امریکی صدارتی انتخابات میں الیکٹورل کالج کس طرح کام کرتا ہے؟

امریکا میں امسال ۴ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ۱۱۹ ملین (تقریباً ۱۲ کروڑ) سے زیادہ ووٹرز نے ووٹ ڈالے، جس کے نتیجے میں ۵۳۸ نمائندے منتخب کیے گئے۔ ۱۵ دسمبر ۲۰۰۸ء کو یہ نمائندے امریکا کے ۴۴ویں صدر کا انتخاب کریں گے۔ اس مقصد کے لیے ۵۰ ریاستوں میں سے ہر ایک کے دارالحکومت میں اُس ریاست کے یہ نمائندگان جمع ہوں گے۔ جبکہ واشنگٹن ڈی سی (امریکی دارالحکومت) سے منتخب ہونے والے تین نمائندے یہاں جمع ہو کر ووٹ دیں گے۔

اس انتخابی نظام کو الیکٹورل کالج کہا جاتا ہے، جو ۱۷۸۷ء میں امریکی آئین سازوں نے وضع کیا تھا۔ دراصل اس انتخابی نظام میں وفاقی طرزِ حکومت کی عکاسی ہوتی ہے جو نہ صرف قومی حکومت اور عوام کو بلکہ ریاستوں کو بھی اختیارات تفویض کرتا ہے۔(ادارہ)


آئینی بنیاد

آئین کی دفعہ II کی شق نمبر ۱ سے اقتباس:

’’انتظامی اختیارات ریاستہائے متحدہ امریکا کے صدر کو حاصل ہوں گے۔ وہ چار سال کی مدت کے لیے اس عہدے کے لیے منتخب ہو گا۔ اس کے ساتھ اتنی ہی مدت کے لیے نائب صدر کا بھی انتخاب ہو گا۔ صدر کا انتخاب اس طرح ہو گا۔

ہر ریاست اپنی مقنّنہ کے مقرر کردہ طریقہ کار کے مطابق انتخابی نمائندے مقرر کرے گی، جن کی تعداد کانگریس میں اس ریاست کے تمام سینیٹرز اور ایوان نمائندگان میں اس کے ممبروں کی مجموعی تعداد کے برابر ہو گی۔ تاہم کسی ایسے سینیٹر، ایوان نمائندگان کے ممبر یا کسی ایسے شخص کو انتخابی نمائندہ مقرر نہیں کیا جائے گا، جس کے پاس حکومت امریکا کا کوئی نفع بخش عہدہ ہو گا‘‘۔

٭ الیکٹورل کالج کسی جگہ کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک عمل کا نام ہے۔ جو امریکی آئین کی بنیادی ساخت کے ایک حصے کے طور پر شروع ہوا۔ بانیان امریکا نے دراصل صدر کے انتخاب کے بارے میں کانگریس کے حق اور عوام کے حق کو یکجا کرتے ہوئے الیکٹورل کالج کا نظام وضع کیا تھا۔ امریکا کے عوام انتخابی نمائندوں کے لیے ووٹ دیتے ہیں اور یہ انتخابی صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ دیتے ہیں۔ نیشنل آرکائیوز وہ وفاقی سرکاری ادارہ ہے جو اس عمل کی نگرانی کرتا ہے۔

٭ ہر ریاست کو اُس کے سینیٹروں اور ایوان نمائندگان کے اس کے ممبروں کی تعداد کے برابر انتخابی نمائندوں کی تعداد دی جاتی ہے۔ ہر ریاست کے سینیٹرز کی تعداد ہمیشہ دو ہوتی ہے جبکہ ایوان نمائندگان میں کسی ریاست کے ممبروں کی تعداد اس ریاست کی آبادی کے مطابق ہوتی ہے جو ہر ۱۰ کیلیفورنیا کے انتخابی نمائندوں کی تعداد ۵۵ ہے جبکہ نارتھ ڈکوٹا جیسی کم آبادی والی ریاست کے انتخابی نمائندوں کی تعداد تین یا چار بھی ہو سکتی ہے۔

٭ الیکٹورل کالج کے نمائندوں کی تعداد اس وقت ۵۳۸ ہے۔ (یہ تعداد ایوان نمائندگان کے ۴۳۵ ممبروں، ۱۰۰ سینیٹروں اور قومی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے ۳ ممبروں کی تعداد کے برابر ہے) صدر اور نائب صدر کی کامیابی کے لیے کم از کم ۲۷۰ انتخابی نمائندوں کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

٭ امریکی آئین میں انتخابی نمائندوں کی اہلیت کے لیے بہت کم شرائط ہیں۔ آئین کی دفعہ II میں کہا گیا ہے کہ کانگریس کا کوئی ممبر یا ’’کوئی بھی ایسا شخص جو حکومت امریکا کے کسی نفع بخش عہدے پر فائز ہو‘‘ وہ انتخابی نمائندہ مقرر نہیں ہو سکتا۔

٭ انتخابی نمائندوں کو منتخب کرنے کا عمل ہر ریاست میں مختلف ہے۔ عموماً ریاست کی سیاسی پارٹیوں کے لیڈر، ریاست کی سطح پر پارٹی کے کنونشن میں یا ریاستی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے ووٹوں کے ذریعے انتخابی نمائندے نامزد کرتے ہیں۔ انتخابی نمائندے اکثر ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں پارٹی کے لیے ان کی خدمات اور وابستگی کے اعتراف کے طور پر نامزد کیا جاتا ہے۔ وہ ریاست کے منتخب اہلکار، پارٹی لیڈر یا ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جن کی صدارتی امیدوار سے وابستگی ہوتی ہے۔

٭ ہر ریاست میں عام ووٹرز انتخابی نمائندوں کو چُنتے ہیں، جنہوں نے انتخابات کے دن کسی مخصوص صدارتی امیدوار کو ووٹ دینے کا اعلان کر رکھا ہوتا ہے۔ انتخابی دن نومبر کے پہلے پیر کے بعد آنے والا منگل ہوتا ہے۔ (۲۰۰۸ء کے انتخابات کے لیے یہ دن ۴ نومبر کو ہوگا) انتخابی نمائندوں کے نام بیلٹ پر صدارتی امیدوار کے نام کے نیچے موجود ہو سکتے ہیں یا ممکن ہے نام موجود نہ ہوں۔ اس کا انحصار ہر ریاست کے مقرر کردہ طریقہ کار پر ہے۔

٭ ہر ریاست میں انتخابی نمائندے دسمبر کے دوسرے بدھ کے بعد آنے والے پہلے پیر کو اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ (۲۰۰۸ء میں یہ تاریخ ۱۵ دسمبر ہے) جس میں وہ امریکا کے صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔

٭ کسی آئینی شق یا کسی وفاقی قانون کے تحت انتخابی نمائندوں پر لازم نہیں کہ وہ اپنی متعلقہ ریاست میں عوامی ووٹوں کے مطابق ووٹ دیں۔ تاہم بعض ریاستوں کے قوانین میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی انتخابی نمائندہ ایسا ووٹ دیتا ہے جو مسترد ہو جائے تواس پر جرمانہ عائد کیا جائے یا نااہل قرار دے کر تبدیل کر دیا جائے اور اس کی جگہ دوسرا نمائندہ مقرر کیا جائے۔ امریکی سپریم کورٹ نے اس سوال پر کوئی واضح رولنگ نہیں دے رکھی کہ اگر کوئی انتخابی نمائندہ اپنے وعدے کے مطابق ووٹ نہیں دیتا یا اس کا ووٹ مسترد ہو جاتا ہے تو کیا اس کے خلاف آئین کے تحت قانونی کارروائی ہونی چاہیے یا نہیں۔ اب تک کسی انتخابی نمائندے کے خلاف اس بناء پر قانونی کارروائی نہیں ہوئی کہ اس نے وعدے کے مطابق ووٹ نہیں دیا۔

٭ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی انتخابی نمائندہ عوامی ووٹوں کی پروا نہ کرے اور اپنی پارٹی کے امیدوار کی بجائے کسی دوسرے امیدوار کے حق میں ووٹ دے۔

٭ الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی اکثریت اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ کون صدر اور کون نائب صدر ہو گا۔ صدارتی امیدوار عام انتخابات میں عوام کے جو ووٹ حاصل کرتے ہیں ان کے ذریعے فیصلہ نہیں ہوتا۔ امریکی تاریخ میں چار مرتبہ ۱۸۲۴ء، ۱۸۷۶ء، ۱۸۸۸ء اور ۲۰۰۰ء میں ایسا ہوا کہ جس امیدوار نے عوامی ووٹوں کی اکثریت حاصل کی تھی وہ الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی اکثریت حاصل نہ کر سکا اور اس طرح صدر منتخب نہ ہو سکا۔

٭ ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے لیے ۵۰ میں سے ۴۸ ریاستوں اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جو امیدوار الیکٹورل ووٹوں کی اکثریت حاصل کرے گا اس ریاست کے تمام الیکٹورل ووٹ اس کے حق میں چلے جائیں گے۔ مثال کے طور پر ریاست کیلی فورنیا کے تمام ۵۵ ووٹ، ریاست کے عوامی ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنے والے کو مل جائیں گے خواہ زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے پہلے اور دوسرے امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں کے درمیان فرق ۱ء۵۰ اور ۹ء۴۹ کا ہی کیوں نہ ہو۔ صرف نیبراسکا اور مین دو ایسی ریاستیں ہیں جو جیتنے والے کو تمام الیکٹورل ووٹ دینے کے اصول پر عمل نہیں کرتیں۔ ان دونوں ریاستوں میں الیکٹورل ووٹ امیدواروں میں تقسیم ہو سکتے ہیں اور ہر امیدوار کو متناسب تعداد میں ووٹ مل سکتے ہیں۔

٭ صدارتی انتخابات کے بعد اگلے سال جنوری میں کانگریس کا مشترکہ اجلاس ہوتا ہے جس میں الیکٹورل ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے۔

٭ اگر کوئی امیدوار الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی اکثریت حاصل نہیں کر سکتا تو اس صورت میں آئین کی ترمیم نمبر ۱۲ کے مطابق صدارتی انتخاب کا فیصلہ ایوان نمائندگان کرتا ہے۔ ایوان کثرت رائے سے صدر منتخب کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ان تین امیدواروں میں سے جنہوں نے الیکٹورل کالج کے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہوں کسی ایک کو منتخب کیا جاتا ہے۔ ایوان نمائندگان میں صدر کے انتخاب کے لیے ہر ریاست کا ایک ووٹ شمار ہوتا ہے اور اس طرح ہر ریاست کے نمائندوں کا ایک ووٹ ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی بھی نائب صدارتی امیدوار الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی اکثریت حاصل نہیں کر سکتا تو سینیٹ کثرت رائے سے نائب صدر کا انتخاب کرتا ہے اور ہر سینیٹر ان دو میں سے کسی ایک امیدوار کے حق میں ووٹ دیتا ہے، جنہوں نے سب سے زیادہ الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہوں۔

٭ ایوان نمائندگان نے دو مرتبہ صدر کا انتخاب کیا ہے۔ ایک مرتبہ ۱۸۰۰ء میں اور دوسری مرتبہ ۱۸۲۴ء میں۔ سینیٹ نے ایک مرتبہ یعنی ۱۸۳۶ء میں نائب صدر کا انتخاب کیا تھا۔

٭ ۱۷۸۸ء کے پہلے صدارتی انتخابات سے لیکر اب تک ہونے والے ۵۵ صدارتی انتخابات میں سے ۵۱ کا فیصلہ الیکٹورل کالج سسٹم نے عوام کی پسند کے مطابق دیا۔ لیکن چار مرتبہ ایسا ہوا کہ الیکٹورل کالج نے متنازعہ فیصلہ دیا۔ ان میں سے تین انتخابات میں، جو ۱۸۷۶ء، ۱۸۸۸ء اور ۲۰۰۰ء میں ہوئے تھے ایسا صدر اور نائب صدر منتخب ہوا جس نے الیکٹورل ووٹوں کی اکثریت تو حاصل کی تھی لیکن اس کے عوامی ووٹوں کی تعداد اس کے بڑے حریفوں کے مقابلے میں کم تھی۔ ۱۸۲۴ء میں کوئی بھی امیدوار الیکٹورل کالج کی اکثریت حاصل نہیں کر سکا تھا، جس کی وجہ سے صدر کا فیصلہ ایوان نمائندگان نے کیا تھا۔

(بشکریہ: ماہنامہ ’’خبرو نظر‘‘۔ اکتوبر۲۰۰۸ء۔ سفارتخانہ امریکا، شعبۂ تعلقات عامہ، اسلام آباد)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*