بھارت نے افغانستان میں اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے شمالی اتحاد کی افواج کو مضبوط کرنے پر ہمیشہ توجہ دی ہے۔ ۲۰۰۱ء میں قتل کیے جانے والے شمالی اتحاد کے کمانڈر احمد شاہ مسعود کو غیر معمولی عسکری امداد کی فراہمی یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے بھارتی سفارت کار کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کو افغان سرزمین پر اپنے فوجی کھڑے کرنے کی حماقت کبھی نہیں کرنی چاہیے۔
بھرت راج متھو کمار نے ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۰ء تک تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں سفیر کی حیثیت سے تعیناتی کے دوران کمانڈر احمد شاہ مسعود اور اُن کی فورسز کو عسکری اور طبی امداد بہم پہنچانے کے عمل کی نگرانی کی۔ بھرت راج متھو کمار کہتے ہیں کہ ۲۶ ستمبر ۱۹۹۶ء کو طالبان نے پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی مدد سے افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کیا تب سے بھارت نے شمالی اتحاد کو مضبوط کرنے کا عمل شروع کیا۔ افغانستان کے صدر نجیب اللہ کو پکڑ کر موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد ایک کھمبے سے لٹکا دیا گیا۔ اِس سے کچھ ہی دیر پہلے ایک طیارے کے ذریعے بھارتی سفارت خانے کے عملے نے افغان سرزمین کو الوداع کہا تھا۔
دوشنبے میں کابل کے مفادات کی نگرانی پر مامور امراللہ صالح نے بھرت راج متھو کمار کو پیغام دیا کہ احمد شاہ مسعود ملنا چاہتے ہیں۔ یوں بھارت اور شمالی اتحاد کے درمیان رابطوں کا باضابطہ آغاز ہوا۔ بھرت راج متھو کمار نے نئی دہلی سے ہدایات لیں کہ ملاقات میں کیا کہنا ہے۔
تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں محمد صالح ریگستانی اُس مکان کے نگران تھے، جس میں احمد شاہ مسعود اور اُن کے اسٹاف کے لوگ ٹھہرے ہوئے تھے۔ یہیں بھارتی سفیر نے احمد شاہ مسعود سے کئی ملاقاتیں کیں۔ اُن کی تواضع چائے اور خشک میووں سے کی گئی۔ احمد شاہ مسعود انگریزی نہیں بولتے تھے۔ امراللہ صالح نے، جو بعد میں انٹیلی جنس چیف بنائے گئے، مترجم کا کردار ادا کیا۔ بھرت راج متھو کمار نے بھارتی سفارتی مشن میں اپنے نمبر ٹو ایس اے قریشی کو مترجم کی حیثیت سے پیش کیا۔
احمد شاہ مسعود نے وقت ضائع کیے بغیر بالکل واضح الفاظ میں کہا کہ انہیں اور ان کے شمالی اتحاد کو بھارت سے مدد درکار ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے چند اشیاء کی فہرست بھی پیش کی جن کی فوری ضرورت تھی۔ نئی دہلی کو یہ فکر لاحق تھی کہ اس لڑائی میں اُس کے لیے کیا ہے۔ بھرت راج متھو کمار کہتے ہیں کہ بات سیدھی سی تھی۔ احمد شاہ مسعود اُس سے لڑ رہے تھے جس سے ہمیں لڑنا تھا۔ احمد شاہ مسعود کا طالبان کے خلاف صف آراء ہونا دراصل پاکستان کے خلاف صف آراء ہونا تھا۔
احمد شاہ مسعود کو بہت کچھ درکار تھا۔ ان کی فہرست طویل تر ہوتی جارہی تھی مگر بھارت نے چند ایک اشیاء ہی فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ نئی دہلی کو اپنے ایک پیغام میں بھرت راج متھو کمار نے لکھا ’’احمد شاہ مسعود بہت مشکل میں ہیں۔ ہم نے انہیں مائع آکسیجن میں پھینک دیا ہے۔ مائع اُنہیں جینے نہیں دے گی اور آکسیجن انہیں مرنے نہیں دے گی‘‘۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر اور سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے جب بھرت راج متھو کمار کا پیغام پڑھا تو جواب بھیجا کہ احمد شاہ مسعود کو بتادیا جائے کہ انہیں بھرپور مدد ملے گی۔ پھر بھارت نے احمد شاہ مسعود کو اسلحہ اور طبی امداد پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا۔ وردیاں، کلاشنکوف، مارٹر گولے، توپیں، گولیاں، میڈیکل سپلائیز، سخت سردی کے ملبوسات اور ڈبوں میں بند خوراک پہنچانے کا عمل شروع ہوا۔ یہ کام بخوبی انجام تک پہنچانے کے لیے لندن میں مقیم احمد شاہ مسعود کے بھائی ولی مسعود سے رابطہ قائم کیا گیا۔ بھارت بہت محتاط تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی بھی طور یہ بات باہر جائے کہ وہ شمالی اتحاد کی بھرپور مدد کر رہا ہے۔ سامان کی ترسیل کے لیے کئی ممالک کے روٹس بروئے کار لائے گئے۔
بھرت راج متھو کمار کو ٹھیک سے تو یاد نہیں کہ بھارت نے شمالی اتحاد کو کس قدر سامان فراہم کیا مگر ہاں انہیں یہ ضرور یاد ہے کہ نئی دہلی میں ملٹری انٹیلی جنس ونگ نے یہ سامان بھیجنے کی ذمہ داری سنبھالی۔ بھارت کی طرف سے سامان باقاعدگی سے تاجک دارالحکومت دوشنبے پہنچتا رہا۔ وہاں کسٹم حکام اس امر کو یقینی بناتے تھے کہ سامان کسی رکاوٹ کے بغیر تاجکستان اور شمالی افغانستان کی سرحد فرخور تک پہنچے۔ فرخور میں احمد شاہ مسعود نے جنگ کے لیے ۱۰ ہیلی کاپٹر رکھے ہوئے تھے۔ ان ہیلی کاپٹر کی مکمل تکنیکی نگرانی بھارت کرتا تھا۔ ۱۹۹۶ء سے ۱۹۹۹ء کے دوران بھارت نے احمد شاہ مسعود کو دو Mi-8 ہیلی کاپٹر بھی دیے۔
طالبان سے لڑائی میں شمالی اتحاد کے زخمی ہونے والے سپاہیوں کو علاج کے لیے افغان تاجک سرحد پر لایا جاتا تھا۔ فرخور میں بھارتی سفارت خانے نے ۲۴ بستروں کا ایک عارضی اسپتال بھی قائم کیا تھا، جس میں ۲ آپریشن تھیٹر تھے۔ اس اسپتال میں ۶ تا ۸ بستروں پر مشتمل آئی سی یو بھی تھا۔ ۵ ڈاکٹروں اور ۲۴ پیرا میڈکز کے ذریعے چلایا جانے والا یہ اسپتال مقامی لوگوں کے لیے او پی ڈی کا بھی اہتمام کرتا تھا۔ اس میڈیکل مشن کے تب کے اخراجات ۷۵ لاکھ ڈالر سے زائد تھے۔
فرخور میں دیسی ساخت کا ہیلی پیڈ بھی تیار کیا گیا۔ یہاں بھارتی سفارت کار باقاعدگی سے آتے تھے اور احمد شاہ مسعود سے ملاقات کرتے تھے۔ احمد شاہ مسعود کے ساتھ اُن کی تصاویر بھی موجود ہیں۔ یہ معاملات اُس وقت مزید بہتر ہوگئے جب تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف نے ویتنام سے واپس آتے ہوئے ۲۲ جنوری ۱۹۹۹ء کو نئی دہلی میں تکنیکی بنیاد پر مختصر قیام کیا۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اُن کا خیر مقدم کیا اور تب شمالی اتحاد کے حوالے سے معاملات پر جامع تبادلۂ خیال ہوا۔ یوں شمالی اتحاد کے لیے بھارت کی عسکری و طبی امداد باضابطہ شکل اختیار کرگئی۔
بھارت کو خطے میں اپنی موجودگی مضبوط بنانے کے لیے تاجکستان میں عینی ایئر بیس کا کنٹرول درکار تھا۔ یہ ایئر بیس سوویت افواج کے استعمال میں رہی تھی۔ اُن کے نکل جانے کے بعد سے یہ یونہی پڑی تھی۔ بھارت نے اس کے رن وے کو توسیع دی۔ چند ایک سہولتوں کا معیار بہتر بنایا۔ یہاں گروپ کیپٹن کے رینک کا افسر تعینات کیا گیا۔ اس کی معاونت کے لیے چار دیگر افسران موجود تھے۔ عینی ایئر بیس پر بھارتی پرچم بھی لہرایا گیا۔
۹ ستمبر ۲۰۰۱ء کو حملے میں شدید زخمی ہونے پر احمد شاہ مسعود کو فرخور میں واقع بھارتی اسپتال ہی لایا گیا تھا۔ محمد صالح ریگستانی نے بھرت راج متھو کمار کو بتایا کہ احمد شاہ مسعود شدید زخمی ہوگئے ہیں اور ان کا بچنا بہت مشکل ہے۔ بھرت راج تب بیلارس کے دارالحکومت منسک میں تعینات تھے۔ اُس دن اُن کی شادی کی سالگرہ تھی اور اُنہوں نے عشائیے کا اہتمام کیا تھا۔ عشائیہ منسوخ کردیا گیا۔ احمد شاہ مسعود کی موت کے بعد معاملات کچھ کے کچھ ہوگئے۔ بھارت کو بساط لپیٹنا پڑی۔ افغان سرزمین پر امریکی افواج کے پہلے دستے کی آمد سے قبل ہی فرخور میں بھارتی اسپتال کو لپیٹ کر مزار شریف منتقل کرنے کا حکم دے دیا گیا۔
اب جبکہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، نئی دہلی اپنی یادوں کو کھنگال رہا ہے۔ امریکا اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ افغانستان کی داخلی سلامتی یقینی بنائے رکھنے میں نئی دہلی کو بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ مئی ۲۰۰۱ء کے آخر میں احمد شاہ مسعود نے بھارتی حکومت کی دعوت پر نئی دہلی کا چار روزہ دورہ کیا تھا۔ بھارت چاہتا تھا کہ شمالی افغانستان کی سلامتی یقینی بنانے کے حوالے سے احمد شاہ مسعود سے معاملات طے کرے۔ جسونت سنگھ نے اپنی ’’اے کال ٹو آنر‘‘ میں لکھا ہے کہ اس ہائی پروفائل دورے میں احمد شاہ مسعود کی سیکورٹی پر غیر معمولی توجہ دی گئی۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ افغانستان اور پاکستان کے بہت سے گروپ احمد شاہ مسعود کی جان کے درپے تھے۔ اِسی کتاب میں جسونت سنگھ نے یہ بھی لکھا کہ شمالی اتحاد سے تعلق اور اُس کے لیے بھارتی امداد اب تک ایسا موضوع ہے جس پر زیادہ کہا گیا ہے نہ لکھا گیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سامنے آتا رہے گا۔
احمد شاہ مسعود نے ۱۹۹۸ء میں بھرت راج متھو کمار سے گفتگو میں کہا تھا کہ افغانستان میں صرف طالبان مسئلہ نہیں ہیں بلکہ بیرونی فورسز بھی بہت بڑی الجھن ہیں۔ طالبان کے ساتھ ساتھ اِن کے خلاف بھی لڑنا ہے۔ اُسی سال موسم گرما میں مزار شریف میں ایرانی سفارت کاروں کے قتل کے بعد ایران نے ڈھائی لاکھ فوجی افغان سرحد پر لگا دیے تھے۔ وہ اپنے سفارت کاروں کے قاتلوں کو سزا دینا چاہتا تھا۔ احمد شاہ مسعود نے ایران کو پیغام بھیجا کہ افغانستان پر حملے کا نہ سوچا جائے۔ صرف مدد کی جائے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ طالبان اور بیرونی فورسز کے خلاف لڑتے رہیں۔
بھرت راج متھو کمار کہتے ہیں ’’میں اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ افغانستان کی سرزمین پر اپنے فوجی تعینات کرنا یا لڑائی میں ملوث کرنا بھارت کی سنگین غلطی ہوگی۔ افغانستان میں الجھ کر ہمیں کیا ملے گا؟ اس وقت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان رسّا کشی چل رہی ہے۔ یہ دونوں اپنے اختلافات مل بیٹھ کر ختم کرلیں تو؟ ایسے میں دانش کا تقاضا یہ ہے کہ بھارت افغان سرزمین پر اپنی فوج بھیجنے اور تعینات کرنے سے مکمل گریز کرے‘‘۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“How India secretly armed Afghanistan’s Northern Alliance”. (“The Hindu”. Sept. 1, 2019)
جب بھارت شمالی اتحاد کی فوجی مدد کر رہا تھا تو ایران کو سب کطھ معلوم تھا۔ ۔ ۔ مسلمانوں کےئ خلاف غیر غیر مذہب کی مدد کو ایک طرفرکھ کر مسلمانوں کے اٹھاد کی بات مرنا ایران کو مناسب نہیں تھا۔ ۔ ۔ ابھ بھی ایران کو چاہےے کہ وہ طالبان کو افغانستان میں کامیاب ہونے دی۔ ۔ ۔ ہند کبھی بھی ایران کا ساتھی نہیں ہو سکتا۔ ۔ ۔ چاہ بہار پورٹ دے۔ ۔ ۔ اس میں سے بھی گھلبھوشن برآمد ہو گیا ۔ ۔ ۔ جس سے پاکیستان۔ ایران میں دوریاں بڑھیں۔ ۔ ۔ اے کاش اقبال ففلسفہ اتحاد پر عمل کر کے مسلامان ایک ہو جائیں