
ایہود اولمرٹ نے بھی اینا پولس کانفرنس اور محمود عباس سے مذاکرات کے حوالے سے مکمل تعاون کیا۔ وہ اس بات کے حق میں دکھائی دیے کہ فلسطینی علاقوں میں قائم یہودی بستیاں ختم کردی جائیں۔
اسرائیل نے اب تک مستقبل کے حوالے سے مغربی کنارے اور یہودی بستیوں کے معاملے میں آزادانہ پوزیشن اختیار کی ہے اور ماضی کے حوالے سے گولان کی پہاڑیوں کے ذیل میں۔ نیتن یاہو کے عہدِ حکومت میں ایران کے حوالے سے اسرائیلی حکومت نے آزادانہ پوزیشن اختیار کرنے کو ترجیح دی ہے۔
بیت المقدس کے معاملے میں یہودی غیر معمولی حد تک جذباتی ہیں۔ اسرائیل میں عام یہودی ووٹر چاہتا ہے کہ بیت المقدس سے کسی بھی طور دستبردار نہ ہوا جائے۔ یہ ایک ایسا حساس معاملہ ہے جس پر حکومت آ اور جاسکتی ہے۔ کوئی بھی اسرائیلی حکومت اگر اپنی بقا اور تسلسل چاہتی ہے تو اُسے بیت المقدس کے معاملے میں عوام کے جذبات کا بھرپور خیال رکھنا ہوگا۔ بیشتر یہودیوں کے نزدیک بیت المقدس یہودیت کا قلب ہے اور نئی یہودی ریاست کے حقیقی تصور کا بنیادی ڈھانچا بھی۔
غرب اردن میں فلسطینی زمین پر یہودی بستیوں کے معاملے میں بھی اسرائیل کا عام یہودی ووٹر بہت حساس ہے۔ ایک تہائی سے زائد ووٹر اس معاملے میں کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے نزدیک بنیادی مسئلہ سیکورٹی کا ہے۔ یعنی یہودی بستیوں کو خالی کرنے سے یہودیوں کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے۔ گولان کی پہاڑیوں کے بارے میں اسرائیل میں متفقہ رائے یہ ہے کہ ملک کی سلامتی کے لیے ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور ایران کو اسرائیلیوں کی واضح اکثریت اپنی ریاست کے لیے ایک بڑے خطرے کے روپ میں دیکھتی ہے۔
بیت المقدس، یہودی بستیاں، گولان کی پہاڑیاں اور ایران … یہ تمام ایشوز اسرائیل کے لیے انتہائی اہم ہیں کیونکہ بیشتر اسرائیلی یا تو اِنہیں اپنے وجود کے لیے خطرہ گردانتے ہیں یا پھر مجموعی سکیورٹی کے اعتبار سے بڑے خطرات میں شمار کرتے ہیں۔ یہودیوں کی اکثریت ان میں سے ایک دو معاملات کو نظریاتی سطح پر بھی بہت اہم گردانتی ہے۔ ان تمام معاملات میں اسرائیل کا کوئی بھی لیڈر عوام کے جذبات کو یکسر نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی جمہوری معاشرے میں اس نوعیت کے بنیادی سکیورٹی اور نظریاتی ایشوز کو نظر انداز کرکے کوئی بھی لیڈر مقبولیت نہیں پاسکتا۔
انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزرائے اعظم نے بھی امریکا سے اختلافات کی شدت کم کرنے اور یہودی بستیوں کے حوالے سے پیش آنے والی مشکلات کو کم سے کم رکھنے کے لیے اب تک غرب اردن کو ملک میں شامل کرنے سے گریز کیا ہے۔ امریکا سے سب سے زیادہ ٹکرانے والے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی یہودی بستیوں کی تعمیر پر دس ماہ کے لیے پابندی عائد کرنے پر رضامندی ظاہر کی تاکہ امریکا سے اس معاملے میں زیادہ اختلافات سر نہ اٹھائیں۔ یزاک رابن، ایہود بارک اور ایریل شیرون نے بھی اپنے اپنے دور میں یہودی بستیوں کے حوالے سے وہی پالیسی اپنائی جو امریکا نے اپنائی۔ مقصود صرف یہ تھا کہ معاملات بگاڑ کی طرف نہ جائیں، کشیدگی پیدا نہ ہو اور اختلافات میں شدت نہ آئے۔
اسرائیل اپنی سرحد پر چھوٹے موٹے مناقشوں سے تو نمٹ سکتا ہے مگر کسی بھی بڑے ایشو پر اس کے لیے امریکا سے مشاورت لازم ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسے امریکا سے بھرپور عملی تعاون بھی درکار ہوتا ہے۔ یہودی بستیوں کی تعمیر اور بیت المقدس کی حیثیت کے تعین کے حوالے سے اختلافات نے امریکا اور اسرائیل کے درمیان بیشتر معاملات میں بھرپور ہم آہنگی کو دھندلا دیا ہے۔
٭ امریکا کی مدد کے بغیر اسرائیل کا وجود برقرار رہ سکتا ہے؟
ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں، جس میں سب کچھ سمٹ گیا ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں اسرائیل بھی اگر چاہے تو کسی نہ کسی طور اپنے وجود کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے قیام کے بعد ابتدائی عشروں میں اسرائیل نے امریکا سے کچھ خاص مدد حاصل نہیں کی اور اپنے طور پر نہ صرف سلامت رہا بلکہ ترقی بھی کی۔ اسرائیل کو آج بھی بہت سی مشکلات کا سامنا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اب بھی عسکری اور معاشی دونوں اعتبار سے غیر معمولی حد تک مستحکم ہے۔
سوال بقا کا نہیں، معیار کا ہے۔ اسرائیل اگر چاہے تو امریکا کی بھرپور معاونت کے بغیر بھی جی سکتا ہے، اپنے وجود کو برقرار رکھ سکتا ہے مگر ایسی صورت میں وہ بہت کمزور ہوگا، افلاس اُسے جکڑ لے گا، معیارِ زندگی انتہائی پست ہوجائے گا، مسائل گھیر لیں گے، بنیادی ڈھانچا کمزور ہوجائے گا، صحتِ عامہ اور تعلیم دونوں کا معیار گر جائے گا۔ اسرائیل میں کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ اس نوعیت کی زندگی ہو۔
اسرائیل کے لیے امریکیوں کی حمایت نظریاتی اور تاریخی بنیاد بھی رکھتی ہے۔ ۲۰۱۵ء میں ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکا اور اسرائیل کے درمیان اختلافات نے سر اٹھایا تو اس کے نتیجے میں امریکا میں ری پبلکنز، رجعت پسند ڈیموکریٹس اور لبرلز کے مقابلے میں اسرائیل کے زیادہ مضبوط طرف دار بن کر ابھرے ہیں۔
دائیں بازو کے امریکیوں میں اسرائیل کے لیے حمایت کا بڑھنا حیرت کی بات ہے نہ برائی کی، مگر ہاں، ڈیموکریٹس اور لبرل عناصر میں اسرائیل کے لیے حمایت کا گھٹنا تشویشناک بات ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اسرائیل اب ایک ایسے مسئلے کے طور پر دیکھا جارہا ہے، جو امریکی معاشرے کو تقسیم کر رہا ہے۔
ایک اہم تبدیلی اور اسرائیل کے لیے خاصی پریشان کن بات یہ ہے کہ امریکی نوجوانوں کی واضح اکثریت کو اب اسرائیل سے کچھ خاص دلچسپی نہیں رہی۔ یہی مستقبل کے فیصلہ کن ووٹر ہیں۔ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو مستقبل میں امریکی انتخابات یہودی لابی کے اثرات سے آزاد ہوجائیں گے اور اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ نوجوان امریکی یہودی اب اسرائیل کے معاملے میں بہت زیادہ جذباتی نہیں۔ وہ اسرائیل کے وجود کو اپنے لیے زندگی اور موت کے مسئلے کے روپ میں دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ امریکا میں یہودیوں کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ شرح پیدائش کم ہے۔ یہودی لڑکیاں اور لڑکے دوسری کمیونٹیز میں شادیاں کر رہے ہیں۔ امریکا میں نسلی اعتبار سے سب سے بڑا اقلیتی گروپ ہسپانک ہے اور مذہب پر یقین نہ رکھنے والوں کا گروپ بھی توانا ہے۔ ان دونوں گروپوں سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور ان میں یہودیوں یا اسرائیل کے لیے حمایت زیادہ نہیں پائی جاتی۔
بعض امریکی یہودی اور اسرائیل کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ براک اوباما اسرائیل کے معاملے میں زیادہ پرجوش نہیں تھے اور انہوں نے اسرائیل کے لیے امریکی حمایت اور تعاون کا گراف بلند کرنے یا بلند رکھنے پر توجہ نہیں دی۔ اس سوال پر بحث ہوسکتی ہے کہ اوباما اسرائیل کے لیے دوستانہ رویہ رکھتے تھے یا نہیں، مگر ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب شاید ایک بڑی تبدیلی کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کو ایسا لگتا ہے کہ اب امریکا میں ایک ایسا دور شروع ہو رہا ہے، جس میں اسرائیل کے لیے جھکاؤ کی زیادہ گنجائش نہیں رہی۔ اوباما ایک ایسی نسل سے تعلق رکھتے تھے جو اسرائیل کے حوالے سے اپنے پیشروؤں کے مقابلے میں مختلف نقطۂ نظر اور جھکاؤ کی حامل تھی۔ نیز اس نسل کو فلسطینیوں سے زیادہ ہمدردی ہے۔
ٹرمپ اسرائیل نواز ثابت ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی سوال یہ ہے کہ اسرائیل کو اب کیا کرنا چاہیے جبکہ امریکا میں ایسے صدور کی آمد شروع ہوچکی ہے، جو اسرائیل کے حوالے سے زیادہ پرجوش اور فعال نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کو امریکا کبھی ہمیشہ کے لیے تو نہیں چھوڑ سکتا۔ دونوں کے سیاسی اور نظریاتی تعلقات کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ امریکا کے لیے اسرائیل کا ساتھ مکمل طور پر چھوڑنا ممکن نہیں مگر اس کے باوجود یہ خدشہ تو برقرار ہے کہ اسرائیل کے لیے امریکی حمایت میں غیر معمولی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ دونوں ممالک عسکری اور اسٹریٹجک معاملات میں ایک دوسرے کو غیر معمولی حمایت سے نوازتے آئے ہیں مگر ہوسکتا ہے کہ اس بدلتی ہوئی دنیا میں اب ایسا ممکن نہ رہے۔
اسرائیل کی بقا کے حوالے سے امریکا نے اتنا کچھ لگا رکھا ہے کہ معاملہ ریاستوں کے درمیان سے ہوتا ہوا اب اداروں کے درمیان آگیا ہے۔ امریکا کے لیے اسرائیل سے یکسر قطعِ تعلق ممکن نہیں رہا۔ مگر ہاں، تعاون اور اشتراکِ عمل کی سطح ضرور تبدیل ہوسکتی ہے۔ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ اسرائیل کو ہر معاملے میں امریکا کی بھرپور حمایت اور تعاون حاصل نہ رہے۔
اگر اسرائیل کو اپنا وجود ڈھنگ سے برقرار رکھنا ہے تو امریکا سے تعلق کی نئی سمت تلاش کرنا ہوگی۔ امریکا سے اشتراکِ عمل کے نئے زاویے تراشنے ہوں گے۔ خصوصی تعلقات کی راہ ہموار کرنا ہوگی تاکہ امریکی قیادت کسی بھی نازک صورت حال میں اسرائیل کی بھرپور حمایت اور مدد کرنے کی پوزیشن میں رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسرائیل کو ٹرمپ انتظامیہ سے مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ معاملات کو متوازن رکھنے میں مدد ملے اور اسرائیل کے لیے نئی امریکی انتظامیہ سے زیادہ سے زیادہ امداد کا حصول ممکن رہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اب تک یہی ثابت کیا ہے کہ اس کا مزاج پارے کی طرح ہے یعنی بدلتا رہتا ہے۔ ایسے میں اسرائیل کو زیادہ متوجہ ہوکر کام کرنا ہے۔ اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ امن عمل ہر حال میں جاری رکھنا ہے اور کسی جامع تصفیے تک پہنچنے کے لیے مستقل محنت کرنی ہے۔ اس راہ میں پائی جانے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اسرائیل کو بہت احتیاط سے کام کرنا ہوگا۔
امریکا نے کلنٹن کے دور سے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں زیادہ یہودی آبادیاں قائم نہ کرے اور مشرقی بیت المقدس کے معاملے میں سنجیدہ ہو۔ اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیل اس حوالے سے امریکا سے کھل کر بات کرے اور فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادیوں کی تعمیر کے حوالے سے اپنے آپ کو مزید متنازع نہ بنائے۔ نئی یہودی بستیوں کی تعمیر سے گریز کی راہ پر گامزن ہوکر اسرائیلی حکومت ٹرمپ انتظامیہ سے تعلقات بہتر بناسکتی ہے۔
ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکا اور اسرائیل کو یکساں اپروچ اپنانا ہوگی۔ اگر ایران بین الاقوامی معاہدے پر عمل نہ کرے تو اُس کے بارے میں کوئی بھی طرز عمل اپنانے کے حوالے سے امریکا اور اسرائیل کو مل کر سوچنا چاہیے۔ اگر ایران بین الاقوامی جوہری معاہدے کی کسی شق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اُسے راہ راست پر لانے کے حوالے سے کی جانے والی کسی بھی عسکری کارروائی کے حوالے سے بھی امریکا اور اسرائیل کو مل کر سوچنا ہوگا۔ اسرائیل کو امریکا کے ساتھ مل کر یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ ایرانی قیادت کسی بھی حال میں بین الاقوامی جوہری معاہدے کی حدود سے تجاوز نہیں کرے گی اور اس معاہدے کی مدت ختم ہونے پر بھی جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کی طرف نہیں جائے گی۔ ایران کے جوہری عزائم سے متعلق اسرائیل کی اپروچ امریکی پالیسی سے ہم آہنگ ہونی چاہیے تاکہ معاملات قابو میں رہیں۔ اسرائیل کو شام کے بحران پر بھی ٹرمپ انتظامیہ سے بات کرنی چاہیے تاکہ ہم آہنگی پر مبنی رویہ اپنایا جاسکے۔ دونوں ممالک کو شام کے بحران کے ممکنہ علاقائی اثرات کا دائرہ محدود رکھنے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔
امریکا نے اس وقت داعش پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ اسرائیلی قیادت ٹرمپ انتظامیہ کو ذہن نشین کرائے کہ ایرانی تصرف کے حامل شام اور عراق اسرائیل اور امریکا کے مفادات کے لیے زیادہ وسیع البنیاد اور طویل المیعاد خطرات ہیں۔ اسرائیل امریکی قیادت کو شام میں روس کا کردار تسلیم کرنے کے لیے تیار کرے۔ اس کے بدلے میں روسی قیادت شام میں حزب اللہ کا کردار محدود کرنے پر راضی ہوسکتی ہے۔ امریکا کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ شام میں روس استحکام پیدا کرنے والا عامل ہے۔
حزب اللہ اور حماس سے اسرائیل کی مخاصمت زیادہ دور کی بات نہیں۔ امریکا اور اسرائیل کو نئی مخاصمت کی صورت میں اسرائیلی عسکری کارروائیوں کی نوعیت کے حوالے سے بات کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ امریکا اور اسرائیل کو علاقائی استحکام یقینی بنانے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اردن اور مصر میں سیاسی، معاشی اور عسکری استحکام لازم ہے۔ دونوں ممالک میں اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی حکومتیں قائم ہیں۔ ان حکومتوں کا تسلسل اسرائیل کی بقا کے لیے ناگزیر ہے اور امریکا کو یہ نکتہ ذہن نشین رکھتے ہوئے معاملات کی درستی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
کسی بھی ریاست کی طرح اسرائیل کو بھی اپنا وجود برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ پرامن رہنے اور بڑے اتحادیوں سے بہترین روابط برقرار رکھنے کا چیلنج درپیش ہے۔ اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری اور خود انحصاری یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ امریکی پالیسیوں سے ہم آہنگ بھی رہنا ہے تاکہ معاملات خرابی کی طرف نہ جائیں۔ اسرائیل کو تمام انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھنے ہیں۔ یعنی صرف اور صرف امریکا پر انحصار اس کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اسے دیگر بڑی اور اہم ریاستوں سے بھی بہتر روابط استوار کرنے ہیں، تاکہ کسی بھی خطرناک صورت میں امریکا سے اختلاف کی صورت میں اس کے وجود کے لیے کوئی بڑا خطرہ پیدا نہ ہو۔ اسرائیل کے لیے عسکری پہلو بہت اہم ہے اور لازم ہے کہ وہ امریکا سے ہٹ کر بھی عسکری تعلقات استوار کرے اور اپنے طور پر بھی آگے بڑھنے کی ٹھانے۔ روس اور دیگر ممالک سے بھی اچھے تعلقات استوار رکھنا لازم ہے تاکہ امریکا سے تعلقات خراب ہونے کی صورت میں عسکری امور کے حوالے سے اسرائیل کے وجود کے لیے حقیقی خطرہ پیدا نہ ہو۔
اسرائیل کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ بعض معاملات میں امریکا کی مرضی کے خلاف جاکر تعلقات بہتر بنائے۔ مثلاً یوکرین کے معاملے میں اس نے روس کے موقف کی تائید کی، اور ایسا کرنا امریکی موڈ کے خلاف تھا مگر اس کے باوجود امریکا سے اس کے تعلقات نہیں بگڑے، اور روس سے ظاہر ہے، خوشگوار ہوگئے۔
امریکا سے نیا عسکری معاہدہ فوری طور پر اسرائیل کے لیے ضروری نہیں مگر ایرانی عزائم دیکھتے ہوئے ایسا کرنا لازم ہے۔ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ اس معاہدے کی صورت میں اسرائیل کے لیے اپنے معاشی اور سیاسی استحکام پر زیادہ متوجہ ہونا ممکن ہوجائے گا۔ امریکا سے خصوصی تعلقات کو زیادہ مضبوط بنائے رکھنے یا کمزور پڑنے سے بچائے رکھنے کے لیے نیا عسکری معاہدہ لازم ہے۔ امریکا کی اپروچ بدل رہی ہے۔ یہ اسرائیل کے لیے پریشان کن بات ہے۔ ایسے میں کسی نئے معاہدے سے بہرحال دونوں ممالک کے لیے ایک دوسرے کو زیادہ قبول کرنا آسان تر ہوجائے گا۔
سکیورٹی کی ضمانت کے طور پر کیے جانے والے کسی نئے معاہدے سے اسرائیلیوں کے لیے فلسطینیوں کو قبول کرنا آسان تر ہوجائے گا۔ اسرائیل کے لیے امریکا کے دائرۂ اثر سے نکلنا بھی ضروری ہے اور اس میں رہتے ہوئے کام کرنا بھی لازم ہے۔ یہ عمل غیر معمولی توازن کا متقاضی ہے۔ اگر کوئی نیا معاہدہ ممکن ہو تب بھی اسرائیل کو اپنی خصوصی اسٹریٹجک حیثیت پر بھی زور دینا چاہیے تاکہ امریکا اپنی ذمہ داری سے پیچھے نہ ہٹے۔ اسرائیل کا وجود برقرار رکھنے کے لیے امریکا کا اس کے ساتھ کھڑے رہنا لازم ہے۔ امریکا نے متعدد مواقع پر اسرائیل کو مایوس کیا ہے مگر اس کے باوجود یہ کھٹا میٹھا تعلق برقرار رہا ہے۔
۱۹۶۷ء میں اس وقت کے امریکی صدر لنڈن بی جانسن اسرائیلی جہازوں کے لیے آبنائے طیران کھولنے میں ناکام رہے۔ ۱۹۷۳ء میں اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اسرائیلی محصورین کو نکالنے کے لیے طیارے بھیجنے میں جان بوجھ کر تاخیر کی۔ ۲۰۰۷ء میں اس وقت کے امریکی صدر جارج واکر بش شام کے جوہری ری ایکٹر سے اپنے طور پر نمٹنے میں ناکام رہے۔ جارج واکر بش نے ۲۰۰۴ء میں ایریل شیرون کو جو خط لکھا تھا اُسے سابق امریکی صدر براک اوباما نے مسترد کردیا۔ اور اس کے بعد ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق بین الاقوامی معاہدہ۔ یہ تمام معاملات اسرائیل کو مایوس کرنے والے تھے مگر پھر بھی تعلقات کسی نہ کسی طور استوار اور مضبوط ہی رہے ہیں۔
اسرائیل نے کئی معاملات میں اپنے طور پر بھی بہت کچھ کیا ہے۔ یہ سب کچھ اس بات کو ظاہر کرنے کے لیے تھا کہ وہ اپنی خود مختاری کے لیے امریکا یا کسی اور ملک کا مکمل محتاج یا دست نگر نہیں۔ اور یہ کہ اُسے اپنی بقا اور استحکام کے لیے خود بھی بہت کچھ کرنا چاہیے اور وہ ایسا کرنے کی صلاحیت و سکت رکھتا ہے۔
آج اگر اسرائیل اپنے طور پر بہت کچھ کرنا چاہتا ہے اور اپنی خود مختاری ثابت کرنے کے موڈ میں ہے تو اسے امریکی پالیسیوں کے خلاف جانا، سمجھنے سے گریز کرنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے تعلقات پختگی کے اس مرحلے تک پہنچ چکے ہیں جہاں اسرائیلیوں کو امریکیوں پر بہت زیادہ انحصار سے گریز کرنا ہے۔
امریکا اور اسرائیل کے درمیان جو خصوصی تعلق رہا ہے اس کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی تھا کہ اسرائیل اس حد تک مضبوط ہوجائے کہ اپنے بیشتر فیصلے خود کرسکے اور بیشتر اقدامات اپنی صلاحیت اور سکت کے مطابق کرے۔ اور اب اسرائیل اس پوزیشن میں آچکا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ امریکا پر مکمل انحصار اپنے آپ کو کمزور کرنے کے مترادف ہوگا۔ اسے بہت کچھ خود کرنا ہے اور وہ ایسا ہی کر رہا ہے۔ آج اگر اسرائیل اپنے طور پر بہت کچھ کرنا چاہتا ہے تو امریکی قیادت کو زیادہ سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں۔ آخر دیگر حلیفوں سے بھی تو امریکی قیادت کے شدید یا کم شدید اختلافات پائے ہی جاتے ہیں۔
مستقبل قریب و بعید میں فلسطینی مسئلے کے حوالے سے اسرائیل کی اپنے طور پر کامیابی، امریکا پر اس کے انحصار کا گراف مزید نیچے لائے گی۔ فلسطینیوں سے امن کی صورت میں اسرائیل کی سلامتی کو لاحق خطرات میں کمی آئے گی۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کی عالمی تنہائی دور ہوگی اور عرب ریاستوں سے اس کے تعلقات میں بہتری آئے گی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایران، حزب اللہ اور حماس کو اسرائیل مخالف ایجنڈے کی تکمیل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اسرائیلی معیشت کے لیے پنپنے کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
امریکی قائدین کے حالیہ دورے کے بعد نئی یہودی بستیوں کے قیام کا اعلان جلتی پر مزید تیل چھڑکنے کا باعث بنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے اعلانات و اقدامات اسرائیل کی اندونی سیاست کی پیداوار ہیں۔ اسٹریٹجک سطح پر سنجیدہ نوعیت کے اقدامات سے اس کا کوئی خاص تعلق نہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“How long could Israel survive without America?”. (“Newsweek”. July 14, 2017)
Leave a Reply