
ایک بار پھر رجب طیب ایردوان نے ترکی کی سیاست میں اپنی بھرپور صلاحیت اور مہارت کا لوہا منوالیا ہے۔ حالیہ انتخابات میں ان کی بھرپور واپسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ترک سیاست پر ان کے نقوش کتنے گہرے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ایردوان کی بھرپور کامیابی ترکی سمیت پورے خطے کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔
یکم نومبر ۲۰۱۵ء کو ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے عام انتخابات میں ایک بار پھر یہ بات ثابت کردی کہ ترک عوام کا اس پر اعتماد غیر متزلزل ہے۔ بیشتر سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا کہ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) ۷؍ جون کے عام انتخابات سے بھی بری کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ تب اے کے پارٹی نے ۴۱ فیصد ووٹ لیے تھے۔ اس بار اے کے پارٹی نے ۴ء۴۹ فیصد ووٹ حاصل کرکے مخالفین ہی کو نہیں بلکہ بہت سے اپنوں کو بھی شدید حیرت سے دوچار کردیا۔ ۷ جون کے عام انتخابات کے نتیجے میں معلّق پارلیمان معرض وجود میں آئی تھی۔ لازم ہوگیا تھا کہ دوبارہ انتخابات ہوں اور کوئی ایک جماعت ایسی واضح اکثریت کے ساتھ ابھرے جسے حکومت بنانے میں دوسروں کی محتاجی کا سامنا نہ ہو۔ ایسی صورت ہی میں ملک کو بہتر طور پر چلایا جاسکتا ہے۔ ۲۰۱۱ء کے عام انتخابات میں اے کے پارٹی نے ۸ء۴۹ فیصد ووٹ لیے تھے۔ وہ ریکارڈ تو خیر نہ ٹوٹ سکا مگر یہ بات ضرور قابل غور اور بہت اہم ہے کہ اے کے پارٹی نے محض پانچ ماہ میں اپنا ووٹ بینک غیر معمولی حد تک بڑھاکر دکھا دیا۔
دوسری طرف حزب اختلاف کی مرکزی جماعت ری پبلکن پارٹی یا سی ایچ پی کی پوزیشن میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ ۷ جون کے عام انتخابات میں اس نے جو کچھ کر دکھایا گیا تھا، یکم نومبر کے عام انتخابات میں بھی کارکردگی کم و بیش ویسی ہی رہی۔ دو قوم پرست جماعتیں نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی یا ایم ایچ پی (ترک قوم پرست) اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا ایچ ڈی پی (کرد قوم پرست) شدید عبرت ناک شکست سے دوچار ہوئیں۔ خوش قسمتی صرف یہ رہی کہ دونوں نے ۱۰؍فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے اور پارلیمان میں ان کی نمائندگی بہر حال ہوتی رہے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کے اے کے پارٹی کو غیر معمولی کامیابی ملی ہے اور اس کی کم ہوتی ہوئی مقبولیت دوبارہ بلندی کی طرف رواں ہے۔ اور یہی سبب ہے کہ انتخابی فتح کے حوالے سے اس کی حکمت عملی اور مستقبل کی تیاری کا تجزیہ لازم ہوگیا ہے۔ اے کے پارٹی کی یہ شاندار فتح قومی سیاست میں اس کا مقام نئے سرے سے متعین کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی اور علاقائی سطح پر دور رس اثرات کی حامل بھی ہوگی۔ ایسے میں یہ دیکھنا ناگزیر ہے کہ اب اے کے پارٹی کیا کرے گی اور اس کی کارکردگی قومی و علاقائی معاملات پر کس حد تک اثر انداز ہوگی۔ ہم مجموعی اعتبار ہی سے تجزیہ کریں گے کیونکہ بہت سے عوامل پر غیر معمولی توجہ مرکوز کرنا لازم ہوگیا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ حقیقت ذہن نشین رکھی جانی چاہیے کہ اے کے پارٹی اب تک ترک سیاست میں سب سے طاقتور عامل ہے۔ اور اپنے ووٹروں کو متحرک کرنے کی اس کی قوت بے مثال ہے۔ ۷؍جون کے عام انتخابات میں اس کی کارکردگی کا کمزور پڑجانا اور واضح اکثریت سے محروم ہوجانا بنیادی طور پر اس وجہ سے تھا کہ اس کی صفوں میں انتشار تھا۔ اس نے انتخابی مہم کے حوالے سے چند بنیادی نکات کو نظر انداز کردیا تھا۔ جب انتخابات میں کارکردگی خراب ہوئی تو پارٹی نے اپنا جائزہ لیا۔ اپنی خرابیوں اور خامیوں پر نظر کی۔ جب اپنے گریبان میں جھانکا تو بہت سی خامیاں دکھائی دیں اور ان تمام خامیوں کو دور کرنے پر توجہ بھی دی گئی۔ گزشتہ عام انتخابات کے دوران جو کوتاہیاں ہوگئی تھیں ان کا جائزہ لے کر انہیں دہرانے سے بچنے کی حکمت عملی تیار کی گئی۔ اور اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اب کے اے کے پارٹی نے بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ جوش و جذبہ قابل دید تھا۔ کسی بھی کامیاب انتخابی مہم کے لیے جو کچھ لازم ہوا کرتا ہے، وہ سب کچھ اے کے پارٹی کی انتخابی مہم میں تھا۔
اے کے پارٹی کی انتخابی مہم کے حوالے سے دو اہم نکات کو ذہن نشین رکھنا ہوگا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اس نے اپنے انتخابی وعدوں پر نظرثانی کی اور بالخصوص معیشت کے معاملات پر کچھ بھی بولنے سے پہلے بہت سے امور پر غور کیا۔ اور دوسرے یہ کہ اس نے امیدواروں کی فہرست پر بھی نظر ثانی کی۔ جنوب مشرقی ترکی میں جہاں کرد امیدواروں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا وہاں اے کے پارٹی نے امیدوار تبدیل کیے تاکہ دوبارہ شکست سے بچا جاسکے۔
حالیہ انتخابات میں اے کے پارٹی کی شاندار فتح کا تجزیہ کرتے وقت یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ۷ جون کو معلّق پارلیمان معرض وجود میں آنے کے بعد اے کے پارٹی کی طرف سے یکم نومبر کو دوبارہ انتخابات کرنے کا اعلان انتہائی غیر معمولی اقدام تھا۔ اس میں پوزیشن مزید کمزور ہوجانے کا خطرہ بھی تھا۔ ایک اعتبار سے یہ عام انتخابات اے کے پارٹی کے وجود کے لیے ریفرینڈم کا درجہ رکھتے تھے۔ پوری کی پوری انتخابی مہم ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کے اصول کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی۔ اے کے پارٹی نے انتخابی مہم کا مرکزی نعرہ بھی ایسا منفرد تخلیق کیا کہ عام ووٹر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نعرے کا مفہوم یہ تھا کہ یہ نہ تو ہماری بات ہے نہ آپ کی، بلکہ ترکی کا معاملہ ہے! اس ایک نعرے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس بار اے کے پارٹی نے کس چیز کو ترجیح دی اور عوام نے بھی اس کی بات کو کس قدر سنجیدگی سے لیا۔
اے کے پارٹی کو منہ دینے والی سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم چلاتے وقت جس بات کو یکسر نظر انداز کردیا، وہ یہی تھی کہ عام ترک باشندے کو اب کوئی نئی بات چاہیے، جو اس میں نیا تحرک پیدا کرے۔ اس بار ووٹروں کو متحرک کرنا بہت ضروری تھا۔ محض پانچ ماہ قبل پولنگ میں حصہ لینے والوں کو ایک بار پھر پولنگ بوتھ تک لانا آسان نہ تھا۔
یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ عالمی سطح پر اے کے پارٹی کے بارے میں قدرے منفی تاثر پایا جارہا تھا۔ اس منفی تاثر کی موجودگی میں انتخابی کارکردگی بہتر بنانا پارٹی کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا۔ خطے کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے لازم ہوگیا تھا کہ اے کے پارٹی اپنے بارے میں پھیلے ہوئے منفی تاثر کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کرتی۔ اپوزیشن کو یقین تھا کہ اس بار نتائج اے کے پارٹی کی مقبولیت کے مزید گرنے کا اشارا دے رہے ہوں گے۔ یعنی یہ کہ ایک بار پھر معلّق پارلیمان معرض وجود میں آئے گی، جس میں اے کے پارٹی مطلوبہ ۲۷۶ سے کہیں کم نشستیں حاصل کرے گی۔
یکم نومبر کے عام انتخابات نے مرکز اور دائیں بازو کی حمایت کرنے والے ووٹروں کی طرز فکر کے حوالے سے چند پہلو واضح کیے ہیں۔ انتخابی نتائج سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ووٹرز اب عالمی رجحانات اور بیرونی دباؤ کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ ووٹ ڈالتے وقت ملکی اور زمینی حقائق کو ذہن نشین رکھتے ہیں۔ وہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کی جمہوریت کے خواص کو خاطر میں لانے کے لیے بھی تیار نہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ رہنا انہیں ترکی میں ہے، اس لیے وہی فیصلہ کرنا چاہیے جو ترکی کے حق میں جاتا ہو۔ محض خوش گمانی یا خوش فہمی کی بنیاد پر کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ترکی کے ووٹر ترقی یافتہ ممالک میں پائی جانے والی جمہوری اقدار (بالخصوص اظہار رائے کی آزادی) کو گلے لگانے کے لیے تیار نہیں یا ان اقدار کو اہم نہیں گردانتے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں تمام افراد کو اپنانے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ ترکی کے مرکز پسند اور دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ووٹر سمجھ چکے ہیں کہ دنیا بھر کے جمہوری رجحانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھی انہیں ووٹ تو اپنے ملک کو چلانے کے لیے دینا ہے، اس لیے صرف انہیں اقتدار میں لایا جائے جو ملک کو چلانے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں اور اس معاملے میں قابل رشک حد تک سنجیدہ بھی ہیں۔ ترک ووٹروں نے یہ بتایا ہے کہ دنیا بھر کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے بھی اور جمہوری اقدار کو ذہن نشین رکھتے ہوئے بھی فیصلہ اپنے حالات کی روشنی میں کرنا چاہیے۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں عوام کے لیے وہی طرز فکر بہتر ہے، جس کا مظاہرہ ترک ووٹروں نے کیا ہے یعنی اپنے زمینی حقائق کی روشنی میں سوچنا اور فیصلہ کرنا تاکہ مطلوبہ نتائج کا حصول زیادہ مشکل ثابت نہ ہو۔ محض خواہشات یا تاثر کے تابع ہوکر ووٹ ڈالنے سے جمہوریت توانا نہیں ہوتی۔
ترکی کے حالیہ انتخابات سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ انفرادی سطح پر اظہار رائے کی آزادی اور میڈیا کے آزاد ہونے سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ملک معاشی طور پر مستحکم ہو۔ انتخابات میں معیشت کو بنیادی عامل کی حیثیت سے سامنے آنا چاہیے۔ ترک ووٹروں نے کسی بھی دوسری چیز کے مقابلے میں معیشت کو زیادہ اہمیت دے کر یہ ثابت کردیا کہ وہ زمینی حقائق میں بھی سب سے اہم حقیقت کو کسی طور نظر انداز کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سیاسی امور کے ماہرین اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ جمہوریت کی ترقی یعنی جمہوری اقدار کے فروغ میں معاشی ترقی انتہائی بنیادی عامل نہیں مگر ترک ووٹروں نے جس رجحان کا اظہار کیا ہے وہ کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا بھر میں انتخابی مہم کے دوران معاشی امور کو بھی بہت عمدگی سے پیش کیا جاتا ہے اور ووٹروں کو خوش حالی کی نوید سناکر اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محض معاشی امور کے ذریعے جمہوریت کو پروان نہیں چڑھایا جاسکتا مگر یہ بات بھی کوئی کیسے نظر انداز کرسکتا ہے کہ جمہوریت عوام کی رائے کا نام ہے اور عوام کو سب سے زیادہ فکر اپنا معیار زندگی بلند کرنے کی ہوتی ہے۔ یہ عین فطری امر ہے۔
ترک ووٹروں نے جو کچھ کیا ہے وہ سیاسی امور کے ماہرین کو سوچنے کے لیے بہت کچھ فراہم کرتا ہے۔ اس نکتے پر غور کیوں نہ کیا جائے کہ ترکی میں ۷ جون کے عام انتخابات میں جو نتائج سامنے آئے انہوں نے غیر یقینی صورت حال کو جنم دیا۔ معلّق پارلیمنٹ میں کوئی بھی ڈھنگ کا کام نہیں ہو پاتا۔ یہ بات ترک ووٹروں کے ذہن میں تھی۔ انہوں نے دیکھا تھا کہ تین مرتبہ اقتدار ملنے پر اے کے پارٹی نے ملک کو غیر معمولی استحکام سے ہمکنار کیا۔ اگر پارلیمان معلّق رہتی تو ۱۳؍برس کی محنت ضائع ہو جاتی۔ یہی سبب ہے کہ یکم نومبر کے عام انتخابات میں ترک ووٹروں نے مثالی سیاسی بصیرت اور بالغ نظری کا مظاہرہ کیا اور اے کے پارٹی کو واضح اکثریت سے ہمکنار کیا تاکہ وہ مستحکم حکومت تشکیل دے اور ملک کو مزید استحکام اور خوش حالی کی راہ پر ڈالے۔ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ترک ووٹروں نے دیگر بہت سے عوامل کو بھی ذہن نشین رکھا۔ کرد باغی بھی خاصے جارحانہ موڈ میں دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف شام کی صورت حال بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ ایسے میں ترکی میں کمزور حکومت ملک کے مفادات کو کسی بھی طور محفوظ نہیں رکھ سکتی۔ ووٹروں کے لیے یہ بات بہت اہم تھی کہ حکومت مضبوط ہو تاکہ علاقائی اور عالمی سطح پر ڈٹ کر بات کرسکے۔
یکم نومبر کے عام انتخابات کے حوالے سے یہ نکتہ بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اے کے پارٹی نے چند ایک مقامات پر نقصان اٹھانے کے باوجود کرد ووٹروں کو بھی اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ ۷ جون کے انتخابات میں جو نقصان ہوا تھا اس کا ازالہ یکم نومبر کو ہوگیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کرد نواز ایچ ڈی پی کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ وہ کردوں کی بات کرتی ہے مگر ووٹر اس کی بات سننے کے لیے زیادہ تیار نہیں۔ ۷ جون کے عام انتخابات کے بعد ایچ ڈی پی اور ایم ایچ پی نے جو فاش غلطیاں کی تھیں ان کا فائدہ اے کے پارٹی کو پہنچ گیا۔ معلّق پارلیمان معرض وجود میں آنے کے بعد ان دونوں جماعتوں نے یہ تاثر دیا کہ وہ معلّق پارلیمان کے معرض وجود میں آنے سے خوش یا مطمئن ہیں۔ ووٹروں کو یہ بات پسند نہ آئی۔ ایم ایچ پی نے معاملات کو سمجھنے میں فاش غلطی کی۔ وہ ہم آہنگی کی بات کرنے کو تیار نہ تھی۔ اس کے بیانات سے ووٹروں کو صاف اندازہ ہوگیا کہ وہ ملک میں ہم آہنگی کو فروغ دینے سے کہیں بڑھ کر محض محاذ آرائی کو پروان چڑھانا چاہتی ہے۔ ترک ووٹر چاہتے تھے کہ ملک میں ہم آہنگی ہو اور ایسی مضبوط حکومت ابھرے جو قومی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرسکے۔ علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں لازم تھا کہ ترک حکومت مضبوط ہو۔ مضبوط صدر یا وزیر اعظم ہی بیرون ملک زیادہ ڈٹ کر بات کرسکتا ہے۔ عالمی اداروں میں بھی ترکی کی بات اسی وقت سنی جاسکتی تھی جب حکومت مضبوط ہوتی۔ ایم ایچ پی نے جو لہجہ اپنایا وہ ووٹروں کو شکوک میں مبتلا اور خوفزدہ کرنے کے لیے کافی تھا۔
ایچ ڈی پی کی غلطیاں زیادہ واضح تھیں اور کوئی بھی انہیں دیکھ سکتا تھا۔ پارٹی کی قیادت نے پی کے کے کی طرف سے ابھرتے ہوئے دہشت گردی کے خطرے کو بھانپنے میں بھی غلطی کی اور اس حوالے سے اس کا ردعمل نیم دلانہ تھا۔ یہ بات ووٹروں کو بری لگی۔ وہ چاہتے تھے کہ کردوں کی بات کرنے والی کوئی بھی جماعت دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کی بات نہ کرے۔ پرامن رہ کر حقوق کی بات کی جاسکتی ہے۔ یہ نکتہ ترک ووٹروں کی نظر سے اوجھل نہیں رہا۔ کرد نواز پارٹی پی کے کے میں اختلافات تیزی سے ابھرے۔ شام کی صورت حال کو ایک بہترین یا سنہرے موقع کے طور پر دیکھا گیا۔ سچ یہ ہے کہ صدر ایردوان کرد اشو کو ختم کرنے اور امن بحال کرنے کے حوالے سے اب تک اپنے عزم پر قائم ہیں۔ ان کی نیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ ترک ووٹروں نے یہ بات پوری شدت سے محسوس کی کہ رجب طیب ایردوان تو امن کی بات کر رہے ہیں مگر کردوں میں اس حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں اور وہ اپنے مطالبات ترک کرنے کے لیے کسی بھی طور تیار نہیں۔ بعض مطالبات غیر منطقی بھی ہیں۔ اگر وہ اپنے موقف میں لچک پیدا کرتے تو ووٹر بھی ان کے بارے میں سوچتے۔ ایچ ڈی پی نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کردوں کے حوالے سے نیا قضیہ صرف رجب طیب ایردوان کا پیدا کردہ ہے۔ یہ بات ووٹروں کو پسند نہ آئی یعنی پورا معاملہ بیک فائر کرگیا۔ اس کے نتیجے میں ووٹر ایچ ڈی پی سے ایسے متنفر ہوئے کہ انہوں نے اے کے پارٹی کو اپنی بھرپور حمایت سے نواز دیا۔ ترک اور کرد دونوں ہی ووٹر ایسی کوئی بھی بات سننے کو تیار نہیں جو یک طرفہ نوعیت کی ہے اور جس میں غیر منطقی انداز سے بڑھک ماری گئی ہو۔ انتخابی وعدے وعیدیں بھی کسی نہ کسی دلیل یا منطق کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ اگر ہوا میں تیر چلایا جائے تو کچھ بھی حاصل نہیں ہو پاتا۔ یہ بات اب ایچ ڈی پی اور ایم ایچ پی دونوں ہی کی سمجھ میں اچھی طرح آگئی ہوگی۔ کرد ووٹر اپنے حقوق کی بات ضرور کرتے ہیں مگر وہ کسی بھی طور اسلامی اقدار سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ اگر انہوں نے اسلامی اقدار کے خلاف کام کرنے والی جماعتوں کو ووٹ دیا تو ان کی اپنی شناخت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرد ووٹر بھی اے کے پارٹی کی طرف چلے گئے۔ وہ جانتے تھے کہ کوئی بھی جماعت تنہا کچھ نہیں کرسکتی اور کوئی چھوٹی جماعت تو خیر کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہے ہی نہیں۔ وہ قوم پرستی سے بھی نجات چاہتے ہیں۔ اب تک قوم پرستوں نے جو کچھ کیا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں جس سے کرد ووٹر مطمئن ہوں اور انہیں یہ یقین ہو کہ اب ملک میں ان کے لیے امکانات بڑھیں گے۔
اے کے پارٹی کو جو بھرپور کامیابی نصیب ہوئی ہے، وہ یقینی طور پر بہت اہم ہے اور اس فتح کا جشن منایا جانا چاہیے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اب اے کے پارٹی بھی دو راہے پر کھڑی ہے۔ اسے ثابت کرنا ہوگا کہ اقتدار کے تسلسل کے ساتھ ساتھ اس کی پالیسیوں میں بھی تسلسل ہے، یعنی وہ جو بھی عزائم رکھتی تھی ان پر قائم اور کاربند ہے۔ جو وعدے اس نے عوام سے کر رکھے ہیں انہیں ہر حال میں پورا کرنا ہوگا۔ اپنی صفوں میں انتشار کو روکنا اے کے پارٹی کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ خاصی طویل مدت سے اقتدار میں رہنے پر کوئی بھی جماعت جوش و خروش سے محروم ہوجاتی ہے۔ اے کے پارٹی کو ثابت کرنا ہے کہ عوام نے ایک بار پھر اس پر اعتماد کا اظہار کرکے کوئی غلطی نہیں کی۔ ملک کی تعمیر و ترقی اور خوش حالی یقینی بنائے رکھنے کے لیے اے کے پارٹی کو ابھی بہت کچھ کرکے دکھانا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر پائے گی تو اس پر دباؤ بڑھتا جائے گا، اس کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا اور وہ بہتر کارکردگی یقینی بنانے کے معاملے میں کامیاب نہ ہو پائے گی۔
اے کے پارٹی ۱۳ سال سے اقتدار میں ہے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں کسی بھی ایک جماعت کا اتنی طویل مدت تک اقتدار میں رہنا بہت عجیب ہے، اور وہ بھی جمہوری معاشرے میں۔ اے کے پارٹی کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنی جوش و جذبے کو برقرار رکھنے کا ہے۔ اگر وہ ترک عوام کی بھرپور خدمت کرنا چاہتی ہے تو اندرونی سطح پر تنوّع لانا ہوگا۔ پالیسیاں تبدیل کرکے لوگوں کا جوش و خروش بحال کرنا ہوگا۔ مزید چار یا پانچ سال کا اقتدار اس کے لیے نعمت کم اور امتحان زیادہ ہے۔ مینڈیٹ کا ایک بار پھر ملنا اس کے لیے انتہائی کٹھن مرحلہ ہے۔ رجب طیب ایردوان کو بھی ثابت کرنا ہے کہ قومی لیڈر کی حیثیت سے ان کی توانائی برقرار ہے اور وہ اس توانائی کو قوم کی بہتری کے لیے بروئے کار لانے پر بھی یقین رکھتے ہیں۔
اے کے پارٹی کی سیاسی بصیرت جن نکات پر ٹکی ہوئی ہے وہ اب قدرے ازکارِ رفتہ ہوتے جارہے ہیں۔ نئی دنیا میں نئے خیالات درکار ہوا کرتے ہیں۔ اے کے پارٹی کی قیادت کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ اس کے لیے لازم ہے کہ پارٹی کی اوور ہالنگ کی جائے۔ ہر پالیسی اور حکمت عملی کا بھرپور جائزہ لینے ہی کی صورت میں اصلاح کی راہ نکلے گی۔ اے کے پارٹی جو کچھ کرنا چاہتی ہے وہ کسی نئے پیرائے میں ہو تو زیادہ کارگر ثابت ہوگا۔ گزرے ہوئے زمانوں میں جینا اس کے لیے کسی طور سود مند ثابت نہ ہوگا۔ حد یہ ہے کہ تیرہ سال پہلے کی دنیا بھی اب اے کے پارٹی کے لیے کسی طور تحرک کا ذریعہ نہیں۔ ترکی بھی بدل چکا ہے اور خطے کے حالات بھی۔ شام کی صورت نے ترکی کے لیے نئے مسائل کی راہ ہموار کردی ہے۔ اے کے پارٹی کی قیادت کے لیے سب سے بڑا چیلنج خطے کے حالات درست کرنے یا ملک کو بدلنے سے کہیں بڑھ کر خود کو بدلنے کا ہے۔ بھرپور انتخابی کامیابی کے باوجود اے کے پارٹی کی مشکلات کم نہیں ہوئیں بلکہ بڑھ گئی ہیں۔ اسے قوم کو کچھ نیا دینا ہے۔ ایسا کیے بغیر وہ زیادہ دور نہ چل پائے گی۔ معیشت، سیاست اور بیورو کریسی میں پائے جانے والے سنگین مسائل کو بہتر طور پر سمجھنا اور ان کے حل کی بہترین صورت تلاش کرنا اب اے کے پارٹی کی ذمہ داری ہے۔
علاقائی اور عالمی حالات کی روشنی میں AKP نے جو بھرپور کامیابی حاصل کی ہے، اس کا تقاضا ہے اب ملک کو مزید آگے لے جایا جائے۔ اس کے لیے ترک معیشت کو نئی شکل دینا ہوگی۔ فی کس آمدنی میں اضافے کی راہ مسدود ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے میں حکومت کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن سے انفرادی سطح پر خوش حالی کی راہ زیادہ ہموار ہو۔
اے کے پارٹی نے اپنے اقتدار کے ابتدائی آٹھ برسوں میں بہت کچھ علاقائی اور عالمی حالات کی بدولت پایا۔ ساتھ ہی ساتھ سیاست اور معاشرت کو بھی اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ کرد ووٹروں نے ایک بار پھر اے کے پارٹی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی پر بھی لازم ہے کہ کرد مسئلے کو حل کرنے کے معاملے میں زیادہ سنجیدگی دکھائے اور کردوں کے حقوق یقینی بنانے پر خاطر خواہ توجہ دے۔
AKP کو اب سیاست اور معیشت اپ ڈیٹ کرنے کے لیے نئی ٹیم تشکیل دینا ہوگی۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو زیادہ سے زیادہ پرکشش پیکیج دینا ہوں گے۔ انہیں اپنی طرف متوجہ رکھنے کے لیے ترکی کو لازمی طور پر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن سے ان کا اعتماد قائم رہے اور وہ بے فکر ہوکر سرمایہ لگائیں۔ نئی سیاسی بصیرت کے بغیر بہتری کی راہ نکل نہ پائے گی۔ نئی کابینہ تشکیل دیتے وقت یہ دیکھنا ہوگا کہ اربکان کی سوچ تازہ ہو۔ آرتھوڈوکس طرز فکر کے حامل افراد کی کابینہ میں شمولیت ترکی کے لیے مجموعی طور پر کچھ زیادہ سودمند ثابت نہ ہوگی۔
ترکی کے بہت سے مسائل کو کچھ بڑھا چڑھاکر بیان کیا گیا ہے۔ ایک طرف تو سیاسی انتشار ہے اور دوسری طرف معاشی خرابیاں۔ مگر یہ سب کچھ اتنا خراب نہیں کہ بہت زیادہ پریشان ہوا جائے اور بے حواس ہوکر بہتر منصوبہ بندی کے لیے تحریک محسوس ہی نہ کی جائے۔ ترک قیادت کو علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں تبدیل ہونا ہے۔ اس کے لیے بلند اور مستحکم سوچ درکار ہے۔ اس وقت ترکی میں جو سیاسی ماحول ہے وہ کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں کہ اکیسویں صدی کے تمام تقاضوں کو نبھاسکے۔ سیاسی جماعتوں کو زیادہ بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اے کے پارٹی کو دنیا پر واضح کرنا ہوگا کہ وہ آج بھی ملک کو بہتر انداز سے چلانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ سیاست سے زہر اور معیشت سے بے دلی نکال کر ترک قوم کی رگوں میں نیا خون دوڑانا زیادہ سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔
AKP کو ان لوگوں نے بھی ووٹ دیے ہیں، جو اب تک دوسری جماعتوں کو ووٹ دیتے آئے ہیں۔ اب اے کے پارٹی کی قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ ملک کے ہر علاقے اور گوشے کو ترقی دے کر ہی حقیقی جمہوریت کا حق ادا کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی عمل مجموعی طور پر ایسا ہونا چاہیے جس میں سب کو شریک کیا جائے۔ کسی ایک پارٹی یا طبقے کو الگ رکھ کر ترقی، خوش حالی اور رواداری کی بات نہیں کی جاسکتی۔ اے کے پارٹی کے لیے ناگزیر ہے کہ اب سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرے۔ کردوں کا مسئلہ حل کرنے کی ایک اچھی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ان کے علاقوں میں غیر معمولی تناسب اور برق رفتاری سے ترقیاتی کام کرائے جائیں، انہیں روزگار کے بہتر مواقع فراہم کیے جائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں بلند تر معیار زندگی دیا جائے تاکہ وہ خود کو باقی ترکی کے ساتھ محسوس کرسکیں۔
AKP کو اپنی اصلاح پسند پالیسی کی طرف بھی دیکھنا ہے۔ وہ اصلاحات کی بات کرکے اقتدار میں آئی ہے۔ اب بھی بہت سے شعبوں میں اصلاح کی گنجائش ہے۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ اصلاحات کا عمل جاری رکھا جائے۔ اے کے پارٹی اصلاحات کا عمل تیز کرکے اپنی بنیاد مزید مضبوط کرسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرہ بھی مستحکم ہوگا اور معیشت بھی۔ چند برسوں کے دوران ترقی پسند سوچ ترکی میں کم ہوتی دکھائی دی ہے۔ اے کے پارٹی کو دیگر جماعتوں کے ساتھ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھنا ہوگا تاکہ معاشرے کا مجموعی مزاج ترقی پسند رہے اور عام آدمی کا معیار زندگی بلند سے بلند تر ہوتا جائے۔ ملک کو اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی درکار ہے۔ اس حوالے سے آئین کے بعض حصوںکو دوبارہ لکھنا پڑے گا۔ اے کے پارٹی کی قیادت کو حقیقی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثقافتی تنوع اور تحمل یقینی بنانا ہوگا تاکہ معاشرے کا ہر طبقہ یہ محسوس کرے کہ اسے ساتھ لے کر سفر طے کیا جارہا ہے۔
صدر رجب طیب ایردوان اور وزیراعظم احمد داؤد اولو کو مل کر طے کرنا ہوگا کہ ملک کا سیاسی نظام یہی رہے یا اس میں کوئی جوہری تبدیلی لائی جانی چاہیے۔ اگر کوئی بڑی تبدیلی لانا ہے تو آئین میں ترامیم ناگزیر ہیں۔ یہ ایک طویل عمل ہے۔ ایسے میں اے کے پارٹی کی قیادت کو طے کرنا ہوگا کہ ملک کے لیے کیا سودمند اور بہتر ہے۔ نظام حکومت کو زیادہ چھیڑے بغیر بہتر کارکردگی پر توجہ دینا ہی دانش مندی کا تقاضا ہے۔ اے کے پارٹی کو بھاری مینڈیٹ ملا ہے جس کی بنیاد پر وہ منتخب ایوان میں زیادہ ڈٹ کر مخالفین کا سامنا کرسکتی ہے اور کوئی بھی بات پورے زور اور تیقن سے کہہ سکتی ہے۔ مگر اس معاملے میں بھی توازن ناگزیر ہے۔
مجموعی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ترکی کے حالیہ انتخابات نے اے کے پارٹی، دیگر سیاسی جماعتوں اور بالخصوص کردوں کو بہت سے مواقع دیے ہیں۔ اے کے پارٹی کو بہتر کارکردگی دکھاکر اپنی ہر بات اور پالیسی درست ثابت کرنی ہے۔ مخالفین کو بھی اب اپنے فکر و عمل میں تبدیلی لاکر قوم کو راہ دکھانی ہوگی۔ انہیں یہ سیکھنا ہوگا کہ محض منافرت کی بنیاد پر سیاست نہیں کی جاسکتی۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے اور ان کے بنیادی مسائل حل ہوں۔ جب تک ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے تب تک وہ مطمئن نہیں ہوں گے اور معاشرے میں انتشار باقی رہے گا۔
کردوں نے AKP کو ووٹ دے کر یہ بتادیا ہے کہ وہ ملک کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور علیٰحدگی پسندوں کو زیادہ پسند نہیں کرتے۔ ایچ ڈی پی کی ناقص کارکردگی ثابت کرتی ہے کہ اس کے ووٹر اس کی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ یہ اس بات کا بھی اشارا ہے کہ ترکی میں اب ووٹر چاہتے ہیں کہ زیادہ سیاسی اور معاشرتی انتشار نہ ہو کیونکہ اس سے معیشت بری طرح متاثر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ملک پیچھے رہ جاتا ہے۔
اے کے پارٹی کو اپنی بھرپور انتخابی فتح سے یہ سیکھنا ہے کہ پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ نتائج دینے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ ووٹروں نے ایک بار پھر اے کے پارٹی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے تو ظاہر ہے کہ چند ایک امیدیں بھی وابستہ کی ہوں گی۔ ان امیدوں کو بار آور کرنا اے کے پارٹی کی قیادت کا فریضہ ہے۔ امید رکھنی چاہیے کہ اے کے پارٹی اپنے تمام وعدے پورے کرے گی اور وہ تمام امیدیں بار آور ثابت ہوں گی، جو اس سے وابستہ کی جاتی رہی ہیں۔
(مترجم: محمد ابراہیم خان)
“How Erdogan’s dramatic comeback happened, and How far its impact might reach”. (“huffingtonpost.com”. Nov. 2, 2015)
Leave a Reply