
میں ۱۴ جنوری کو ڈھاکا پہنچا اور فضا کو سونگھتا رہا۔ پہلی بار یہاں آیا تھا، اس لیے دل میں ہزار شوق اور ولولے تھے، طلبہ سے ملاقاتیں ہوئیں، کئی سرکاری افسروں کے ’’درشن‘‘ بھی کیے۔ سیاست دانوں کے ہاں جانا بھی ہوا اور عام آدمیوں سے ملنا بھی۔ پورے ڈھاکا میں شیخ مجیب الرحمن کے عظیم الشان جلسۂ عام کا چرچا تھا، ہر شخص کی زبان پر تین روز پہلے منعقد ہونے والے اس اجتماع کا ذکر تھا۔ سیاسی سرگرمیوں سے پابندی ہٹنے کے بعد ڈھاکا میں شیخ صاحب کا یہ پہلا خطاب تھا اور اسے ان کی ’’پالیسی اسٹیٹمنٹ‘‘ کی حیثیت حاصل تھی۔ ۱۱ جنوری کو شائع ہونے والے ایک عوامی لیگی انگریزی ہفت روزہ نے آٹھ کالمی شہ سرخی لگائی ’’مجیب آج پلٹن میدان میں تقریر کریں گے‘‘ ، دوسری سرخی تھی ’’قوم رہنمائی کے لیے ان کی طرف دیکھ رہی ہے‘‘۔ اس کے بعد متن پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ قوم سے مراد ’’بنگالی قوم‘‘ ہے۔ اس اخبار نے شیخ صاحب کو ’’بنگال کی مکمل اٹانومی کے تصور کا اصلی مصنف قرار دیا‘‘۔ پلٹن میدان میں شیخ صاحب نے ’’قوم‘‘ کی رہنمائی یوں فرمائی کہ مغربی پاکستان کا نام لیتے وقت بار بار ’’آقا‘‘ کا لفظ استعمال کیا اور ’’مغربی پاکستانی آقاؤں‘‘ کو مشرقی پاکستان کے تمام مصائب کا ذمہ دار قرار دیا۔ ان ’’آقاؤں‘‘ کے ضمن میں انہوں نے دوسرے رہنماؤں کے علاوہ مولانا مودودی کا نام بھی لیا اور فرمایا کہ اب اسلام کے نام پر ہمارے حقوق کو غصب نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اعلان فرمایا: ’’ہم قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نافذ نہیں کریں گے‘‘۔ شیخ صاحب کی تقریر کے ان دو نکات کو اہلِ نظر کی ’’خصوصی پذیرائی‘‘ حاصل ہوئی۔ انہوں نے اپنی ’’چھ نکاتی زندگی‘‘ میں پہلی بار اسلام کا نام لینے کی ضرورت محسوس کی تھی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ مولانا مودودی کے خلاف سامعین کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کی سعی فرمائی تھی، اس سے دو واضح نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں:
۱۔ شیخ صاحب اسلامی قوتوں کی سرگرمیوں اور ان کی قوت سے خائف ہیں، اس لیے اسلام کا سہارا لینے پر مجبور ہوئے۔
۲۔ مولانا مودودی کو اسلام کے نام پر مشرقی پاکستان کے ساتھ ناانصافی کا علمبردار قرار دے کر سامعین کو ان کے خلاف بھڑکایا گیا۔
ایک ہفتے بعد مولاناموصوف کو پلٹن میدان میں ہی جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ اس کا اعلان جماعت اسلامی کی طرف سے کیا جاچکا تھا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو اپنی ’’پالیسی اسٹیٹمنٹ‘‘ میں شیخ صاحب کے مولانا پر حملے سے لوگوں کو رہنمائی مل سکتی تھی کیونکہ ’’قوم ان کی طرف رہنمائی کے لیے دیکھ رہی تھی‘‘۔
آگے چلنے سے پیشتر پلٹن میدان کے اس جلسے کی کچھ خاص خاص باتیں بھی عرض کردی جائیں تو مناسب ہوگا۔۔۔ اس جلسے کی تیاریاں کئی دن پہلے شروع کر دی گئی تھیں، عوامی لیگ کی تمام ضلعی شاخوں سے کہا گیا کہ سامعین بھیجے جائیں۔ ان ’’مہمان سامعین‘‘ کو عوامی لیگ کی طرف سے کرایہ آمدورفت ادا کیا گیا۔ ۵۰۰ ٹرک ڈھاکا سے آدمی ڈھونڈنے پرمامور تھے۔ ایک سو موٹر رکشہ جن میں لاؤڈاسپیکر نصب تھے، ڈھاکا کے اندر شیخ مجیب کی تقریر کا اعلان کرنے پر مامور تھے۔ ایک ذمہ دار سیاسی لیڈر نے ان اخباری اطلاعات کی تصدیق کی کہ اس جلسے پر ڈھائی لاکھ روپے خرچ کیے گئے۔ جب شیخ مجیب الرحمن تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو اسٹیج سیکرٹری نے اعلان کیا: ’’بنگوبندو (بنگال کے دوست) بنگو شارول (بنگال کے شیردل) بانگ لار مانی (بنگال کے موتی) آپ روائے تی ڈانڈی، جانا نیتا (عوام کے مسلمہ اور متفقہ رہنما) قوم کے لیے پیغام عطا فرمائیں گے۔
جلسے میں بار بار ’’تمار دیش، امار دیش، بنگلادیش‘‘ اور ’’جاگو جاگو بنگالی جاگو‘‘ کے نعرے لگتے رہے، جلسے کے جو پوسٹر چسپاں کیے گئے اور دیواروں پر جو نعرے لکھے گئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا ’’اگر تم آزادی چاہتے ہو تو متحد ہو جاؤ‘‘۔
شیخ صاحب نے اپنی تقریر میں ایک یا دو بار پاکستان کا لفظ استعمال کیا۔ باقی ساری تقریر میں وہ بنگال اور بنگالی کا ورد فرماتے رہے اور یہ بھی ارشاد کیا: ’’میرا کام ختم ہوچکا ہے، بنگالی جاگ اٹھے ہیں‘‘۔ شیخ صاحب نے اپنی تقریر کے دوران خود کو جناب سہروردی اور فضل الحق مرحوم کی صف میں کھڑا کرلیا اور فرمایا: ’’سہروردی اور فضل الحق کی طرح میں نے بھی مساوات کو تسلیم کرکے غلطی کی تھی‘‘۔
جلسہ ختم ہونے کے بعد اس کی حاضری کے بارے میں اخبارات اور ایجنسیوں نے دوڑ لگانی شروع کردی۔ کسی نے چار لاکھ لکھا تو کسی نے پانچ لاکھ۔ عوامی لیگ کے ترجمان ایک انگریزی ہفت روزہ نے تو کمال ہی کردیا اور سامعین کی تعداد سات لاکھ لکھ ماری۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ بات یہ سننے میں آئی کہ جناب ایوب خان نے مادرِ ملت کے انتخابات کے بعد یہیں ایک جلسے سے خطاب فرمایا، تو منعم خاں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی حاضری پانچ لاکھ تھی۔ اس کے جواب میں روزنامہ ’’اتفاق‘‘ نے لکھا تھا کہ پلٹن میدان میں ایک لاکھ سے زائد افراد سما ہی نہیں سکتے، یہ پانچ لاکھ کہاں سے آگئے۔ لیکن مجیب صاحب کے جلسے کے وقت شاید ’’اتفاق‘‘ کو یہ بات یاد نہیں رہی۔
بہرحال پلٹن میدان کے اس جلسے کے ساتھ ہی یہ خدشات اٹھنا شروع ہوگئے تھے کہ اتوار بخیریت نہیں گزرے گا اور مولانا مودودی باآسانی جلسے سے خطاب نہیں کرسکیں گے۔ خدشات شدید ہوتے گئے اور ۱۷؍جنوری آپہنچی۔ مولانا مودودی اس دن ۲ بجکر ۲۰ منٹ پر تیج گاؤں کے ہوائی اڈے پر اترنے والے تھے، یہ افواہ زور و شور سے پھیلائی گئی کہ مودودی صاحب کا جہاز ہوائی اڈے پر اترنے نہیں دیا جائے گا۔ ہوائی اڈے پر ہزاروں افراد جمع ہوگئے۔ یہاں شورش برپا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اس کی دو ہی وجوہات ہوسکتی تھیں یا تو ہنگامے کا پروگرام ختم کردیا گیا، یاپھر ہوائی اڈے کے بجائے پلٹن میدان پر ہی مکمل نگاہِ انتخاب پڑی۔
مولانا مودودی ہوائی اڈے پر پہنچے تو ہزاروں نوجوانوں نے ’’شوتب دیر مکتی دوت‘‘ مولانا مودودی (صدی کا عظیم مصلح اور رہنما) کے نعرے لگا کر ان کا استقبال کیا۔ اسی دن شام کو مولانا مودودی نے چھاترو شنگھو کی کانفرنس (یہ ۱۵ جنوری سے ہوٹل ایڈن میں شروع ہوئی تھی اور اس میں مشرقی پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہاتوں سے قریباً تین ہزار مندوبین شریک تھے) میں سوالات کے جواب دیے اور واضح طور پر یہ بات کہی کہ جماعت مشرقی پاکستان کے ساتھ ناانصافیوں کی ذمہ دار نہیں، کیونکہ وہ کبھی برسراقتدار نہیں آئی۔ ان کی اس بات کی اطلاع شیخ مجیب کے شیدائیوں کو ملی تو ان کے اعصاب بھی متاثر ہوئے۔
جلسے کی گھڑیاں جوں جوں قریب آرہی تھیں، تشویش میں اضافہ ہو رہا تھا۔ عام خیال یہی تھا کہ مولانا سے بنگالی میں تقریر کرنے کا مطالبہ کرکے ہنگامہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ۴ جنوری کو نیپ کے جلسے میں محمودالحق عثمانی سے انہی کی پارٹی کے کارکنان یہ سلوک کرچکے تھے۔ کئی لوگوں کی رائے میں محمودالحق عثمانی سے یہ مطالبہ جماعت اسلامی کے لیے انتباہ تھا۔ جماعت کے کچھ مقامی رہنماؤں نے یہ تدبیر سوچی کہ مولانا کو چند بنگلا فقرے لکھ کر دے دیے جائیں جن میں وہ حاضرین سے اپنے بنگلا نہ جاننے کی معذرت کرلیں، اس کے بعد شورش پسند اس معاملے میں جذبات کو بھڑکا نہیں سکیں گے۔ سنا ہے مولانا مودودی کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی تو انہوں نے انکار کردیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ بنگلا سیکھ کر بولنے میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اس طرح چند فقرے لکھ کر کہہ دینا تصنع ہے اور یہ ’’تصنعاتی حربہ‘‘ مجھے گوارا نہیں۔ اس پر سب لوگ خاموش ہوگئے اور کارکنان کو چوکس رہنے کی تلقین کردی گئی۔ خیال تھا کہ مولانا کی تقریر کے ساتھ ساتھ غلام اعظم اس کا بنگلا ترجمہ سناتے جائیں گے۔
جماعت کے مقامی رہنماؤں کا خیال تھا کہ ہنگامہ جلسے میں نعرے وغیرہ لگانے تک محدود رہے گا، وہ اسی کا مقابلہ کرنے کی تیاری میں لگے رہے۔ لیکن جن حالات سے سابقہ پیش آیا وہ کسی کے گمان میں نہیں تھے۔
۱۸ جنوری کا آفتاب طلوع ہوا۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے پلٹن میدان کے قریباً درمیان میں واقع چھوٹی سی مسجد کے ساتھ (یہ مغلیہ دور میں تعمیر کی گئی تھی) اسٹیج سجا دیا۔ تین لاؤڈاسپیکر نصب کیے گئے اور جلسہ گاہ میں جگہ جگہ بانس گاڑ کر ۴۰ ہارن ان سے باندھے گئے۔ اسٹیج پر کرسیاں نہیں رکھی گئی تھیں، سفید چاندنی بچھی تھی کہ مشرقی پاکستان کے جلسوں کے اسٹیج ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اسٹیج کے سامنے پریس گیلری تھی۔ اس کے بعد رسّی لگی ہوئی تھی۔ رسّی کے اس پار سامعین کے بیٹھنے کا انتظام تھا، پلٹن میدان کے گرد تین طرف سیمنٹ کی دیوار کھنچی ہوئی ہے، ایک طرف اسٹیڈیم ہے اور بیت المکرم کو جانے کا راستہ۔ اس چار دیواری میں دو باقاعدہ دروازے ہیں اور ایک بے قاعدہ۔ ایک کو اسٹیڈیم والا گیٹ کہتے ہیں اور دوسرے کو ڈی آئی ٹی روڈ کا گیٹ۔ چھوٹی مسجد کے ساتھ ہی ایک بیڈمنٹن کورٹ ہے اور اس سے آگے چل کر دیوار کے پاس دو کلب، آزاد اور واری ہیں۔ اسٹیج کی پچھلی طرف جو دیوار ہے اس کے ساتھ ایک ٹین کی دیوار سے گھرا ہوا میدان ہے، اس کی حیثیت میدان اندر میدان کی سی ہے۔ ڈی آئی ٹی روڈ پر گورنر ہاؤس واقع ہے اور پلٹن میدان سے اس کا فاصلہ صرف چند سو گز کا ہے۔ ڈی آئی ٹی روڈ والے گیٹ کے بالکل سامنے ایوب چلڈرن پارک ہے، جس کے اندر ایک تالاب بنا ہوا ہے۔ پلٹن میدان کے اردگرد واقع عمارات کا محل وقوع سمجھنے کے لیے نقشہ ساتھ دیا جارہا ہے،
اس کو دیکھیے تومعلوم ہوگا کہ اسٹیج کے دائیں طرف اسٹیڈیم، بائیں طرف ڈی آئی ٹی روڈ، سامنے جناح ایونیو روڈ اور پیچھے بھی ڈی آئی ٹی روڈ ہے۔ عقبی دیوار اور اسٹیڈیم کی مارکیٹ دونوں کے درمیان ایک تنگ سی گلی ہے، اس سے گزر کر ڈی آئی ٹی روڈ پر پہنچا جاسکتا ہے۔ جلسہ ٹھیک تین بجے پروفیسر غلام اعظم کی صدارت میں شروع ہوگیا، پروفیسر صاحب اسٹیج کے درمیان میں بیٹھے تھے۔ ڈائس کے دونوں کونوں پر مائیک نصب تھا، پروگرام یہ تھا کہ ایک مائیک پرمولانا مودودی تقریر کریں گے اوردوسرے پر دورانِ تقریر ہی وقفوں وقفوں سے اس کا ترجمہ سنایا جائے گا۔ تین بجکر ۲۰ منٹ پر جلسہ گاہ میں تھوڑا سا شور برپا ہوا اور کچھ لوگوں نے اسٹیڈیم کے قریب بھاگو، بھاگو کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ اس طرح کی حرکتیں جلسہ خراب کرنے کے لیے عموماً استعمال کی جاتی ہیں، اس لیے اس سے کوئی فرق نہ پڑسکا۔ چند منٹ بعد ایک صاحب سرخ کپڑوں میں ملبوس آپہنچے اور مجذوبوں کی سی حرکتیں کرنے لگے، انہیں جلسے سے باہر نکال دیا گیا، مگر وہ اسٹیڈیم کی عمارت پر چڑھ گئے (بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دیوانہ بڑا ہوشیار تھا، یہ ہنگامے کے دوران سگنل دیتا رہا کہ اِدھر سے حملہ کرو یا اُدھر سے) ساڑھے تین بجے ہوں گے کہ ایک صاحب نے مجھے کہا: ’’آپ نے دیکھا وہ چاقو لہرا رہے ہیں‘‘۔ اسٹیڈیم والے گیٹ سے اندر کی طرف واقعی چاقوؤں کی دھاریں چمکتی ہوئی نظر آرہی تھیں، چند ہی لمحے بعد ایک نوجوان کو اٹھا کر لایا گیا اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔ اسے مسجد کے پاس لٹا دیا گیا اس کے بعد تو زخمیوں کا تانتا بندھ گیا۔ کچھ کارکنوں اور سامعین کے ایک حصے نے اپنے بینر اتار کر رکھ دیے اور اس طرح لاٹھیاں بن گئیں۔ پریس گیلری میں رکھی ہوئی کرسیوں کو توڑ کر ان کے ڈنڈے بنائے گئے اور حملہ آوروں کے مقابلے کے لیے اسٹیڈیم کے گیٹ کا رُخ کیا گیا۔ یہاں گھمسان کا معرکہ پڑا اور حملہ آور پسپا ہوگئے۔ اس دوران نمازِ عصر کا وقت ہوگیا، اسٹیج سے اعلان ہوا کہ اب نماز ادا کی جائے گی۔ تمام کارکن اور دوسرے سامعین نماز کی تیاری میں مشغول ہوگئے، صفیں ترتیب دی گئیں اور اللہ کے بندے اس کے حضور میں جھک گئے۔ پلٹن میدان نے ایسا منظر اس سے پہلے شاید کبھی نہ دیکھا ہو، نماز کے وقفے سے فائدہ اٹھا کر حملہ آوروں نے خود کو منظم کیا، جناح ایونیو روڈ اور ڈی آئی ٹی روڈ سے سنگ باری شروع ہوگئی۔ اسٹیڈیم کی چھت پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔ اسٹیڈیم کی چھت ابھی زیر تکمیل ہے، اس لیے اینٹوں اور روڑوں کے حصول میں وہاں بھی کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ پتھروں کی بارش کے دوران نماز ادا ہوئی، اسی دوران حملہ آور اسٹیڈیم کے گیٹ سے دوبارہ اندر گھس آئے اور ڈی آئی ٹی روڈ والے گیٹ پر بھی تسلط جمالیا۔ اسٹیڈیم گیٹ کے پاس پھر معرکہ پڑا اور حملہ آوروں کو ایک بار پھر پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ وہ جناح ایونیو روڈ سے نکل کر اس سے پیچھے واقع ایک ٹوٹی ہوئی سڑک کی طرف بھاگ گئے۔ اسی دوران پولیس آگئی، اس وقت ٹھیک پونے پانچ بجے تھے۔ پولیس کی کھیپ ایک ٹرک اور ایک جیپ پر مشتمل تھی۔ جیپ میں بیٹھے ہوئے افسر نے اتر کر فریقین کو روکا اور پولیس اسٹیڈیم گیٹ پر کھڑی ہوگئی، جلسے کے منتظمین کو اطمینان ہوگیا وہ پولیس کی یقین دہانی پر اعتماد کرتے ہوئے اسٹیج کے پاس لوٹ آئے اور یہی ان کی غلطی تھی۔ پولیس چند لمحے وہاں کھڑی رہی اور اس کے بعد شرپسندوں کو اندر جانے کا راستہ دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی اسٹیج کے سامنے کی دیوار پھلانگ کر سیکڑوں افراد اندر کود پڑے۔ حشر کا سماں تھا، پولیس دور کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی اور چاروں جانب سے یلغار جاری تھی۔ اسی دوران جناح ایونیو روڈ پر دو دھماکے ہوئے اس سے ہراس پھیل گیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے دستی بم پھٹ پڑے ہوں۔ پروفیسر غلام اعظم نے اعلان کیا کہ ہم جلوس بنا کر گورنر ہاؤس چلیں گے اور میں اس کی قیادت کروں گا۔ پروفیسر صاحب اسٹیج سے اترنے لگے، مگر رضاکاروں نے انہیں پکڑ لیا۔ کئی کارکنوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے، لیکن غلام اعظم نے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا۔ وہ ڈی آئی ٹی روڈ کی طرف بڑھے اور ان کے ساتھ ہی جلسہ گاہ میں موجود دوسرے سامعین (جن کی تعداد اب چند ہزار تک سمٹ آئی تھی) ان کے پیچھے بھاگے۔ ڈی آئی ٹی روڈ پر اتنی شدید سنگباری ہورہی تھی کہ آگے نہ بڑھا جاسکا۔ یہاں بھی بے شمار افراد زخمی ہوئے۔ کارکنوں نے پروفیسر صاحب کو اپنے بازوؤں میں جکڑا اور زبردستی مسجد میں لاکر بٹھا دیا۔ چاروں طرف سے جلسہ گاہ کا گھیراؤ ہوچکا تھا، باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا اور ڈائس پر قبضہ نہیں رہا تھا۔ اسٹیڈیم کے گیٹ سے حملہ آوروں کی تازہ کھیپ آپہنچی اور انہوں نے اسٹیج پر قبضہ کرلیا۔ نہتے کارکن اور سامعین اب باہر نکلنے پر مجبور تھے۔ اس کا طریقہ یہ دریافت کیاگیاکہ دیوار کے ساتھ ایک آدمی کھڑا ہوجاتا اور دوسرا اس کے کاندھوں پر پاؤں رکھ کر دیوار سے باہر پھلانگ جاتا، میں کچھ اخبار نویسوں کے ہمراہ ڈی آئی ٹی روڈ کی طرف جانے والے بے قاعدہ راستے سے باہر نکل آیا تھا اور اس وقت گورنر ہاؤس کے پاس کھڑاتھا۔ اس طرف پولیس کا ایک ٹرک ساڑھے پانچ بجے آیا، لیکن چند ہی لمحوں بعد واپس ہوگیا۔ دیوار سے جو شخص بھی پھلانگ کر باہر آتا حملہ آور اس پر پِل پڑتے۔ لاٹھیوں سے اس کی تواضع کی جاتی اور نوکیلے روڑے ہاتھوں میں تھام کر مارے جاتے۔
مولانا مودودی جلسے میں پہنچ ہی نہ پائے، انہیں سواچار بجے تقریر کرنی تھی، وہ چار بجے گھر سے روانہ ہوئے لیکن راستوں کو بند پایا۔ شرپسندوں نے راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی تھیں، دو راستوں سے مایوس ہو کر وہ تیسرے راستے کی طرف بڑھے ہی تھے کہ جماعت کا ایک کارکن مل گیا، اس نے انہیں بتایا کہ تیسرا راستہ بھی کھلا نہیں، اس لیے آپ گھر جاکر انتظار فرمائیں۔ مولانا جائے قیام پر لوٹ آئے اور منتظمین کے بلاوے کا انتظار کرتے رہے، مگر بلاوا نہ آسکا، حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔
ایوب چلڈرن پارک سے سنگ باری کے لیے روڑے فراہم ہورہے تھے۔ اس کی دیواروں کے کئی حصے توڑ ڈالے گئے تھے۔ اس کے درمیان میں واقع تالاب کی چار دیواری بھی توڑی جاچکی تھی۔ سیکڑوں افراد ان اینٹوں کے ٹکڑے بنا کر جناح ایونیو اور ڈی آئی ٹی روڈ پر موجود لوگوں کو سپلائی کررہے تھے۔ گورنر ہاؤس کے سامنے کھڑے ہو کر میں نے بڑے روح فرسا مناظر دیکھے۔ ایک لڑکا چیخا، مغربی پاکستان کا مولانا ہمیں اسلام سکھانے آتا ہے۔ (ایک اخبار نویس نے کہا کہ میں اس لڑکے کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، یہ ہندو ہے) جو شخص سڑک سے گزرتا اگر وہ خود کو بنگالی کہتا اور شیخ مجیب الرحمن زندہ باد کا نعرہ لگاتا، تو اسے چھوڑ دیا جاتا۔ اگر کوئی ایسا کرنے سے انکار کر دیتا تو اس کی خوب مرمت ہوتی۔ ایک ٹوپی والے صاحب کو پیٹا جارہا تھا کہ چند لڑکے ادھر آنکلے، انہوں نے کہا یہ تو شیخ مجیب کے ساتھ ہے، اسے چھوڑ دو۔ ایک لڑکا بولا، شیخ مجیب کا حامی ہے تو ٹوپی کیوں پہنتا ہے۔ یہ صاحب ایک مقامی کالج میں عربی کے لیکچرار ہیں اور چھ نکات کے پُرجوش مبلغ، لیکن ان کی ٹوپی انہیں بھی لے ڈوبی۔ میرے سامنے انسان انسانوں اور مسلمان مسلمانوں کو پیٹ رہے تھے، گورنر ہاؤس خاموش تھا۔ اپنے ارد گرد سے بے خبر، بے حس اور پتھر تو ہوتے ہی بے حس ہیں اس میں گورنر ہاؤس کا کیا قصور؟ اس افراتفری کے دوران مجھے روشنی کا ایک ہیولا بھی نظر آیا، ایک ایسا ہیولا جو محض کچھ لمحے کے لیے ہی لشکا، لیکن پورے ڈھاکا کو جگمگا گیا۔ یہ ایک قوی ہیکل نوجوان اس نے ایک آدمی کو آٹھ دس لڑکوں سے پٹتے دیکھا تو ان لڑکوں کے سامنے کھڑا ہو کر للکارا، مسلمان کو مسلمان نہیں مار سکتا۔ لڑکے اس نوجوان کی نظر کے شعلوں کی تاب نہ لاسکے اور چلے گئے۔ چند لمحے بعد یہ روشنی میری آنکھوں سے بھی دور ہوگئی لیکن میں اسے آج تک آنکھوں میں سموئے پھرتا ہوں۔ یہ نوجوان امید کی کرن ہے، متحدہ اور مضبوط پاکستان کا ’’سمبل‘‘ جب تک ایسے جوان زندہ ہیں، پاکستان کیسے کمزور ہوسکتا ہے؟
اسٹیج پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں ایک مختصر سا جلسہ ہوا، جس میں بنگالی قومیت کے خلاف ہر تحریک کو کچل دینے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ جناح ایونیو روڈ پر موجود بے شمار لوگوں نے اس بات کی شہادت دی کہ اس جلسے سے عوامی لیگ کی حامی اسٹوڈنٹس لیگ کے ایک سابق سیکرٹری سراج الحق نے خطاب کیا تھا۔ جلسے کے بعد مختلف بینروں کو اکٹھا کرکے آگ لگا دی گئی، ان میں کلمے کا بینر بھی شامل تھا۔ اس کے بعد اسٹیج پر لہرانے والا پاکستانی پرچم بھی نوچ کر نذرآتش کردیا گیا۔ ایک پٹھان جس نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، روتے ہوئے کہہ رہا تھا، اب ہم یہاں نہیں رہے گا یہ تو قیامت آگیا ہے۔ بے شمار زخمی اور کئی سامعین مسجد میں محصور تھے، پولیس نے مسجد کے اردگرد گھیرا ڈال رکھا تھا۔ سات بجے کے قریب ڈپٹی کمشنر صاحب تشریف لائے، انہوں نے استفسار کیا: کیا کوئی رہنما بھی یہاں موجود ہے؟ پروفیسر غلام اعظم کے بارے میں بتایا گیا تو وہ اندر داخل ہوئے اور ان سے چلنے کے لیے کہا، مگر پروفیسر موصوف نے انکار کردیا اور کہا: جب تک مسجد میں ایک بھی آدمی پناہ لیے ہوئےہے، میں یہاں سے نہیں جاسکتا۔ اس پر ایک ٹرک کا انتظام کیا گیا اس کے ذریعے پہلے تو زخمی افراد اسپتال تک پہنچائے گئے اور پھر دوسرے حاضرین۔ غلام اعظم سب سے آخر میں باہر نکلے۔
موقع پر موجود بے شمار افراد اس بات کی شہادت دے سکتے ہیں کہ ۶ یا ۷ ٹرک آدمیوں سے بھر کر آئے تھے اور گلستان سنیما سے تھوڑاساپیچھے رُکے، ان میں سے آدمی اُترے اور جناح ایونیوروڈ اور ڈی آئی ٹی روڈ پر پھیل گئے۔ جناح ایونیو روڈ کے عقب میں واقع نسبتاً سنسان اور ٹوٹی ہوئی سڑک پر موجود افراد ہدایات دے رہے تھے۔ ان میں سے ایک صاحب نے ہاتھ میں بریف کیس پکڑا ہوا تھا، وہ نوجوان ’’ہنڈا‘‘ پر سوار جلسہ گاہ کے باہر چکر لگا رہے تھے اور حملے کے مقامات کا جائزہ لینے میں مصروف تھے۔ ایک کار میں اسٹوڈنٹس لیگ کے صدر جناب طفیل احمد اور سیکرٹری جناب عبدالرب بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ شیخ مجیب کے ایک فرزند ارجمند کو بھی وہاں دیکھا گیا۔۔ ان حضرات کی موجودگی کو اتفاقی امر قرار نہیں دیاجاسکتا۔ طفیل احمد صاحب نے ہنگامے کے بعد جو بیان دیا اس سے ان کے عزائم کی بخوبی نشاندہی ہوجاتی ہے۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: ہم امن پسند ہیں، لیکن کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ ہمارے چھ نکات اور گیارہ نکات کی عوامی تحریک کو سبوتاژ کرے۔ (یہ بیان اخبارات میں بھی شائع ہوا ہے۔ اس سے اس کے سوا اور کیامراد لی جاسکتی ہے کہ ۶ نکات اور ۱۱ نکات پر تنقید کرنے والوں کو نشانہ بنایا جائے)
میں جلسہ گاہ سے اپنے ہوٹل میں پہنچا ہی تھا کہ اطلاع ملی لاہور کے ایک صحافی شدید زخمی ہوئے ہیں اور پریس کلب میں مجھے بلارہے ہیں۔ ڈھاکا کے ایک نیک دل شہری نے میری مدد کی اور اپنی کار میں مجھے پریس کلب لے گئے۔ وہاں سے مذکورہ صحافی کو لے کر ہم ڈھاکا میڈیکل کالج اسپتال پہنچے تووہاں کہرام مچا تھا۔ بے شمار لوگ اسپتال کے باہر پریشان کھڑے تھے، زخمیوں کا تانتا بندھا تھا ڈاکٹروں کے علاوہ طالب علموں کو بھی طلب کرلیا گیا تھا۔ لیکن پھر بھی اسٹاف ضرورت کے مطابق نہیں تھا۔ منفورڈ اسپتال کا بھی یہی عالم تھا یہاں معلوم ہوا کہ پانچ سو سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ اسپتال سے واپسی پر اطلاع ملی کہ ایڈن ہوٹل پر بھی حملہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے یہاں چھاترو شنگھو کی سالانہ کانفرنس ہورہی تھی یہاں اجتماع کے موقع پر بنائی گئی عارضی عمارت کو آگ لگا دی گئی تھی۔ اگلے روز یہاں جمعیت طلبہ عربیہ کا کنونشن ہونے والا تھا، مگر غیر یقینی حالات کی وجہ سے اسے منسوخ کردیا گیا۔
۱۹ تاریخ کو صبح دو بجے رکشوں میں لاؤڈ اسپیکر نصب کرکے عوامی لیگ کی حامی طلبہ مجلسِ عمل کی طرف سے جماعت اسلامی کی ’’غنڈہ گردی‘‘ کے خلاف بارہ بجے دن تک ہڑتال کرنے کی اپیل کی جانے لگی۔ صبح ہوئی تو تمام اخبارات نے جلسے کی عجیب و غریب خبر شائع کی۔ اس میں ہنگامے کی ذمہ داری جماعت اسلامی کے سر ڈال دی گئی تھی اور ہنگامے کو ’’جماعت اور سامعین‘‘ کے تصادم کا نام دیا گیا تھا۔اس ہنگامے میں کچھ فوٹو گرافروں کو بھی چوٹیں آئی۔ آزاد، اتفاق، پوربودیش، پیغام، ونیک پاکستان، سنگباد، پاکستان آبزرور اور اے پی پی کے عملے نے فوٹوگرافروں کے زخموں کا ذمہ دار جماعت کو قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت میں قراردادیں پاس کی تھیں، ان کو بھی اخبارات نے بڑی تفصیل سے چھاپا تھا۔ تمام قراردادوں کا متن قریباً ایک جیسا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کسی ایک آدمی نے قرارداد لکھ کر اس کی نقول مختلف دفاتر میں منظوری کے لیے بھیج دی تھیں۔ ایک طرف یہ سب ہو رہا تھا دوسری طرف بنگلا روزنامے ’’شنگرام‘‘ اورایک مقامی اردو روزنامے کی فروخت پر طلبہ کی ’’سرکار‘‘ نے پابندی لگا دی تھی۔ ہاکروں کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر انہوں نے ان دو اخباروں کو بیچا تو ان کے تمام اخبارات جلا دیے جائیں گے۔ مذکورہ دو اخباروں نے واقعاتی رپورٹنگ کی تھی اور عوامی لیگ کے حامی ’’طلبہ حکام‘‘ کی پریس ایڈوائس تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کی سزا انہیں ملنی ہی چاہیے تھی۔ عوام کو صحیح واقعات سے بے خبر رکھنے کی ان تمام کوششوں کے باوجود ہڑتال کامیاب نہ ہوسکی اور کاروبار حسبِ معمول جاری رہا (۲۰ جنوری کے) ’’پاکستان آبزرور‘‘ کی سرخی تھی ’’ہڑتال پر کان نہیں دھرے گئے‘‘۔ اس پر طلبہ حکومت کے نمائندوں کو بڑا غصہ آیا اور انہوں نے تین گاڑیوں کو آگ لگا دی تاکہ اس طرح دہشت پھیلے اور ہڑتال کامیاب ہو جائے۔ ۱۸؍اور ۱۹ تاریخ کی درمیانی رات ایک بجے ایسٹ پاکستان رائفل کو طلب کرلیا گیا تھا، لیکن پورے شہر پر کنٹرول کرنے میں بڑی دیر لگ گئی تھی، اس لیے کہ ’’قانون کی دھجیاں بکھیرنے کی کھلی چھٹی تھی‘‘۔ مشرقی پاکستان بھاشانی نیپ کے جنرل سیکرٹری محمد طٰہٰ اور مشرقی پاکستان عوامی لیگ کے پبلسٹی سیکرٹری عبدالمومن اور ڈھاکا عوامی لیگ کے سیکرٹری غازمی غلام مصطفی نے ’’جماعت اسلامی کے فاشسٹ طرزِ عمل، آمرانہ رویہ اور غنڈہ گردی‘‘ کی بھرپور مذمت کی تھی۔ پی ڈی پی اور کونسل مسلم لیگ کے رہنماؤں نے بھی غنڈہ گردی کے خلاف بیان دیے تھے لیکن غنڈہ عناصر کی نشاندہی نہیں کی تھی۔ اسے طلبہ حکام سے خوف کا نتیجہ سمجھا جارہا تھا۔
تصادم میں جہاں دوسرے افراد زخمی ہوئے وہاں پریس فوٹو گرافر بھی لپیٹ میں آگئے۔ اس میں جلسے کے منتظمین کا کیا قصور تھا؟ لیکن کئی اخبارات نے اسے جس طرح اچھالا اس سے ان کے عزائم نظر آسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ لاہور کے صحافی مظفر بیگ شدید زخمی ہوئے۔ انجمن صحافیانِ مشرقی پاکستان کے صدر جناب شہید اللہ قیصر نے مجھے اس امر کی اطلاع دی، لیکن ان کے حق میں کسی کے منہ سے کلمۂ خیر نہ نکلا۔ ڈھاکا کے ایک انگریزی ہفت روزہ ’’ینگ پاکستان‘‘ کے ایڈیٹر جناب عزیز الرحمن بلیمینی کو شدید چوٹیں آئیں، لیکن ان کا قصور یہ تھا کہ وہ مجیب صاحب کے مخالف ہیں، اس لیے اخباری یونٹوں نے انہیں بھی نظرانداز کر دیا اور تو اور روزنامہ ’’شنگرام‘‘ کے فوٹو گرافر لاپتا تھے۔ (جب تک میں وہاں رہا ان کی بازیابی کی کوئی اطلاع نہیں مل سکی) اس پر بھی کسی اخبار نویس نے تشویش کا اظہار نہ کیا۔ میں اخبار نویس ہونے کی حیثیت سے اس صورتحال پر افسوس کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
انجمن صحافیان کے اس رویے کی وجہ یہی ہے کہ وہ خود ایک فریق بن چکی ہے، اس کے جنرل سیکرٹری جناب رمیش مترا صاحب نے ۲۰ جنوری کو ایک بیان جاری کیا جس میں جلسے کے منتظمین کی مذمت کے علاوہ یہ اعلان بھی کیا گیا ہے: ’’۱۱ نکاتی پروگرام کی ہر قیمت پر جدوجہد جاری رکھی جائے گی‘‘۔
اس ہنگامے اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات تشویشناک بھی ہیں اور افسوسناک بھی۔مشرقی پاکستان کے سنجیدہ حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر یہی لیل و نہار رہے تو انتخابات پُرامن نہیں ہوسکیں گے۔ دہشت اور خوف و ہراس کی فضا کے باوجود سیاسی حلقوں کو اس بات کا یقین تھا کہ دوسروں شہروں میں عوامی لیگ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور دیہات میں تو خصوصاً اسے اس کی بھاری قیمت چکانی ہوگی۔ اس خوف سے عوامی لیگ نے جیسور میں اپنے جلسۂ عام کو جو ۲۳ جنوری کو ہونے والا تھا، منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ہوا کا رخ قطعی طور پر قابو سے باہر نہیں ہے۔ اگر انتظامیہ امن و امان برقرار رکھنے کا عزم مصمم کرلے تو پھر عوام شرپسندوں سے اچھی طرح نپٹ سکتے ہیں، عوام روز روز کی ہڑتالوں سے تنگ ہیں، ہزاروں رکشے اور ریڑھی والے ان ہڑتالوں کو عذابِ الٰہی سمجھتے ہیں۔ تاجر پیشہ حضرات، دفاتر میں کام کرنے والے اور تجارتی فرمیں سبھی اس صورتحال سے بیزار ہیں۔ مقامی انتظامیہ کی لاپروائی اور اغماض برتنے کی پالیسی نے انہیں کہیں کا نہیں رکھا۔ وہ اگر عوامی لیگی ’’طلبہ حکام‘‘ کا حکم ماننے سے انکار کردیں، تو پھر آگ اور لوٹ مار اُن کا مقدر ہیں۔ اگر انتظامیہ قانون کی حاکمیت قائم کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ کرے تو پھر عوام شرپسندوں سے بخوبی نبٹنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
سیاسی حلقے اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے جو نکات بیان کرتے ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں:
(۱) حکومت کی فراخ دلی اور نرم رویے کو کمزوری قرار دیا جارہا ہے۔ چند ماہ پیشتر کچھ طلبہ کو مارشل لا ریگولیشنز کی خلاف ورزی کرنے پر سزائیں سنائی گئیں لیکن انہیں گرفتار نہ کیا جاسکا۔ صدر یحییٰ جب ڈھاکا پہنچے تو عوامی لیگ کے صوبائی سیکرٹری تاج الدین کی اپیل پر ان طلبہ کو معاف کر دیا گیا۔ اس بات سے انہوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور وہ کئی بار اپنی تقریروں میں اسے حکومت کی کمزوری سے تعبیر کرچکے ہیں۔
(۲) مقامی گورنر کا رویہ بھی چند طلبہ گروپوں کے ساتھ بڑا دوستانہ ہے۔ انہوں نے بہت سے طلبہ لیڈروں کو گھر پر بلایا اور انہیں عشائیہ دیا۔ ان کی جناب طفیل احمد سے دوستی کا یہ عالم ہے کہ وہ انہیں خود ٹیلی فون فرماتے ہیں اور ایک انتہائی ذمہ دار افسر کے بقول طفیل صاحب کہتے ہیں: آپ ٹیلی فون رکھ دیجیے، میں آپ کا نمبر ڈائل کرتا ہوں، پھر بات کریں گے، کیا خبر گورنر کے بجائے کوئی اور بات کر رہا ہو۔ ممکن ہے گورنر صاحب یہی سمجھتے ہوں کہ طلبہ سے دوستی بڑھانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
(۳) شیخ مجیب الرحمن خود کو وزیراعظم سمجھتے ہیں، غیر ملکی اخبارات بھی ان کی وزارتِ عظمیٰ کا خوب پروپیگنڈا کر رہے ہیں، معتبر ذرائع سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ انہوں نے ’’شیڈو کابینہ‘‘ (Shadow Cabinet) بھی ترتیب دے لی ہے، اس میں اگرتلہ کیس کے کچھ ملزمان کو بھی ’’وزیر‘‘ لیا گیا ہے۔ (جلسے میں ہنگامے سے چند روز پیشتر اس کابینہ کا ایک اجلاس بھی ہوا تھا، خدا معلوم اس میں ’’داخلی امور‘‘ کے بارے میں کیا فیصلے کیے گئے؟) ان کی رسائی اور پہنچ کا شہرہ ہے۔ یہ بات بھی سننے میں آئی کہ حال ہی میں مشرقی پاکستان کے جو افسران بدعنوانیوں کے الزام میں معطل ہوئے ہیں، ان میں سے کئی شیخ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے ان میں سے صرف ایک صاحب کو ان کی پرانی خدمات کی بنا پر شرفِ باریابی بخشا اور ان کی حمایت کا وعدہ کیا۔ باقی تمام کو یہ کہہ کر کوٹھی سے نکلوا دیا کہ تم بنگال کے حرامی بچے ہو۔ اس فضا میں سول حکام شیخ صاحب کے حامیوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ انہیں خدشہ ہے کہ شیخ صاحب وزیراعظم بننے کے بعد انہیں انتقام کا نشانہ بنائیں گے۔
(۴) کچھ سول حکام تو خوف کی بنا پر شیخ صاحب کی مخالفت سے انکار کرتے ہیں، لیکن کئی ایسے ہیں جو ان کے حامی اور پیروکار ہیں۔ یہ حضرات بھی ان کے حامیوں کو کھلی چھوٹ دیے رکھتے ہیں۔
(۵) حکومت کو معلومات بہم پہنچانے کے ذرائع بڑے ناقص ہیں۔ ان پر بھی زیادہ تر بنگالی قومیت کے حامی چھائے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ فیلڈ میں کام کرکے اطلاعات اکٹھی کرنے والوں میں سے بھی اکثر بنگلا قومیت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ لوگ حکومت تک صحیح معلومات پہنچنے نہیں دیتے اور اپنی رپورٹوں کوبھی ’’اینگلنگ‘‘ کی سان پر چڑھادیتے ہیں۔ صحیح معلومات فراہم نہ ہونے کی وجہ سے صحیح اقدامات نہیں اٹھائے جاسکتے۔
(۶) پولیس کی اکثریت ہنگامہ پروروں کے ساتھ ملی ہوئی ہے نہ تووہ پولیس سے ڈرتے ہیں اور نہ پولیس ان سے تعرض کرتی ہے۔ بلکہ اکثر پولیس کی ’’نگرانی‘‘ میں وہ اپنا کام سرانجام دیتے ہیں۔ ضوابطِ کار اس قدر پیچیدہ ہیں کہ پولیس کے بجائے فوری طورپر ای پی آر کو طلب نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک پولیس حکام اپنی بے بسی کا اظہار نہ کردیں، ای پی آر طلب نہیں کی جاتی اور پولیس حکام اکثر معاملات کو بگاڑ کی انتہا تک پہنچا کر اپنی بے بسی کا اعتراف فرماتے ہیں۔
(۷) نئے نئے فتنے جگانے میں ہندو حضرات بھی پیش پیش ہیں، کئی ہندو تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنے پورے خاندان کو مغربی بنگال بھیج رکھا ہے، مگر خود شدید جذبۂ ’’حب الوطنی‘‘ کے تحت یہاں رہ رہے ہیں۔ درس گاہوں میں ہندو استاد بڑی تعداد میں ہیں، وہ اپنے طالب علموں کے ذہن سے نظریۂ پاکستان کو محو کرانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ ’’آزاد بنگال‘‘ کے مطالبے کا پوسٹر لگاتے ہوئے ایک ہندو طالب علم پکڑا گیا۔ اس نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی کا طالب علم نہ ہونے کے باوجود جگن ناتھ ہال میں رہ رہا ہے۔ اس نے یہ اعتراف بھی کیا کہ میرے کئی اور بھائی بند بھی انہی کارروائیوں میں مشغول ہیں اور یونیورسٹی کے مختلف ہاسٹلوں میں رہ رہے ہیں۔ پولیس نے اس کی تفتیش کا ذمہ لیا، لیکن ’’تفتیش‘‘ اتنی ہوئی کہ اس لڑکے کو بھی رہا کر دیا گیا۔
(۸) یونیورسٹیوں میں اساتذہ طلبہ کو تشدد کی تعلیم دیتے ہیں، مجھے معلوم ہوا کہ ڈھاکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے ایک استاد نے لیکچر کے دوران طلبہ کو تلقین کی کہ وہ ہر سیاسی جماعت کے جلسے میں پہنچیں اور اسے گیارہ نکات کی تائید کرنے کو کہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسٹیج پر قبضہ کرلیا جائے۔ ۱۱ نکات کو منوانے کے لیے اسی طرح کی مہم چلانی پڑے گی۔
اگر مندرجہ بالا نکات پر غور نہ کیا گیا تو پھر حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ قانون کو سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے، اگر اس پر عمل نہ ہو تو پھر اس کی ضرورت کیا ہے؟
پلٹن میدان میں ہنگامے نے جس موڑ کی نشاندہی کی ہے، وہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے اور خوشگوار بھی۔ لیکن اگر مشرقی پاکستان میں حالات کی گاڑی موجودہ رُخ پر اور موجودہ ہاتھوں میں چلتی رہی، تو کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’زندگی‘‘لاہور۔ ۲ فروری ۱۹۷۰ء)
The old story reminds of many a thing –sad and tragic.It tells us too that we ourselves -the Pakistanis were responsible for all the horror that culminated in the fall of Dacca and dismemberment of Pakistan. India came to support the “traitors” at the opportune time.
laho pukaray ga aasteen ka……
bengal k kocha o bazar main aaj b jamiat aur jammat islami k karkunan he ka khon bhaya ja raha hay aur es baar b hakumat ke sarprasti un ko hasil hay….riasti deshatgardi yahe hay