۵ فروری ۲۰۱۵ء کو اردن کی حکومت نے القاعدہ کے نظریاتی سرپرستِ اعلیٰ ابو محمد المقدسی کی رہائی کا اعلان کیا۔ المقدسی ۵۶ سال کے ہیں۔ انہوں نے ۱۹۸۰ء کے عشرے کے دوران اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے نمایاں مقام حاصل کرنا شروع کیا۔ ان کی بعض تحریریں اس قدر انقلابی نوعیت کی ہوتی تھیں کہ خود القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن بھی حیران رہ جاتے تھے اور کسی حد تک تحفظات کا اظہار کرتے تھے۔ المقدسی پہلی نمایاں انتہا پسند شخصیت تھے جنہوں نے سعودی شاہی خاندان کو مرتد قرار دے کر اس کے خلاف جہاد کو فرض قرار دیا۔
آج المقدسی القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو اپنا بہترین دوست بتاتے ہیں۔ المقدسی کو القاعدہ کے دیگر قائدین بھی انتہائی احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں جہادیوں کے لیے نصاب کا سا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کے نظریات سے متاثر ہونے والوں میں یوں تو اور بھی بہت سے جہادی ہیں مگر انہیں ابو مصعب الزرقاوی کا استاد تصور کیا جاتا ہے۔ الزرقاوی ہی نے وہ تنظیم قائم کی جو بعد میں دولت اسلامیہ فی العراق والشام (داعش) میں تبدیل ہوئی۔ اردن میں دونوں کو ۱۹۹۰ء کے اواخر میں غیر قانونی اور غیر شرعی طور پر جہاد شروع کرنے کے الزام میں جیل میں ڈال دیا گیا۔ الزرقاوی کو ۱۹۹۹ء میں رہا کردیا گیا۔ اس نے انتہا پسندی کے راستے پر چلتے ہوئے جنگ کے بعد کے عراق میں فرقہ وارانہ بنیاد پر انتہائی پرتشدد واقعات کی بنیاد ڈالی۔ قتل و غارت اس قدر عام ہوئی کہ کئی تقریروں میں المقدسی نے اپنے سب سے عزیز شاگرد کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
المقدسی کو دہشت گردی سے متعلق امور کے امریکی اور یورپی ماہرین اس وقت جہادیوں کے لیے سب سے زیادہ بااثر زندہ شخصیت قرار دے رہے ہیں۔ المقدسی نے اپنی پوری توجہ داعش پر مرکوز کردی ہے، کیونکہ داعش کے طریق کار سے انہیں بہت حد تک اختلاف ہے۔ جب داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے اسلامی خلافت کا اعلان کیا تو المقدسی نے اس اعلان کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اپنے اسلامی مشن کے منافی قرار دیا۔
المقدسی اور داعش کے درمیان بیانات کی حد تک جو جنگ چل رہی ہے، اس سے یہ اندازہ تو ہوتا ہی ہے کہ جہادیوں کے درمیان نظریات کی سطح پر غیر معمولی اختلافات پائے جاتے ہیں جو محض سوچ ہی نہیں بلکہ طریق کار یا حکمت عملی کے حوالے سے بھی ہیں، مگر ساتھ ہی ساتھ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کسی زمانے میں سب سے زیادہ انتہا پسند اور جہادی اسلامی گروپ سمجھی جانے والی تنظیم القاعدہ سے بھی آگے کی چیزیں آچکی ہیں۔
داعش اور القاعدہ کے درمیان اختلافات اور کشیدگی اب عملی شکل اختیار کرچکی ہے۔ داعش نے القاعدہ کو فنڈنگ اور بھرتی کے حوالے سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جہادیوں کی کئی نمایاں نظریاتی شخصیات سے انٹرویوز کے ذریعے یہ بات سامنے آئی ہے کہ داعش نے القاعدہ کو اندرونی طور پر توڑنے کی بھرپور مہم شروع کر رکھی ہے اور یہ بات بھی اب زیادہ ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ القاعدہ کا سِحر بہت حد تک توڑا بھی جاچکا ہے۔
المقدسی نے اپنے دوست ابو قتادہ کے گھر پر گفتگو کے دوران بتایا تھا کہ داعش والوں نے بہت سے نظریات سے یکسر انحراف کرلیا ہے اور وہ جس راہ پر چل رہے ہیں، اس کے پیش نظر انہیں جہادی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ المقدسی کی نظر میں یہ لوگ ایک مافیا کی طرح ہیں یعنی چند مذموم مقاصد ہیں جن کے حصول یا تکمیل کے لیے یہ لوگ کام کر رہے ہیں۔
ابو قتادہ وہ عالم ہیں جنہیں کئی برطانوی سیکرٹریز داخلہ نے دیس نکالا دے کر اردن بھیجنے کی بھرپور کوشش کی۔ اُن کا شمار بھی چند نمایاں جہادی شخصیات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے المقدسی کے ساتھ مل کر داعش کو ہدف تنقید بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ابتدا میں ابو قتادہ نے المقدسی کے ساتھ مل کر داعش والوں کو القاعدہ کے دائرے میں واپس لانے کی کوشش کی۔ اس معاملے میں ’’گڈ کوپ‘‘ ’’بیڈ کوپ‘‘ والی ذہنیت اپنائی گئی۔ المقدسی کا کردار مایوس باپ کا تھا جو چاہتا تھا کہ اس کا بگڑا ہوا بیٹا برے کام چھوڑ کر دوبارہ معمول کی زندگی بسر کرنے لگے۔ اس کے مقابلے میں ابو قتادہ نے داعش پر تنقید کے تیر برسانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کے بہت سے بیانات انتہائی تلخ اور طنز سے بھرپور رہے ہیں۔
داعش کے جن کاموں کو المقدسی اور ابو قتادہ بہت بڑے جرائم یا خطاؤں میں شمار کرتے ہیں، ان کی فہرست بہت طویل ہے۔ داعش نے جہادی تحریک میں تقسیم کا عمل شروع کیا اور جہادیوں کو تقسیم کرکے ہی دم لیا۔ داعش کے عہدیدار اور کارکن ایمن الظواہری پر کھل کر تنقید کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے خلافت قائم کی ہے اور اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تمام مسلمانوں کو پابند کیا ہے کہ وہ اس خلافت کو قبول کریں یا پھر موت کے لیے تیار ہوجائیں۔ المقدسی اور ابو قتادہ نے داعش سے طویل تبادلۂ خیال کیا ہے۔ انہوں نے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ خود ابوبکر البغدادی سے بھی مذاکرات کیے ہیں، مگر داعش کو القاعدہ کے دائرے میں واپس لانا ممکن نہیں ہوسکا۔ ابو قتادہ کا کہنا ہے کہ داعش اب القاعدہ کا برائے نام بھی احترام نہیں کرتی۔ وہ القاعدہ کے دائرے میں واپس آنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ داعش جہادی تحریک کو بھی شدید نقصان پہنچا رہی ہے اور وہ پوری مسلم امہ کے خلاف ہے۔
المقدسی اور ابو قتادہ نے جس شدت کے ساتھ تنقید کی ہے، اس سے داعش بہت پریشان ہے اور اب داعش کے چیف پروپیگنڈسٹ ابو محمد العدنانی نے دونوں شخصیات کے خلاف سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلانے کا حکم دیا ہے۔ داعش کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اب ان دونوں شخصیات کو مغرب کے حاشیہ بردار اور داعش مخالفین کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ داعش کے انگریزی جریدے ’’دابق‘‘ کے چھٹے شمارے میں المقدسی اور ابو قتادہ کی پورے صفحے کی تصویر شائع ہوئی ہے جس میں ان دونوں رہنماؤں کو گمراہ عالم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جس قدر شیطان سے بچنا ضروری ہے، اس سے کہیں زیادہ ان دونوں سے بچنا ضروری ہے!
داعش کا المقدسی اور ابو قتادہ کے خلاف جانا کوئی ایسی بات نہیں جس پر حیرت ہو۔ ان دونوں نے داعش کے لیے بہت سی مشکلات کھڑی کی ہیں۔ ان کی تقریروں اور تحریروں سے داعش کو نقصان پہنچتا رہا ہے۔ دونوں میں غیر معمولی ہم آہنگی ہے جس کی بدولت وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اپنی بات عمدگی سے پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ دونوں کے مزاج میں البتہ تھوڑا سا فرق ہے۔ المقدسی نے جیلوں میں اچھا خاصا وقت گزارا ہے جس کی بدولت ان میں چند ایسی خصوصیات پیدا ہوئی ہیں جن کی مدد سے وہ اپنی بات کو زیادہ موثر طور پر بیان کرنے کا ہنر پروان چڑھاچکے ہیں۔ وہ کم رفتار سے بھی تقریر کرسکتے ہیں اور ضرورت محسوس ہو تو تیز رفتاری سے بھی بول سکتے ہیں۔ گفتگو یا تقریر کے دوران المقدسی کبھی کبھی اچانک کوئی لطیفہ بھی سنا دیتے ہیں اور پھر قہقہہ لگنے لگتا ہے۔ گفتگو یا تقریر کو جاندار بنانے کا فن انہیں آتا ہے۔ وہ تحریر کے بھی بادشاہ ہیں۔ اپنے خیالات کو عمدگی سے بیان کرنا اور قلم بند کرنا انہیں خوب آتا ہے۔ وہ زندگی کے کئی رُخ اور پہلو دیکھ چکے ہیں، اس لیے اب انہیں اس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں کہ کسی بات کا کیا انجام ہوسکتا ہے۔ وہ اپنی بات بیان کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور بیان کر گزرتے ہیں۔
داعش کی کامیابیوں یعنی پُرتشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ قتل و غارت کا بازار عراق اور شام میں ایسا گرم رہا ہے کہ بہت سے جہادی گروپ بھی صرف دیکھتے رہ گئے ہیں۔ داعش کے نوجوانوں نے پے در پے کئی ایسی کامیابیاں حاصل کی ہیں جو انہیں خود سر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ جہادی تنظیموں کے نظریاتی ستونوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ انہیں اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں کہ ابو قتادہ اور المقدسی جیسی شخصیات کیا سوچتی ہیں اور ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ القاعدہ میں وہ بات نہیں رہی، جو کبھی تھی۔ داعش کے سامنے اس کا چراغ تقریباً بجھ چکا ہے۔
ابو قتادہ کا کہنا ہے کہ داعش کا وجود جہادی تحریک کے لیے پہلے تعفّن جیسا تھا اور اب یہ سڑاند کے مرحلے سے گزر کر پوری تحریک کو سڑانے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ داعش کا وجود محض خوش نما ہے۔ جیسے کسی ریستوران میں داخل ہوں اور وہاں پلیٹ میں لذیذ اور دل کش دکھائی دینے والا کھانا دکھائی دے۔ مگر جب آپ کچن میں داخل ہوں تو معلوم ہو کہ وہاں تو ہر طرف گندگی ہی گندگی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پلیٹ میں جو کچھ ہے، وہ گندگی سے بچا ہوا نہیں۔ یہی حال داعش کا ہے۔ جہادی تحریک کے لیے یہ گروہ کینسر کے پھوڑے کی طرح ہے جسے بروقت نکال کر نہ پھینکا جائے تو صرف خرابی رہ جاتی ہے۔
ابو قتادہ اور المقدسی کو اس بات پر شدید حیرت ہے کہ نظریاتی بنیاد مضبوط کرنے کے لیے داعش نے القاعدہ کے علما کی تصانیف اپنائیں۔ داعش کے عہدیداروں نے ابو قتادہ اور المقدسی کی کتب بھی گلے سے لگائیں۔ انہوں نے القاعدہ کی نظریاتی بنیاد سے متاثر ہوکر علمی سرمایہ اپنالیا اور اب کام نکل جانے کے بعد وہ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ انہوں نے ایسا کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ داعش کے پاس اب بھی کوئی باضابطہ علمی بنیاد نہیں۔ وہ دوسروں کی تحریروں اور تصانیف کو بنیاد بناکر گزارا کر رہے ہیں۔ ابو قتادہ اور المقدسی کے نزدیک یہ زبردست خیانت ہے کہ نظریاتی بنیاد مستحکم کرنے کے لیے کسی تنظیم کا علمی سرمایہ جی بھر کے استعمال کیا جائے اور پھر جب طاقت حاصل ہوجائے تو اسی تنظیم کو خیرباد کہتے ہوئے اپنے آپ کو اس سے بہتر چنائو قرار دیا جائے۔
المقدسی اور ابوقتادہ کا کہنا ہے کہ جب اسامہ بن لادن اس دنیا میں تھے، تب القاعدہ کا ایسا دبدبہ تھا کہ کوئی بھی ان کے خلاف ایک لفظ بھی بولنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتا تھا۔ پوری تنظیم پر اسامہ بن لادن کی گرفت انتہائی مستحکم تھی۔ تمام کام ان کے حکم سے ہوتے تھے۔ ان کے زمانے میں ابو قتادہ اور المقدسی نائب سربراہ ایمن الظواہری کو ڈاکٹر ایمن کہا کرتے تھے۔ جو بھرپور طاقت اسامہ بن لادن کو میسر تھی یا انہوں نے اپنے زورِ بازو سے پیدا کی تھی، وہ ایمن الظواہری کو میسر نہیں۔ تنظیم کا سربراہ بننے کے وقت ہی سے انہیں تمام آپریشنل معاملات میں جامع ترین اختیارات میسر نہیں رہے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ ان کی شخصیت میں وہ طلسم نہیں جو اسامہ بن لادن کی شخصیت میں تھا اور ہے۔ اسامہ بن لادن کے دور میں تمام اختیارات ایک شخصیت میں مرتکز تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ تنظیم کی قیادت نے اختیارات کو تقسیم کردیا ہے۔ اب بیشتر فیصلے چند اعلیٰ ترین عہدیداروں پر مشتمل شوریٰ کرتی ہے۔ ایسے میں ایمن الظواہری کے لیے کچھ زیادہ کر دکھانے کی گنجائش نہیں رہی۔ یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ ایمن الظواہری بہت حد تک تنہائی کا شکار ہوگئے ہیں۔
ڈاکٹر منیف سمارا نے افغانستان میں جہاد کے دوران زخمیوں کے علاج کے حوالے سے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ جہاد سے متعلق ان کا عملی تجربہ ابو قتادہ اور المقدسی سے کہیں زیادہ ہے۔ ان دونوں شخصیات سے انٹرویو کے دوران ڈاکٹر منیف سمارا بھی موجود تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ القاعدہ کی جڑیں کمزور ہوتی جارہی ہیں۔ فنڈنگ میں بھی غیر معمولی کمی واقع ہوچکی ہیں۔ فنڈ دینے والے بہت سے لوگ اب داعش کی طرف جاچکے ہیں۔
جب اسامہ بن لادن القاعدہ کے سربراہ تھے، تب فنڈ کی کمی تھی نہ نظم و ضبط کی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ القاعدہ کے لیے سربراہ کا منصب اسامہ بن لادن پر بہت جچتا تھا۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ ان کی شخصیت طلسماتی تھی۔ نوجوان ان سے متاثر ہوکر تنظیم کا حصہ بننے پر رضامند ہوجاتے تھے۔ تب کئی ذرائع سے فنڈنگ ہوتی تھی۔ عام افراد بھی عطیات دیتے تھے اور بڑی کاروباری شخصیات بھی۔ اسامہ بن لادن نے علاقائی کمانڈر مقرر کرنے کے معاملے میں ہمیشہ دانش مندی سے کام لیا۔ جن لوگوں نے افغانستان، چیچنیا اور بوسنیا ہرزیگووینا میں جہاد میں حصہ لیا ہو، انہیں کمان سونپی جاتی تھی۔ جہاد کے عملی تجربے کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی تھی۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھا جاتا تھا کہ جسے علاقائی کمانڈر مقرر کیا جارہا ہے، اس میں علمی رجحان ہے یا نہیں۔ اسامہ بن لادن اس بات کو بہت پسند کرتے تھے کہ جس کے ہاتھ میں دستے کی کمان ہو، وہ علم بھی رکھتا ہو، یعنی اسے دین کے بارے میں تمام بنیادی باتوں کا علم ہو اور کسی بھی تبدیل شدہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے وہ مزید پڑھنے کا شوق بھی رکھتا ہو۔ ایسی صورت میں وہ واقعی کمانڈر کا کردار ادا کرتا تھا۔ ان ساری باتوں کے جواب میں اس سے صرف ایک چیز کی توقع رکھی جاتی تھی، وفاداری کی۔ اسامہ بن لادن کے نزدیک وفاداری سب سے بڑھ کر تھی۔
اسامہ بن لادن تنظیم کے ہر معاملے میں غیر معمولی دلچسپی لیتے تھے۔ بعد میں جب صورت حال تبدیل ہوئی اور القاعدہ کی سرگرمیاں زیادہ پھیل گئیں تو پارٹی کا تانا بانا بھی کمزور پڑگیا۔ نظم و ضبط برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوگیا۔ اسامہ بن لادن کی مبینہ شہادت کے بعد صورت حال مزید خراب ہوگئی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اسامہ بن لادن جیسی طلسماتی شخصیت کہاں سے لائی جائے۔ ایمن الظواہری کی شخصیت کا وہ تاثر اور سِحر نہیں جو اسامہ کی شخصیت کا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ایمن الظواہری جغرافیائی اعتبار سے قدرے تنہا ہوکر رہ گئے ہیں۔
ایمن الظواہری کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اسامہ بن لادن کی مبینہ شہادت کے وقت یعنی ۲۰۱۱ء میں جب وہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان پہاڑی علاقے میں روپوش تھے، تب جہادی سرگرمیوں کا مرکز عراق اور شام منتقل ہوچکا تھا۔ جب پاکستانی فوج اور امریکی ڈرونز نے القاعدہ کی گردن کے گرد پھندا کسنا شروع کیا، تب ایمن الظواہری کے لیے فیلڈ میں مصروف کمانڈرز سے رابطہ رکھنا بھی انتہائی دشوار ہوگیا۔ ڈاکٹر سمارا کہتے ہیں: ’’ہم کون سی قیادت کی بات کر رہے ہیں، اگر قائد افغانستان میں ہو اور علاقائی کمانڈر عراق اور شام میں لڑ رہے ہوں؟‘‘
حقیقت یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں القاعدہ کی شاخ اسلامک اسٹیٹ آف عراق (آئی ایس آئی)ایک طویل مدت سے دردِ سر بنی ہوئی تھی۔ ابو مصعب الزرقاری کی قیادت میں ۲۰۰۳ء میں قائم کی جانے والی اس تنظیم نے القاعدہ کا نام بھی استعمال کیا اور فنڈ بھی مگر مرکزی قیادت سے کوئی بھی رابطہ رکھنا اس نے گوارا نہ کیا۔ اور حد یہ ہے کہ اس معاملے میں خود اسامہ بن لادن کی گزارش بھی نظر انداز کردی گئی۔
۲۰۱۰ء میں اسلامک اسٹیٹ آف عراق نے القاعدہ کی مرکزی قیادت سے منظوری لیے بغیر ابو بکر البغدادی کو اپنا سربراہ بنالیا۔ مرکزی قائدین کو کچھ معلوم نہ تھا کہ ابو بکر البغدادی کہاں سے آیا تھا، جہاد کا عملی تجربہ کتنا تھا اور یہ کہ اس پر بھروسا کیا بھی جاسکتا تھا یا نہیں۔ ۲ مئی ۲۰۱۱ء کے ایبٹ آباد آپریشن کے بعد اسامہ بن لادن کے خفیہ ٹھکانے سے جو کچھ ملا، اس میں القاعدہ کے امریکی رکن ایڈیم گیڈن اور اسامہ بن لادن کے درمیان خط و کتابت بھی ملی، جس سے معلوم ہوا کہ ایڈم گیڈن نے اسلامک اسٹیٹ آف عراق کی طرف سے القاعدہ کی مرکزی قیادت کو نظر انداز کرنے اور اس کی تکریم سے گریز پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔ جنوری ۲۰۱۱ء میں ایڈم گیڈن نے، جو کبھی کبھی القاعدہ کے ترجمان کی حیثیت سے بھی کام کرتے تھے، اسامہ بن لادن کو خط لکھا کہ جب اسلامک اسٹیٹ آف عراق جہاد کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کیے ہوئے ہے اور القاعدہ کی مرکزی قیادت سے رابطہ کرنا بھی گوارا نہیں کرتی تو پھر اسے جہادیوں کی صف میں کیوں قبول کیا جائے؟ گیڈن کے الفاظ میں اسلامک اسٹیٹ آف عراق جہادیوں کے دامن پر داغ ہے جس کا مٹایا جانا ناگزیر ہے۔
۲ مئی ۲۰۱۱ء کے بعد اسلامک اسٹیٹ آف عراق کو مٹانے کی ذمہ داری ایمن الظواہری کے کاندھوں پر آپڑی۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو مسئلہ اسامہ بن لادن سے حل نہ ہو پایا، اسے ان سے کمتر حیثیت کے ایمن الظواہری کیسے حل کرسکتے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ امریکا اور عراق کی افواج نے مل کر اسلامک اسٹیٹ آف عراق کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا تھا۔ ایسے میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی اور آئی ایس آئی کی مراد بر آئی۔ آئی ایس آئی کے سربراہ ابو بکر البغدادی نے ۲۰۱۱ء کے آخر میں اپنے ایک کمانڈر ابو محمد الجولانی کو شام بھیجا تاکہ وہ ملک بھر میں پائے جانے والے شدید انتشار سے بھرپور استفادہ کرنے کے بارے میں حکمت عملی تیار کرسکے۔ ابو محمد الجولانی کو فنڈ بھی میسر تھے اور ہتھیار بھی۔ ساتھ ہی ابوبکر البغدادی نے انتہائی جانباز کارکنوں کا دستہ بھی اس کے حوالے کیا تھا۔ یہ دستہ شام کی خانہ جنگی میں بہت ابھر کر سامنے آیا اور اس کی کامیابیوں کی فہرست طویل ہوتی چلی گئی۔ ۲۰۱۳ء تک ’’نصرۃ فرنٹ‘‘ کے نام سے کام کرنے والے گروپ کی کمان سنبھالنے والے ابو محمد الجولانی کی پوزیشن اتنی مستحکم ہوگئی کہ ابو بکر البغدادی کو خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں وہ ایمن الظواہری کی منظوری سے شام میں القاعدہ کی شاخ کا سربراہ نہ بن جائے۔
۸؍اپریل ۲۰۱۳ء کو ابوبکر البغدادی نے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے واضح کردیا کہ آج کے بعد سے آئی ایس آئی اور نصرۃ فرنٹ ایک تنظیم کی حیثیت سے کام کریں گے۔ دونوں تنظیموں کو ملاکر جو اتحاد تشکیل دیا جائے گا اس کا نام اسلامک اسٹیٹ آف عراق و شام (آئی ایس آئی ایس) رکھا جائے گا۔ عرف عام میں اسے ’’داعش‘‘ کہا جائے گا۔ یہ نیا برانڈ کام کرگیا۔ وہی ہوا جس کا اندازہ تھا۔ ابوبکر البغدادی کا آڈیو بیان سنتے ہی ابو محمد الجولانی نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ اب ’’شیخ الجہاد‘‘ ایمن الظواہری حل کریں گے۔ ابو محمد الجولانی نے آئی ایس آئی ایس میں اپنے گروپ کو ضم کرنے سے صاف انکار کردیا۔
ایمن الظواہری کے لیے یہ سب کچھ بہت پریشان کن تھا۔ انہوں نے ۲۴ گھنٹے کے اندر ایک پیغام میں دونوں کمانڈروں سے کہا کہ وہ سکون اور تحمل سے کام لیں اور اپنے نمائندوں کو بھیجیں تاکہ ان سے بات کرکے معاملات کو درست کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے۔ ابوبکر البغدادی نے ایک پیغام میں ایمن الظواہری کو خبردار کیا کہ وہ کسی بھی اعتبار سے ’’غدار‘‘ کا ساتھ دینے کا نہ سوچیں اور یہ کہ اگر ’’غدار‘‘ کا ساتھ دیا گیا تو مزید خون خرابہ ہوگا۔ یہ تمام باتیں انٹرنیٹ کی مہربانی سے راتوں رات کروڑوں افراد تک پہنچ گئیں۔
۲۳ مئی کو ایمن الظواہری نے فیصلہ سنایا کہ آئی ایس آئی چونکہ القاعدہ کی مرکزی قیادت کی باضابطہ منظوری کے بغیر قائم کی گئی تھی، اس لیے اسے تحلیل کیا جاتا ہے اور ابوبکر البغدادی اپنی سرگرمیوں کو عراق تک محدود رکھیں گے۔ دوسری طرف ابومحمد الجولانی کو شام میں القاعدہ کی شاخ کا سربراہ بنانے کا اعلان کیا گیا۔ دونوں کو اپنی اہلیت اور لگن ثابت کرنے کے لیے ایک سال کا وقت دیا گیا۔ یہ معطل سزا واضح اشارہ رکھتی تھی کہ ایک سال میں اگر انہوں نے القاعدہ کے سربراہ کی ہدایات کے مطابق کام نہ کیا تو پھر ان کی پوزیشن مزید کمزور ہوجائے گی۔ معاملات کو مزید بہتر بنانے کے لیے ایمن الظواہری نے اپنا ایلچی ابو خالد السوری بھی بھیجا تاکہ وہ اختلافات دور کرنے میں کوئی بہتر کردار ادا کرسکے۔
ابوبکر البغدادی کے لیے یہ سب کچھ انتہائی شرمناک تھا۔ انہوں نے شام میں جاری ’’جہاد‘‘ میں بہت کچھ لگایا تھا۔ ان کی تو پوری محنت ضائع ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ ابو بکر البغدادی نے ایمن الظواہری کے حکم اور ایلچی کو مسترد کردیا۔ ابو خالد السوری نے ابو بکر البغدادی سے کہا کہ اگر انہوں نے حکم نہ مانا تو پورے معاملے کو عوام کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ ابو بکر البغدادی ایمن الظواہری کے فیصلے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اپنی راہیں الگ کرنے کا اعلان بھی کر بیٹھے۔ اس کے بعد ان کی طرف سے ایمن الظواہری پر براہ راست حملوں کا آغاز ہوا۔ انہوں نے کھل کر کہنا شروع کردیا کہ ایمن الظواہری کی قیادت میں القاعدہ اب ختم ہوچکی ہے، اس کا کوئی وجود نہیں رہا۔
جون میں ابو بکر البغدادی سے متعلق ایمن الظواہری کے فیصلے کو عوام کے سامنے رکھ دیا گیا۔ اس کے جواب میں ابو بکر البغدادی نے بھی فرمان جاری کیا کہ جب تک دم میں دم ہے اور پلک جھپک رہی ہے، آئی ایس آئی زندہ رہے گی۔ ابو قتادہ کے الفاظ میں کسی بھی علاقائی کمانڈر کی طرف سے القاعدہ کی مرکزی قیادت کو یکسر نظر انداز کرنے کا یہ پہلا موقع تھا اور تنظیم کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی۔
اس کے فوراً بعد شام میں القاعدہ اور اس سے وابستہ گروپوں (بشمول نصرۃ) نے داعش کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ کئی ماہ تک جاری رہنے والی لڑائی میں فریقین کا غیر معمولی جانی نقصان ہوا۔ بہت سے کمانڈروں اور ارکان کے اغوا کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر ان کی مسخ لاشیں ملتی رہیں۔ مغربی شام میں داعش کی پوزیشن کمزور ہوئی تو وہ عراق سے ملحق مشرقی علاقوں میں اپنی طاقت جمع کرنے لگی تاکہ وہاں کسی حد تک قدم جمائے رکھے جاسکیں۔ داعش کے قائدین کی بھرپور کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طور چند علاقے مٹھی میں رکھے جائیں۔ دریائے فرات کے کنارے داعش اور نصرۃ کے درمیان گھسمان کی لڑائی ہوتی رہی۔
۱۴؍جنوری ۲۰۱۴ء کو ایمن الظواہری کے ایلچی ابو خالد السوری نے ایک بیان جاری کیا جس میں داعش پر مجاہدین کو اخلاقی عیوب میں مبتلا کرنے کا الزام عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جہادی ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کے بجائے کفار کو نشانہ بنائیں۔
داعش اس مقام پر پہنچ چکی تھی جہاں سے واپسی اس کے لیے ممکن نہ تھی۔ ابو خالد السوری کی طرف سے لائے گئے ایمن الظواہری کے یعنی اپنے سابق قائد کے بیان یا پیغام کا جواب داعش نے یوں دیا کہ پانچ جنگجو اس کمپاؤنڈ میں داخل ہوئے جس میں ابو خالد السوری ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک بم دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں ابو خالد السوری دنیا سے چلے گئے۔
اردن میں اپنے جیل کی کوٹھڑی سے ابو قتادہ اور المقدسی القاعدہ اور داعش کی لڑائی دیکھتے رہے۔ ابو قتادہ کے لیے تو تاریخ خود کو دہرا رہی تھی۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں انہوں نے الجزائر میں شدت پسند گروپ اسلامک آرمی کو قتلِ عام کا کھلا فتویٰ دے دیا تھا، جس کے بعد الجزائر میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت کا بازار گرم ہوا۔ جب اسلامک آرمی نے مخالف گروپوں کے جہادیوں کو قتل کرنا شروع کیا تب ابو قتادہ نے علما کو جمع کرکے اسلامک آرمی کی مذمت کی۔ اب بیس سال بعد ابو قتادہ پھر چاہتے تھے کہ المقدسی ان کے ساتھ مل کر داعش کی مذمت کریں تاکہ جہادیوں کو ایک دوسرے کے خلاف قتلِ عام سے روکا جاسکے۔ وہ داعش کے جنگجوؤں کو یاد دلانا چاہتے تھے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں، وہ اسلامی اصولوں کے سراسر منافی ہے اور کسی بھی اعتبار سے درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
المقدسی نے ابو قتادہ سے کچھ انتظار کرنے کا کہا۔ ان کا خیال تھا کہ داعش میں سب کے سب انتہا پسند نہیں۔ محض چند افراد ہیں، جو قتل و غارت پر یقین رکھتے ہیں اور انہیں کسی نہ کسی طور منایا جاسکتا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ رابطے بڑھا کر داعش کو قتلِ عام سے روکا جائے تاکہ گروپ اپنا وہ کام کرے جس کے لیے وہ تیار کیا گیا ہے۔ یعنی کفار سے لڑائی۔ مگر ایسا نہ ہوسکا اور داعش دن بہ دن زیادہ سے زیادہ بے قابو ہوتی چلی گئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ داعش میں المقدسی کا رابطہ بلند ترین سطح تک تھا۔ ان کا ایک شاگرد ترکی بن علی داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کا باضابطہ سوانح نگار قرار پایا۔ بعد میں اسے علماء کونسل کا سربراہ بھی بنادیا گیا۔ المقدسی کو اپنے اس شاگرد پر ناز تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ترکی بن علی، جس کا تعلق بحرین سے تھا، داعش کی اعلیٰ ترین قیادت تک یہ پیغام پہنچائے کہ معاملات کو مل بیٹھ کر درست کرلیا جائے تو بہتر ہے۔ وقت ضائع کرنے کی صورت میں محض خون خرابہ ہوگا اور مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ ترکی بن علی کو ’’اسکالر ایٹ آرمز‘‘ بھی قرار دیا گیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اس کی حیثیت فیصلہ کن مفتی کی سی ہوگئی۔ اب اگر وہ چاہتا تو محض ایک فتویٰ جاری کرکے داعش اور القاعدہ کے درمیان لڑائی ختم کرادیتا۔ مگر معاملات درست ہونے کی کوئی امید اس لیے بارآور ثابت نہ ہوئی کہ ترکی بن علی اور داعش کے دیگر سرکردہ رہنما اس خیال سے متفق نہ ہوئے کہ الظواہری جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ درست ہے۔ عرب دنیا میں بیداری کی جو لہر دوڑی تھی، اس کی الظواہری نے بھی تعریف کی تھی۔ ترکی بن علی اور دیگر داعش رہنماؤں کا کہنا تھا کہ عوام میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی تو وہ جمہوریت کی بات کرنے لگے، شریعت کی نہیں۔ جب عوام شریعت کی بات ہی نہیں کر رہے تو ان کا ساتھ کیسے دیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ جمہوریت کے الظواہری کی طرف سے حمایت کے اعلان سے بھی ناخوش تھے۔ انہیں اس بات پر اعتراض تھا کہ ایمن الظواہری نے شریعت کے نفاذ کا مطالبہ سرد خانے میں ڈال کر جمہوریت کی حمایت میں بولنا شروع کردیا تھا!
۲۰۱۴ء کے موسم بہار تک استاد اور شاگرد میں رابطہ انتہائی کمزور ہوچکا تھا۔ نظریاتی اختلافات اس قدر تھے کہ بہتری کے بارے میں سوچنا ہی فضول سا لگتا تھا۔ ترکی بن علی نے ایک مضمون بھی لکھا جس میں اس نے اپنے سابق استاد کے بارے میں ناپسندیدہ انداز بیان اختیار کیا۔ ۲۶ مئی ۲۰۱۴ء کو المقدسی نے امید ہار دی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اب معاملات درست نہیں کیے جاسکتے۔ پھر انہوں نے القاعدہ میں اپنے ساتھیوں سے مشاورت کے بعد داعش کے خلاف فتویٰ جاری کردیا۔
المقدسی نے ایک بیان جاری کرکے عوام کو بتایا کہ داعش کے بارے میں کوئی خوش فہمی رکھنے کی ضرورت نہیں۔ اب اسے راہ راست پر لانا انتہائی ناممکن ہے۔ انہوں نے اس بیان میں یہ بھی کہا کہ داعش کے حوالے سے کوئی بھی ایسا گمان نہیں رکھنا چاہیے جس کا سحر ٹوٹنے پر دل کو رنج پہنچے۔
المقدسی نے جو فتویٰ جاری کیا، اس نے معاملات کو خراب کیا۔ داعش کو فکر لاحق ہوئی کہ کہیں اس کی حیثیت مکمل طور پر مشکوک قرار نہ پاجائے۔ ترکی بن علی نے ابوبکر البغدادی سے رابطہ کرکے ان سے کہا کہ اگر جید علماء داعش کے خلاف ہوئے تو اس کے وجود پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ وہ چاہتا تھا کہ جید علماء کو دوبارہ داعش کے بارے میں نرم رائے رکھنے کی تحریک دی جائے۔ طاقت کے ذریعے ایسا ممکن نہ تھا۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ نرمی سے، رابطوں کے ذریعے علماء کو اپنی طرف کیا جائے۔ اسی خیال کے تحت المقدسی سے رابطہ قائم کیا گیا، مگر بات نہ بن سکی۔ سوال صرف حمایت کے حصول کا نہ تھا مگر حمایت خریدنے کی بات ہو رہی تھی۔ ابو قتادہ اور دیگر علماء سے بھی رابطہ کیا گیا۔ ترکی بن علی نے المقدسی، ابو قتادہ کے علاوہ یمن اور لیبیا میں القاعدہ کے رہنماؤں کو لاکھوں ڈالر ادا کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ اس نے المقدسی کو ذاتی حیثیت میں خط بھی لکھا، جس میں وعدہ کیا کہ وہ گرفتاری یا کسی اور کارروائی کے خوف کے بغیر آئیں اور بات کریں۔ ترکی بن علی کی کوشش کا ملا جلا نتیجہ برآمد ہوا۔ المقدسی، ابو قتادہ اور دوسرے بہت سے علماء نے اس پیشکش کو یکسر مسترد کردیا، تاہم القاعدہ سے تعلق رکھنے والے بہت سے جہادی گروپوں میں لاکھوں ڈالر کی پیشکش پر مثبت ردعمل بھی دیکھا گیا اور انہوں نے ترکی بن علی سے رابطہ کرنے میں کوئی ہرج محسوس نہیں کیا۔ المقدسی اور ترکی بن علی میں چند ایک رابطے بھی ہوئے، مگر ناکام رہے۔ المقدسی نے رابرٹ کیسنگ کو چھڑوانے کی بہت کوشش کی۔
معاملات کو غیر معمولی حد تک بگاڑنے میں سب سے اہم کردار اردنی پائلٹ کے معاملے نے ادا کیا۔ ۲۴ دسمبر کو اردن کا ایک لڑاکا طیارہ داعش کے جنگجوؤں نے مار گرایا اور اس کے پائلٹ کو پکڑ لیا۔ اس پائلٹ کی رہائی کی بہت کوشش کی گئی، مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ قیدیوں کے تبادلے کی بات بھی کی گئی۔ اردن کی حکومت پائلٹ کے عوض بہت سے قیدیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار تھی مگر داعش کی قیادت ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہوئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اردن کے پائلٹ کو پنجرے میں بند کرکے زندہ جلا دیا گیا۔
شدید نظریاتی اختلافات نے داعش اور القاعدہ کی راہیں مکمل طور پر الگ کردیں۔ القاعدہ کی قیادت نے چند ایک معاملات میں لچک کا مظاہرہ کیا اور نرمی دکھاتے ہوئے معاملات کو عملاً درست کرنے کی کوشش کی مگر داعش کی قیادت کسی بھی معاملے میں ذرا بھی لچک دکھانے کو تیار نہ تھی۔ اس کے نزدیک غیر لچکدار رویہ اختیار کرنا ہی سب سے بہتر عمل تھا۔
اگر اردن کا پائلٹ زندہ رہ جاتا یعنی چھوڑ دیا جاتا تو بہت کچھ درست ہوسکتا تھا۔ اردن کی حکومت داعش کے لیے کچھ گنجائش رکھنے کو تیار تھی مگر جب اس کی طرف سے انتہائی غیر لچکدار رویہ دکھایا گیا تو اردنی حکومت نے بھی داعش کے لیے ہر طرح کی نرمی ختم کردی اور اس کے بعد داعش کے ٹھکانوں پر بڑے پیمانے پر بمباری کی گئی۔ اس کے جواب میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اردنی مفادات کو نشانہ بنایا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ معاملات مزید بگڑتے گئے۔ پائلٹ کے مارے جانے پر راشدہ الرشاوی کو جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ راشدہ الرشاوی کا تعلق داعش سے تھا۔ اس کی رہائی کے لیے داعش نے مذاکرات بھی کیے تھے، مگر کسی بھی معاملے میں لچک نہ دکھانے پر معاملات مزید الجھ کر رہ گئے۔
المقدسی اور ابو قتادہ کے لیے داعش کو رام کرنا کسی بھی طور ممکن نہیں رہا۔ المقدسی کا داعش کی اعلیٰ ترین قیادت سے رابطہ رہا ہے مگر وہ اب تک اسے کسی ایک نکتے پر بھی اتفاق رائے کی منزل تک لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ داعش کا ایجنڈا کیا ہے، وہ یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہے، کچھ پتا نہیں چلتا۔ ہر معاملے کو اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ کسی بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنا بظاہر کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ المقدسی اردن کے دارالحکومت عمان کے مضافات میں زرقا کے مقام پر سکونت پذیر ہیں۔ ان کے پاس داعش کے قائدین کے دیے ہوئے کئی ایک تحفے اب بھی موجود ہیں۔ ان کے پاس اب یہی کچھ رہ گیا ہے۔ رابطے برائے نام ہیں اور ان سے بھی کچھ حاصل ہونے کی توقع نہیں۔ ایسے میں اردنی حکومت بھی جانتی ہے کہ داعش کو کسی بھی معاملے میں رعایت دینے کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔
ابو قتادہ اور المقدسی کو اب بھی امید ہے کہ القاعدہ کی صفوں میں وہی ہم آہنگی پھر پیدا ہوگی جو اسامہ بن لادن کے دور میں ہوا کرتی تھی۔ مگر حالات کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔ جو کچھ عملی طور پر ہو رہا ہے اور دکھائی دے رہا ہے، وہ یہ ہے کہ اب القاعدہ کی پوزیشن کمزور سے کمزور تر ہوتی جائے گی۔ المقدسی اور ابو قتادہ بھی یہ بات تسلیم کرچکے ہیں کہ داعش کو میدان میں کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ وہ فتوحات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پیروؤں کی تعداد بھی بڑھاتی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوسکا ہے کہ میدان میں ملنے والی کامیابیوں نے داعش کی پروپیگنڈا مشینری کو انتہائی مضبوط بنادیا ہے۔ جو لوگ داعش کی طرف سے پروپیگنڈا کرنے پر مامور ہیں، وہ نہایت مہارت اور چابک دستی سے معاملات کو اپنے حق میں کرتے جارہے ہیں۔ جنگ کے میدان میں ملنے والی کامیابیوں کو وہ اپنی نظریاتی فتح بھی قرار دے رہے ہیں۔ دونوں رہنما اب بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ داعش کی چیرہ دستیوں کو قابو کرنے میں کامیابی ضرور ملے گی اور انہیں بہتر انداز سے رام کرنا ممکن ہوسکے گا۔ ایسا کب ہوگا اور ہو بھی سکے گا یا نہیں، یہ کوئی نہیں جانتا۔ ایسے میں ابو قتادہ اور المقدسی کی سوچ کو محض خوش فہمی یا خوش گمانی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ اب بھی حقائق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کو تیار نہیں۔ سب کچھ خوش گمانی اور خوش فہمی کے آغوش میں ڈال دیا گیا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“How Isis crippled al-Qaida”.
(“The Guardian”. June 10, 2015)
Leave a Reply