
پچھلی ایک دہائی سے نیٹو کا ایک اہم رکن اور یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کا خواہش مند ترکی ابھرتی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے، جو فرانس اور امریکا جیسے طاقتور ملکوں کو کھلے عام چیلنج کررہا ہے۔ نیٹو میں امریکا کے بعد دوسری بڑی فوج رکھنے والے ترکی نے کئی خطرات مول لیے ہیں۔ شام، عراق، جنوبی قفقاز، لیبیا اور مشرقی بحیرۂ روم کے علاقوں میں ترکی صورتحال کو اپنے حق میں کرنا چاہتا ہے۔ یہ طرزِ عمل ترکی کی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے، ماضی میں ترکی نے بیرونی مہم جوئی کو مکمل طور پر ترک کردیا تھا۔
جدید ترکی کی قیادت کرنے والے رجب طیب ایردوان ۲۰۰۳ء میں وزیراعظم بنے، وہ اس منصب پر ۲۰۱۴ء تک فائز رہے، جس کے بعد بطور صدر وہ ملک کی قیادت کررہے ہیں۔ ان کی قیادت میں ترک خارجہ پالیسی روایتی راستے سے ہٹ گئی، ان کی خارجہ پالیسی کی دو بنیادیں ہیں، ایک ترکی کو طاقتور بناتے ہوئے خود کو عالمی رہنما کے طور پر پیش کرنا۔ دوسرا ایک فعال خارجہ پالیسی اپناتے ہوئے اپنی حکومت کو اندرونی طور پر مستحکم رکھنا۔ ایردوان اور ان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں ۴۳ فیصد ووٹ لے کر اقتدار حاصل کیا۔ ابتدا سے ہی اے کے پی حکومت کو اسلام پسندی کی وجہ سے سکیولر اشرافیہ اور فوج نے شک و شبہ کی نظر سے دیکھا، ابتدا میں پارٹی نے انسانی حقوق اور آزادیٔ صحافت کے حوالے سے بہتری اور سول سوسائٹی کو طاقتور بنانے کے لیے متحرک کردار ادا کیا۔ تاکہ ترکی کی طاقتور فوجی اشرافیہ کے مقابلے میں یورپ اور مغرب میں زیادہ مقبولیت حاصل کی جائے۔ جمہوری راستہ اختیار کرنے کے کچھ اضافی فوائد بھی ہوئے، جس میں اسلامی تقویٰ اور جمہوری بیانیے کی آمیزش کی گئی اور بتایا گیا کہ اسلام اور جمہوریت ساتھ چل سکتے ہیں، جس نے مشرق وسطیٰ کے شہریوں کو اپنی گرفت میں لے لیا، ترکی کو ایسی مقبولیت پہلے کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ ایردوان اکثر ورلڈ آرڈر کو ناانصافی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف متحرک رہے ہیں، ان کی خارجہ پالیسی کے گرو احمد داؤد اوغلو، جن کو گزشتہ برس پارٹی سے نکال دیا گیا، نے ’’ترکی کو مرکزی طاقت بنانے‘‘ کا خیال پیش کیا تھا، جس کا مقصد اس خطے اور اس سے آگے ایک بااثر کردار ادا کرنا تھا۔ جس کے بعد ایردوان نے کہنا شروع کردیا کہ ’’دنیا پانچ بڑوں کے علاوہ بھی ہے‘‘۔ ان کا اشارہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کی جانب تھا۔ جس کے بعد سلامتی کونسل کے مستقل ارکان پر تنقید کرنے والے ایردوان مسلم دنیا کی قیادت کے لیے خود کو پیش کرنے لگے۔
ترکی کی خارجہ پالیسی میں اصل تبدیلیاں ۲۰۱۰ء کے بعد شروع ہوئیں، جب ملک کے اعلیٰ فوجی اہلکاروں نے اے کے پارٹی کے عبداللہ گل کو صدر بننے سے روکنے کی اعلانیہ کوششیں کیں اور ناکام رہے، جس کے بعد ترک فوج کا سیاسی کردار ختم ہوکر رہ گیا۔ ایردوان کو اداروں کی تشکیل نو کے ذریعے اقتدار مستحکم کرنے کا موقع مل گیا۔ جس کے بعد ایردوان نے رفتہ رفتہ تمام طاقت کا سرچشمہ خود کو بنایا، ۲۰۱۷ء میں ریفرنڈم کے ذریعہ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام نافذ کردیا گیا۔ پریس، یونیورسٹیوں، سول سوسائٹی کو مکمل طور پر بے اختیار کرکے حزب اختلاف کی آواز کو کچل دیا گیا۔ اپنے فوجی اور سیاسی مخالفین کی آواز دبانے کے دوران ایردوان خارجہ پالیسی کو نئی شکل بھی دے رہے تھے۔ اس کا پہلا مظاہرہ ۲۰۰۹ء میں دیکھنے کو ملا، جب ایردوان نے ورلڈ اکنامک فورم کے پینل ڈسکشن کے دوران اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیریز کی سخت ملامت کی اور غصے میں اسٹیج سے اٹھ کر چلے گئے، اگلے برس ایردوان نے برازیل کے ساتھ مل کر ایران کے ساتھ جوہری پروگرام پر معاہدہ کرنے کی کوشش کی، جس پر اس وقت صدر اوباما نے سخت غصے کا اظہار کیا، کیوں کہ وہ ایران پر نئی پابندیاں لگانا چاہتے تھے۔ اگلے برس ایردوان نے ترکی کو صدر بشارالاسد کے خلاف جہادیوں کی حمایت میں شام کی خانہ جنگی میں پھنسا دیا۔ داعش کے خلاف جنگ میں ترکی اور امریکاکے درمیان اختلاف رہے، کیوں کہ ایردوان نے اوباما کی جانب سے عسکریت پسندوں سے لڑنے کی درخواست کو ماننے سے انکار کردیا تھا، حالانکہ داعش کے کئی عسکریت پسند ترکی سے گزر کر شام اور عراق جارہے تھے، یہاں تک کہ ایردوان نے گزشتہ سال شمال مشرقی شام میں کرد فوج پر حملہ کردیا، اسی کرد فوج نے امریکا کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف جنگ کی تھی۔ حال میں ایردوان بہت تیزی کے ساتھ اپنی پالیسیاں بدلنے لگے ہیں۔ لیبیا میں ترک ڈرونز اور فوجی مشیران، انقرہ کے حمایت یافتہ ہزاروں شامی جنگجوؤں نے طرابلس حکومت کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جس کے بعدترکی آذربائیجان کی جانب سے نگورنو کاراباخ پر قبضے کی منصوبہ بندی اور مدد کرنے میں شامل تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے لیبیا میں سب کچھ ہوا۔ ترکی کے ڈرونز اور شام سے لائے گئے جنگجوؤں نے آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین نگورنو کاراباخ پر لڑائی میں اہم کردار ادا کیا۔
مشرقی بحیرۂ روم میں ایردوان نے وسائل کی تلاش میں یونان اور قبرص کے اکنامک زونز میں ترک بحریہ کے تحقیقی جہاز بھیج کر ان کی خودمختاری کو چیلنج کیا۔ یہاں تک کہ ایردوان کو یورپی دباؤ پر پابندیوں سے بچنے کے لیے یونان کے ساتھ مذاکرات کی حامی بھرنی پڑی۔ جس کے بعد انہوں نے مغرب کے اتفاق رائے کو رد کرتے ہوئے بحیرۂ ایجیئن میں تحقیقی جہازوں کی واپسی کا حکم دے کر جارحانہ حکمت عملی اختیار کی۔ اپنی دشمنی کی تاریخ کے باوجود ایردوان نے فرض کرلیا کہ نیٹو کے دیگر ممبران بحران کے خاتمے کی کوششیں کریں گے اور اس دوران وہ بحیرہ روم میں اپنی پوزیشن کو مستحکم بناکر موجودہ صورتحال کو تبدیل کردیں گے۔ ان تمام معاملات میں ایردوان کو ترکی کے اندر بھرپور حمایت حاصل ہے، وہ ترک قوم پرستی کو فروغ دے کر اپوزیشن کو بے اثر کرنے میں کامیاب رہے، مقامی میڈیا بڑے پیمانے پر ان کی کامیابیوں کی تعریف کرتا ہے، ترکی میں ایک بار پھر طاقتور بن کر ابھرنے کا بیانیہ پھیل چکا ہے۔ ترک حکومت ویڈیوز بناکر عثمانی سلطنت کے دور کی یاد تازہ کرنا چاہتی ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے مطابق ترکی ماضی کے خیالی تصورات میں گھرا ہوا ہے۔
ایردوان کی خارجہ پالیسی کاسب سے حیرت انگیز موڑ امریکا اور نیٹو کی زبردست مخالفت کے باوجود روس سے ایس ۴۰۰ اینٹی ایئرکرافٹ میزائل خریدنا تھا، نیٹو اور امریکا نے باربار متنبہ کیا کہ اس خریداری سے روسی ٹیکنیشن کو امریکی ساختہ ایف ۳۵ جنگی طیاروں کی جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔ پینٹاگون اور کانگریس نے بار بار کہا کہ ترکی ایف ۳۵ طیاروں تک رسائی اور کثیر القومی کنسورشیم میں اپنی جگہ کھو دے گا، لیکن پھر بھی ایردوان نے ڈھائی ارب ڈالر کے میزائل نظام کی خریداری کی اور ایف ۳۵ پروگرام سے آئندہ ہونے والی اربوں کی آمدنی چھوڑ دی۔ جبکہ ایس ۴۰۰ نظام ابھی فعال نہیں ہوسکا ہے۔ حال ہی میں ترکی نے پہلی بار میزائل سسٹم کا تجربہ کرکے کھلے عام واشنگٹن کو چیلنج کیا اور امریکی پابندیوں کا خطرہ مول لیا۔ ایس ۴۰۰ کی خریداری نے ایردوان کے طرزِ عمل کو کھول کررکھ دیا، وہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے خطرہ مول لیتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ وہ نیٹو میں ترکی کے اہم کردار کی وجہ سے بچ جائیں گے اور مقابل فریق بھی انتہائی قدم اٹھانے سے گریز کرتا ہے۔ اسی لیے ایردوان اب تک کامیاب ہوتے آئے ہیں۔ دوسری جانب ایردوان کو ترک میڈیا اپنے قومی مفادات کے لیے لڑنے والے رہنما کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس وقت جب ترک معیشت بدانتظامی اور کورونا کی وبا کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہے، ایردوان کو اپنی بقا یقینی بنانے کا نیا موقع مل گیا ہے۔ ترکی کی خارجہ پالیسی کو مقامی سیاست کے لیے استعمال کرنا غلط ہے۔ ایردوان نے خوفناک حد تک بین الاقوامی سطح پر بدنامی حاصل کرلی ہے، وہ ایک ایسے رہنما بن گئے، جس کی خواہشات اور مطالبات پر نظر رکھنی ہوگی۔ یہاں تک کہ ان کا موازنہ مغرب میں روس کے پوتن اور چین کے ژی جن پنگ کے ساتھ کیا جانے لگا ہے۔ یہ تینوں دنیا میں آمریت کی مثال بن کر ابھر ے ہیں۔
ایردوان ضرورت پڑنے پر حساب کتاب اور بہتر طور پر کام کرتے ہیں، لیکن مغربی رہنماؤں کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں، وہ اپنے گھر میں خوش آمدیوں میں گھرے ہیں، جہاں کوئی ان کے خلاف بات نہیں کرسکتا۔ وہ اس وقت تک اس راہ پر چلتے رہیں گے جب تک انہیں روک نہیں دیا جاتا۔ اگر پابندیاں اور رکاوٹیں ان کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرتی ہیں تو وہ کوئی نیا محاذ کھول لیتے ہیں، کیوں کہ وہ ایک مقبول رہنما رہنا چاہتے ہیں، وہ ہمیشہ لڑائی میں ایک قدم آگے رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حریفوں اور اتحادیوں کو پیچھے رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“How Erdogan muscled Turkey to the center of the World stage”. (“cfr.org”. October 30, 2020)
Leave a Reply