متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے امن کے نام پر ابراہیمی معاہدہ کرکے دعویٰ کیا کہ اس کے نتیجے میں مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کی کوششوں کو روک دیا گیا ہے۔اس کا مقصد بظاہر ایک اور امن منصوبے کو ناکام بنانا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس کے اوائل میں مغربی کنارے کے بڑے علاقے پر غیر قانونی اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرلیا تھا۔دونوں خلیجی ریاستوں نے درحقیقت غلط دعویٰ کیا کہ ستمبر کے معاہدے کے بعد مؤثر انداز میں فلسطینی ریاست قائم کرنے کی امید کو بچا لیا گیا ہے، بہت ہی کم مبصرین نے اس دعوے پر یقین کیا، کیونکہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے معاہدے کے ساتھ ہی اس عزم کااظہار بھی کردیا کہ مغربی کنارے پر قبضے کی کارروائی کو عارضی طور پر معطل کیا گیا ہے۔
ابراہیمی معاہدوں کا مقصد فلسطین کو بچانے کے بجائے خلیجی ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو منظرعام پر لاکر انہیں مزید وسعت دینا نظر آتا ہے۔ علاقائی انٹیلی جنس تعاون کو اب زیادہ آسانی کے ساتھ بڑھایا جاسکتا ہے،خاص کر ایران کے حوالے سے تعاون میں اضافہ ہوگا، خلیجی ممالک کو اسرائیلی اور امریکی ہائی ٹیک ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔ بعدازاں سوڈان کو بھی اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے پر آمادہ کیا گیا،جس کے بدلے واشنگٹن نے دہشت گردوں کی حمایت کرنے والی ریاستوں کی فہرست سے سوڈان کو نکالنے کا وعدہ کیا۔ جس سے قرض اور امداد کے حصول کی راہ بھی کھل جائے گی۔ جس کے بعد مراکش اسرائیل کو تسلیم کرنے والا چوتھا عرب ملک بنا، جس کے بدلے ٹرمپ انتظامیہ نے مغربی صہارا پر مراکش کے قبضے کو تسلیم کرلیا۔ اسرائیل فلسطینیوں کو کوئی اہم سہولت دیے بغیر ہی اہم عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں کامیاب ہوگیا۔ اطلاعات کے مطابق قطر اور سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے مشیر جیرڈ کشنر نے کچھ عرصہ قبل ہی خطے کا دورہ کیاتھا۔ اس دورے کو اسلحے کی فروخت سے ملانے کی کوشش کی گئی تھی۔ بہرحال صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی شکست کے بعد سے سعودی عرب اسرائیل سے معاہدہ کرنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہوگیا ہے۔ گزشتہ ہفتے بحرین میں منعقدہ ایک آن لائن کانفرنس میں اسرائیلی وزیر خارجہ نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر سابق سینئر سعودی اہلکار ترک الفیصل السعود نے اسرائیل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے حراستی کیمپوں میں فلسطینیوں کوقید رکھا ہے اور غیر قانونی دیوار بھی تعمیر کی۔ پتا نہیں شاید وہ اپنی حیثیت سے زیادہ بول رہے تھے۔ عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان معاہدوں کے خفیہ مقاصد کا پتا لگانا مشکل ہے، لیکن عرب ریاستوں کی جانب سے پیش کی جانے والی توجیح کہ معاہدوں کا مقصد مغربی کنارے کو اسرائیل کے قبضے سے بچانا ہے، درحقیقت اپنی مقامی آبادی کو لبھانے کے سوا کچھ نہیں۔ بحرین اور عرب امارات نے اسرائیل سے معاہدہ فلسطین کے حق میں کرنے کا صرف دکھاوا نہیں کیا بلکہ یہ حقیقت چھپانے کی کوشش بھی کی کہ درحقیقت دونوں فلسطینیوں کو نقصان پہنچانے میں اسرائیل کے ہمنوا بن چکے ہیں۔ اسرائیل سے معاہدہ دونوں ممالک کی جانب سے فلسطین پر غیر قانونی قبضے اور فوجی جارحیت کی حمایت کرنے جیسا ہے۔
بحرین کو فلسطینیوں کے بدترین حالات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اس کا مظاہرہ بحرین کے وزیر تجارت زید بن راشدکے دورۂ اسرائیل کے موقع پر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ بحرین پورے اسرائیل میں تیار مصنوعات کو درآمد کرنے کے لیے تیار ہے، ہمیں لیبلنگ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس بیان سے پتا لگتا ہے کہ بحرین مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تیار ہونے والی اسرائیلی مصنوعات کی عرب ممالک کو برآمد کا گیٹ وے بننے کو تیار ہے۔ جس سے اسرائیل کی غیرقانونی بستیوں کو قانونی حیثیت اور معاشی استحکام مل سکتا ہے۔ بحرین نے اسرائیل کے لیے اپنی تجارتی پالیسی یورپی یونین سے بھی زیادہ نرم کردی، جو تل ابیب کا اہم تجارتی شراکت دار ہے۔ یورپی یونین مقبوضہ علاقے میں تیار مصنوعات کی الگ لیبلنگ کا مطالبہ کرتا ہے۔ وزیر تجارت کے بیان پر میڈیا میں بڑے پیمانے پر گفتگو کے بعد بحرین کی سرکاری نیوز ایجنسی نے ایک بیان جاری کردیا ہے کہ زید بن راشد کے بیان کی غلط تشریح کی گئی اور مقبوضہ علاقوں میں تیار مصنوعات کی درآمد کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن وزیر تجارت کے بیان سے ثابت ہوگیا کہ بحرین اسرائیلی علاقوں اورمقبوضہ علاقوں میں تیار مصنوعات کے د رمیان فرق کرنے کو تیار نہیں۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کیا جانا ہی عرب اسرائیل معاہدوں کی بنیاد ہے۔ اطلاعات کے مطابق متحدہ عرب امارات پہلے ہی اسرائیل کے غیر قانونی قبضے والے علاقوں میں تیار مصنوعات درآمد کرنے کو تیار ہے۔ گولان کے مقبوضہ علاقے میں موجود باغات کے انگوروں سے بنائی گئی شراب کی برآمد مبینہ طور پر متحدہ عرب امارات کوشروع کردی گئی ہے۔ عرب امارات میں اب غیر ملکی بھی شراب نوشی کرسکتے ہیں۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں آباد پانچ لاکھ اسرائیلیوں کے لیے یہ سب بہت فائدہ مند ہے۔ انہوں نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے میں ذرا وقت نہیں لگایا۔ پچھلے ہفتے ہی مغربی کنارے کے آبادکار متحدہ عرب امارات کے ساتھ شراب، شہد، زیتون کا تیل اور تل کا پیسٹ برآمد کرنے کا معاہدہ کرکے لوٹے ہیں۔ یہ تمام مصنوعات مقبوضہ علاقوں میں تیار کی جائیں گی۔ درحقیقت قابض اسرائیلی ان معاہدوں کو تجارت بڑھا کر مغربی کنارے پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان فوائد میں اب عرب ممالک سے سیاحوں کی آمد بھی شامل ہوگی۔ اب خلیجی ممالک سے لوگ مسجد اقصیٰ کی زیارت کے لیے بھی آسکیں گے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اسرائیلی قبضے کی وجہ سے فلسطینی مسجد اقصیٰ جانہیں سکتے اور خلیجی ممالک سے آنے والے عرب مقامی فلسطینیوں کے مقابلے میں مسجد اقصیٰ میں زیادہ حق کے ساتھ داخل ہوسکیں گے۔
اردن ایک طویل عرصے سے مسجد اقصیٰ کی دیکھ بھال کا ذمہ دار رہا ہے۔ اس کو خوف لاحق ہے کہ مستقبل میں سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ معاہدے کو مکہ اور مدینہ کے بعد یروشلم میں موجود مقدس مقامات کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے استعمال کرے گا۔ مقبوضہ بیت المقدس میں موجود فلسطینی اپنی رہائش کے لیے مکانات بھی تعمیر نہیں کرسکتے۔
تجارتی معاہدوں کے بعد آنے والے دولت مند عربوں کو اسرائیل میں انفراسٹرکچر بھی درکار ہوگا۔ اس سے فلسطین کے بجائے یہودی آبادکاروں کو فائدہ ہوگا۔ ابوظہبی کے حکمران خاندان کے ایک فرد نے یروشلم فٹ بال ٹیم پر بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ فٹ بال کلب عربوں کا شدید مخالف اور مشرقی یروشلم میں یہود کی بذریعہ طاقت آبادکاری کا حامی رہا ہے۔اپنے دورے کے دوران بحرین کے وزیر تجارت زید راشد کا کہنا تھا کہ ہم نے اگلے ماہ سے اسرائیل آنے اور جانے کے لیے پروازوں کی تیاری کررکھی ہے، ہم اسرائیل میں زندگی کے ہر شعبے میں موجود آئی ٹی اور جدت طرازی کو دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ درحقیقت اسرائیل میں ٹیکنالوجی ہر شعبہ میں صرف اس لیے سرایت کرگئی کیوں کہ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو تجربہ گاہ بنادیا۔ جہاں فلسطینیوں کی بہتر نگرانی، ان کی نقل و حرکت کو محدود کرنے اور بائیو میٹرک ڈیٹا جمع کرنے کے لیے نئے طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں۔ ان تجربات کو انجام دینے والی ہائی ٹیک کمپنیوں کا صدر دفتر اسرائیل کے اندر ہوسکتا ہے، لیکن وہ مقبوضہ علاقوں میں اپنی سرگرمیاں انجام دے کر منافع کماتی ہیں، مقبوضہ علاقوں میں ان کے پاس وسیع کمپلیکس موجود ہیں، جن پر ان کے مکمل حقوق تسلیم شدہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس کے معاون نبیل شات نے اسرائیل اور عربوں کے بڑھتے تعلقات پر کہا کہ‘‘ اسرائیل اور عربوں کے درمیان بڑھتے تعلقات فلسطینیوں کے خلاف بدترین جارحیت کا مظہر ہے اور ہماری مقبوضہ بستیوں میں ان کا مشاہدہ کرنا بہت تکلیف دہ ہے‘‘۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین پورے جوش و جذبے کے ساتھ فلسطین پر قبضے کے کاروبار میں شامل ہورہے ہیں۔اس کی بدترین مثال سبسڈی کے لیے ’’ابراہیم فنڈ‘‘ کی تشکیل ہے۔ یہ فنڈ اکتوبر میں امریکامیں قائم کیا گیا، جس کا مقصد خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کی اربوں ڈالر کی نجی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانا ہے۔ یہاں ایک بار پھر لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کی گئی۔سرکاری اعلامیہ کے مطابق فنڈ کا مقصد علاقائی معاشی تعاون اور ترقیاتی اقدامات کے لیے کم ازکم ۳؍ارب ڈالر جمع کرنا ہے۔متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت احمد علی کا کہنا تھاکہ یہ اقدام خطے کے لیے معاشی اور تکنیکی بہتری کا ذریعہ بن سکتا ہے اور لوگوں کے مسائل حل کرنے میں معاون ہوگا۔ یہ فنڈ فلسطینیوں کی مدد کے لیے مختص کیا جانا چاہیے تھا، کیوں کہ کسی طرح کی امداد کے سب سے زیادہ حق دار فلسطینی ہیں۔ بہرحال یہاں بھی ایک بار پھر عرب ریاستوں نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔ جس کا انکشاف ٹرمپ انتظامیہ نے ابراہیم فنڈ کے سربراہ کا نام سامنے لاکر کیا۔ یہودی ٹیلی گراف ایجنسی کے مطابق اس فنڈ کی نگرانی انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہودی ربی آریہ لائٹ ا سٹون کریں گے، جو فلسطینی علاقوں پر قبضے کے بڑے حمایتی سمجھے جاتے ہیں۔ لائٹ اسٹون اسرائیل میں موجود امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین کے سینئر مشیر بھی ہیں، جو فلسطینی بستیوں پر قابض آبادکاروں سے قریبی تعلقات کے حوالے سے مشہور ہیں۔ فریڈمین نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے لیے جارحانہ انداز میں اپنی حکومت پر دباؤ ڈالا تھا۔ ٹرمپ نے بالآخر مئی ۲۰۱۸ء میں سفارتحانہ منتقل کردیا۔ جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تھی۔لائٹ ا سٹون کی سیاسی ترجیحات ابراہیم فنڈ کے پہلے اعلان کردہ منصوبے میں واضح ہوگئیں۔ انہوں نے فنڈ سے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی چوکیوں کو جدید بنانے کا اعلان کیا ہے۔امریکی حکام کی جانب سے فلسطینیوں کی سہولت کے لیے چوکیوں کو جدید بنانے کے اعلان کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ چوکیوں کو جدید بنانے سے مغربی کنارے کے ارد گرد اور اسرائیل آنے جانے والے فلسطینی تیزی کے ساتھ تلاشی کے عمل سے گزر سکیں گے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار کا کہنا ہے کہ ’’فی الحال فلسطینی ان چوکیوں پر کئی گھنٹے انتظار کرتے ہیں، لیکن منصوبہ مکمل ہونے کے بعد انتظارکا وقت ڈرامائی حد تک کم ہوجائے گا اور رقم بھی زیادہ خرچ نہیں ہوگی۔ اس منصوبے کے اعلان سے ہی بہت سے مسائل واضح ہو جاتے ہیں۔ ایک تو یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور پھر اس طرح کا انفراسٹرکچر تعمیر کرکے اسرائیل کے وقتی قبضے کو مستقل بنایا جارہا ہے۔ پہلے ہی فلسطینی اسرائیلی قبضے کو پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے برداشت کررہے ہیں اور اب خلیجی ممالک اسرائیل کو فلسطین پر قبضے کے لیے رعایت بھی فراہم کررہے ہیں۔ یہ خیال کہ چوکیوں کی تعمیر فلسطینیوں کے لیے فائدہ مند ہے، بکواس ہے۔ یہ فنڈ اسرائیل کی فوجی مدد کے لیے قائم کیا گیا ہے، تاکہ اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو زیادہ بہتر انداز میں نشانہ بنا سکیں۔ اسرائیل پر قبضے کے معاشی اخراجات کی وجہ سے ان علاقوں سے دستبراد ہونے کے لیے دباؤ تھا۔ لیکن اب تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ریاستوں نے اسرائیل کی مشکل آسان کردی۔ ان کے معاشی تعاون کی وجہ سے اسرائیل کو فلسطینی اراضی اور وسائل پرقابض رہنے کی ترغیب مل رہی ہے۔ ابراہیم فنڈ سے فلسطینی معیشت اور مزدوروں کو فائدہ ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اسرائیل طویل عرصے تک معاشی طاقت کی بنیاد پر ہی فلسطین پر قابض رہا ہے، اور اسرائیل کی معیشت کا شمار دنیا کی مضبوط معیشتوں میں ہوتا ہے۔ فلسطینیوں کو اپنی معیشت کی ترقی کے لیے اسرائیل سے اپنی چوری شدہ زمین اور وسائل واپس چاہیے ہوں گے۔ ابراہیم فنڈ کے ذریعے چوکیوں کو جدید بنانا دراصل خلیجی ممالک کی جانب سے قابض آبادکاروں کے لیے امداد ہے۔کیوں کہ چوکیوں کا بنیادی مقصد فلسطین کی سرزمین پر فلسطینیوں کی نقل وحرکت پراسرائیلی گرفت کو مضبوط بنانا ہے۔اسرائیل ان چوکیوں کا استعمال کرکے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو محدود بناتا ہے۔ان چوکیوں کے ذریعے اسرائیل فلسطینیوں کی زرخیز زمین اور آبی وسائل تک رسائی کو روک دیتا ہے۔ یہ وہی علاقے ہیں جہاں مسلسل نئی یہودی بستیوں کی تعمیر اور توسیع کا عمل جاری ہے۔ فلسطینی پہلے ہی مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر اسرائیلی قبضے کے سامنے بے بس ہیں، اب خلیجی ممالک کی جانب سے اسرائیلی چوکیوں کے لیے مالی امدادفلسطینیوں کی شکست اور قابض آبادکاروں کی فتح ہوگی۔ جدید ترین چوکیاں صرف فلسطینیوں کو ان علاقوں تک محدود کرنے کے لیے کارگر ہوں گی جہاں اسرائیلی انہیں قید کرکے رکھنا چاہتے ہیں۔ جس کا فائدہ بھی قابض آباد کاروں کو پہنچے گا۔ یہ اصل کہانی ہے عرب اسرائیل معاہدوں کی۔ عربوں نے فلسطین پر دہائیوں سے جاری اسرائیلی مظالم روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ اب تو وہ غیر قانونی آبادکاروں کے ظلم میں فعال طور پر شراکت دار بن چکے ہیں۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“How Gulf states became business partners in Israel’s occupation”.
(“middleeasteye.net”. December 14, 2020)
Leave a Reply