یہ سوال کہ صحافت کتنی آزاد ہونی چاہیے، بذاتِ خود اس امر کی دلیل ہے کہ اس کی بے لگام آزادی میں کچھ ایسے مضر پہلو موجود ہیں جو تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ وہ مضر پہلو کیا ہیں، انہیں جاننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ میڈیا کن لوگوں کے تصرف میں ہے؟
ہمارے ہاں میڈیا میں پانچ قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں:
۱۔ سینہ کوبیے… جو ہر وقت اپنے اوپر کربلا طاری رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ قوم بھی اُن کی سینہ کوبی کے عمل میں شامل ہو جائے۔
۲۔ قنوطیے یا یاس زدہ… جنہیں چاروں طرف مایوسی کے کھنڈرات اور دُکھ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
۳۔ تشکیک پسند یا سنکی… جو ہر بات کو جھٹکتے ہیں اور معاشرہ کے مثبت پہلوئوں کو نظرانداز کرکے منفی سوچ پھیلاتے ہیں۔
۴۔ برخود غلط… جو مقامِ اولیٰ پر بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور اپنا حق سمجھتے ہیں کہ عوام کو اُن اخلاقی قدروں سے محروم کر دیں، جو اُن کے تاریخی تشخص کو موجودہ زمانہ میں ممکن بناتی ہیں اور
اس طرح ایک اجنبی معاشرتی ایجنڈے کو ان پر مسلط کر دیں۔
۵۔ رجائیت پسند… جو تنقید کرنے سے گریز نہیں کرتے اور دُور سرنگ کے پار انہیں روشنی بھی نظر آتی ہے۔
ان کے علاوہ میڈیا مالکان کا طبقہ ہے، جنہیں الاماشاء اللہ، دولت اور طاقت کے حصول سے غرض ہے۔ اُن کے اخبارات میں کیا شائع ہو رہا ہے یا ٹی وی پر کیا آرہا ہے، یہ شاید اُن کی دلچسپی کے زمرے میں نہیں آتا۔
اِن میں سے پہلے چار بظاہر نفسیاتی عوارض میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ لیکن ایسا ہے نہیں، سینہ کوبی ہو یا یاس زدگی، سنکی پن ہو یا تشکیک پسندی یا پھر برخود غلط ذہنیت، یہ سب شعوری طور پر اختیار کیے ہوئے راستے ہیں۔ دیوانہ بکار خود ہوشیار کے مصداق ان کی دیوانگی دانستہ مسلط کردہ ہے۔ وہ آزادی رائے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے وطن عزیز کی اساسیات کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نفسیاتی جنگ کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ ایک دشمن ملک دوسرے کے خلاف جسے وہ زیر کرنا چاہتا ہے یاس، احساسِ محرومی، تشکیک، سنکی پن، اپنے وجود سے نفرت، شکستگی، عدم خود اعتمادی اور مستقبل کے بارے میں مایوسی پھیلائے اور معاشرے کے مختلف گروہوں میں منافقت، تنگ دلی اور عصبیت کو ہوا دے، تاکہ ایک ہی وطن کے باسی ایک دوسرے سے محاذ آرائی کے راستے پر چلے پڑیں اور اس طرح ملکی وحدت کو منتشر کر دیں۔ پھر طے شدہ اساسی اُمور کو بار بار چھیڑیں، تاکہ جس چیز نے انہیں باندھا ہوا تھا وہ متنازع ہو کر بے اثر ہو جائے۔ اس کے لیے ظاہر ہے میڈیا ہی کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سیکولر لابی کے جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں، وہ جانے پہچانے ہیں۔ جہاں تک حکومت اور میڈیا کے نہ ختم ہونے والے تنازعے کا تعلق ہے، اس سے قطع نظر ہمارے ہاں میڈیا کو اسی وقت پابند کیا جاتا ہے جب حکومتِ وقت کے اعصاب اس کی تنقید کے سامنے جواب دینے لگتے ہیں۔ بس اسی وقت حکومت کی طرف سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ’’میڈیا اپنی حدود کا احترام کرے‘‘ اور ایسے ہی وقت پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ’’میڈیا غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے‘‘۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کا مسئلہ کچھ اور رہا ہے۔ وہ غلط کام بھی کرنا چاہتی ہے اور اس پر کسی بھی طرف سے گرفت بھی پسند نہیں کرتی۔ اس لیے جب کسی غلط کام کی نشاندہی کی جاتی ہے تو اُس کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے چور چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہو۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا مسئلہ ایک اور بھی ہے۔ ۱۹۸۸ء کے بعد وہ دو دفعہ اقتدا ر میں آئی، مگر خیانت، بدنظمی اور چوری کی مرتکب قرار پائی اور اقتدار سے نکالی گئی۔ لیکن چونکہ میڈیا میں اُس وقت وسعت نہیں تھی بالخصوص الیکٹرانک میڈیا میں، وہ اندھیرے میں وارداتیں کرتی رہی اور عوام بے خبر رہے۔ بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں کی حد درجہ خراب کارکردگی پر گرفت کی گئی اور مختلف کہانیاں مرکزی کرداروں کے حوالے سے گردش کرنے لگیں تو کسی نے اُن سے کہا کہ عوام میں ان کی ساکھ گر رہی ہے تو ان کے منہ سے بے ساختہ یہ تاریخی فقرہ نکلا: ’’آپ فکر نہ کریں ہمارے ووٹر اخبارات نہیں پڑھتے‘‘۔ اب بھی غالباً پیپلز پارٹی کی یہی سوچ ہے۔ اُس کا خیال ہے کہ اگر میڈیا بیچ میں نہ پڑے تو عوام کو بے وقوف بنا کر رکھا جاسکتا ہے۔ یہی رویہ کم و بیش علاقائی اور لسانی جماعتوں کا بھی ہے۔
یہ رویہ اپنی جگہ، لیکن بہرطور حقیقت یہی ہے کہ طاقتور میڈیا اور وہ بھی اتنا وسعت پذیر اور جس کی غیر مشروط آزادی اور توانائی پر امریکا اور یورپ حیران ہیں، حکومت کے لیے سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ بقول ایک وزیر مملکت کے حکومت، میڈیا پر خودکش حملے کر رہی ہے اور جواباً انہوں نے ٹارگٹ کلنگ شروع کر دی ہے۔
یہ اچھی صورت حال نہیں، لیکن وجہ ظاہر ہے، جب برسر اقتدار لوگ یہ کہیں کہ ’’ہمارے اوپر تنقید مت کرو‘‘۔ اور میڈیا یہ کہے ’’ہمیں حق ہے کہ ہم جو کہیں اور جیسے کریں، آپ ہمیں روک نہیں سکتے، یا یہ کہ میڈیا نے آزادی چھین کر لی ہے‘‘۔ تو پھر یہ بُعدالمشرقین کا مسئلہ ہے جس پر پُل نہیں بنایا جاسکتا۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں مسخرہ پن کچھ زیادہ ہی ہے۔ ہر کوئی اپنے لیے اختیارات سے متجاوز حق مانگتا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ غیر مشروط آزادی اپنے لیے مانگتا ہے اور پابندی دوسروں کے لیے۔ مثلاً کئی عشروں سے برسراقتدار لوگ میڈیا کے لیے ضابطۂ اخلاق کی بات کرتے ہیں، مگر کوئی خاکہ جس پر میڈیا عمل کر سکے، پیش نہیں کرتے۔ جب معاملہ میڈیا پر چھوڑا جائے کہ وہ خود کسی ضابطۂ اخلاق کا پابند ہو تو وہاں سے بھی پیش رفت نہیں ہو پاتی۔
لیکن یہ مسئلہ اتنا بھی پیچیدہ نہیں کہ اس کا حل نہ ڈھونڈا جاسکے، البتہ چند شرائط ہیں جن کو دونوں فریقین کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
پہلے قدم پر حکومت کو چاہیے کہ وہ میڈیا کا حق تسلیم کرے کہ وہ اُس کے غلط طرزِ عمل کو عوام کے سامنے پیش کرے گا۔
حکومت کا میڈیا کی تنقید پر مبالغہ آمیز حد تک حساس ہونا بذات خود ایک بیماری کی علامت ہے، جسے دور کرنا نہ صرف میڈیا کا فرض ہے بلکہ عوام کا حق بھی ہے۔ سمجھ دار حکومتیں جو عوام کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ محسوس کرتی ہیں، وہ نہ صرف صحیح مشورہ کی طالب ہوتی ہیں بلکہ اپنے طرزِ عمل کے ہر وقت احتساب کی بھی متمنی ہوتی ہیں تاکہ خرابی کا سدباب کیا جاسکے۔ اسی طرح وہ عدلیہ کو بھی اپنا معاون سمجھتی ہیں، میڈیا اور عدلیہ کے اشتراک سے اچھی حکمرانی ممکن بنائی جاتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پیپلز پارٹی ہمیشہ تضادات کا شکار رہی ہے، وہ جاگیرداروں اور وڈیروں کی حکومت کو عوام کی حکومت کہتی ہے۔ وہ لاقانونیاں کرتی ہے اور قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے عوام کی دہائی دیتی ہے۔ اُس کے نزدیک ’’عوام کی عدالت‘‘ اگر انہیں ووٹ دے دے تو پھر وہ تنقید اور قانون دونوں سے بالا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ میڈیا سے سینگ لڑاتے ہیں، عدلیہ کو آنکھیں دکھاتے ہیں اور فوج پر چنگھاڑتے ہیں۔
حکومت اور میڈیا کے تنازع میں ایک اور افسوس ناک پہلو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت اپنی کارکردگی پر تنقید کے بارے میں تو شمشیر برہنہ ہے، لیکن جب میڈیا کا ایک حصہ خود پاکستان کے وجود پر تیغ زنی کرتا ہے اور بار بار کوشش کرتا ہے کہ برطانوی ہند کی تقسیم کو غلط ثابت کرے، تو حکومت کو کوئی پروا نہیں ہوتی، حالانکہ قوانین موجود ہیں جن کے تحت ایسے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو سزا دی جاسکتی ہے۔ یہ پہلو اس لیے بھی افسوسناک ہے کہ حکومت کا اولین دستوری فریضہ مملکت کی حفاظت اور استحکام ہے۔
میڈیا کے رویے میں بھی خامیاں ہیں، جن کی وجہ کچھ مفروضے ہیں اور کچھ تلخ حقیقتیں، مثلاً میڈیا کو یہ خناس ذہن سے نکال دینا چاہیے کہ آزادی غیر مشروط ہوتی ہے، ایسی آزادی اس کرۂ ارض پر کہیں بھی نہیں۔ کیونکہ ایسی آزادی جس کا مدار نہ ہو، بالآخر افراتفری کی طرف لے جاتی ہے، جس سے معاشرے اور قومیں کمزور ہوتی ہیں۔ اس طرح میڈیا کو اس پہلو پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ اگر ان کے حقوق ہیں تو اس ریاست اور مسلمان معاشرہ کے بھی کچھ حقوق ہیں، جس کے وسائل سے وہ مستفید ہوتے ہیں۔
میڈیا اور حکمرانوں کے اس تنازع میں ایک تیسرا فریق بھی ہے اور وہ پاکستانی عوام ہیں، جو فی الحال خاموش ہیں، مگر اندر سے پریشان ہیں۔ اخبارات کے بعض کالم اور ٹی وی کے بعض ٹاک شو اور ڈرامے اُن کے ذہن میں کئی سوالات اٹھاتے ہیں جن کا جواب انہیں نہیں مل رہا۔ وہ سوچتے ہیں یہ کیسے لکھنے والے اور باتیں کرنے والے لوگ ہیں، اور کس ملک کے باسی ہیں کہ اپنے ملک کے وجود کو، اُس کی مسلم شناخت کو، اُس کی اخلاقی قدروں کو للکارتے پھرتے ہیں؟ یہ کون مالکان اور کارندے ہیں جو انہیں ایسی گفتگو کا موقع فراہم کرتے ہیں؟
بات کھول کر بیان کی جائے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ میڈیا کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ پاکستان کو بطور ریاست مطعون کرے، یا یہ کہے کہ پاکستان کی تو ضرورت ہی نہیں تھی اور یہ کہ پاکستان کی تخلیق مذہبی تنگ نظری کی مرہون منت ہے، یا یہ کہ پاکستان سامراجی سازش کا نتیجہ ہے، وگرنہ ہندو اور مسلمان ایک قوم تھے۔ ایسا کفر سیکولر حضرات ہی تخلیق کرسکتے ہیں۔
اسی طرح میڈیا کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ نظریۂ پاکستان کو اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ قرار دے، اور اس طرح وہ اس تاریخی اجماع کو توڑنے کی کوشش کرے، جسے خود پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد کا نام دیا اور بعد میں اُسے ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۳ء کے دستور میں رہنما اصول کا مقام دیا، یعنی ایسے اصول جن سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سمت کا تعین ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ تمام دستوری موضوعات جو قومی اجماع کے نتیجہ میں ۱۹۴۷ء کے عشرے میں طے ہو گئے تھے، انہیں بار بار ٹاک شوز اور پرنٹ میڈیا میں زیر بحث لانا، اُن پر طعن اور طنز و تشنیع کرنا، دنیا کے کس جمہوری اور دستوری قواعد میں درست سمجھا جاتا ہے۔
یہ حق نہ دستور پاکستان میڈیا کو دیتا ہے اور نہ معاشرتی و سیاسی تقاضے۔ میڈیا کا یہ کہنا کہ ’’یہ ہمارا بنیادی حق ہے‘‘۔ ایک کمزور موقف ہے۔ کیونکہ کوئی بنیادی حق اپنے اطلاق اور عمل پذیری میں ایک مخصوص متن رکھتا ہے، جس سے کاٹ کر اس کا اظہار ایک مہمل حرکت بن جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کوئی معاشرہ اُسی وقت بنیادی حقوق دیتا ہے، جب اسے یقین ہو کہ ایسا حق اس کی بقا، سلامتی، استحکام اور انصاف قائم رکھنے میں معاون ہوگا۔ لیکن اگر یہی حق معاشرے میں انتشار پھیلانے، اُس کی قوتِ مدافعت کو کمزور کرنے، اور اسے احساسِ کمتری اور مایوسی و شکست خوردگی میں مبتلا کرنے کے لیے استعمال ہو تو پھر یہ سندِجواز کھو بیٹھتا ہے۔ اس کی سیدھی سادی مثال حق احترام زندگی ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنے شہری کو تحفظات دے، لیکن اگر وہی شہری کسی کو قتل کرتا ہے یا ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتا ہے، تو وہی ریاست اسے خود مارنے پر تُل جاتی ہے۔ یہی حال آزادی رائے کا بھی ہے۔
ظاہر ہے ایسی صورت حال جو متضاد مفادات کے ٹکرائو کے باعث پیدا ہوئی ہو، اس سے عہدہ برآ ہونے کا ایک ہی راستہ ہو سکتا ہے کہ موضوعی موقف کے بجائے معروضیت کو پیش نظر رکھا جائے۔ کیونکہ معروضیت سے ہی ہمیں وہ میزان مل سکتی ہے جس سے ہم انفرادی اور ادارتی رویوں کو صحیح یا غلط کہہ سکتے ہیں۔
یہ معروضیت اسی صورت میں ممکن ہوگی جب ہم اسے دستورِ پاکستان سے لیں گے۔ دستورِ پاکستان میں شق ۲۔الف، ۲۲۷، ۳۱، اور ۴۰، اس ضمن میں بڑی بنیادی اہمیت کی حامل ہیں، جن سے معاشرے اور ریاست کے مختلف شعبہ جات اور اداروں میں ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے اور اس طرح انتشار اور تباہی سے بچا جاسکتا ہے۔ ان شقوں کے مطابق پاکستانی ریاست پر لازم ہے کہ وہ مسلمان شہریوں کے لیے ایسا ماحول پیدا کرے کہ وہ اپنی زندگیاں اسلامی قدروں کے مطابق گزاریں۔ لیکن ہمارے ہاں ایک طبقے کی جانب سے اسلامی نظام پر تبرّیٰ بھیجا جاتا ہے اور لادین نظریات کی ترویج کھلم کھلا کی جاتی ہے۔ بہت سی علاقائی جماعتوں بشمول ایم کیو ایم نے اور خود پی پی پی نے سیکولرازم اور لسانیت پر مبنی سیاست شروع کی ہوئی ہے۔
دستورِ پاکستان کی یہ شقیں ہمیں بتاتی ہیں کہ مسلمان معاشرے میں فحاشی کی حوصلہ شکنی کی جائے گی، ریاست بذریعہ تعلیم، میڈیا اور قانون ملک میں وحدت پیدا کرے، لیکن یہاں لسانی سیکولر گروہوں نے ملک کو لسانیت کے نام پر تقسیم کا کام شروع کیا ہوا ہے اور اب تو ایک دوسرے کو دشنام طرازی اور زبان اور علاقے کے نام پر مارا بھی جارہا ہے۔
آئین پاکستان یہ بھی تاکید کرتا ہے کہ خارجہ پالیسی کا رجحان مسلمان ممالک کی طرف ہونا چاہیے اور ان سے برادرانہ تعلقات اور اسلامی بنیادوں پر اتحاد اور وحدت ہونی چاہیے، مگر ہمارے ہاں میڈیا نے الاماشاء اللہ امن کے نام پر مہم شروع کی ہوئی ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو انڈیا کی جھولی میں ڈال دیا جائے۔ ایسے تضادات میں کوئی قوم آگے نہیں بڑھ سکتی۔
اس ضمن میں ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آزادیٔ رائے جو کسی آئینی اور اخلاقی دائرہ میں ہو وہ نعمت خداوندی ہے۔ اس لیے اس کے اظہار کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پشت پر ایک مضبوط ناقابل تنسیخ دستاویز ہو، جس سے ہر کوئی فرد اور ادارہ رجوع کرکے ہدایت لے سکے، اور جسے کوئی حکومت یا عدالت نہ منسوخ کر سکے اور نہ اُس پر پابندیاں لگاسکے۔
میڈیا کے لیے ممکنہ ضابطۂ اخلاق
پریس ہمارا وہ اہم ترین ادارہ ہے، جو اہم قومی مسائل پر عوامی رائے کی تشکیل کرتا ہے۔ اگر اس کا انداز ملک دشمنی کا آئینہ دار اور سنکی ہو اور یہ ایک مسلسل مہم چلائے رکھے، جس سے ہماری پاکستانی قومیت پر ابہام کے سائے گہرے ہوتے رہیں، تو اس سے لوگوں کا اپنے ملک اور اس کے مستقبل پراعتماد کمزور ہوتا جاتا ہے۔ اس سے ہماری قومیت کی یہ عجیب تصویر بنتی ہے اور جمہوریت کا ہمارا یہ نرالا شعور بھی سامنے آتا ہے کہ ہم خواہش تو رکھتے ہیں کہ ہم ایک مہذب معاشرے کے طور پر زندہ رہیں، لیکن آزادیٔ اظہار کے نام پر افراتفری کا طوفان بھی برپا کیے رکھتے ہیں۔ میڈیا خواہ اخباری ہو یا الیکٹرانک، لازماً ایک ضابطۂ اخلاق کا حامل ہونا چاہیے، جس کی پوری سختی سے پیروی ہو۔ مملکت کے مفاد کا تقاضا ہے کہ ذیل کا مجوزہ ضابطۂ اخلاق اختیار کیا جائے۔ اس ضابطۂ اخلاق کی بنیاد پاکستان کے ضابطۂ فوجداری کی شق ۱۲۳۔اے اور دستورِ پاکستان کی شق ۲۔الف، ۳۱، ۴۰ اور ۲۲۷ ہونی چاہیے۔ ان کی روشنی میں جو ضابطۂ اخلاق بنے گا، وہ درج ذیل پہلوئوں کا احاطہ کرے گا:
٭ میڈیا کسی اخبار، رسالے یا ٹی وی چینل کو ایسے کسی بیان یا تحریر کی اشاعت کی اجازت نہیں دے گا، جو پاکستان کی تخلیق یا اس کے جغرافیہ اور اقتدار اعلیٰ کے منافی ہو۔
٭ میڈیا پاکستان کو ہندوستان میں ضم ہونے یا اس سے کسی طرح کے الحاق کے تصور کو پھیلانے میں کوئی مدد نہیں دے گا۔ پریس نہ تو خود یہ سوال اٹھائے گا، نہ ایسے کسی مباحثے کی حوصلہ افزائی کرے گا جس میں پاکستان کے مقصد تخلیق کو محل اعتراض بنایا گیا ہو اور اس کی بقا پربہتان طرازی کی گئی ہو۔
٭ میڈیا کوئی ایسی چیز شائع نہیں کرے گا جو کسی فرد، یا پوری قوم یا معاشرے کے کسی گروہ کو اس طرح متاثر کرتا ہو کہ جس سے پاکستان کی سلامتی پر حرف گیری ہوتی ہو یا اس کا اقتدار اعلیٰ خطرے میں پڑتا ہو۔
٭ میڈیا کوئی بالواسطہ یا بلاواسطہ تعاون ایسے گروہوں کو فراہم نہیں کرے گا، جو نفرت اور نسلی اور لسانی عصبیت کی سیاست کرتے ہوئے وفاق سے علیحدگی کی بات کرتے ہوں، اور جس سے مسلم شعور و آگہی متصادم ہوں۔
٭ میڈیا فحش اشتہارات اور تفریحی پروگراموں میں لچر پن اور عریانی سے گریز کرے گا۔ ہندوستانی فلمیں اور ڈرامے نہیں دکھائے گا۔
٭ میڈیا دستور میں واضح طور پر بیان شدہ اسلامی نظریے کو مختلف فیہ بنانے یا اس کی تخریب کے درپے نہیں ہوگا۔
٭ میڈیا نہ تو کوئی ایسی بات لکھے گا، نہ نسلی اور فرقہ وارانہ احساسات کی حوصلہ افزائی یا ایسے گروہ کی حمایت کرے گا، جن کا عمل پاکستانی قومیت کے خلاف نفرت کی سیاست کی گواہی دیتا ہو۔
٭ میڈیا اپنی رپورٹنگ میں اس امر کا اہتمام کرے گا کہ اُس میں توازن ہو، ناانصافی نہ ہو۔ میڈیا کو یہ بھی ممکن بنانا ہوگا کہ رپورٹر خبر کو سیکولرازم، لسانیت یا گروہی تعصبات کا فریم نہیں دے گا۔
٭ میڈیا ہر اس شخص یا ادارے کو اپنے صفحات میں جگہ دے گا جس کا خیال ہو کہ اس کی ایذا رسانی ہوئی ہے یا اس کی ایسی غلط تصویر کشی ہوئی ہے جس کی اصلاح وہ سمجھتا ہو کہ ضروری ہے۔
یہ ایک سہل قابلِ عمل ضابطۂ اخلاق ہے، کیونکہ اس کا خمیر قومی دستور سے اٹھایا گیاہے۔ اگر اس قسم کے ضابطے کی پابندی نہ کی گئی تو خدشہ ہے کہ غیر منضبط آزادی رائے ملک میں انتشار اور اعتماد کا بحران پیدا کر دے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عوام اپنے نظریے اور اقدار کو خطرے میں دیکھ کر ’’انتہا پسندی‘‘ کی راہ اختیار کرلیں، اور ملک خدانخواستہ خانہ جنگی میں دھنستا چلا جائے۔
(بحوالہ: کتاب ’’سیکولرازم، مباحث اور مغالطے‘‘)
Leave a Reply