۔ میرے والدین نے مجھے مذہب کی تعلیمات پر زیادہ کاربند ہونے کے لیے کبھی مجبور نہ کیا، بلکہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔
میں یہاں یہ اعتراف کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ عیسائی مذہب کے بارے میں میری کم علمی اور کم عملی کا یہ نتیجہ ہوا کہ میرا ذہن دیگر مذاہب کے لیے متعصب نہ بن سکا اور میں وسعتِ قلبی سے نئے نئے تجربات کا تجزیہ کرتا رہا۔
توبہ کی طرف سفر
ایک دن میں فلسفے کی ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا، اس میں لکھا تھا کہ انسان کو مخلصانہ توبہ کرنی چاہیے، میں نے زندگی میں کبھی توبہ نہیں کی تھی۔ اس موقع پر میں ان سب افراد کے بارے میں سوچنے لگا جن پر میں نے کسی نہ کسی طرح ظلم کیا تھا، اور اسی طرح بارہا اپنی ذات پر بھی ظلم کیا تھا یعنی میں نے اپنی حرص و ہوا اور ذاتی مفاد کو ترجیح دی تھی اور دوسروں کی عصمت اور حقوق کو پامال کیا تھا۔ میرے دل نے آواز دی کہ میرے لیے توبہ کرنا واجب ہے، پس میں نے اس دن صدقِ دل سے توبہ کی۔
کافی عرصہ بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ اللہ تعالیٰ مخلصانہ توبہ ضرور قبول فرماتے ہیں۔ میری توبہ قبول ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ایسے حالات پیدا کیے اور ایسے ایسے لوگوں سے رابطہ قائم ہوا جو مجھے ہدایت حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوئے، ایسے چند واقعات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔
ایک اہم پکنک
جبیل کے مسلمان شہریوں نے ایک پکنک کا انتظام کیا اس میں ہم چھ غیر مسلم بھی مدعو تھے۔ ہم نے دن بھر مختلف کھیلوں میں حصہ لیا، پھر مل جل کر کھانا کھایا، آخر میں ایک مختصر تقریر سنی۔ میں یہ سن کر دنگ رہ گیا کہ مسلمان سب پیغمبروں اور سب الہامی کتابوں کو مانتے ہیں اور یہ ان کے ایمان کا اہم جزو ہے، مجھے کچھ لٹریچر بھی دیا گیا جس میں مختلف مذاہب کا موازنہ درج تھا۔ ان میں سے ایک کتابچہ بہت ہی دلچسپ تھا۔ اس میں ایک مسلمان اور عیسائی کے درمیان بحث و مباحثہ درج تھا۔ اس لٹریچر کے پڑھنے کے بعد میرا ایک خدا پر یقین اور بڑھ گیا لیکن میری سمجھ سے بالا تھا کہ اس کی عبادت کیسے کروں اور یہ کہ خدا مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ علاوہ ازیں مجھے یہ بھی واضح نہیں تھا کہ مجھے کس رنگ ڈھنگ سے زندگی گزارنی چاہیے۔
قبولِ اسلام کے لیے بے قراری
اب میرا دل اسلام کی نعمت سے محروم رہنے کے لیے ایک لمحہ کے لیے بھی تیار نہ تھا۔ میں نے ابوحسین صاحب کو اپنی طرف بلایا اور انہیں اپنے ساتھ کمرے سے باہر لے آیا۔ میں نے ان سے بے قراری سے کہا کہ میں ابھی اور اسی وقت اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے یہ مشورہ دیا کہ مجھے فی الحال اسلام کے بارے میں مزید مطالعہ کرنا چاہیے۔ لیکن میں نے اصرار کیا کہ میں اب بغیر کسی تاخیر کے ابھی اپنے دل کو نورِ اسلام سے منور کرنا چاہتا ہوں۔ میری اس بے قراری اور اصرار پر ابوحسین صاحب مجھے ایک دوسرے کمرے میں لے گئے اور میں نے سکون سے وہاں کلمۂ شہادت پڑھا: والحمد للہ علیٰ ذٰلک۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’سوئے حرم‘‘ لاہور۔ اگست ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply