
ایک ابھرتے ہوئے سیاہ فام پروفیسر سیاستداں کو امریکی یہودی لابسٹوں نے بڑی منصوبہ بندی سے پروان چڑھایا اور آگے بڑھایا۔۔۔ ایک چشم کشا داستان۔
یہ ۱۹۸۸ء کی بات ہے، جب بارک اوباما وکالت کی تعلیم دینے والے مشہور امریکی ادارے ہارورڈ لاء اسکول میں داخل ہوا۔ اس کا باپ مر چکا تھا جب کہ ماں اپنی ملازمت میں مصروف رہتی۔ درحقیقت نانا، نانی نے اسے پالاپوسا تھا۔ شاید ماں باپ سے دوری کے باعث ہی وہ بچپن سے ہی کام کرنے والا اور بہت جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا۔ ۱۹۸۲ء سے اوباما شکاگو میں مقیم تھا جہاں وہ مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ معاشرتی سرگرمیاں انجام دیتا رہا۔ اب اس کی زندگی کا نیا دَور شروع ہو رہا تھا۔
اوباما ایک ذہین اور ملنسار نوجوان تھا۔ گو وہ پڑھائی میں تیز نہ تھا مگر اس میں ویسی صلاحیتیں موجود تھیں جو ترقی دینے میں کام آتی ہیں۔ امریکا میں یہودی تو ایسے نوجوانوں کی کھوج میں رہتے ہیں تاکہ وہ ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اوباما اپنی ایک صہیونی پروفیسر مارتھا مینائو کی نظروں میں آ گیا۔ مارتھا اسرائیل کی کٹر حامی اور عربوں کی سخت مخالف ہے۔ اس کی دور اندیش آنکھوں نے دیکھ لیا کہ اگر اس نوجوان پر توجہ دی جائے تو وہ آگے چل کر یہود کا سرمایہ ثابت ہو سکتا ہے۔
مارتھا کوئی معمولی ہستی نہ تھی، اس کا باپ نیوٹن مینائو شکاگو میں ڈیموکریٹک پارٹی کے اہم رہنمائوں میں شامل تھا۔ وہ صدر جان کینیڈی کے دَور میں ایک اہم سرکاری ادارے فیڈرل کمیونکیشنز کمیشن کا سربراہ رہا۔ وہ شکاگو کے یہودی طبقے میں بھی بہت اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ مارتھا اپنے باپ سے ملی اور اوباما کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ اس نے باپ کو بتایا کہ اوباما میں ترقی کرنے کی غیر معمولی صلاحیتیں موجود ہیں۔ اگر یہودی اس کی مدد کریں تو آگے چل کر وہ ان کے بہت کام آ سکتا ہے۔
شکاگو میں سڈلے اینڈ آسٹن ایک مشہور قانونی فرم تھی۔ نیوٹن مینائو اس کا مشیر تھا۔ نیوٹن کی ایما پر فرم نے اوباما کو بطور تربیت کار رکھ لیا۔ اس فرم میں کام کرنا ایک ابھرتے وکیل کے لیے اعزاز کی بات ہوتی ہے۔ یوں ایک درخشاں مستقبل اس کے سامنے آجاتا ہے۔ یقینا اوباما کو ایک یہودی رہنما کی پشت پناہی حاصل نہ ہوتی تو وہ کبھی اس فرم میں تربیت حاصل نہ کر پاتا۔ (اوباما نے صدر بن کر مارتھا کو یوں نوازا کہ اس کی حمایت سے وہ ہارورڈ لاء اسکول کی پرنسپل بن گئی)۔
سڈلے اینڈ آسٹن ہی میں اوباما کی ملاقات ایک لمبی تڑنگی وکیل دوشیزہ میخائیل سے ہوئی۔ وہ بھی یہود کی آشیرباد سے ہی فرم میں ملازمت کر رہی تھی۔ دراصل اس کا ایک رشتے دار، کیپرزفیو نے شکاگو کے علاقے سائوتھ سائڈ میں مشہور ربی یہودی (مذہبی عالم) تھا۔ اوباما اور یہ لمبی تڑنگی لڑکی جلد ہی ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور ۱۹۹۲ء میں انہوں نے شادی کرلی۔
یہودیوں کے جال میں
۱۹۸۲ء میں اوباما جب شکاگو پہنچا تو وہ ماں باپ کی طرح سیکولر ہو چکا تھا۔ اسے مذہب سے کچھ زیادہ دلچسپی نہ تھی، لیکن خدا سے دوری نے اس کا ذہن بھی منتشر کر دیا۔ آخرکار اس کی ذہنی حالت کو ایک سیاہ فام پادری جرمیاہ رائٹ نے سنبھالا دیا۔ وہ اوباما کو دوبارہ خدا کے قریب لے آیا اور اسے سزا و جزا اور نیکی وبدی کے مابین تمیز سکھائی۔ جرمیاہ رائٹ سے قربت ہی کا نتیجہ ہے کہ اوباما دکھی انسانیت کی خدمت پر کمربستہ ہو گیا۔ لیکن جب یہود نے اسے اپنے سایہ عاطفت میں لیا تو وہ اسے سیاست میں لے گئے۔ اب یہود بڑی ہوشیاری سے اسے پروان چڑھانے لگے تاکہ وہ کسی اعلیٰ سرکاری یا سیاسی عہدے تک پہنچ کر ان کا آلہ کار بن سکے۔
امریکا میں یہودی کل آبادی کا صرف ۲ فیصد ہیں۔ لیکن معاشیات/ مالیات اور ذرائع ابلاغ پر مکمل کنٹرول رکھنے کے باعث ہر شعبۂ ہائے زندگی میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جو امریکی یہود سے اختلاف کرے امریکا میں اس کا جینا حرام ہو جاتا ہے۔ وہ نجی شعبے میں ہو یا سرکار میں، اس کی ترقی کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ امریکا میں یہودیوں کی کئی تنظیمیں ہیں جن میں امریکن اسرائیل پبلک افیئر کمیٹی سب سے اہم اور طاقتور ہے۔
امریکا میں عام عہدے کے انتخاب سے لے کر صدارتی انتخابات تک چندہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جو امید وار جتنا انتخابی چندہ جمع کر لے، اس کی کامیابی کے امکانات اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔ بینکار، تاجر و کاروباری ہونے کے باعث یہود کے پاس خاصی دولت ہے۔ لہٰذا تمام یہودی تنظیمیں مل کر طے کرتی ہیں کہ سینیٹ یا ایوان نمائندگان کے ریاستی یا وفاقی انتخابات میں کن امیدواروں کو انتخابی چندے اور یہودیوں کے ووٹ دینے ہیں… یہ وہ امیدوار ہوتے ہیں جو ہر جگہ پہلے اسرائیل کو رکھتے ہیں۔ یہودی تنظیموں کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ سینیٹ و ایوان نمائندگان میں صرف اسرائیل و یہود کے دوست ہی پہنچ سکیں۔
جو امیدوار اسرائیل کے مخالف ہوں، یہودی تنظیمیں ان کے مخالف امیدواروں کو انتخابی چندے اور یہودی ووٹ دیتی ہیں تاکہ وہ یہود کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھیں۔ مزید برآں اخبارات و ٹی وی چینلوں کے یہودی مالکان اسرائیل مخالفین کے خلاف زبردست پروپیگنڈا کرتے ہیں اور انہیں بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یوں یہود نے امریکا میں اپنے مخالفین کے خلاف ایسا نظام کھڑا کر لیا ہے کہ کسی میں یہود کی طاقت کو چیلنج کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
امریکا کا پہلا ’یہودی‘ صدر
بیشتر نوجوانوں کی طرح اوباما بھی شہرت، عزت اور دولت پانے کا خواہش مند تھا۔ جب اسے احساس ہوا کہ اثرو رسوخ کے مالک یہودی اس پر مہربان ہیں تو وہ قدرتاً ان کی طرف جھک گیا۔ اس طرح اوباما اور یہود کے مابین ایسی دوستی کا آغاز ہوا کہ جب وہ صدر امریکا بنا تو کانگریس کا سابقہ رکن وفاقی جج، وائٹ ہائوس میں صدر بل کلنٹن کا وکیل اور سب سے بڑھ کر صہیونیوں کا نامی گرامی رہنما ایبز مینکونر پکار اٹھا:
’’بارک اوباما امریکا کا پہلا یہودی صدر ہے‘‘۔
ایبز کا یہ جملہ اس حقیقت کا ترجمان ہے کہ اوباما یہودیوں کی بے پناہ مالی اور سیاسی مدد کے ذریعے ہی امریکی صدر بنا ہے۔ جب نیوٹن مینائو اوباما سے متعارف ہو چکا تو اس نے اس کو شکاگو کے مشہور یہودی رہنمائوں سے ملایا۔ یوں وہ رہنما اوباما کے سرپرست بن گئے اور ان کی مدد و رہنمائی سے وہ سیاسی میدان میں ابھرنے لگا۔ اوباما کے اولین پشت پناہوں میں انبر میکوز بھی شامل تھا۔ اوباما جب ہارورڈ لاء اسکول سے فراغت پاکر شکاگو لاء اسکول میں پڑھانے لگا تو ایبز وہیں پروفیسر تھا۔ دونوں ساتھ کھانا کھاتے اور ایبز دورانِ گفتگو پوری کوشش کرتا کہ اوباما کے دل میں اسرائیل و یہود کے لیے محبت راسخ ہو جائے۔
۱۹۹۲ء میں اوباما کی ملاقات ایک اور نمایاں یہودی، شکاگو ٹریبون اخبار کے رپورٹر اور شہر کے سابق میئروں کے خصوصی مشیر ڈیوڈ ایکسل روڈ سے ہوئی۔ یہ اوباما کا سرپرست بن گیا۔ نتیجتاً ۲۰۰۲ء میں اوباما نے اسے اپنا سیاسی مشیر بنا لیا۔ ۲۰۰۶ء میں ڈیوڈ ہی نے اوباما کی صدارتی مہم چلائی اور اس کے تمام سیاسی امور اسی کے ہاتھوں انجام پائے۔ صدر بن کر اوباما نے اسے اپنا سینئر مشیر مقرر کر دیا۔ سارا امریکا جانتا ہے کہ ڈیوڈ کتنا کٹر صہیونی ہے۔ (صہیونی سے مراد یہودی جو اسرائیل کی خاطر جان دینے پر بھی آمادہ ہو جائے)
اسرائیل کے مفادات کا تحفظ
۱۹۹۲ء ہی میں اوباما کو ایک اور مشہور یہودی رہنما بیٹلوسالمز ین کی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ بیٹلو کا ارب پتی باپ فلپ کلٹنزنک شکاگو میں کئی تعمیراتی کمپنیوں کا مالک تھا۔ وہ صدر جمی کارٹر کے دَور میں سیکریٹری تجارت رہا۔ اس نے اسرائیل کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ بیٹلو کی مدد سے اوباما کے تعلقات مزید وسیع ہوئے حتیٰ کہ وہ ۱۹۹۸ء میں ریاست الینائے کی (ریاستی) سینیٹ کا رکن منتخب ہو گیا۔ اس کی کامیابی میں یہودی سرمائے اور ذرائع ابلاغ نے بنیادی کردار ادا کیا۔
۲۴ اکتوبر ۲۰۰۸ء کو شکاگو جیوش نیوز نامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بیٹلو سالمزمین نے کہا ’’میں اور دیگر یہودی رہنما اوباما کی ’لبرل سیاست‘ سے متاثر تھے لیکن ہم نے بنیادی طور پر اس کی مدد یوں کی کہ اوباما نے وعدہ کیا تھا، وہ ہر جگہ اسرائیل کے مفادات کا تحفظ کرے گا۔ لہٰذا یہود نے اس کی مکمل پشت پناہی کا فیصلہ کر لیا‘‘۔
الینائے سے وفاقی سینیٹ کا رکن، سلورسٹین ایک کٹر یہودی تھا۔ اوباما نے اسی کے دفتر کے سامنے اپنا دفتر بنالیا۔ سلور سٹین نے اوباما کو یہودی نظریات سے آگاہ کیا بلکہ اسے ازبر کرا دیے۔ سلورسٹین جب بھی ریاستی یا وفاقی سینیٹ میں تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے خلاف کوئی قرار داد پیش کرتا اس پر اوباما کے دستخط ضرور ہوتے۔
یہود کی ہاں میں ہاں ملانے کے باعث اوباما ۲۰۰۲ء میں البنائے سے دوبارہ سینیٹر منتخب ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اوباما ایک ذہین نوجوان تھا، لیکن اس کی صلاحیتوں سے یہودیوں ہی نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ۲۰۰۲ء کے بعد یہودی ذرائع ابلاغ نے یہ بات پھیلا دی کہ وہ امریکی سیاست میں نئے نظریات متعارف کرانا چاہتا ہے۔ یوں اسے تبدیلی اورامید کا پیامبر بنا دیا گیا۔ بش حکومت کی خون آشام پالیسیوں نے اوباما کو مزید مقبول بنا دیا جو امن، دوستی اور بھائی چارے کی باتیں کرتا تھا۔ حقیقتاً یہ سراسر جھوٹ اور دھوکا تھا۔ اوباما کے بظاہر امن پسند چہرے کے پیچھے یہود کا مکروہ چہرہ پوشیدہ تھا۔ یہود امریکی عیسائیوں کو اپنے پرفریب جال میں پھنسا کر پوری دنیا میں ان کی مٹی پلید کر رہے تھے۔
جب ۲۰۰۸ء میں امریکی صدارتی انتخابی مہم شروع ہوئی تو اصل مقابلہ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار جان میکنن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدواروں ہیلری کلنٹن اور اوباما کے مابین تھا۔ حقیقتاً مقابلہ اس امر پر تھا کہ کون یہودی کی مدح سرائی اور ان کی بولی بولنے میں بازی لے گیا۔ لہٰذا فتح بھی اسی کا مقدر ٹھہری۔ انتخابی مہم کے دوران بھی ایسے کئی واقعات ظہور پذیر ہوئے جنہوں نے اوباما کو یہودیوں کا پالتو ثابت کر دیا۔
محسن کی کردار کش مہم
۱۹۸۲ء میں جب اوباما شکاگو پہنچا تو مذہب بیزار نوجوان تھا اسی لیے وہ نیکی اور بدی کے مابین تمیز کم ہی رکھتا تھا۔ اس زمانے میں پادری جرمیاہ رائٹ نے اوباما پر نہ صرف مذہب کی اہمیت واضح کی بلکہ اسے مقامی لوگوں سے بھی متعارف کرایا۔ یوں جرمیاہ رائٹ کی مدد سے اوباما اس قابل ہوا کہ سماجی کارکن بن کر معاشرے کی خدمت کر سکے۔
جرمیاہ رائٹ لاکھوں امریکی عیسائیوں کی طرح سمجھتا ہے کہ دوسو سال قبل امریکا کے بانیوں نے عدل و انصاف، مساواتِ انسانی اور اصول و قوانین کے جو خواب دیکھے تھے انہیں یہود نے چَکنا چُور کر دیا۔ یہود امریکیوں کو مادّہ پرستی کی طرف لے گئے اور اسلحہ سازی کو کھربوں ڈالر کا کاروبار بنا ڈالا۔ اب یہ کاروبار چلانے کے لیے یہودی سرمایہ کار امریکی حکومت کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ دنیا بھر میں محاذِ جنگ کھولے رکھے۔ جرمیاہ رائٹ اکثر اپنی تقاریر میں یہ حقائق نمایاں کرتا تھا لہٰذا یہودی اس کے سخت خلاف تھے۔
امریکا کے بعض یہودی رہنما سمجھتے تھے کہ بارک حسین اوباما ایک مسلمان باپ کا بیٹا ہے۔ اس کی دادی پکی مسلمان ہے لہٰذا وہ ان سے غداری کر سکتا ہے۔ اس کی وفاداری جانچنے کے لیے مارچ ۲۰۰۸ء میں ایک ڈرامہ کھیلا گیا۔ ہوا یہ کہ امریکی ذرائع ابلاغ میں ایک دَم جرمیاہ رائٹ کی تقریروں، لیکچروں اور چرچ میں دیے گئے خطبوں کے اقتباسات شائع ہونے لگے۔ جن میں امریکی حکومت اور یہود کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسی بنیاد پر رائٹ کو غدار، جھوٹا، دھوکے باز اور دیگر گھٹیا القابات سے نوازا گیا۔
یہود نواز امریکی میڈیا نے یہ بات خصوصاً نمایاں کی کہ پچھلے بیس برس سے رائٹ اوباما کا پادری ہے اور وہ اسی کے عیسائی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اب اوباما اس کشمکش میں مبتلا ہو گیا کہ وہ اپنے مربی کی باتیں جھٹلا کر اسے ناراض کر دے یا پھر خاموش رہے اور اپنی انتخابی مہم کو نقصان پہنچائے۔ آخر اقتدار کا نشہ اخلاقی اقدار پر غالب آگیا۔ اوباما نے اخباری بیان دے کر خود کو رائٹ سے الگ کر لیا۔ یوں اس نے اپنی زندگی بدلنے والے سرپرست کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکا۔
ظاہر ہے، جرمیاہ رائٹ کا واحد جرم یہ تھا کہ وہ یہود اور اسرائیل پر تنقید کرنے کا مجرم تھا۔ رائٹ کا کہنا ہے کہ مسئلہ فلسطین اسی صورت میں حل ہو گا کہ اسرائیلی اور فلسطینیوں کو ایک نظر سے دیکھا جائے۔ پھر رائٹ اسرائیلی حکومت کی سرگرمیاں بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ مثال کے طور پر جب پوری دنیا جنوبی افریقا کی نسل پرست سفید فام حکومت کے خلاف تھی، اسرائیل نے اسے کروڑوں ڈالر کا اسلحہ فراہم کیا۔ حالانکہ اس قسم کی تجارت پر بین الاقوامی پابندیاں عائد تھیں۔ حتیٰ کہ جنوبی افریقی حکومت نے آزادی کے متوالوں پر پانی کی جو توپیں چلائی تھی وہ اسرائیل ساختہ تھیں۔ جنوبی افریقی حکومت نے درحقیقت اسرائیل کے ذریعے مغربی ممالک پر دبائو ڈالے رکھا کہ وہ اس پر پابندیاں نہ لگائے۔
۱۹۸۷ء میں سیاہ فام امریکیوں کے مشہور رہنما، جیسی جیکسن نے ایک انٹرویو میں کہا ’’جو ملک جنوبی افریقا سے تجارت کر رہا ہے وہ وہاں کی نسل پرست حکومت کو تقویت پہنچاتا ہے۔ اسرائیلی حکومت ایسا کر رہی ہے… امریکا اسرائیل کو مالی امداد دیتا ہے جس میں سیاہ فام امریکیوں کے ادا کردہ ٹیکس کی رقم بھی شامل ہوتی ہے اور پھر اسرائیلی حکومت وہ امداد جنوبی افریقا بھجوا دیتی ہے‘‘۔ اس انٹرویو سے امریکا کے یہودی رہنما، جیسی جیکسن سے اس قدر ناراض ہوئے کہ اسے صدارتی انتخابات میں ہرا دیا۔ حالانکہ انہیں عام سفید فام امریکی بھی پسند کرتا تھا۔
اسرائیلی دارالحکومت: بیت المقدس
غرض اوباما نے اپنے مربی کو دھتکار کر ثابت کر دیا کہ وہ یہود کا وفادار ہے۔ اس نے جون ۲۰۰۸ء میں دوبارہ اپنی وفاداری کا حیران کن ثبوت پیش کیا۔ اس ماہ واشنگٹن میں یہود کی سب سے بڑی تنظیم ’امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی‘ کا کنونشن منعقد ہوا۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے جان میکنن نے کہا ’’امریکا اور اسرائیل اٹوٹ انگ ہیں جو کبھی جدا نہیں ہو سکتے‘‘۔ اوباما نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اعلان کیا ’’بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت ہو گا‘‘۔ اس بیان پر امریکا میں عربوں اور مسلمانوں نے شور مچا دیا۔ انہیں ٹھنڈا کرنے کے لیے اوباما کو آخر یہ بیان دینا پڑا کہ یروشلم کا معاملہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین مذاکرات سے طے ہو گا۔ بہرحال اس واقعے سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ امریکا میں تمام صدارتی امیدوار صرف یہودیوں کی بولی بولتے ہیں۔ حالیہ انتخاب میں صرف رالف نادر کو یہود کی حمایت حاصل نہیں تھی، لہٰذا وہ کامیاب نہ ہو سکا۔
۱۷ ستمبر ۲۰۰۸ء کو امریکا بھر سے ۹۰۰ ’ربی‘ اور دیگر یہودی رہنما بارک اوباما کی تقریر سننے واشنگٹن میں جمع ہوئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ یہودیوں کے مذہبی علماء کی اتنی بڑی تعداد کسی انتخابی امیدوار کی باتیں سننے جمع ہوئی۔ اس موقع پر بھی اپنی وفاداری ثابت کرنے اور یہود کو خوش کرنے کے لیے اوباما نے ’پرمغز‘ تقریر کی۔ اس نے کہا کہ وہ ہمیشہ اسرائیل پہلے رکھے گا اور کبھی اس کے مفادات کو زک نہیں پہنچائے گا۔
تبدیلی اور اچھائی کا ’’جعلی‘‘ نمائندہ
تاہم یہود بہت پہلے ہی اسے ناپسندیدہ انتخابی امیدوار مقرر کر چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی بینکاروں، سرمایہ داروں، صنعتکاروں اور کاروباریوں نے دل کھول کر اوباما کو چندہ دیا۔ یہودی ذرائع ابلاغ نے امریکا ہی نہیں پوری دنیا میں یہ تاثر پیدا کر دیا کہ اوباما بڑا مہذب، عالم فاضل اور خیر کا فرستادہ ہے۔ وہ امریکا میں تبدیلی لانا چاہتا ہے۔ یہود نے اوباما کے گرد مقدس ہالہ تان دیا مگر حقیقت برعکس تھی۔ حقیقتاً وہ انہی طاقتوں کا کارندہ تھا جنہوں نے انتہا پسند جارج بش سے جنگیں کرائی تھیں۔ بس اوباما کے چہرے پر امن کا نقاب چڑھا دیا گیا۔ یہودی امراء کے باعث ہی اوباما امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ انتخابی چندہ اکٹھا کرنے والا امیدوار بن گیا۔ اسے ۹۰ فیصد یہودیوں نے ووٹ دیے۔ یوں صاف ظاہر ہے کہ یہود ہی نے اسے تختِ صدارت پر متمکن کیا۔ لہٰذا وہ ان کی حکم عدولی کیوں کر سکتا تھا؟ اسی لیے صدر بنتے ہی اوباما نے جو اقدامات کیے وہ اس کا حقیقی روپ سامنے لے آئے۔ دوسری طرف اسے امن پسند، منصف مزاج اور تبدیلی کا سفر سمجھنے والے حیران و پریشان رہ گئے۔
اصل روپ افشا
’’تبدیلی‘‘ کاعمل تو انتخابی مہم کے دوران ہی شروع ہو گیا تھا۔ جب ’کٹر صہیونی‘ ڈیوڈ ایکسل روڈ نے انتخابی مہم چلانے کی ذمہ داری سنبھالی، تو وہ اوباما کے ان مشیروں کو فارغ کرنے لگا جو خاص طور پر مسئلہ فلسطین کو متوازن نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ امریکی پالیسیوں کا جھکائو اسرائیل کی سمت نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے مشیروں میں زبگینوبر زیرنسکی، سمنتھا باور اور رابرٹ میلے نمایاں تھے۔ اوباما ان کے خلاف یہود کی کارروائیوں کو نہ روک سکا۔
صدر بننے کے بعد اوباما نے راہم ایمائنویل کو وائٹ ہائوس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا، تو اسے عدل و انصاف کا سفیر سمجھنے والے سبھی لوگوں کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ یہ راہم جدی پشتی صہیونی جنگجو اور عرب مسلمانوں کا کٹر مخالف ہے ۔ یاد رہے امریکا میں صدر کے بعد چیف آف اسٹاف کا عہدہ سب سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ نائب صدر سے بھی زیادہ اختیارات رکھتا ہے۔
راہم ایمائنویل ایک اسرائیلی ڈاکٹر بنجمن ایمائنویل کا بیٹا ہے۔ بنجمن اسرائیلی دہشت گرد تنظیم ارغون کا سرگرم کارکن تھا جس نے ۱۹۳۱ء تا ۱۹۴۸ء کے درمیان فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیے رکھا۔ ۱۹۴۸ء کے بعد یہ کام اسرائیلی فوج انجام دینے لگی۔ ارغون کے دہشت گرد ہوٹلوں، بازاروں اور اسٹیشنوں پر بم حملے کرتے تھے جہاں مرد، عورتیں اور بچے بڑی تعداد میں موجود ہوتے۔ اسی تنظیم نے ایک گائوں ’دیریا سین‘ میں کئی سو فلسطینی شہید کر ڈالے تھے۔ یہ قتل عام گویا اس ناقابل مثال ظلم و ستم کا آغاز تھا جو آج ستر لاکھ سے زائد فلسطینی اسرائیلی حکومت کے ہاتھوں سہ رہے ہیں۔ واضح رہے مملکت اسرائیل کے بانی بن گوریان وغیرہ دیریاسین جیسے قتل عام زیادہ سے زیادہ چاہتے تھے تاکہ یہودی ریاست قائم ہو سکے۔
راہم ایمائنویل اسرائیل اور امریکا کی دوہری شہریت رکھتا ہے۔ موسم گرما میں اس کا پسندیدہ ٹھکانہ تل ابیب ہے۔ ۲۰۰۲ء میں الینائے سے ایوان نمائندگان کا رکن منتخب ہوا۔ وہ کسی قسم کا سیاسی تجربہ نہیں رکھتا تھا، بس یہود کی دولت کے سہارے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گیا۔ وہ پھر کئی کمیٹیوں کا رکن رہا۔ اس کی کوشش ہوتی کہ ان ارکان کی سنی جائے جو جنگ جوئی پر یقین رکھتے ہیں۔ امن دوست ارکان کی قراردادیں اور پالیسیاں اسے ایک آنکھ نہ بھاتیں۔
شرم سکولینک شکاگو کا ایک مصلح وکیل ہے۔ اس کی تنظیم ’’شہری ادارہ برائے صفائی عدالت‘‘ (Citizen’s Committee of Clean up the Courts) اب تک اعلیٰ و نچلی عدالتوں کے کئی ججوں، بینکاروں اور سیاست دانوں کو رشوت اور بے ایمانی میں ملوث ہونے کی بنا پر جیل بھجوا چکی ہے۔ شرمن کا کہنا ہے کہ راہم جنوبی امریکا میں اسرائیلی خفیہ تنظیم ’موساد‘ کا نمائندہ ہے۔ اس کی سعی ہوتی ہے کہ وہ ہر جگہ اسرائیل کو مقدم رکھے۔ اور اب اوباما نے اسے اپنا چیف آف اسٹاف بنا کر یہ ممکن بنا دیا ہے کہ راہم امریکی حکومت کے خفیہ ترین رازوں تک پہنچ سکے۔ آج وہ صدر امریکا کا اہم ترین مشیر ہے۔ اب سوچ لیجیے کہ وہ اپنے دَور میںاسرائیلی حکومت کو کتنا فائدہ پہنچائے گا۔ آخر اس کے سابقہ دہشت گرد باپ نے یوں ہی تو نہیں کہا ’’میرا بیٹا یقینا امریکی صدر کو مجبور کرے گا کہ وہ ’اسرائیل دوست‘ پالیسیاں تشکیل دے۔ وہ ایسا کیوں نہ کرے؟ وہ عرب تو نہیں کہ وائٹ ہائوس کے فرش صاف کرتا پھرے‘‘۔
ایک اور ’تبدیلی‘
صدر اوباما نے اپنی تقریر حلف برداری میں عالم اسلام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ دوستانہ باہمی تعلقات کے نئے دور کا آغاز کرے گا۔ مگر ہوا کیا؟ اس نے ڈینس راس کو خصوصی مشیر برائے مشرقِ وسطیٰ و جنوب مغربی ایشیا مقرر کر کے اپنے حقیقی عزائم عیاں کر دیے۔ راس نامی گرامی صہیونی اور جنگجو اسرائیلی حکومت کا کٹر حمایتی ہے۔ اسرائیلیوں نے غزہ کے ۱۵ لاکھ فلسطینیوں کا جو خوفناک محاصرہ کر رکھا ہے اسے راس کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ نیز راس چاہتا ہے کہ امریکی اور اسرائیلی طیارے حملہ کر کے ایرانی ایٹمی تنصیبات تباہ کر دیں۔ اسی لیے ایرانی حکومت راس سے کسی قسم کی گفت و شنید نہیں کرنا چاہتی۔ بہرحال اس کے انتخاب نے یہ ثابت کر دیا کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیاں بدستور اسرائیلی حکومت و فوج کے تابع و ماتحت رہیں گی۔
اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے لیے بھی رچرڈ ہالبروک کا انتخاب ہوا جو کٹر یہودی ہے۔ اس کے والدین پولش یہودی تھے۔ ۱۹۹۵ء میں اسی نے دیاتن امن معاہدہ کرایا جس کے نتیجے میں بوسنیا کی حکومت مسلمانوں سے چھن گئی۔ وہ اکثریت میں تھے مگر انہیں حکومت نہ دی گئی۔ ہالبروک ہنری کسنجر کا قریبی دوست ہے اسے دوسروں پر امریکی پالیسیاں تھوپنے کے باعث ’بل ڈوزر‘ کہا جاتا ہے۔ اب یہ بل ڈوزر ہم پاکستانیوں کا قیمہ کر رہا ہے۔
یہودیوں کا اثر و رسوخ
اب تک اوباما حکومت میں شامل ان اہم ارکان کا ذکر کیا گیا جو کھلم کھلا یہودی ہیں ورنہ موجودہ حکومت میں ڈھکے چھپے یہودیوں یا ان کے گماشتوں کی کمی نہیں۔ مثلاً نائب صدر بائیڈن کا چیف آف اسٹاف، رون کلین یہودی ہے۔ خود بائیڈن (جسے پاکستانی حکومت نے کچھ عرصہ قبل قومی اعزاز عطا کیا تھا) یہ کہہ چکا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران پر فضائی حملہ کیا تو امریکا کو کچھ اعتراض نہیں ہوگا۔
امریکا میں یہود کو ناپسند کرنے والے امریکی بھی ہیں خصوصاً جو عیسائی یہود کو حضرت عیسیٰؑ کا قاتل سمجھتے ہیں۔ وہ ان سے نفرت کرتے ہیں لیکن ان امریکیوں کے نمائندے امریکی کانگریس میں نہیں پہنچ پاتے۔ وجہ یہی ہے کہ امریکی انتخابات میں دولت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے اور امریکی یہود کے پاس بے اندازا سرمایہ ہے۔ لہٰذا وہ یہود اسرائیل کے کسی مخالف کو اوپر نہیں آنے دیتے۔ حتیٰ کہ انہیں اس کا مخالف زیادہ نہ بھائے، تب بھی اسے ہی چندہ دے کر کامیاب بنا دیتے ہیں۔ یوں کانگریس میں آنے والا غیر یہودی رکن مجبور ہے کہ وہ یہود کی ہاں میں ہاں ملائے۔ ورنہ اس کے سیاسی کیریئر کا سورج غروب ہو جاتا ہے۔
ایک نمایاں مثال
چارلس فری مین کا شمار مشہور امریکی سفیروں میں ہوتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ چارلس کئی زبانیں روانی سے بولتے ہیں۔ چینی زبان سے ازحد واقفیت کے باعث ہی ۱۹۷۲ء میں جب صدر نکسن نے چین کا دورہ کیا، تو وہی امریکی قافلے میں مرکزی ترجمان تھے۔ بعدازاں سعودی عرب میں امریکی سفیر رہے۔ صدر کارٹر نے انہیں بین الاقوامی سیکورٹی معاملات کے سلسلے میں نائب سیکریٹری دفاع مقرر کیا۔ ان کی خفیہ رپورٹ میں امریکی خفیہ اداروں کے ایجنٹوں نے لکھا ہے ’’چارلس فری مین ایک بے خوف سفارت کار ہیں اور سچ بولنے سے قطعاً نہیں گھبراتے۔ نہایت ذہین اور دیانتدار ہیں‘‘۔ یہ چارلس کی بے خوفی اور سچائی ہی ہے جس کے باعث وہ امریکی یہودیوں کے لیے بڑا خطرہ بن گئے۔ ہوا یہ کہ جنوری ۲۰۰۹ء میں انہیں نیشنل انٹیلی جنس کونسل کا چیئرمین مقرر کر دیا گیا۔ امریکی حکومت کے ۱۶ مختلف خفیہ ادارے ہیں۔ نیشنل انٹیلی جنس کونسل کے سربراہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ان تمام خفیہ اداروں کی رپورٹیں دیکھے بھالے اور پھر اس کا جوہر چند رپورٹوں میں کشید کر دے۔ پھر امریکی صدر اور حکومت کے دیگر عہدیدار وہ رپورٹیں پڑھ کر قومی سلامتی کی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں۔ ان خفیہ اداروں کا سالانہ بجٹ ’۵۰ ارب ڈالر‘ ہے اور وہاں ایک لاکھ سے زائد افراد ملازم ہیں۔ ان میں آدھے تجزیہ کار ہیں۔ نیشنل انٹیلی جنس کونسل کا چیئرمین ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس کے ماتحت ہوتا ہے۔
چارلس فری مین کا تقرر ہوتے ہی یہود نے شور مچا دیا کہ ایک اسرائیل مخالف کو اتنا بڑا عہدہ کیوں دے دیا گیا؟ یہود کی ناراضی کا سبب وہ حقائق تھے جو فری مین ماضی میں دوران تقاریر سب کے سامنے لا چکے تھے۔ مثلاً انہوں نے ستمبر ۲۰۰۵ء میں نیشنل کونسل برائے عرب امریکا تعلقات سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’امریکا مسلسل اسرائیل کو فوجی امداد دے رہا ہے، نیز سفارتی و سیاسی محاذ پر اس کی بھرپور حمایت کر رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں مشرق وسطیٰ میں امن کیسے بحال ہو سکتا ہے؟ یہ حقیقت ہے اسرائیل عرب علاقوں پر قابض ہے اور وہاں مسلسل یہودی بستیاں آباد کرنے میں مصروف ہے۔ ظاہر ہے فلسطینیوں نے تشدد کا جواب مزاحمت سے سے ہی دینا تھا۔ اب اسرائیلی امن قائم کرنے کے لیے پہلی شرط یہ رکھتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمت ختم کر دیں… یہ کیسے ممکن ہے؟ درحقیقت یہی بات مدنظر رکھ کر اسرائیلی حکومت ہمیشہ اس امر پر سب سے زیادہ زور دیتی ہے‘‘۔
درج بالا جملوں سے عیاں ہے کہ چارلس فری مین مسئلہ فلسطین کو حقیقی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ وہ یہود نواز کئی امریکی عہدیداروں کے مانند اسرائیل کو معصوم اور بے گناہ قرار نہیں دیتے۔ ان کے خیالات دیگر تقاریر میں بھی ایسے ہی ہیں اسی لیے سینیٹ اور ایوان نمائندگان میں یہود اور ان کے گماشتے ارکان نے اوباما حکومت پر زور دیا کہ چارلس فری مین کی تقرری منسوخ کر دی جائے۔ ایڈمرل ڈینس بلیئر نے ان کا ہر ممکن دفاع کیامگر یہودی لابی کے آگے آخر کار وہ بھی جھک گئے۔ یوں چارلس صاحب کا تقرر منسوخ کر دیا گیا۔ انہوں نے بعدازاں جو بیان دیاوہ امریکی سیاست میں یہودی لابی کا اثر و رسوخ بخوبی عیاں کرتا ہے۔
’’بدقسمتی سے میرے پاس اتنے حمایتی نہیں تھے کہ وہ میرا دفاع کرنے اٹھ کھڑے ہوتے، کئی لوگ چاہتے ہوئے بھی خاموش رہے… وجہ ظاہر ہے۔ اگر میرے حمایتی اس گروہ (یہود) کے خلاف جاتے تو وہ اگلے انتخابات میں ان کے سیاسی کیریئر کا خاتمہ کر دیتا۔ اسی لیے اب واشنگٹن میں سچائی نہیں محض ڈالروں کا راج ہے۔ اور مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ ان دولت مندوں کا مقابلہ کر سکوں‘‘۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’افکارِ ملی‘‘۔ جون ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply