
بحران کا شکار اسلام
محولہ بالا تمام تر واقعات، مشاہدات اور اعداد و شمار ایک وسیع تر داستان، کہ عظیم اسلامی تہذیب ایک بہت بڑے بحران کا شکار ہے، کہ محض چند اجزا ہیں۔ شاید یہ بات چند مغربی افراد کے کانوں کو ایک اونچی بڑھک سنائی دے، تاہم اس بحران کو بیشتر معاصر مسلمان بشمول اسلامسٹ اور قدامت پسند، جن پر محولہ بالاسطور میں تنقید ہوئی ہے، ایک منصفانہ بات تسلیم کریں گے۔ وہ لوگ مجھ سے صرف بحران کی نوعیت کے ضمن میں اختلاف کریں گے۔
بیشتر لوگوں بالخصوص اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں) کے نزدیک، مذکورہ بحران دراصل سیاسی ہے کیونکہ (بیسویں صدی کے اوائل میں) سقوطِ خلافت کے زمانے سے اہلِ اسلام کے ہاں مضبوط ریاستوں یا رہنماؤں کا وجود نہیں ملتا۔ وہ رہنما جو ان کے داخلی مناقشات کو ختم کرنے، بیرونی دشمنوں (بالعموم مغرب اور اسرائیل) کو شکست دینے اور دنیاوی کامیابی کے حصول کی خاطر ان کو متحد اور متحرک کرنے کے قابل ہوں۔ مسلمان معاشرے، استعمار کے تنخواہ دار گماشتوں (مِلی و قومی) یا غداروں (ففتھ کالمز) کے ہاتھوں گنجلگ ’’غیر اسلامی‘‘ تصورات کی دلدل میں دھنس رہے ہیں، اور ہنوز ’’خوابِ خرگوش‘‘ میں مگن ہیں۔ اسلامسٹوں کی عمومی رائے کے مطابق، بیداری کی خاطر مسلمانوں کو ایک ہراول تحریک (جس سے ان کی مراد عموماً وہ خود ہوتے ہیں)، یا پھر ایک ’’نئے صلاح الدین ایوبی‘‘ (جس سے ان کی مراد عموماً اسلامسٹوں کا کرشماتی رہنما ہوتا ہے)، کی حاجت ہے جو اسلامی اتحاد کو ازسرنو بحال کرے گا اوروہی ہماری قدیمی شان و شوکت کو پھر سے زندہ کرے گا۔
قدامت پسند مذکورہ استدلال کے جوہر سے متفق ہوں گے لیکن وہ عام طور سے اس بات کا اضافہ کریں گے کہ حالیہ بحران کی بنیاد میں ایک اخلاقی بحران بھی ہے کہ ایک اعتبار سے ہم مسلمان راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ قدامت پسندوں کا استدلال ہے کہ ابتدائی زمانے کے مسلمانوں کے برخلاف، ہم جدید عہد کے مسلمانوں کو اخروی کی بجائے دنیاوی نفع اور مسرتوں کی لت لگ چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم رحمتِ خداوندی اور اپنے دین کی روحانی قوت کو کھو بیٹھے ہیں۔
بالفاظِ دیگر، اسلامسٹ اور قدامت پسند، دونوں کا استدلال ہے کہ ہمارے پاس موجود نظریہ، یعنی اسلامی روایت، تو کامل ہے اور ہم صرف اس پر عمل کرنے کے باب میں ناقص ہیں۔ اور اس کامل روایت پر عمل پیرا ہونے کی ہر ناکام کاوش کے بعد وہ لوگ بڑی آسانی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ’’لیکن یہ حقیقی اسلام نہیں ہے‘‘، اس امید کے ساتھ کہ اگلی کوشش کامیاب ٹھہرے گی۔ تاہم تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے ہاں بنیادی نظریے کے ساتھ ہی مسئلہ اور نقص ہے۔ اور خاص کر اس سطح پر کہ جہاں اسلامسٹ اور قدامت پسند دونوں ہی اسلامی روایت کو بے عیب سمجھتے ہیں: یعنی اقدار۔
میری مراد یہ ہے کہ چند صدیاں قبل، دنیا میں بہ مشکل ہی کوئی شخص اسلامی تہذیب کو اس کی اقدار کے پیش نظر تنقید کا نشانہ بنا سکتا تھا۔ کیونکہ دنیا کے دیگر حصوں بشمول یورپ کے پاس دینے کو کچھ بہتر نمونہ نہیں تھا۔ مثال کے طور پر، جب کیتھولک اور پروٹسٹنٹ تیس سالہ جنگ (۱۶۴۸۔۱۶۱۸ء) کے دوران ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے تھے، تو کثیر المذہبی عثمانی سلطنت برداشت اور رواداری کا روشن مینار دکھائی دیتی تھی۔ بعینہ، جب پندرھویں صدی عیسوی میں کیتھولک اسپین میں یہودیوں پر مقدمے چلائے جا رہے تھے، ان میں سے بیشتر امن اور آزادی کی تلاش میں اسلامی تہذیب کی جانب روانہ ہوئے۔
تاہم لبرل جدیدیت کے ظہور کے ساتھ دنیا ڈرامائی انداز میں تبدیل ہو چکی ہے، لازمی طور پر بہتری کی جانب اور کم ازکم اپنی اقدار کے ضمن میں۔ ’’انسانی حقوق‘‘ انسانیت کے ایک عظیم الشان حصے کے ہاں تسلیم کردہ ایک ’’عالمی‘‘ قدر بن چکی ہے (خواہ ان کے ناقابلِ احتساب حکمرانوں کے ہاں ایسا نہ ہو)۔ چنانچہ یہ امر ایک بدیہی صداقت بن چکا ہے کہ کسی شخص کو بھی مذہب پر ایمان لانے کی خاطر مجبور نہیں کرنا چاہیے، اور تمام افراد کو اپنی مرضی کے عین مطابق زندگی بسر کرنے کا اہل ہونا چاہیے تاوقتیکہ وہ کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ بعینہٖ، قانون کی نگاہ میں رنگ، نسل اور جنس کی تفریق کے بغیر برابری نے انصاف اور شعور کے ایک نئے معنی کو جنم دیا ہے۔
عصرِ جدید سے بہت پہلے ظاہر ہونے والے تمام تر روایتی مذاہب کو عصر جدید کے ساتھ مطابقت درکار تھی اور بیشتر نے ایسا کر لیا۔ پروٹسٹنٹ نے ’’بدعتیوں‘‘ (heretics) اور ’’جادو گرنیوں‘‘ کو آگ میں جلا کر یا کسی دوسرے مہلک ذریعے سے ہلاک کرنے کو ترک کر دیا۔ کیتھولک نے، جن کی تاریخ صلیبی جنگوں اور مذہبی تفتیش (Inquisition) جیسے سنگین واقعات پر مشتمل ہے، بیسویں صدی تک سیاسی سیکولرازم یا مذہبی آزادی جیسے جدید تصورات کی مزاحمت کی۔ تاہم ۱۹۶۰ء کی دوسری ویٹیکن کونسل اور اس کے ’’عظمتِ انسان‘‘ نامی لبرل اعلامیے کے ذریعے کلیسا نے ایک بہت بڑا قدم اٹھایا۔ یہودیت، جو کسی گروہ کے قانونی مقاطعے کے قابل کسی قسم کی سیاسی سیادت سے محروم تھی، مگر اس کے باوجود گتھی ہوئی معاشریت (communitarianism) کی حامل تھی، (اٹھارویں صدی کی تحریک برائے اصلاحِ مذہب یعنی) ’’دانش‘‘ (Haskalah) یا یہودی روشن خیالی کے دور سے گزری جس نے یہودیوں کو جدید معاشرے میں جذب ہونے، حتیٰ کہ کچھ معاشروں کی بنیاد رکھنے میں آسانی فراہم کی۔
تاہم اسلام کے ضمن میں ابھی تک ہم نے کوئی بڑا لبرل قدم نہیں اٹھایا۔ مسلم اکثریت کے حامل بیشتر ممالک میں مذہب کے مرکزی رہنماؤں کے ہاں ابھی تک ماقبل جدید دور کا اندازِ جہاں بینی اور اصولِ فقہ و قانون (jurisprudence) موجود ہے، جس کا جدید اقدار کے ساتھ تناؤ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ’’ اسلام امن کا مذہب ہے‘‘، یہ بات ناقابلِ یقین ہے جب اس کے ساتھ یہ بھی کہا جائے کہ ’’ مرتدینِ اسلام واجب القتل ہیں‘‘۔ بعینہٖ، اس بات پر اصرار کرنا بے معنی ہے کہ ’’اسلام خواتین کو بہت عزت بخشتا ہے‘‘ جب کہ ہمارے پاس ایسے مستند متون موجود ہوں کہ بیوی کو مارنے کے مناسب انداز کون سے ہیں۔
مستقبل کا راستہ: اسلامی جدیدیت
چنانچہ، عظیم الشان اسلامی تہذیب کو درپیش یہ بہت بڑا بحران، دو گروہوں کی باہمی کشمکش سے پھوٹتا ہے۔ پہلے وہ مسلمان جو اس ماقبل جدید دور کے اندازِ جہاں بینی اور اصولِ فقہ و قانون کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں (اور زیادہ بڑا المیہ یہ کہ اس کو سبھی پر نافذ کرنا چاہتے ہیں)، اور دوسرے وہ مسلمان جنھوں نے جدید لبرل اقدار کو تسلیم کر لیا ہے۔ موخر الذکر میں سے بعض لوگ بالخصوص جو مغربی ممالک میں مقیم ہیں نیز اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں) اور قدامت پسندوں دونوں کے دباؤ سے آزاد ہیں، عین ممکن ہے کہ اس مسئلے سے نظریں چرا پائیں، تاہم ان کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب وہ روایتی تعلیمات کو قدرے باریک بینی کے ساتھ دیکھیں۔ نوٹرے ڈیم کی دانش گاہ میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ابراہیم موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ ’’معاصر عہد کے وہ مسلمان جو دینی تعلیمات سے آگاہ ہیں‘‘، کیسے شدید حیرت کا شکار ہو سکتے ہیں:
’’جب غور و خوض کرنے والے ایسے جدید مسلمان مساجد کے خطبات سنتے اور وہاں دی جانے والی تعلیمات کو دیکھتے ہیں یا علما کے جاری کردہ فتاویٰ پڑھتے ہیں، وہ اکثرو بیشتر چکرا کر رہ جاتے اور غم و غصہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تاہم جو وہ سنتے ہیں، وہی ’’سنیت‘‘ (Sunnism) کا حقیقی موقف ہے‘‘۔
ابراہیم موسیٰ بذات خود ’’اسلامی جدیدیت‘‘ یا ’’اسلامی ترقی پسندی‘‘ (Islamic Progressivism) کے ایک سوچنے سمجھنے والے حمایتی ہیں۔ ’’اسلامی جدیدیت‘‘ اسلام کے بنیادی ماخذوں یعنی قرآن مجید، اور سنت (فعلِ پیغمبر) کے ازسرنو مطالعہ کی ایک کاوش ہے، جو بنیادی ماخذوں کو ان کے تاریخی پس منظر میں رکھتے ہوئے جدید تناظر میں ان کی غیر جامد/اجتہادی (Non-literal) تعبیر نو سے عبارت ہے۔ مذکورہ رجحان نوجوان عثمانیوں (Young Ottomans) جیسے سیاسی مصلحین اور محمد عبدہٗ جیسے مصری یا ہندوستانی سرسید احمد خان جیسے مذہبی مصلحین کی بدولت انیسویں صدی میں ظاہر ہوا، وہ مصلحین جنھوں نے بقول کرسٹوفر ڈی بیلاگ (Christopher de Bellaigue) ’’اسلامی روشن خیالی‘‘ (Islamic Enlightenment) کی دانشورانہ بنیادیں استوار کیں۔ بیسویں صدی میں سیکولر اور اسلامسٹ قوتوں کے مابین مسلسل تصادم کی بدولت اسلامی جدیدیت کا دائرہ سکڑ گیا (اور بعض اوقات اسلامی جدیدیت کو ان طاقتور فریقین نے اختیار کیا)، تاہم اس نقطہ نگاہ کو فضل الرحمن ملک جیسے دانشوروں نے مزید کھول کر بیان کیا، جنھوں نے تعبیرِ قرآن مجید کے واسطے ایک جدید علم التفسیر اور سنت رسولؐ کے ایک تنقیدی تجزیاتی مطالعہ کو پیش کیا۔
اسلامی جدیدیت (تاریخی اعتبار سے) عیسائیت اور یہودیت سے مماثلت کی حامل ہے کہ اس نے بھی لبرل جدیدیت کو اختیار کرتے ہوئے یکساں رویہ اختیار کیا، یعنی حاصلاتِ عقل کی تحسین کرتے ہوئے اپنی مذہبی جڑوں سے وفاداری۔ ڈینیل فلپوٹ اپنی کتاب ’’اسلام میں مذہبی آزادی‘‘ (Religious Freedom in Islam) مطبوعہ ۲۰۱۹ء میں اس مماثلت کو بیان کرتے ہیں کہ ’’عظمتِ انسان‘‘ (Dignitatis Humanae) کی جانب کیتھولک عیسائیت کا اختیار کردہ راستہ کیسے اسلام کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے کہ وہ اپنے ہاں قرآن و سنت سے استناد حاصل کرنے والے ’’تخمِ حریت و روشن خیالی‘‘ کی آبیاری کرے۔
ایسے مسائل سے نبردآزما ایک مسلمان کی حیثیت سے میں بذات خود اس یقین کا حامل ہوں کہ مذکورہ یعنی ’’اسلامی جدیدیت‘‘ کا راستہ ہی امت مسلمہ کے مستقبل کے واسطے محفوظ ترین راستہ ہے۔ مذکورہ راستہ اسلام کی بنیادوں کے ساتھ وفادار رہنے کا راستہ ہے، نہ صرف معاصر انسانی شعور میں پیوست جدید اقدار کو قبول کرتے ہوئے بلکہ اپنے (مذہبی) عقائد کے ساتھ ان کو ہم آہنگ کرتے ہوئے۔ یہ اینگلو سیکسن معاشروں سے مماثل راستہ ہے، وہ معاشرے جہاں مذہب، حریت اور جدید ترقی، جانی دشمنی کی بجائے اکثر و بیشتر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دکھائی دیتے ہیں۔
تاہم اگر اسلامی جدیدیت کو حاشیے پر ہی رکھا جاتا ہے، تو امت مسلمہ ان دونوں انتہاؤں کے مابین بٹی رہے گی، ایک جانب ’قدامت پسند اور اسلامسٹ‘ (اسلامیت پسند) جو ماضی کے عہد کو محفوظ اور یہاں تک کہ ازسرنو تازہ کرنا چاہتے ہیں اور دوسری جانب ’’جدید ذہن کے حامل مسلمان‘‘ جو ’’الحادی الہٰیت‘‘ (deism)، لادینیت اور مختلف انواع کے جنگی سیکولرازم کی جانب پہلے سے زیادہ مائل ہوں گے۔ یہ فرانس کے تجربے سے مشابہ ہے جہاں مذہب اور حریتِ فکر باہمی متصادم قوتوں کی حیثیت سے ابھرے، جس نے معاشرے کو شدید سماجی جنگوں کی جانب دھکیل دیا۔ اس وقت تک اسلامی تہذیب میں (فرانس سے مشابہ) تھوڑے بہت واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ تاہم سخت ترین تصادم، چاہے خونی نہ بھی ہو، عین ممکن ہے کہ سماجی جنگوں کی شکل میں رونما ہو بالخصوص اگر قدامت پسند اور اسلامسٹ اپنے غیر لبرل، عدم برداشت پر مبنی اور نظریاتی بالادستی کے حامل طریقہ ہائے کار پر ڈٹے رہے۔ قدامت پسندوں کے ہاں روایت کے ساتھ غیر متبدل وابستگی اور اسلامسٹوں کے ہاں روایت کے نفاذ کی خاطر ہونے والی جارحانہ کوششوں نے پہلے ہی معاشروں کو مفلوج اور بہت سے لوگوں کو تباہ کر ڈالا ہے۔ عین ممکن ہے کہ مزید تباہی آئے تاوقتیکہ قدامت پسند اور اسلامسٹ اپنے نقطہ نگاہ کو نہیں بدلتے۔
(ترجمہ: عاصم رضا)
“How Islamists are Ruining Islam”. (“hudson.org”. June 12, 2020)
بہت قابلِ غور