
صدر جو بائیڈن کا افغانستان میں امریکی فوجی مشن ختم کرنے کا فیصلہ د رست تھا۔ یہ بات بالکل واضح تھی کہ کابل حکومت اپنے آپ کو برقرار رکھنے سے قاصر ہے، اگر مزید اربوں ڈالر بھی اس حکومت پر لگائے جاتے تو ان کے جانے میں تاخیر تو ہو سکتی تھی تاہم اپنے اقتدار کو قائم رکھنا اس حکومت کے بس کی بات نہیں تھی۔ درحقیقت افغان معاشرے کی تاریخ پراگر نظرڈالی جائے تو اس با ت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغان عوام نے کبھی بیرونی طاقتوں کے فوجی قبضوں کو اپنا تسلط قائم نہیں کرنے دیا، ایسے میں اس تنازع کا فوجی حل کسی صورت بھی امریکا کے حق میں نہیں جا سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ۲۰۰۱ء کے امریکی حملے کے بعد مذاکرات کے عمل ’’بون پراسیس‘‘کا آغاز ہوا جب سے ہی پاکستان اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اس مسئلہ کا سفارت کاری سے حل نکالا جائے۔
آج افغانستان کے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو وہ امن کے مشکل راستے پر چل پڑے یا پھر بدامنی کے اسی دور میں واپس چلا جائے۔ موخر الذکر کے نہ صرف افغان عوام پر تباہ کن اثرات ہوں گے بلکہ پڑوسی ممالک بھی شدید متاثر ہوں گے۔ مہاجرین کی آمد، منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ، غیر مستحکم افغانستان اور بین الاقوامی دہشت گردی کا پھیلاؤ نہ تو افغان عوام کے مفاد میں ہے نہ ہی دنیا کے، اور خاص طور پر پاکستان کے مفاد میں تو بالکل نہیں۔ ان دو نتائج میں سے کسی ایک کے عملی صورت اختیار کرجانے کا انحصار جتنا طالبا ن پر ہے کہ وہ کس طرح اپنے ملک کے نظامِ حکومت کو چلاتے ہیں، اتنا ہی عالمی برادری پر ہے کہ وہ افغانستان کی اس نئی سیاسی حقیقت کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ رکھتی ہے۔
پاکستان کن حالات سے گزرا
افغان عوام کے علاوہ جو سب سے زیادہ افغان جنگوں سے متاثر ہوا، وہ پاکستان ہے۔ نہ ہی ۱۹۷۹ء میں سوویت یونین کا حملہ اور نہ ہی اس کے بعد ۲۰۰۱ء میں امریکی حملے میں پاکستان کا کوئی کردار تھا۔ اس کے باوجود پاکستان کی معیشت، معاشرت اور سیاست گزشتہ چار دہائیوں سے ان دو جنگوں کے اثرات کو برداشت کررہی ہے۔ ۲۰۰۱ء میں پاکستان نے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا ساتھ دیا وہ جنگ جو انہی مجاہدین کے خلاف لڑی جا رہی تھی، جن کو ۸۰ء کی دہائی میں واشنگٹن اور اسلام آباد نے مل کر سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے تربیت دی تھی۔ ۹/۱۱ حملوں کے بعد امریکی رہنماؤں نے پاکستان کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو الٹی میٹم دیا کہ ’’یا تو ہمارا ساتھ دیں، دوسری صورت میں ہماری مخا لف صف میںتصور کیے جائیں گے‘‘۔ اس دباؤ میں آکر پاکستان کے حکمران پرویز مشرف نے امریکا اوراس کے اتحادیوں کو فضائی اڈے، رسد کی نقل و حمل کے لیے زمینی راستے اور غیر مشروط مدد فراہم کی اور اس کے علاوہ القاعدہ کے سیکڑوں کارکنوںکو گرفتار کر کے امریکا کے حوالے بھی کیا۔
۱۱؍ستمبر کے حملوں کے بعد جنرل پرویز مشرف نے ملک کے اندر بھی سابق مجاہدین کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا، ان مجاہدین کی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں نہ صرف رشتے داریاں بن چکی تھیں بلکہ ان کے ان علاقوں میں گہرے اثرات بھی تھے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں پاکستانی ریاست کے خلاف بڑے پیمانے پر شورش کا آغاز ہو گیا۔ ۵۰ سے زائد عسکریت پسند گروہوں نے پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعاون کرنے پر سزادینے کی ٹھان لی۔ انھوں نے ہماری شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا، بچوں کا قتل عام کیا۔ اس سارے عمل کے نتیجے میں ۳۵لاکھ لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے۔ گزشتہ بیس برسوں میں دہشت گردوں کے حملوں کے نتیجے میں پاکستان کے ۸۰ ہزار شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ۱۵۰؍ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔
افغان جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے چالیس لاکھ افغانیوں کی میزبانی کی قیمت بھی پاکستان نے ادا کی، ۸۰ء کی دہائی میں یہ تعداد تقریباً ۵۰ لاکھ تھی۔ اسی طرح افغانستان میں افراتفری اور عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان میں ’’کلاشنکوف کلچر‘‘متعارف ہوا اور بڑے پیمانے پر منشیات کی اسمگلنگ بھی ہوتی رہی، جس کی وجہ سے ۸۰ کی دہائی میں پاکستان میں نشہ کرنے والے افراد کا تناسب ۵۰ گنا بڑھ گیا تھا۔
اس کے باوجود مغربی حکومتیں پاکستانی ریاست پر ’’دوغلی‘‘ ہونے کا الزام لگاتی رہیں اور ہم سے کہا جاتا رہا کہ افغانستان میں جنگ کا رخ موڑنے کے لیے ’’مزید کام کریں‘‘۔ پاکستان روزانہ کی بنیاد پر جو قربانیاں دے رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے، پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کا موقف غیر سنجیدہ اورناانصافی پر مبنی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہم ایک جدید قومی ریاست کے طور پر اپنی بقا کو خطرے میں ڈالے بغیراب مزید کچھ نہیں کر سکتے۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات گزشتہ دو دہائیوں سے اسی عدم اعتماد کا شکار ہیں۔ اس عدم اعتماد اور اختلاف کی اصل وجہ اس تنازع کے حل پر مختلف رائے ہے۔ امریکا طالبان کے خلاف مکمل فتح چاہتا ہے۔ حتیٰ کہ جب واشنگٹن نے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کیا تب بھی کچھ امریکی حکام ان مذاکرات کو کامیاب کرنے اور ایک اچھے نتیجے پر پہنچنے کے بجائے ان مذاکرات کے ذریعے طالبان میں دراڑ پیدا کرنے کی نیت رکھتے تھے۔
پاکستانی حکومت نے امریکا کو اس کے منصوبوں کی حماقت کے بارے میں اس وقت بھی آگاہ کیا تھا۔ کیوں کہ ہم اس خطے میں رہتے ہیں اور افغانیوں کی غیر ملکی تسلط کے خلاف بغاوت کی تاریخ کا علم رکھتے تھے، اس لیے ہم نے امریکا کو حقیقی صورت حال بتانے کی اس وقت بھی کوشش کی تھی۔ ۲۰۰۲ء میں ہی پاکستان نے امریکا اور اس کے اتحادی نیٹو کو یہ بات سمجھانا شروع کر دی تھی کہ القاعدہ واقعی میں ایک دہشت گرد تنظیم تھی جس کو اب شدید نقصان پہنچ چکا، اور بے شک آپ اس کے خلاف آپریشن جاری رکھیں لیکن طالبان کو ایک سیاسی حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیں۔ ایک دہائی قبل جب افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد اس پورے عرصے میں سب سے زیادہ تھی، اس وقت بھی پاکستان نے امریکا کو مذاکرات کا مشورہ دیا اور ان مذاکرات میںاپنا کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کی تھی، تاہم امریکا نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔ امریکا کے ایجنڈے میں مذاکرات شامل ہی نہیں تھے۔
بیش تر مغربی حکومتوں نے اپنی اور افغان حکومت کی ناکامی پر آنکھیں بند کر رکھی تھیں، ان ہی ناکامیوں کے عرصے میں طالبان دوبارہ طاقت حاصل کر رہے تھے۔ اس کے باوجود پاکستان افغان حکومت کے ساتھ خلوص نیت کے ساتھ کام کرتا رہا۔ مثال کے طور پر افغان اور امریکی حکومت کو پاکستان سے شکایت تھی کے طالبان جنگجو افغان سرزمین پر حملے کرتے اور بآسانی سرحد پار کر کے پاکستان آجاتے ہیں جہاں وہ پناہ حاصل کرتے ہیں، پاکستان نے اس مسئلے کا کئی بار منطقی حل پیش کیا، کہ بارڈر مینجمنٹ سسٹم بنا دیا جائے، بائیو میٹرک سسٹم لگا دیا جائے، غیر سرکاری ۶۰ کے قریب کراسنگ پوائنٹس ہیں جنھیں بند کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ پاکستان نے باقاعدہ ویزا سروس شروع کرنے کا بھی کہا، حالاں کہ اس سے روزانہ جو لوگ سرحد عبور کرتے ہیں، جن کے رشتے دار سرحد کے آس پاس رہتے ہیں وہ بھی متاثر ہوتے۔ بد قسمتی سے پاکستان کی تمام تجاویز کو یا تو مسترد کر دیا گیا یا نظرانداز کر دیا گیا یا پھر باقاعدہ طور پر اس پیشکش کے خلاف مزاحمت کی گئی۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۷ء کے اوائل میںافغان حکام نے باقاعدہ طور پر بائیو میٹر ک سسٹم تباہ کر دیا اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ’’ہم انٹرنیشنل بارڈر کو نہیں مانتے اس لیے اس سسٹم کی تنصیب نہیں کی جا سکتی‘‘۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افغان حکومت غیر محفوظ سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے کیے گئے پاکستانی اقدامات میں بھر پور تعاون کرتی، لیکن ایسا نہ کیا گیا، اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ افغان حکومت کو معلوم تھا کہ طالبان کو شکست نہ دینے کی وجہ پاکستان نہیں بلکہ افغان حکومت کی اپنی بدعنوانی اور نظام حکومت کی ناکامی ہے۔ ایک عام افغانی کی نظر میں بھی افغان حکومت کی ساکھ نہایت ہی خراب تھی۔ افغان حکومت اپنے داخلی مسائل کو حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی، اس لیے اس کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ الزام پاکستان کے سر لگا دیا جائے، اور یہ ان حکومتوں کے بھی حق میں جاتا تھا جو اربوں ڈالر اس جنگ میں جھونک رہے تھے لیکن اس جنگ کے مثبت نتائج (یعنی طالبان کی شکست)دکھانے کے لیے ان کے پاس کچھ نہ تھا۔
سرحدی معاملات کو اتنا زیادہ شہہ سرخیوں میں رکھنے کا مقصد دراصل داخلی معاملات پر سے توجہ ہٹانا بھی تھا۔ ہمارا روایتی دشمن بھارت افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے اور وہاں کی خفیہ ایجنسی کے ساتھ مل کر افغان دہشت گردوں کو پاکستان میں حملے کرنے کے لیے منظم کرتا رہا۔ بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں نے پاکستان کے شہری علاقوں اور بلوچستان میں سینکڑوں حملے کیے۔ جیسا کہ پاکستان نے گزشتہ سال جاری کی گئی ایک رپورٹ میں عوامی طور پر تفصیل بتائی کہ بھارت افغانستان میں ۶۶تربیتی کیمپ چلارہا تھا، جہاں پاکستانی طالبان اور بلوچستان میں سرگرم دہشت گردوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ بھارتی حمایت سے ان گروہوں نے پاکستان بھر میں ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کی اور پاکستان کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج، ایک بڑی یونیورسٹی اور بندرگاہی شہر گوادر میں ایک لگژری ہوٹل پر ہائی پروفائل حملے کیے۔ اس کے ساتھ ہی، بھارت نے ایک منظم پروپیگنڈا مہم کے ذریعے پاکستان کی ساکھ کو داغدار کرنے کا کام کیا، جعلی خبروں کے نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے مفروضوں پر بیانیے کو پروان چڑھایا، جس کے تحت افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایاگیا۔
دریں اثنا امریکا پاکستان پر دباؤ ڈالتا رہا کہ وہ افغان طالبان کے خلاف اپنی فوجی مہم کو مزید تیز کرے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ اس گروپ کی پاکستان میں کوئی منظم موجودگی نہیں تھی اور چند منتشر افراد کے خلاف فوجی کارروائی، جو کہ کبھی کبھار ہزاروں افغان مہاجرین کے ساتھ پاکستان آنے میں کامیاب ہو جاتے تھے، افغانستان میں نتائج کو تبدیل نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن ہمارا فوجی آپریشن پاکستانیوں کی جانوں کے ضیاع کا باعث ضرور بن جاتا۔ اس لیے ایسا کوئی بھی حل ہمارے لیے ناقابل قبول تھا اور اس بات سے پاکستان امریکا کو بار بار آگاہ کرتا رہا۔ ہم جو متبادل پیش کر رہے تھے کہ سیاسی سطح پر مذکرات کیے جائیں اور ضرورت پڑنے پر فوجی طریقے سے دباؤ بھی ڈالا جائے تاکہ سب فریقین مل کر ایک عوامی نمائندہ حکومت تشکیل دیں، اس پر اگر پہلے ہی غور کیا جاتا تو آج سے کئی برس پہلے ہی یہ تنازع حل ہو چکا ہوتا۔ لیکن ہم نے جب بھی یہ آپشن پیش کیا تو ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
غنی انتظامیہ جس تیزی سے ڈھیر ہوئی اس نے ثابت کر دیا کہ افغان حکومت کی ناکامی میں پاکستان کا ہاتھ نہیں تھا۔ افغان حکومت کی بدعنوانی، بدترین نظامِ حکومت، عوام کا حکومت پر عدم اعتماد اور تین لاکھ افغان فوج کا طالبان کے خلاف مزاحمت نہ کرنے کے فیصلے نے طالبان کی واپسی آسان کر دی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ابھی بھی کچھ مغربی حکومتیں اور واشنگٹن اپنی ناکامی کے لیے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہ رہے ہیں۔ درحقیقت پاکستان پر الزام لگانے سے تشدد کے اس گھن چکر کو ختم کرنے کے لیے جو جذبہ عالمی سطح پر درکار ہے اسے حاصل کرنے میں ناکامی ہو گی اور افغانستان میں تشدد اور تباہی کا عمل جاری رہے گا۔
مستقبل کا لائحہ عمل
امن اور خوشحالی افغانستان کا حق ہے، لیکن بین الاقوامی اداکاروں کے درمیان الزام تراشی کا کھیل اگر جاری رہا تو یہ حق اسے نہیں مل سکے گا، اور اگر ماضی کی غلطیاں دہرائی گئیں، جیسا کہ ۸۰ء کی دہائی میں سوویت یونین کی شکست کے بعد امریکا افغانستان کو چھوڑ کر چلا گیا تھا اور پاکستان پر بھی پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے یہ خطہ تنہائی کا شکار ہو گیا تھا۔ جب بین الاقوامی امداد بھی بند کر دی گئی اور عالمی برادری نے افغانستان سے توجہ بھی ہٹا لی تو یہاں کی معیشت تباہ ہو گئی اور ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور دہشت گرد تنظیمیں یہاں طاقت پکڑنے لگیں، جس کا نتیجہ ۱۱ستمبر کے حملوں کے نتیجے میں نکلا۔ اگرچہ افغان عوام اور پاکستانی ہی اس عدم استحکا م سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، تاہم بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی پوری دنیا کے لیے خطرے کا باعث بنے گی۔ اس لیے یہ سب کے مفاد میں ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے۔
مستقبل کے لیے کامیاب حکمت عملی یہ ہو گی کہ بین الاقوامی برادری کابل میں نئی حکومت کے ساتھ تعمیری مشاورت کرے جس کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ افغان شہری باعزت روزی کما سکیں اور پُرامن حالات میں رہ سکیں۔ خصوصی طور پر وہ ممالک جو گزشتہ دود ہائی یہاں رہ کر گئے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ لازمی اپنا اثرور سوخ استعمال کریں اور مثبت کردار ادا کریں تاکہ یہاں امن و استحکام لایا جا سکے۔
سقوطِ کابل کے بعد پاکستان بین الاقوامی انسانی ہمدردی کی کوششوں میں سب سے آگے رہا۔ پاکستان نے تقریباً ۲۰ ہزار غیر ملکیوں کو افغانستان سے نکلنے میں مدد فراہم کی۔ اس کے علاوہ ملک میں ہنگامی امداد پہنچانے کے لیے فضائی اور زمینی راستے بھی دیے۔ یہ سب کوششیں اہم ہیں لیکن افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو مزید آگے بڑھانا چاہیے۔ افغانستان کے پاس نہ ہی اتنے وسائل ہیں اور نہ ہی ادارہ جاتی صلاحیتیں ہیں کہ وہ خود اپنی معیشت کو تباہی سے بچا سکے۔
پائیدار امن کو یقینی بنانے کے لیے، بین الاقوامی برادری کو ان ذرائع کا تعین کرنا چاہیے، جن کے ذریعے ترقیاتی امداد فراہم کی جا سکتی ہے اور ملک کے حوالے سے خدشات بھی دور کیے جا سکیں۔ تاہم ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘کی پالیسی اپنائی گئی، جو کہ کچھ ممالک اپنا رہے ہیں، ایسا ماضی کی طرح افغانستان کو نظر انداز کر دینے کے مترادف ہو گا۔
نئی حکومت سے پاکستان کی توقعات بھی مغربی حکومتوں سے مختلف نہیں ہیں۔ پاکستان ایک ایسی ریاست چاہتا ہے جو سب کو ساتھ لے کر چلے، تمام افغانوں کے حقوق کا احترام کرے، اور اس بات کو یقینی بنائے کہ افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔ ۹۰ء کی دہائی کے برعکس طالبان اس مرتبہ جس طرح عالمی برادری کے ساتھ متواتر رابطے کر رہے ہیں اور اپنی دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں تو عالمی برادری کو چاہیے کو وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ان کی مدد اور ان کی قانونی حیثیت کو تسلیم کر کے نئی انتظامیہ کو جامع حکومت سازی کے لیے مجبو رکر سکتی ہے۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران پاکستان نے افغانستان کے پڑوسی ممالک اور خطے کے دیگر ممالک سے مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے سفارتی سطح پر بھر پور رابطے کیے ہیں، اور ہم ان کوششوں کو جاری رکھیں گے۔ تاہم مغربی سفارت کاروں کو بھی ان علاقائی اقدامات سے باخبر رہنے اور اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان کی امداد اور مشاورت کے لیے ایک مشترکہ ایجنڈا بنایا جا سکے۔ ابتدائی طور پر ایک بڑی ڈونر کانفرنس کا انعقاد کیا جا سکتا ہے۔ جہاں علاقائی اور مغربی ممالک مل کر انسانی بنیادوں پر اور معاشی امداد کے لیے کوئی لائحہ عمل تشکیل دیں۔ اس میں افغان مرکزی بنک کے ذخائر کو بھی بتدریج غیر منجمد کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک فورم تشکیل دیا جا سکتا ہے، جو افغانستان کے نامکمل ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لے کر ان کو مکمل کروائے تاکہ افغان عوام کو فائدہ ہو۔
طالبان کے ساتھ معاملات کو بہتر طریقے سے چلانے کے لیے ایک مربوط عالمی نقطہ نظر کی ضرورت ہے تاکہ عالمی برادری آپس میں تقسیم نہ ہو۔ تاہم اس بات کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے کہ یہ نقطہ نظر حقیقت پسندانہ ہو، اس نقطہ نظر سے ایسے نتائج کی امید رکھنی چاہیے، جس سے ایک اوسط افغانی کو فائدہ پہنچے اور بین الا قوامی برادری کے لیے بھی قابل قبول ہو۔
پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے میرا یہ کام ہے کہ میں ایسی پالیسی کی حمایت کروں جو میرے ملک کے مفاد میں ہو۔ میں نے یہاں جو موقف اختیار کیا ہے اس میں زمینی حقائق کو پیش نظر رکھا ہے، اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان طالبان سے تعلقات کو منقطع نہیں کر سکتا۔ ہمارے اور افغانستان کے مابین ۱۶۰۰ کلومیٹر کی سرحد ہے اور ہمارا ثقافتی تعلق بھی صدیوں پرانا ہے۔ یہ جغرافیائی اور معاشرتی روابط پاکستان کو افغانستان میں امن کی وکالت کرنے پر مجبور کرتے ہیں، کیوں کہ اگر افغانستان میں عدم استحکام ہوتا ہے تو لازمی طور پر پاکستان بھی اس سے متاثر ہو گا۔ اس لیے پاکستانی طالبان، دولتِ اسلامیہ اور افغانستان میں موجود دیگر پاکستان مخالف گروہوں کو پاکستان کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی ہم مزید افغان مہاجرین کو قبول کرنے کی پوزیشن میں ہیں، جو لامحالہ وہاں کی صورت حال خراب ہونے پر یہاں کا رخ کریں گے۔
ہم اس حقیقت کے بارے میں بھی انتہائی حساس ہیں کہ لاکھوں افغانوں کا ذریعہ معاش پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔ ’’لینڈ لاکڈ‘‘ ہونے کی وجہ سے افغانستان تجارتی راہداری کے لیے پاکستان پر انحصار کرتا ہے۔ افغانستان کی جغرافیائی پوزیشن اس کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر وہ خود کو ایک ’’ٹرانزٹ ہب‘‘ میں تبدیل کرلے جو کہ وسطی ایشیا کو پاکستان کے گرم پانیوں سے جوڑتا ہو۔ غنی حکومت نے ان امکانات پر کام نہیں ہونے دیا تھا، بلکہ پاکستان کی طرف سے کی جانے والی اقتصادی تعاون اور وسطی ایشیا سے رابطوں کے منصوبوں پر تیزی سے کام کرنے کی پیشکشوں کو بھی رد کر دیا تھا۔
اس طرح کی تجارتی راہداری نہ صرف پاکستان کی ’’جیو اکنامک‘‘پالیسی کی بنیاد ہے بلکہ یہ پاکستان، ازبکستان اور افغانستان کے درمیان اقتصادی تعاون کا جو امریکی ویژن ہے اس سے بھی مطابقت رکھتی ہے۔ باہمی رابطوں کے بیشتر منصوبوں پر پہلے سے ہی کام جاری ہے، جیسا کہ ازبکستان سے توانائی اور بجلی کی برآمد، ٹرانس افغانستان ریل منصوبہ، تجارتی راہداری کے لیے سڑکوں کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے منصوبے شامل ہیں۔ انفراسٹرکچر، توانائی اور معدنیات میں امریکا، دیگر بین الاقوامی برادری اور علاقائی طاقتوں کی سرمایہ کاری سے خطے میں تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے اور امن کی کوششوں میں بھی تیزی لانے کا باعث بنے گا۔
اگرچہ پاکستان افغانستان کو مثبت سمت کی طرف لے جانے میں مدد کر سکتا ہے اور کرے گا، تاہم جن نتائج کی دنیا خواہش مند ہے وہ نتائج پاکستان اکیلا دینے کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ کابل میںموجود نئے حکمرانوں پر پاکستان کا غیر معمولی اثرورسوخ نہیں ہے، کیوں کہ طالبان کو مالی امداد اور قانونی حیثیت بہرحال عالمی طاقتوں نے ہی دینی ہے۔ اگر مغربی طاقتیں، چین، روس، مشرق وسطیٰ کے ممالک اور افغانستان کے پڑوسی ممالک مربوط حکمت عملی بنا کر طالبان سے مذاکرات کریں اور انھیں اپنے ساتھ ’’انگیج‘‘کریں تو مشترکہ مقاصد کے حصول کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔
مستقل امن
پاکستان افغانستان اور خطے میں امن کے لیے پر عزم ہے۔ ہم نے اپنے پڑوس میں جنگ کی حمایت کر کے بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان اٹھایا ہے۔ اس کے باوجود ہم نے اپنے پڑوسی ملک میں استحکام اور معاشی خوشحالی کے لیے اپنے عزم کا بار بار اظہار کیا۔ ہم نے افغانستان میں امن کے عمل کو آسان بنانے کے لیے امریکا کے ساتھ مل کر کام کیا، جس کے نتیجے میں ہمیںاندرون ملک دہشت گردی کی لعنت کا سامنا کرنا پڑا، لاکھوں افغانوں کی چار دہائیوں سے میزبانی کی اور بھارت جیسے معاملات بگاڑنے والے ملک کی جارحانہ اشتعال انگیزی کے باوجود تحمل کی پالیسی پر عمل کیا۔ آج پاکستان علاقائی روابط اور ترقیاتی شراکت داری کے ذریعے باہمی معاشی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے اور سیاسی تنازعات کو بھی خوش اسلوبی سے حل کر رہا ہے۔
افغانستان خطے میں باہمی تعاون کی مثال بن سکتا ہے، لیکن اس کے لیے عالمی برادری کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ نئی افغان انتظامیہ کے ساتھ مل کر، امریکا اور دیگر عالمی طاقتیں نہ صرف انسانی بحران کو ٹال سکتی ہیں، بلکہ افغانیوں کو امن سے رہنے میں مدد دے سکتی ہیں اور اس بات کو یقینی بناسکتی ہیں کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ یہ نہ صرف ان کی اجتماعی ذمہ داری ہے بلکہ یہ ان کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔
یقینا طالبان حکام کو بالآخر یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ افغانستان پر زیادہ جامع اندازیعنی سب کو ساتھ لے کر چلنے کے انداز میں حکومت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم، تاریخ میں ہمیں اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جائے گا اگر ہم انھیں صحیح سمت میں آگے بڑھنے کے لیے سازگار ماحول فراہم نہیں کریں گے۔ ایسا کرنے میں ناکامی پر پاکستان کو افغانستان سے ہر قسم کے منفی اثرات کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔حالاں کہ ہم پہلے ہی اپنے حصے سے زیادہ بوجھ اٹھا چکے ہیں۔
(مضمون نگار، پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر ہیں)
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“How Pakistan Sees Afghanistan”.(“Foreign Affairs”. October 7, 2021)
Leave a Reply