
ہمارے لیے کام کرو ورنہ ہم تمہیں دہشت گرد کہیں گے۔
پانچ مسلمان کمیونٹی ورکرز نے الزام لگایا ہے کہ برطانوی ایجنسی ایم آئی فائیونے ان کی مخبر کی حیثیت سے بھرتی کی غرض سے ان کو بلیک میل اور ہراساں کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ یا تو سیکورٹی سروس کے لیے کام کریں یا پھر قید و بند کا سامنا کریں اور برطانیہ اور بیرونِ ملک ہراساں ہونے کے لیے تیار ہوجائیں۔انہوں نے سیکورٹی سروس کی نگرانی کرنے والی پولیس اور اپنے مقامی ممبر پارلیمنٹ‘ فرینک ڈوب سن کو باقاعدہ رسمی طور پرشکایت کی ہے۔اب انہوں نے اس اُمید کے ساتھ کھلے عام اس بارے بولنا شروع کردیا ہے کہ اس کی تشہیر مستقبل میں اس طرح کے حربوں کی روک تھام میں معاون ثابت ہوگی۔
مخبروں کے ذریعے جمع کی جانے والی معلومات مزید دہشت گرد حملوں کو روکنے کے لیے ضروی ہیں‘ لیکن ان افراد کے الزامات نے مسلمان نوجوانوں پر سیکورٹی سروس کی طرف سے زبردستی کے بارے میں تشویش کو جنم دیا ہے اور مستقبل میں معلومات جمع کرنے کے عمل کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔
ان میں سے تین افراد کا کہنا ہے کہ ان کو اپنی فیملی کے ساتھ چھٹی منانے کی خاطر برطانیہ چھوڑنے کے بعدایم آئی فائیو کے حکم پر غیر ملکی ائیرپورٹس پر تحویل میں لیا گیا اور واپس برطانیہ بھجوانے کے بعد ایم آئی فائیو کے اہلکاروں نے ان سے پوچھ گچھ کی‘ جس میں ان پر اسلامی انتہاپسندی سے تعلق کا جھوٹا اِلزام لگایا گیا۔ہر موقع پر ایجنٹوں نے ان سے کہا کہ اگر وہ ’’تعاون‘‘ کریں تو ان پر سفر کی پابندیاں ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو قید کرنے کی دھمکیاں دینا بھی بند کر دی جائیں گی۔جب انہوں نے انکارکیا تو بعض کو دھمکی آمیز فون کال موصول ہوئیں۔
دو دیگر مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ایم آئی فائیو کے اہلکار ڈاکیے کی روپ میں ان کے گھروں تک پہنچے۔ پانچ آدمی جن کی عمریں ۱۹سے ۲۵سال کے درمیان ہیں‘ میں سے ہر ایک کو دھمکی دی گئی کہ اگر اس نے سیکورٹی سروس کی مدد نہ کی تو اس کو مشتبہ دہشت گرد تصورکیا جائے گا۔ایک چھٹے آدمی کو ایم آئی فائیو نے سعودی عرب میں ہنی مون سے واپسی پر تین گھنٹے تک قید رکھا۔ اس آدمی کا کہنا ہے کہ اس کو بھی سفری پابندیوں کی دھمکی دی گئی۔
اپنا نام کیتھرائن ظاہر کرنے والی ایک ایجنٹ پر الزام ہے کہ اس نے شمالی لندن سے تعلق رکھنے والے ۲۵سالہ سینما ورکر، ادیداروس علمی‘ ( Adydarus Elmi) کو دھمکیاں دیں۔ اس نے صبح کے ۷بجے فون کرکے اس کو بچی کی پیدائش کی مبارک باد دی۔حالانکہ اس کی بیوی ابھی سات مہینے کی حاملہ تھی اور جوڑے نے واضح الفاظ میں اسپتال والوں سے کہا تھا کہ وہ اپنے ہونے والی اولاد کی جنس معلوم نہیں کرنا چاہتے۔
مسٹر علمی نے مزید الزام لگایا کہ ’’مجھے ابھی تک یاد ہے کہ کیتھرائن مجھے یہ کہہ کر دھمکانے کی کوشش کرتی تھی کہ ’’ہم آخری دفعہ نہیں مل رہے ہیں‘‘ اور پھر ہماری آخری گفتگو میں اس نے کہا ’’اگر تم اپنی فیملی کے ساتھ کچھ برا ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے تو تم تعان کروگے‘‘۔
کیمڈن (Camdon) سے تعلق رکھنے والے ۱۹ سالہ’ کئیر ورکر‘ مہدی ہاشی نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے ایم آئی فائیو کے حکم پر جیبوتی (Djibouti) ایئر پورٹ پر ۱۶گھنٹے تک ایک سیل میں رکھا گیا۔اس نے الزام لگایا کہ اس سال ۹اپریل کو جب وہ برطانیہ واپس آرہا تھا تو ایم آئی فائیو کا ایک ایجنٹ اس سے ملا جس نے اس سے کہا کہ اس کی مبینہ دہشت گرد کی ’حیثیت‘ اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک وہ سیکورٹی سروس کے لیے کام کرنے پر آمادگی ظاہر نہ کرلے۔ اس نے الزام لگایا کہ اس کو اپنے دوستوں کو جہاد کے بارے میں گفتگو کرنے کی ترغیب دینے اور پھر ان کی مخبری کی نوکری دی جانی تھی۔
شمالی لندن سے تعلق رکھنے والے ۲۵سالہ نوجوان کمیونٹی ورکر محمد نور نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کوسیکورٹی سروس نے دھمکی دی ہے۔ اس نے بتایا کہ ایک ایجنٹ نے ڈاکیے کا روپ لیے پولیس افسر کے ہمراہ اس کے گھر تک رسائی حاصل کی۔ایم آئی فائیو کے ایجنٹ نے کہا ’’ محمد اگر تم ہمارے لیے کام نہیں کرتے تو ہم کسی ایسے ملک جس کا تم سفر کررہے ہو ‘کو بتادیں گے کہ تم مشتبہ دہشت گرد ہو‘‘۔
۲۵سالہ محمد عدن ایک کمیونٹی یوتھ ورکر ہے، جس کا تعلق کمیڈن ٹائون سے ہے۔ اس کوبھی پچھلے سال اگست میں ڈاکیے کے بھیس میں ایجنٹ ملنے آیا تھا۔اس نے الزام لگایا ہے کہ ایک ایجنٹ نے اس سے کہا ’’اگر تم تعاون نہیں کرتے تو ہم تمہارے بیرون ملک سفر کو مشکل تر بنادیں گے۔‘‘
کینٹیش ٹائون کمیونٹی آرگنائزیشن ( کے ٹی سی او) میں محروم اور پسماندہ نوجوانوں کے لیے کام کرنے والے ان چھ افراد میں سے کسی کو بھی کبھی دہشت گردی یا دہشت گردی سے متعلق کسی جرم کے الزام میں گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔وہ کئی بار سیکورٹی سروس کے کام کی نگرانی کرنے والے ’انوسٹی گیٹری پائورز ٹریبیونل ‘اور پولیس کو ان کے ساتھ روا رکھے اس برتائو کے بارے میں شکایت کرچکے ہیں۔
ٹریبونل کے سربراہ لارڈ جسٹس میمری کے نام اپنے خط میں ’کے ٹی سی او‘کے چیئر مین شرحبیل لون نے لکھا ہے’’ان نوجوانوں میں ایک چیز مشترک ہے کہ انہوں نے بیرون ملک عربی پڑھی اور یہ صومالی نژاد ہیں۔یہ دہشت گردی کی کسی سرگرمی میںملوث ہیں اور نہ ہی کبھی ملوث رہے ہیں اور سیکورٹی سروس اس امر سے بخوبی آگاہ ہے‘‘۔
شرحبیل نے مزید بتایا :’’ ان واقعات سے نسل پرستی‘ اسلاموفوبیا اور سماجی اتصال کی بیخ کُنی کرنے والے دیگر جذبات کی بو آتی ہے۔برطانوی شہریوں کو دھمکیاںدینا ‘ ان کو اپنے ملک میں ہراساں کرنا اور نوجوانوں کو بغیر کسی جرم مگر ایک خاص دین پر عمل کرنے کے پاداش اور خاص رنگ کی وجہ سے معاشرے سے الگ تھلگ کرناتباہی کے نسخے ہیں۔ ان شرمناک واقعات نے کیمڈن میں سماجی اتصال کے لیے کی گئی ۱۰سالہ سخت محنت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ہمارے ملک کے نوجوانوں کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھنے والوں کو حقارت انگیز طریقے سے نشانہ بنانا‘ زمینی حقائق کے بارے میں عدم ادراک کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ مقصد فوت کرنے کا سبب بنے گا۔‘‘
’’جب لوگوں کی حفاظت کے لیے بنا یا گیاادارہ ان کو دہشت زدہ کرتا ‘خوف کے بیچ بوتا ‘ شک پیدا کرتا اور لوگوں کو تقسیم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ کہ ہم تباہی کی طرف جانے والے رستے سے ’آرویلین معاشرے ‘ ( آمرانہ معاشرے) میں داخل ہونے والے ہیں۔‘‘
فرینک ڈوب سَن نے کہا :’’ مسلمان کمیونٹیوں میں اصل مشتبہ افراد کی نشاندہی کے لیے (ایم آئی فائیو کے لیے) مخبروں کا استعمال ضروری ہے ۔لیکن ایسا لگتا ہے اور جیسا کہ میں نے دیکھا کہ ان کے کچھ طریقے ’کائونٹر پروڈکٹیو‘ ہوسکتے ہیں۔‘‘
(دی انڈیپنڈنٹ کے رابطے پر )گزشتہ رات ایم آئی فائیو اور پولیس نے ان افرادکی شکایات پر بات کرنے سے انکار کیا۔ لیکن اپنی ویب سائٹ پر ایم آئی فائیو کا کہنا ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ سیکورٹی سروس مسلمانوں کو ہراساں کر رہی ہے۔ ادارے کا کہنا ہے :’’ ہم کسی فرد کی نسلی یا مذہبی عقائد کی بنیاد پر اس سے تفتیش نہیں کرتے ۔عالمی دہشت گردوں‘ خاص کر اسلام کے لیے ایسا کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کی طرف سے درپیش خطرات کا مقابلہ کرنا سیکورٹی سروس کی بڑی ترجیح ہے‘‘۔
ادارے کا کہنا ہے :’’ہم جانتے ہیں کہ برطانیہ میں ہونے والے حملوں کی منصوبہ بندی القاعدہ اور اس سے تعلق رکھنے والے ادارے کرتے ہیں۔ عالمی دہشت گرد براہ راست ملک میں تشدد کے ذریعے اور بالواسطہ طور پر بیرون ملک تشدد میں معاون کار بن کرہمیں دھمکی دیتے ہیں‘‘۔ ویب سائٹ پر مزید لکھا ہے: ’’مسلمان اکثر خود ہی اس تشدد کا شکار بنتے ہیں۔مئی ۲۰۰۳ء میں کاسابلانکا اور مئی اور نومبر ۲۰۰۳ء میں ریاض میں دھماکے اسی کی ایک مثال ہے‘‘۔
’’یہ سروس مسلمانوں سمیت ہر مذہب کے لوگوں کو بھرتی کرتی ہے۔ہم لوگوں کے مختلف تناظراور تجربات سے فائدہ اُٹھانے کے لیے مختلف پس منظر رکھنے والے افراد کو بھرتی کرنے کا عزم رکھتے ہیں‘‘۔
ایم آئی فائیو اور میں : تین بیانات
مہدی ہاشی :’’میں نے ان سے کہا کہ یہ بلیک میلنگ ہے‘‘
گزشتہ مہینے ۱۹سالہ مہدی ہاشی جیبوتی (Djibouti) اپنی بیمار دادی سے ملنے کے لیے گیٹ وِک (Gatwick) ائیرپورٹ پہنچالیکن جیسے ہی وہ ایئر پورٹ میں داخل ہورہا تھا‘ سادہ کپڑوں میں ملبوس دو اہلکاروں نے اسے روکا۔ایک افسر نے اپنانام’ رچرڈ‘ بتایا اورکہا کہ وہ ایم آئی فائیو کے لیے کام کررہا ہے۔
ہاشی نے بتایا:’’انہوں نے مجھی دھمکی دی کہ میں جہاز میں سوار نہ ہوں اور کہا کہ ’اگربرطانیہ کے باہر تمہارے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو ہم ذمہ دار نہیں ہوںگے۔(یہ سن کر)‘مجھے بہت بڑا دھچکا لگا۔‘‘
ایجنٹ نے ہاشی کو ایک کاغذ دیا جس پر اس کا نام اور ٹیلی فون نمبر لکھے تھے۔ اس نے ہاشی سے اُسے فون کرنے کا کہا۔
’’سارا وقت اس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ میرا پیچھا کررہا ہے اور جیسے ہی میں بورڈنگ گیٹ پر انہیں چھوڑ کر جانے لگا‘ تو مجھے یاد ہے کہ رچرڈ نے مجھ سے کہا :’’ دوست یہ تمہاری مرضی ہے کہ تم اس جہاز پر سوار ہو لیکن میں تمہیں ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیتا ہوں ’’اور پھر وہ مجھے گھورتا رہا‘‘۔
ہاشی جب جیبوتی ائیر پورٹ پر اترا تو اس کو ’پاسپورٹ کنٹرول‘ پر روک دیا گیا۔اس کو ایک کمرے میں ۱۶گھنٹے تک بٹھائے رکھا گیا اورپھر واپس برطانیہ ڈی پورٹ کردیا گیا۔ہاشی کا دعویٰ ہے کہ صومالی سیکورٹی اہلکاروں نے اس سے کہا کہ ان کو ایسا کرنے کے احکام لند ن سے ملے ہیں۔برطانیہ چھوڑنے کے ۲۴ گھنٹے بعد وہ واپس ’ہیتھرو ‘پہنچ گیا اور اس کو دوبارہ قید کردیا گیا۔
’’مجھے اپنا سامان اُٹھانے کے بعد ایک تاریک کمرے میں لے جایا گیا۔رچرڈ ایک ’کوسٹا بیگ ‘میں کھانا اُٹھائے آیا اور بتایا کہ یہ کھانا میرے لیے ہے یہ‘میرا ناشتہ ہے‘‘۔
اس نے بتایا کہ ہم نے ہی تمہیں واپس بھجوایا کیوں کہ تم ایک مشتبہ دہشت گرد ہو۔ شمالی لند ن میں واقع کینٹیشن ٹائون کمیونٹی آرگنائزیشن کا نوجوان رضاکار لیڈر ہاشی الزام لگاتا ہے کہ اہلکاروں نے اس پر واضح کردیا تھا کہ اس کی مشتبہ’ حیثیت‘ اور سفری رکاوٹیں اس وقت ہٹادی جائیں گی اگر وہ ایم آئی فائیو کے ساتھ تعاون پر راضی ہوجائے۔’’میں نے انہیں بتایا کہ یہ کھلی بلیک میلنگ ہے‘‘۔ ایجنٹ نے کہا ’’نہیں یہ چیز تمہاری معصومیت ثابت کرے گی۔ ہمارے ساتھ تعاون سے ہمیں پتا چلے گا کہ تم قصوروار نہیں ہو‘‘۔
’’اس (ایجنٹ )نے کہا کہ میں اب جائوں گا لیکن کسی اور وقت تم سے ملنا چاہوں گا‘ ترجیحی طور پر بینک ہالیڈے کے بعد۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا ’میں اس کے بعد تجھ سے ملنا یا تمہیں سننا نہیں چاہتا۔ تم نے میری چھٹیاں برباد کر دی ہیں‘ میری فیملی کو پریشان کردیا ہے‘ اور تم نے قریب قریب صومالیہ میں میری بیمار دادی کو ہارٹ اٹیک کرا دیا تھا‘‘۔
ادیدارس علمی :’’ایم آئی فائیو نے میری فیملی کو دھمکی دی‘‘
شمالی لندن سے تعلق رکھنے والا ۲۳سالہ سنیما ورکر جب اپنی حاملہ بیوی کے ساتھ شکاگو کے اوہیر (O’Hare) ائیر پورٹ پر پہنچا تو دونوں کو الگ کیا گیا‘ان سے پوچھ گچھ کی گئی اور واپس برطانیہ ڈی پورٹ کردیا گیا۔
تین دن بعد علمی کو اس کے موبائل فون پر کال کرکے اس کو سفری دستاویزات میں مسئلہ پر بحث کے لیے’ شئیرنگ کراس‘ پولیس اسٹیشن حاضر ہونے کا کہا گیا۔ اس نے بتایا میں ایک آدمی اور ایک عورت سے ملا۔عورت نے اپنا نام کیتھرائن بتایااور کہا کہ وہ ایم آئی فائیو کے لیے کام کرتی ہے۔مجھے نہیں پتا تھا کہ ایم آئی فائیو کیا ہے‘‘۔
علمی نے ڈھائی گھنٹے تک سوالات کا سامنا کیا۔ ’’مجھے لگا کہ مجھے ایم آئی فائیو کے لیے کام کرنے کے لیے ورغلایا جارہا ہے‘‘ایجنٹوں کے رابطے یہاں اختتام پذیر نہیںہوئے بلکہ علمی کے دعویٰ کے مطابق آنے والے ہفتوں میں کیتھرائن نے اسے درجنوں فون کرکے ہراساں کیا۔’’ وہ باقاعدگی کے ساتھ میری ماں کے گھر کال کر کے مجھ سے بات کرنے کا کہتی تھی۔ اس کے علاوہ میرے موبائل پر مستقل کال کرتی تھی‘‘۔ ایسی پریشان کن فون کالز میں ایک دفعہ اس نے صبح کے ۷ بجے فون کرکے اس کو بچی کی پیدائش کی مبارک باد دی۔ حالانکہ اس کی بیوی ابھی سات مہینے کی حاملہ تھی اور جوڑے نے واضح الفاظ میں اسپتال والوں سے کہا تھا کہ وہ اپنی ہونے والی اولاد کی جنس معلوم نہیں کرنا چاہتے۔
’’مجھے ابھی تک یاد ہے کہ کیتھرائن مجھے یہ کہہ کر دھمکانے کی کوشش کرتی تھی کہ ’’ہم آخری دفعہ نہیں مل رہے ہیں‘‘ اور پھر ہماری آخری گفتگو میں اس نے کہا ’’اگر تم اپنی فیملی کے ساتھ کچھ برا ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے تو تم تعان کروگے‘‘۔
محمد نور: ’’میں نے فوراً کہا کہ ان کو یہ خیال کہاں سے آیا ہے؟‘‘
۲۵ سالہ محمد نور کا ایم آئی فائیو سے پہلی دفعہ سامنا اس وقت ہوا جب اگست ۲۰۰۸ء کی ایک صبح اس کے گھر کی گھنٹی بجی۔شمالی لندن کے علاقے کیمڈن میں اپنے گھر کے دروازے کے سوراخ میں جھانک کر دیکھا تو باہر سرخ تھیلا پکڑے ڈاکیے کی بھیس میں ایک آدمی کھڑا تھا۔ جب نو ر نے دروازہ کھولا تو آدمی نے اُسے بتایا کہ وہ دراصل پولیس والا ہے اور وہ اوراس کا ساتھی اس سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ جب وہ بیٹھے تو دوسرے آدمی نے اپنا کارڈ پیش کیا اور بتایا کہ وہ ایم آئی فائیو کے لیے کام کرتا ہے۔
ایجنٹ نے نور کو بتایا کہ انہیں شک ہے کہ وہ اسلامی انتہاپسند ہے۔ ’’ میں نے فور اً کہا کہ ان کو یہ خیال کہا ں سے آیا ہے؟‘‘ ایجنٹ نے جواب دیا ’’مجھے اپنا ذریعہ بتانے کی اجازت نہیں ہے، میں نے انہیں بتایا کہ میں نے کبھی کوئی انتہا پسندی کا کام نہیں کیا‘‘۔ نور نے دعویٰ کیاکہ افسر نے اسے دھمکی دی ۔’’ ایم آئی فائیو کے ایجنٹ نے کہا ’محمد اگر تم ہمارے لیے کام نہیں کرتے تو ہم ہر اس ملک کو‘جس کا تم سفر کرنے جائوگے بتادیں گے کہ تم مشتبہ دہشت گرد ہو‘‘۔
انہوں نے اسے بتایا کہ وہ کہاں کہاں سفر پر جانا چاہتا ہے۔ ایجنٹ نے اسے بتا یا کہ وہ اس سے اگلے تین دنوں میں پھر دوبارہ رابطہ کرے گا۔نور نے جواب دیا’’مجھے تم سے کبھی بھی ملنے کی کوئی دلچسپی نہیں‘‘ جب وہ جارہے تھے تو ایجنٹ نے کہا کہ کم ازکم رابطہ کاذہن میں رکھو کیوں کہ یہ تمہارے مفاد میں ہے۔
(بشکریہ: ’’دی انڈپینڈنٹ‘‘ لندن۔ ۲۱ مئی ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply