
’’جب مذہب ابدی حقائق کی ارفع اقلیم کو ترک کر دیتا ہے، اور نیچے اتر کے دنیاوی جھمیلوں میں دخل اندازی شروع کر دیتا ہے، تو وہ اپنی اور دنیا و مافیہا کی ہر شے کی ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے‘‘۔ (عثمانی سیاست دان، مصطفی فاضل پاشا، ۱۸۶۷ء)
۱۰؍اپریل ۲۰۱۸ء کو قومی قانون ساز مجلس (پارلیمان) سے اپنے ہفتہ وار خطاب کے دوران ترکی کے طاقتور صدر طیب ایردوان اور ان کے وزیر تعلیم عصمت یلماز کے مابین ایک مختصر گفتگو ہوئی،جس کے کچھ حصے غلطی سے ٹیلی ویژن پر نشر ہو گئے حالانکہ مائیکرو فون کو بند رکھنے کا اہتمام تھا۔
یہ ایک دلچسپ منظر تھا۔ اپنے خطاب کے درمیان میں، ایردوان نے یلماز کو اسٹیج (پوڈیم) پر بلایا، اور ’’الحادی الہٰیات (Deism) پر رپورٹ‘‘ کے بارے میں دریافت کیا، جس کا ذکر ان کے کلیدی سیاسی اتحادی دولت باغچہ لی (Devlet Bahceli) نے کچھ گھنٹے قبل ہی اپنی ایک تقریر میں کیا تھا۔ جب وزیر صاحب نے، بصد احترام، اپنے صدر کو اس رپورٹ کے نتائج کی بابت آگاہی دینے کی کوشش کی، تو ایردوان کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا، ’’نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا‘‘۔
مذکورہ رپورٹ کو چند ہفتے قبل ہی ترکی کی وزارتِ تعلیم کی ایک مقامی شاخ نے تیار کیا تھا، اور اس نے ایردوان حکومت کو ’’ نوجوان نسل کے درمیان تیزی سے پھیلتی ہوئی الحادی الہٰیات‘‘ کے حوالے سے متنبہ کیا تھا۔ سرکاری جانکاری (رپورٹ) کے مطابق حکومت کی زیرِ نگرانی چلنے والے مذہبی اسکولوں کے اندر بھی الحادی الہٰیات کا کھوج ملا، یہاں تک کہ (دینی تعلیم دینے والے) امام حطیب ( Imam Hatip) نامی مکاتیب کے اندر بھی، جہاں ایردوان کے دورِ حکومت میں حکومتی ترغیبات اور سرکاری بھرتیوں کے طفیل داخلوں کی تعداد آسمان کو چھو چکی ہے، طلبہ کی ایک کثیر تعداد اسلام پر ایمان کھو رہی تھی۔ رپورٹ کے نتیجے کے مطابق، ’’مکمل الحاد کو اختیار کرنے کی بجائے، (ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے) نوجوانوں کی کثیر تعداد الحادی الہٰیات کا انتخاب کر رہی ہے‘‘۔ اس سے مراد ہے کہ ایک نئی ’’پاک باز/نیکوکار نسل‘‘ کی آبیاری کے واسطے ہونے والی ایردوان حکومت کی جان توڑ کاوشوں کے باوجود، ترکی کے نوجوانوں کا ایک قابل ذکر حصہ اسلامی عقیدے سے دور ہٹتے ہوئے، ایک غیر معین و غیر واضح خدا پر یقین کرنے کا انتخاب کر رہا ہے۔
حالیہ برسوں کے اندر اس سماجی رجحان کا مشاہدہ بہت سے دوسرے ترکوں کو بھی ہوا ہے، اور اس وقت یہ معاملہ ترک قوم کے ہاں زبان زد عام بن چکا ہے۔ ’’ہماری نوجوان نسل الحادی الہٰیات کی جانب کیوں کر مائل ہو رہی ہے؟‘‘، اس سوال کے حوالے سے (ترکی کے) پرنٹ میڈیا میں سیکڑوں مضامین لکھے جا چکے ہیں اور ٹیلی ویژن پر درجنوں مکالماتی نشستیں منعقد ہو چکی ہیں۔ اپریل ۲۰۱۸ء میں ڈائریکٹر مذہبی امور، علی ایرباش نے پہلے پہل تو الحادی الہٰیاتی عقیدے کے فروغ کی بابت منظر عام پر آنے والی رپورٹوں کی مکمل تردید کی نیز اس امکان کو یکسر جھٹلایا کہ ’’ہماری قوم کا کوئی فرد (الحادی الہٰیت) ایسے گمراہ کن تصور میں دلچسپی لے سکتا ہے‘‘۔ تاہم پانچ ہی مہینوں کے بعد ایرباش کے محکمے نے الحادی الہٰیت کے خلاف ’’اعلانِ جنگ‘‘ کر دیا۔
ترک قوم میں الحادی الہٰیت کی وباکیوں؟
اس ’’الحادی الہٰیت کی وبا‘‘ ، جیسا کہ ترکی کے قدامت پرست مذہبی حلقے اس کو منسوب کرتے ہیں، کے پسِ پردہ قوت کیا ہے؟ ایردوان کے بعض حمایتی پنڈتوں نے اس سوال کا جواب اسی شے میں کھوجا ہے، جو ان کے اندازِ جہاں بینی کی بنیاد بن چکی ہے: مغربی سازش۔ مثال کے طور پر دنیائے صحافت (میڈیا) کے معروف مسلمان مبلغ نہاد ہاتپ اوغلو (Nihat Hatipoglu) کے نزدیک، ’’سامراج‘‘ نے جلیل القدر ترک قوم کو الحادی الہٰیت کا ٹیکہ لگایا، بالخصوص ایسے وقت میں ترکی کو کمزور کرنے کے واسطے جب وہ آخرکار دوبارہ سے شاہراہِ عظمت پر گامزن ہے نیز اپنی اسلامی بنیادوں کی جانب پلٹ رہا ہے۔ اعلیٰ سطح کے سرکاری مذہبی رہنما علی ایرباش کے نزدیک، نوجوان ترک نسل کے الحادی الہٰیت کی جانب مائل ہونے کے پیچھے حقیقی قوت، مغربی ’’مبلغین‘‘ ہیں، جو مفروضے کے طور پر اس جتن میں ہیں کہ نوجوانوں کو ’’اسلام سے دور کرنے کی غرض سے‘‘ الحادی الہٰیت کی جانب متوجہ کیا جائے اور پھر بعدازاں ان کو مسیحی بنا لیا جائے۔
تاہم دوسرے ترکوں کے نزدیک الحادی الہٰیت سے متعلق تمام تر بحث ایک بہت بڑی سازش کی بجائے اعلیٰ درجے کی ستم ظریفی پر مبنی ہے: ترک قوم، جو اپنی ’’ننانوے فیصد مسلم آبادی‘‘ پر اکثر و بیشتر فخر کا اظہار کرتی ہے، اس کے اندر ایک ایسے وقت میں اسلام سے بے نظیر دوری وقوع پذیر ہو رہی ہے جب اسلام کے علمبردار یعنی اسلامیت پسند بشمول صدر طیب ایردوان اور برسراقتدار جسٹس اور ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) میں ایردوان کے وفادار حضرات، ماضی کے مقابلے میں سیاسی اعتبار سے نسبتاً بہت زیادہ طاقتور ہیں۔
درحقیقت، کوئی اس طرح سے استدلال کر سکتا ہے کہ یہ ایک ستم ظریفی نہیں ہے بلکہ ایک قابل فہم سلسلہ علت و معلول ہے: اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں) کے اقتدار میں ہونے کی بدولت ہی اسلام سے دوری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چونکہ جسٹس اور ڈویلپمنٹ پارٹی کا اقتدار، یقینی طور پر استبدادی، بدعنوان اور ظالم ثابت ہو چکا ہے، چنانچہ بعض ایسے لوگ جو اس پارٹی کی طاقت اور ایجنڈے سے خار کھاتے ہیں، وہ اسلام سے بھی دوری اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ترکی میں بہت سے لوگ یہی دلیل دے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سے ایک تمل قارا ملّا اوغلو ہیں، جو حزبِ سعادت کے رہنما ہیں۔ جسٹس اور ڈویلپمنٹ پارٹی کی مانند اس پارٹی کی جڑیں بھی اسلام ازم (اسلامیت) میں پیوست ہیں، تاہم اس نے ایردوان حکومت کے خلاف مرکزی سیکولر حزب اختلاف کے ساتھ اتحاد قائم کر لیا ہے۔ قاراملّا اوغلو نے جون ۲۰۱۹ء میں کہا، ’’مذہب کی نمائندگی کے دعویداروں کی بدولت ترکی میں خوف و آمریت کا راج ہے۔ اور اسی وجہ سے لوگ اسلام سے دور بھاگ رہے ہیں‘‘۔ قاراملّا اوغلو کی چھوٹی سی پارٹی مذہبی قدامت پرستوں کی ایک ایسی اقلیت، جس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، کی نمائندگی کرتی ہے جو ایردوان حکومت سے تنگ ہے۔ ایسے ترک رائے دہندگان (ووٹرز) کے سامنے دو نئی سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں، جن کے مرکزی رہنما AKP کے سابقہ اہم رہنما ہیں جنھوں نے اپنی راہوں کو ایردوان سے جدا کر لیا ہے: سابق وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کی رہنمائی میں ’’فیوچر پارٹی‘‘، اور سابقہ ماہر معاشیات علی بابا جان کی زیرِ قیادت ’’تحریک نجات‘‘۔
امریکا میں رہائش پذیر ترک ماہر سماجیات مجاہد بیلیجی ایک دوسرے نقاد ہیں، جو ایک باعمل مسلمان ہیں اور الحادی الہٰیت کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان کو ’’ترکی اسلام ازم (اسلامیت) میں مذہبیت کے بحران‘‘ کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک، مصطفی کمال کے سیکولر نظام کو آخرکار شکست سے دوچار کرنے کے بعد، ’’ترکی مذہبیت نے آزادی کے ساتھ سانس لینے کا آغاز کیا ہے‘‘۔ تاہم، اس کے نتیجے میں ’’ترکی مذہبیت کو آزمائش کی ایک بھٹی سے گزرنا پڑا ہے۔ یہ مذہبیت سیاسی اعتبار سے کامیابی سے ہمکنار ہونے کے باوجود روحانی اعتبار سے ناکام ٹھہری ہے‘‘۔ مزید یہ کہ، الحادی الہٰیت کا ظہور اس ڈرامائی ناکامی کا ایک نتیجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:
’’اس بات پر زور دینا چاہیے کہ اس عمل کا تعلق کمالی سیکولرازم یعنی جدید ترکی کے بانی سیاست دان مصطفی کمال کی ریاستی سیادت کے تحت کارفرما سیکولرائزیشن منصوبے کے ساتھ بہت ہی کم ہے۔ اس کے برخلاف، یہ ایک نامیاتی سیکولرائزیشن ہے جو کلیتاً پرامن ہے اور ریاستی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ سرکاری پالیسیوں کے باوجود رونما ہو رہا ہے۔ یہ ایک مقامی اور ترک روشن خیالی کا نتیجہ ہے نیز مابعد اسلامسٹ (اسلامیت پسند) جذبے کا ثمر ہے۔ اپنے والدین کے مذہبی دعوؤں، جنھیں وہ ریاکارانہ یا منافقانہ سمجھتے ہیں، سے مایوس ہو کر نوجوان نسل انفرادی روحانیت اور روایت کے ایک خاموش انکار کا انتخاب کر رہی ہے‘‘۔
تہران : مشرق وسطیٰ میں سب سے کم مذہبی دارالحکومت
پچھلی دہائی میں جو کچھ ترکی میں ہوا ہے، وہ اس سے بدرجہا کم ہے جو پچھلی چار دہائیوں میں اسلامی جمہوریہ ایران میں ہو چکا ہے۔ وہاں بھی معاشرے کے نسبتاً زیادہ بلند آہنگ اسلامی طبقے، جسے سیکولر حکومت کے تحت لگ بھگ ایک صدی تک دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا تھا، نے ایک انقلابی ولولے کے ساتھ دوبارہ سے اقتدار حاصل کر لیا۔ ایران میں ۱۹۷۹ء سے شروع ہونے والا اسلامی انقلاب زیادہ واضح اور خونی اوصاف سے متصف تھا۔ اس کے برعکس، ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی حکومت میں زور پکڑنے والا انقلاب نسبتاً ملائم، بتدریج، جمہوری اور قدرے پرامن تھا۔ تاہم اس کے باوجود دونوں ملکوں کے حوالے سے یہ کہنا بجا ہے کہ اسلام ایک انتقامی جذبے کے تحت سیاسی قوت کی صورت میں سامنے آیا، لیکن اس سے صرف غیرمتوقع نتائج برآمد ہوئے۔
یہی وجہ ہے کہ ۱۹۷۹ء کے ایرانی انقلاب کو اپنے اصل مقصد یعنی ایرانی معاشرے کی دوبارہ سے اسلام کی جانب واپسی کے بجائے، کم از کم جزواً ہی سہی تاہم اس کے الٹ، یعنی ایران کی اسلام سے دوری، کے حوالے سے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ تہران جانے والے غیر ملکی روز مرہ زندگی میں اکثروبیشتر ان نتائج کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ نکولس پیلم ایسے ہی ایک سیاح ہیں جو ’’دی اکانومسٹ‘‘ اخبار کے مشرق وسطیٰ میں نمائندے کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ ان کو سال ۲۰۱۹ء کے موسم گرما میں ایرانی انٹیلی جنس نے ہفتوں تک حراست میں رکھا اور پھر رہائی کے بعد ہی وہ درج ذیل مشاہدات کو رپورٹ کرنے کے قابل ہوئے:
’’ایران کی مذہبی شہرت کے باوجود تہران شاید مشرق وسطیٰ کا وہ دارالحکومت ہے جو سب سے کم مذہبی ہے۔اخبار مذہبی رہنماؤں کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں، جو قسط وار ڈراموں میں معاشرے کے بڑوں کا کردار ادا کرتے ہیں، لیکن میں نے ان کو اشتہاری بل بورڈوں کے علاوہ گلیوں محلوں میں کبھی نہیں دیکھا۔ بہت سے دوسرے مسلمان ملکوں کے برخلاف، تہران میں اذان کی صدا تقریباً سنائی ہی نہیں دیتی۔ نئی مساجد کی تعمیر کے واسطے ایک بھرپور مہم برپا ہے، تاہم جمعہ کے روز نماز جمعہ ادا کرنے کی بجائے لوگوں کی اکثریت آرٹ گیلریز کو جاتی ہے۔ شراب ممنوع ہے تاہم پیزا کے مقابلے میں گھر پر شراب زیادہ جلدی پہنچائی جاتی ہے‘‘۔
’’ اپنے گھروں کی محفوظ چاردیواری کے اندر خواتین اکثر و بیشتر اپنے سر کو ڈھکنے والے حجابات کو اتار دیتی ہیں، جب وہ انٹرنیٹ پر گفتگو (چیٹ) کرتی ہیں۔ تاریک سینما ہال، اخلاقی نظم و ضبط کا نفاذ کرنے والی پولیس کی نگاہ سے بچنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ کیفے میں خواتین بے اطمینانی کے سبب اپنے اسکارف کھول دیتی ہیں۔ قدرے زیادہ شوخ و بے باک خواتین دس برس کی قید کا خطرہ مول لے کر گلیوں میں بے حجاب نکلتی ہیں۔۔۔ ایران خود کو ایک مُلّائی حکومت قرار دیتا ہے، اس کے باوجود مذہبیت کو تلاش کرنا پریشان کن حد تک مشکل معلوم ہوتا ہے نیز حقیقی مذہبی پیروکار کسی اقلیت کی مانند حاشیے تک محدود دکھائی دیتے ہیں‘‘۔
عمل صالح سے ہمہ گیر دُوری، اسلام کی تشکیلِ نو کی بابت ایرانی انقلاب کے ولولے کی ناکامی کی صرف ایک جہت ہے۔ اسلام سے کھلم کھلا انحراف نسبتاً زیادہ سنگین جہت ہے یعنی ایک انتہائی ناگوار فعل جس سے روکنے کے واسطے اسلامی جمہوریہ ایران سزائے موت کے نفاذ کی خواہاں ہے۔ جیسا کہ میں نے کسی دوسری جگہ لکھا کہ ایران مسلم اکثریت کا حامل ملک ہے جو مرتدین کی تعداد کے اعتبار سے سرفہرست ہے۔ ان سابقہ مسلمانوں کی اکثریت مسیحیت اختیار کرتی ہے جس کی بدولت ایرانی کلیسا، دنیا کا سب سے تیزی سے پھلنے پھولنے والا چرچ ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق، ۱۹۶۰ء سے لے کر ۲۰۱۰ء تک کے درمیانی عرصے میں دائرہ اسلام سے نکل کر مسیحیت اختیار کرنے والوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے۔ ایک حالیہ مطالعے کے مطابق یہ تعداد ڈھائی سے لے کر پانچ لاکھ لوگوں کے لگ بھگ ہے۔ مذہب بدلنے والوں میں سے بعض خفیہ طریقے سے اپنے نئے عقیدے پر عمل کرتے ہیں؛ اور بعض اپنی جانوں کو بچانے کے واسطے بیرون ملک فرار ہو جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں، کچھ ایرانی مرتدین مسیحیت اختیار نہیں کرتے، بلکہ اس کی بجائے کھلم کھلا ’’ملحد‘‘ بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سے ایک اعظم کمگویان (Azam Kamguian) نامی خاتون ہے جو تاثینی حوالے سے سرگرم ہے اور بمشکل ہی ایرانی انقلاب کے ہاتھوں سے محفوظ رہی، بیرون ملک منتقل ہو گئی اور کئی کتابیں بشمول ’’لادینیت، مذہب سے چھٹکارا اور انسانی مسرت‘‘ تحریر کیں۔ ایک دوسری کتاب میں، مذکورہ خاتون نے نہایت پُرجوش انداز میں اس بارے میں لکھا کہ ۱۹۷۹ء کے بعد ایران میں ’’اسلام نے تین متواتر نسلوں کی زندگیوں، خوابوں، امیدوں اور امنگوں کو کیسے تباہ کر ڈالا‘‘۔ یقینا ان تمام عوامل کے پس پردہ قوت، اسلام بذاتِ خود نہیں تھا بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران تھا۔ بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ مابعد انقلاب کے ایران میں ان دونوں کو باہم گڈمڈ کر دینا آسان ہے۔
عرب دنیا میں لادینیت کی ایک موج
عرب دنیا سے متعلق بھی جان لیجیے۔ یقیناً یہ ایک بڑا اور متنوع منظرنامہ ہے، جو مختلف سیاسی تواریخ اور نظاموں کے علاوہ جدا جدا فرقوں، نسلوں یا قبائل کے حامل ۲۲؍ آزاد ممالک پر مشتمل ہے۔ تاہم، عرب دنیا میں لادینیت کی ایک نئی لہر کے آثار کا مشاہدہ ممکن ہے۔
پرنسٹن اور مشی گن کی دانش گاہوں میں واقع عرب بیرومیٹر (Arab Barometer) نامی ایک تحقیقی نیٹ ورک نے حال ہی میں اس قسم کے چند آثار کو نشان زد کیا ہے۔ چھ عرب ممالک (الجیریا، مصر، تیونس، اردن، عراق اور لیبیا) میں ہونے والی رائے شماری میں اس تحقیقی نیٹ ورک کے محققین نے اس بات کو دریافت کیا کہ ’’عرب مذہبی جماعتوں اور رہنماؤں کے حوالے سے بدظن ہو رہے ہیں‘‘۔ چنانچہ پانچ برس کے عرصہ میں اسلامی جماعتوں پر اعتبار نہ کرنے والے عراقیوں کی تعداد ۵۱ سے بڑھ کر ۷۸ فیصد تک پہنچ گئی تھی، متذکرہ بالا ممالک میں ’’اسلامی جماعتوں پر اعتبار‘‘ کا تناسب ۲۰۱۳ء میں ۳۵ فیصد تھا، جو ۲۰۱۸ء میں گھٹ کر ۲۰ فیصد رہ گیا۔ مسجد میں جانے والوں کی تعداد میں بھی اوسطاً دس فیصد سے زیادہ کمی ہوئی، نیز ۲۰۱۳ء میں اپنے آپ کو ’’غیر مذہبی‘‘ کہنے والے عربوں کی تعداد ۸ فیصد تھی جو ۲۰۱۸ء میں ۱۳ فیصد ہو گئی۔
ایسا کیوں کر ہو رہا ہے؟ ایک جواب یہ ہے کہ حال ہی میں عرب دنیا کے اندر اسلام کے نام پر بہت زیادہ خطرناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں شام، عراق اور یمن میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی خانہ جنگیاں شامل ہیں، جہاں متحارب گروہوں نے اکثر و بیشتر انتہائی ظالمانہ انداز میں خدا کے نام پر جنگ میں حصہ لیا ہے۔ ان جنگوں سے متاثر ہونے والے لاکھوں مقامی اور دور بیٹھ کر ان حالات کا مشاہدہ کرنے والے، دونوں ہی مذہبی سیاست کے ہاتھوں شدید صدمے اور مایوسی کے تجربے سے گزرے ہیں، نیز چند ایک نے عمیق سوالات کو اٹھانا شروع کر دیا۔
سخت سوالات پوچھنے اور ان کے نتیجے میں مذہب سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں میں سے ایک، بغداد کا رہائشی ۵۲ برس کا عمر رسیدہ ابوسمیع نامی شخص ہے، جس نے ایک ’’ڈھکے چھپے عراقی ملحد‘‘ کی حیثیت سے اپریل ۲۰۱۹ء میں امریکا کے خبر رساں ادارے قومی نشریاتی کمپنی NBC News سے بات چیت کی۔ رپورٹ کے مطابق، اس نے کہا کہ ’’ہم سنتے تھے کہ اسلام امن کا دین ہے، تاہم داعش (ISIS) نے عفریتوں اور وحشیوں، بلکہ ان سے بھی بدتر سلوک کیا‘‘۔ اور اسی نکتے کے سہارے ابوسمیع نے ایک بڑا موقف اختیار کیا، ’’کیا اسلام ایک امن پسند مذہب ہے؟ بالکل نہیں، اور میں ایسے مذہب کا حصہ بن کر نہیں رہنا چاہتا‘‘۔
ایک دوسرا عراقی شہری، اسلامسٹ (اسلامیت پسند) دانشور اور محقق، غالب الشابندر (Ghalib al-Shahbandar) بھی اس صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے اس بابت پریشانی کا شکار ہے۔ وہ تنبیہ کرتا ہے کہ ’’اسلامی جماعتوں کی الٹی حرکتوں کی بدولت لادینیت کی ایک لہر عراق میں پھیل جائے گی۔ یہی وہ حرکتیں ہیں جس نے لوگوں کو اسلام و دیگر مذاہب کو ترک کرنے پہ مجبور کر دیا ہے‘‘۔
داعش اور اس کے ذیلی گروہوں کی بربریت کے علاوہ، بشار الاسد حکومت کے جبر کے نتیجے میں، کٹے پھٹے ہمسایہ ملک شام میں بھی ایسا ہی رجحان موجود ہے: ’’شامی نوجوانوں کے ہاں ارتداد میں اضافہ‘‘۔ تشدد اور انتشار کی اس صورتحال کے بیچوں بیچ، مصری لکھاری شام العلی لکھتا ہے کہ ’’مذہب (اسلام) پر ہونے والی تنقید پہلے سے زیادہ زور پکڑ چکی ہے، اور بہت سے شامی نوجوان بالخصوص یورپ کے باسی، اپنے قدیم مذہبی طرزِ حیات کو ترک کر رہے ہیں‘‘۔ وہ مزید کہتا ہے کہ ’’اجتماعی سطح پر بھی عرب سوشل میڈیا مذہب مخالف نقادوں اور ان کے (مذہب دشمن) مواد سے لبالب ہے، جو اس بات کی پرجوش دعوت دیتا ہے کہ مذہبی اساطیر کی حیثیت کو ازسرنو طے کیا جائے، یا پھر وہ مذہبیت کا خوب ٹھٹھا اڑاتا ہے‘‘۔
سوڈان بھی اسلام ازم (اسلامیت)کے ایک ہولناک تجربے سے گزرا ہے۔ مسلم اکثریت کی حامل افریقی قوم نے ۱۹۸۹ء تا ۲۰۱۹ء کا عرصہ، فوجی صدر عمر البشیر کی آمرانہ حکومت کے تحت گزارا ہے۔ ۲۰۱۹ء کے اوئل میں ہونے والے عوامی احتجاجوں یا ’’سوڈانی انقلاب‘‘ کے نتیجے میں البشیر کا اقتدار ختم ہوا، اور اس کی حیران کن بدعنوانی بھی آشکار ہوئی: سیکورٹی فورسز نے ۳۵۰ ملین ڈالر (۳۵ کروڑ ڈالر) کی نقدی صرف اس کی رہائش گاہ سے برآمد کی۔ یہ ایک عوامی سبق تھا کہ ’’ایک شخص جس نے اپنے غربت زدہ ابتدائی حالات کا ذکر کرتے ہوئے ہمیشہ عوامی جذبات کو بھڑکایا تھا‘‘، وہ صرف ’’عوام کی نسلوں کی تباہی کے واسطے اپنے لالچ اور ہوس‘‘ کو چھپا رہا تھا۔ اور عوام نے واقعی یہ سبق سیکھ لیا۔ قطری نژاد ایک ممتاز مسلم عالم، عبدالوہاب الآفندی کے بقول، مابعد انقلاب دور کے سوڈان میں ’’اسلام ازم بدعنوانی، منافقت، ظلم اور بدعقیدگی کا نشان بن گیا۔ معروف معنوں میں سوڈان ہی وہ پہلا ملک ہے جو حقیقی معنوں میں (اسلامیت پسندوں کا) مخالف ہے‘‘۔
حقیقی معنوں میں اسلام ازم ہے کیا؟
اس موقع پر یہ نشان دہی کر دینا شاید کارآمد ثابت ہو کہ ہم یہاں دو باہم منسلک مگرامتیازی رجحانات کے متعلق بات کر رہے ہیں۔ ترکی، ایران، سوڈان اور کسی بھی دوسرے ملک میں اسلام ازم(اسلامیت) بیزاری، عین ممکن ہے کہ خود اسلام بیزاری کی جانب لے جائے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بیزاری، لادینیت یا الحادی الہٰیت یا پھر مسیحیت کی جانب لے چلے۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ مذکورہ امر کے سبب انسان نسبتاً کم سیاسی عقیدے کی آرزو کرنے لگے۔ مؤخر الذکر سبب یقیناً تمام ’’مابعد اسلامسٹ‘‘ پس منظروں میں موجود ہے، اور ہوسکتا ہے کہ آخر میں مذکورہ رجحان (نسبتاً کم سیاسی عقیدے کی آرزو) مکمل ترکِ اسلام کے مقابلے میں زیادہ زور پکڑ لے۔
تاہم اسلام ازم کو سنی یا شیعہ اسلام کے مرکزی دھارے سے جدا کرنا سہل نہیں ہے۔ اسلامسٹ (اسلامیت پسند) جماعتیں مثلاً مصر میں اخوان المسلمون، شاید مذہب کو سیاست سے مزید آلودہ کر رہی ہوں نیز دہشت گرد گروہ اس آلودگی میں اندھا دھند تشدد جیسے گمراہ کن عنصر کا اضافہ کر رہے ہیں۔ تاہم یہ سبھی لوگ (اسلامیت پسند جماعتیں اور دہشت گرد گروہ) اسلام کی فقہی روایت یعنی نفاذِ شریعت کے علمبردار بن رہے ہیں۔ وہ شریعت جس کی مرکزی تعبیرات ایسے احکامات پر مبنی ہیں جن کی قبولیت جدید زاویہ نگاہ کے لیے دشوار ہے۔ مثلاً مرتدین اور توہین رسالت کے مجرموں کے لیے سزائے موت، زانی کے لیے سزائے رجم، چوروں کے ہاتھ کاٹنا، کئی گناہوں پر سرعام کوڑے مارنا، خواتین پر لباس کے ضابطوں کی پابندی، عورتوں پر مردوں کی حاکمیت، غیرمسلموں پر مسلمانوں کی برتری، اور مجموعی طور پر ایک ایسے تنگ نظر معاشرے کا کلی تصور جو نہ صرف مذہب پر استوار ہے بلکہ مذہب اس پہ نگہبان ہے۔
شامی نژاد عوامی دانشور محمد شاہرور (متوفی ۲۰۱۹ء) نے، جن کے اسلام سے متعلق اصلاح پسند تصورات کو عرب دنیا میں بڑے پیمانے پر موضوع بحث بنایا گیا ہے، اس نکتے پر زور دیا ہے کہ مسئلہ صرف اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں) کی جانب سے نہیں ہے جو شاید نفاذ شریعت کے واسطے مخصوص سیاسی لائحہ عمل کے حامل ہیں، بلکہ مرکزی دھارے کے ان روایتی اہل علم یعنی علما کی جانب سے بھی ہے جو شریعت کی قدیم تعبیرات کے علمبردار ہیں۔ اپنی ایک تحریر میں مسلمانوں کو ’’تنقیدی استدلال‘‘ کی دعوت دیتے ہوئے شاہرور نے لکھا:
’’ ابتدا میں ہم سمجھے کہ اسلام ازم(اسلامیت) کو علما کے ہاں موجود ٹھوس علمی روایت سے انحراف کی حیثیت سے بیان کیا جائے گا، اور ہمیں علما سے توقع تھی کہ وہ اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں) نیز سیاسی اسلام اور ساری دنیا کو مسلمان کرنے سے متعلق ان کے جارحانہ جذبات کی تردید کریں گے۔ ہمیں اس وقت بہت حیرت ہوئی جب ہم نے ذی وقار علما کی جانب سے کسی قسم کے تردیدی بیان کے بجائے ایسی قانونی تشریحات سنیں جو بنیادی طور پر اسلامسٹوں (اسلامیت پسندوں) کے من گھڑت دعوؤں سے اغماض برتتی تھیں۔ ہم نے تب جانا کہ درحقیقت ارتداد، جہاد اور جنگ و جدل سے متعلق علما کی تعبیرات اسلامسٹوں کی آرا سے زیادہ مختلف نہ تھیں‘‘۔
اس پس منظر میں، معاصر زمانے میں اسلام بیزاری صرف اسلامسٹوں (خواہ اخوان المسلمون جیسی سیاسی تحریکوں کی صورت میں متعین ہو، یا پھر انتہائی رخ پر دہشت گردوں کی صورت میں سامنے آئے) کی بدولت ہی نہیں ہے، بلکہ قدامت پسند سنی، سلفی، یا شیعی علما کے کارن بھی ہے، جو حریت، مساوات اور انسانی حقوق جیسے جدید تصورات کے مخالف مذہبی نقطہ ہائے نظر کے حامی ہیں۔
مثال کے طور پر سعودی عرب کی مثال لے لیجیے، جس نے حال ہی میں اخوان المسلمون جیسے اسلامسٹوں کی غضب ناک طریقے سے مخالفت کی ہے، تاہم اپنے ہاں شریعت کی سخت ترین قسم کو نافذ بھی کر رکھا ہے۔ سعودی حکمران ’’لادینی افکار سے متعلق کسی بھی قسم کی تبلیغ، یا مذہب اسلام کے بنیادی ارکان پر سوال اٹھانے‘‘ کو دہشت گردی کے برابر جرم قرار دیتے ہیں۔ تاہم جیسا کہ حاکم خطیب جیسے صحافی کے مشاہدے میں آیا، ’’سعودی بادشاہت کے بہت سے شہری اسلام سے منہ موڑ رہے ہیں‘‘ اور ان میں سے بعض ویب گاہ پر اپنے خیالات وضاحت سے لکھ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ان پر نافذ کردہ اسلام کی سخت تعبیر کا جبر ہے اور دوسری وجہ اس امکان پر مبنی ہے کہ ایک متبادل دنیا کا ذائقہ چکھا جائے۔ بقول خطیب،’’دیگر اشیا کے علاوہ، غالباً جو شے سعودی باشندوں کو ان کے مذہب سے دور لے جا رہی ہے، وہ سعودی عرب میں نافذ کردہ سخت گیر اور غیر انسانی اسلامی قانون نیز معلومات اور بڑے پیمانے پر ترسیل معلومات تک آسان رسائی ہے‘‘۔
عقیدے سے دوری کے اصل تناسب کا اندازہ لگانا دشوار ہے کیونکہ اس حوالے سے کوئی (باقاعدہ) سروے نہیں ہے نیز بیشتر لوگ اس موضوع پر بات کرنے میں محتاط ہیں۔ تاہم یہ معاملہ نہ صرف سعودی عرب میں بلکہ دیگر ہمسایہ بادشاہتوں میں بھی نہایت سنجیدہ مسئلے کی صورت اختیار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جسے میڈیا بھی اٹھا رہا ہے کہ ’’ہمارے خلیج فارس کے معاشروں کی نوجوان نسل میں لادینیت کو قبول کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے‘‘۔
(لادینی فکر کی ترویج میں) انٹرنیٹ اور بالخصوص سوشل میڈیا ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے جیسا کہ اکثر و بیشتر اس جانب اشارہ کیا جاتا ہے، تاہم محض ایک برآمد شدہ ’’ملحدانہ خیال‘‘ کے علمبردار کی حیثیت سے نہیں جیسا کہ قدامت پسندوں کا عمومی ایقان ہے، بلکہ ایک آزاد مقام کی حیثیت سے، جہاں لوگ (مذہب سے متعلق) اپنے داخلی اضطراب کو بیان کر سکتے ہیں اور ان میں ایک دوسرے کو شریک کر سکتے ہیں، جیسا کہ عبداللہ حمید الدین نے ۲۰۱۹ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب “Tweeted Heresies Saudi Islam in Transformation” میں اس بات کو اجاگر کیا۔ نوجوان نسل کے ہاں عقیدے سے محرومی میں اضافہ ہو رہا ہے، حمید الدین اپنے ذاتی تجربے کے ذریعے دکھاتے ہیں کہ ایسا صرف ان کے اٹھائے ہوئے سوالات کی بنا پر نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کی ایک وجہ ’’روایتی مذہبی علما کی جانب سے دیے جانے والے گھڑے گھڑائے جوابات پر شک اور اضطراب‘‘ بھی ہے۔
ایسی ہی کہانیاں مراکش سے سننے کو ملتی ہیں جہاں سیاست اور قوانین قدرے نرم ہیں لیکن روایتی اسلام اور جدید اقدار کے مابین کشمکش ہنوز برقرار ہے۔ اس کشمکش کی بدولت ترکِ اسلام کرنے والوں میں سے ایک سابقہ مسلمان محمد نامی شخص ہے، جس نے ایک مغربی استاد کے ساتھ بات چیت کی۔ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ اس کے مسلمان ساتھیوں کی خود راستی اس کے لادین ہونے کی وجہ بنی۔
’’اس کے ترکِ دین کا بنیادی محرک اہل اسلام کے ہاں اس حقیقت کا مشاہدہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو ’’ایک حتمی صداقت کے واحد مالک‘‘ سمجھتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ’’صرف اور صرف مسلمان ہی جنت میں داخلے کے مستحق ہیں‘‘۔ ’’تو باقی دنیا کا کیا بنے گا؟‘‘ محمد نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ نیز یہ بھی کہ ’’میرے ایک ہم جماعت کی ماں یہودی تھی۔ میں اس اچھی خاتون کے دوزخ میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘‘۔
دیگر مراکشی ملحدین اپنے ترکِ اسلام کی بابت ایسی ہی ملتی جلتی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ عبداللہ نامی ایک سابقہ مسلمان کے نزدیک، اس کے ترکِ دین کی کلیدی وجہ اس کے رابطے میں آنے والے مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے ہاں ہم جنس پرستوں سے نفرت تھی۔ اس کا سوال تھا کہ ’’اگر خدا نے ہی ہم جنس پرستوں کو پیدا فرمایا ہے تو پھر وہ ان کے گناہوں کے سبب ان کو کیوں کر پھٹکار سکتا ہے؟‘‘۔ ایک دوسرے سابقہ مسلمان کے نزدیک،’’ صنفی امتیاز جیسے اخلاقی مسائل کی بدولت جنم لینے والا تذبذب‘‘ ہی اس کے ترکِ دین کی حتمی وجہ ثابت ہوا۔
یہی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر شمالی افریقا سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک اسلامسٹ (اسلامیت پسند) اور قدامت پسند علما مسلمانوں کو فرد اور رائے کی آزادی یا صنفی امتیاز جیسی جدید اقدار کے خلاف متنبہ کر رہے ہیں۔ ملائیشیا میں ’’لبرل ازم اور تکثیریت‘‘ کے خلاف مساجد میں خطبے دیے گئے، جب کہ اس کے سابق وزیراعظم نے ’’انسانی حقوق پرستی‘‘ کی مذمت کی۔ سعودی عرب میں، وزارتِ تعلیم کے تحت سرکاری اسکولوں میں ایک پروگرام رواں دواں ہے، جو ’’لبرل ازم‘‘، ’’سیکولرازم‘‘ اور ’’مغربیت‘‘ کے خلاف ’’مدافعت‘‘ پیدا کرتا ہے۔ اور ترکی میں ایردوان کے حامی دانشور ’’لبرل جمہوریت بحران کا شکار ہے‘‘ کی دہائی دے رہے ہیں۔
(۔۔جاری ہے!)
“How Islamists are Ruining Islam”. (“hudson.org”. June 12, 2020)
بہت اہم اور قابلِ غور تحریر
Before publishing the translation of this article, the editor should have cross checked the facts from Turkish authentic sources. It appears the Hudson Institute has fabricated the story to malign Islamic revival efforts, specially in Turkey. Throughout the repressive regimes during Kemalist era, such institutes trumpeted the success of secular narrative among Turkish people despite repression whereas they are bringing such false stories of youth aversion from Islam due to Islamist ascendency to power. What a joke?
میں برسوں سے اس پندرہ روزہشمارے کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ ۔ ۔مجھے اس مضمون سے قبل کبھی بھی اس شمارے کی اسلام سے محبت میں فرق محسوس نہیں ہوا۔ ۔ ۔ اگر ہیڈسن اسٹیٹیٹو کے نتبصرے کو جوں کا توں اور جاری رکھنی پر بہت صدمیہ ہوا۔ ۔ ۔ میں نے سارا مضمون لفظ بلفظ پڑھا ہے ۔ ۔ ۔ تو مغربی پرانی سوچ کا چربہ ہے۔ ۔ ۔ اس کو ک جاری نہ رکھا جائے۔ ۔ ۔ ۔ہاں اس پر ساتھ تنقید کی جاتی توکچھ سمجھ آتی مگر اس مضمون کو شائع کر کے مغرب کی خدمت کی گئی ہے۔۔ ۔ ۔ یہ تو مغرب میں ناین الیون کے بعد بڑھتے اسلام کا توڑ کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ امریکا کے تھنک ٹیک رائنڈ کاررپوریشن کے ایسے تجزیر نظر سے گزرتے رہتے ہیں یہ ان میں کا اک حصہ ہے۔ ۔ ۔