
لیبیا کے معاملے میں جو کچھ ہوا ہے اور نیٹو نے جو ریسپانس دیا ہے اس سے اس آئرش کسان کی کہانی یاد آ جاتی ہے جس سے کسی نے ڈبلن کا راستہ پوچھا تھا تو اس نے کہا تھا کہ ڈبلن کا راستہ میرے کھیت سے تو بہر حال شروع نہیں ہوگا!
نیٹو نے لیبیا میں جو فضائی آپریشن کیا ہے اس کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر ۱۹۷۳ء منظور کی ہے۔ اس قرارداد کے تحت لیبیا میں نو فلائی زون قائم کیا جانا ہے اور عوام کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس قرارداد میں معاملات کو قذافی کی مذمت تک محدود رکھا گیا ہے۔ کسی بھی مقام پر حکومت کی تبدیلی کو ترجیحات میں شامل نہیں کیا گیا۔ عسکری سطح پر حکومت کا تختہ الٹنے کے باب میں یہ قرارداد خاموش ہے۔ ۲۸ مارچ کو ایک بیان میں کہا گیا کہ لیبیا اگرچہ قذافی کے بغیر بہتر ہوگا تاہم حکومت کی تبدیلی ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ امریکی صدر براک اوباما نے بھی لیبیا کے معاملے میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ لیبیا میں حکومت کی تبدیلی ہماری جانب سے سنگین غلطی ہوگی۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ جس حکومت کی خرابیوں کو دور کرنے اور عوام کو اس کے شر سے بچانے یا محفوظ رکھنے کے لیے نیٹو نے آپریشن کیا ہے، بمباری کر رہی ہے اگر وہ حکومت ہی ختم نہ کی جائے تو کسی بہتری کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟ ایسے میں لیبیا کے معاملات میں مسلح مداخلت کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ انسانی ہمدردی کے نام پر کسی ملک میں مداخلت درست ہوسکتی ہے لیکن اس ملک کی حکومت کو ختم کرنے کو ترجیح قرار نہ دینا چہ معنی دارد؟
لیبیا سے متعلق نیٹو کی کارروائی اور سلامتی کونسل کی قرارداد میں خامیاں پائی جاتی ہیں۔ مظالم کا نشانہ بننے والے انسانوں کی مدد کے لیے مداخلت درست اقدام ہے تاہم نا انصافی اور ظلم پر کمربستہ حکومت ختم کرنے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا۔ اس قرارداد میں لیبیا کی سلامتی اور سالمیت پر کوئی قدغن نہ لگانے پر زور دیا گیا ہے۔ لیبیا کے جو حالات بیان کیے جا رہے ہیں ان میں کسی بھی قابض فوج کے لیے کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ ایک اہم بات یہ ہے کہ لیبیا میں صرف فضائی آپریشن کی اجازت دی گئی ہے، زمینی فوج اتارنے سے گریز کی ہدایت درج ہے۔ مشرقی لیبیا میں اپوزیشن نے جن شہروں پر قبضہ کر رکھا ہے ان کی جائز حیثیت کو تسلیم کرنے کا اشارہ بھی نہیں دیا گیا۔
بین الاقوامی قوانین کے ماہرین بتا سکتے ہیں کہ کیا لیبیا کے باغیوں کو سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت ہتھیار چلانے کی تربیت دی جاسکتی ہے؟ ان کی مدد بہرحال محدود رہے گی۔ ساحلی علاقوں میں معمر قذافی کی فوج اور حکومتی عمارات پر بمباری محدود سطح پر کی جائے گی۔ اب تک نیٹو نے بمباری کو قذافی کے ٹھکانوں اور چند بڑی سرکاری عمارات تک محدود رکھا ہے۔
نیٹو کے فضائی آپریشن سے صورت حال کو بہتر بنانے میں کسی حد تک مدد ملی ہے تاہم ابھی پورے یقین سے کہا نہیں جاسکتا کہ معاملات اور حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔ نیٹو کی بمباری سے باغیوں کو فائدہ ضرور پہنچا ہے مگر اس قدر نہیں جس کی توقع کی جارہی تھی۔ فرینڈلی فائر سے باغیوں کا بھی کچھ جانی نقصان ہوا ہے۔ زمینی کارروائی کے بغیر کسی بہتری کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ لیبیا کے خلاف ابتدائی کارروائی میں برطانیہ اور اٹلی نے حصہ لیا تھا۔ یہ دونوں استعماری قوتیں ہیں اور لیبیا سے ان کا گہرا تعلق رہا ہے۔ کبھی کبھی محدود کارروائی بھی کار آمد ثابت ہوتی ہے تاہم لیبیا کے معاملے میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ فضائی حملوں میں شہری اور فوجی ٹھکانوں میں تمیز کرنا خاصا دشوار ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں دشمن کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانا اور خاطر خواہ حد تک نقصان پہنچانا ممکن نہیں ہوتا۔ ۱۹۹۵ء میں نیٹو کی جانب سے سربوں کے خلاف بمباری سود مند ضرور ثابت ہوئی تھی تاہم سربوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کروشین فوجیوں نے کیا جن کی زمینی کارروائی سربوں کی کمر توڑنے میں کامیاب رہی۔ یہی معاملہ ۱۹۹۹ء میں تھا جب کوسووو کو بچانے کے لیے سربوں کو نشانہ بنایا گیا۔ زمینی کارروائی میں غیر معمولی ہلاکتوں کا خطرہ ضرور ہوتا ہے مگر خیر، اپنی مرضی کے نتائج تو زمینی کارروائی ہی کے ذریعے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ زمینی کارروائی میں بنیادی ڈھانچہ بھی تیزی سے تباہ ہوتا ہے اور دشمن پر دباؤ ڈالنے میں آسانی رہتی ہے۔
امریکی صدر براک اوباما کا ذہن لیبیا کے حوالے سے اب تک واضح نہیں۔ شاید وہ افغانستان میں جنگ کے جاری رہنے کی صورت میں کسی اور جنگ میں الجھنا نہیں چاہتے۔ لیبیا کے حوالے سے یہ خیال عام ہے کہ ہمیں صبر اور تحمل سے کام لینا چاہیے۔ یہ بھی سوچا جارہا ہے کہ معمر قذافی خود ہی اقتدار سے الگ ہو جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کون اس بات پر نظر رکھے گا کہ قذافی جا رہے ہیں یا نہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے لیبیا کا معاملہ قذافی کو اقتدار سے ہٹانے کا ہے۔ اگر یہ مقصد حاصل کرنا تھا تو انہیں تمام وسائل اسی انداز اور تناسب سے استعمال کرنے چاہیے تھے اور اگر قذافی کو اقتدار سے ہٹانا مقصد نہیں تھا تو پھر خواہ مخواہ اتنی بڑی کارروائی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اب سوال پھر یہ ہے کہ لیبیا کا مسئلہ کس طور حل کیا جاسکے گا؟ یہ راستہ یہاں سے تو یقیناً شروع نہیں ہوتا!
(بشکریہ: ’’ٹائم میگزین‘‘۔ ۱۳ ؍ مئی ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply