
امریکا نے دو عشروں تک افغان سرزمین پر موجود رہتے ہوئے وہاں شدید نوعیت کی خرابیوں کا بازار گرم رکھا۔ امریکا اپنی افواج کو وہاں سے نکال رہا ہے، اپنی پالیسی کو تبدیل نہیں کر رہا۔ اس کا انخلا افغانستان کی بنیاد پر خطے میں بڑی خرابیوں کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ نئی دہلی کے بزرجمہر اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ امریکا جو کچھ کر رہا ہے اس کے نتیجے میں خطے میں محض کشیدگی نہیں بڑھے گی بلکہ بہت کچھ الٹ پلٹ جائے گا۔ افغانستان کی کوکھ سے بحران جنم لیتے رہے ہیں اور ابھی تک ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ دانش مندی سے کام لیتے ہوئے بیرونی قوتوں کو خطے کے معاملات سے دور رکھنے پر توجہ دی جائے۔ افغانستان کی صورتحال کا تقاضا ہے کہ اُسے سلجھانے کے لیے خطے کے تمام با اثر ممالک مل بیٹھیں اور کوئی ایسا سیٹ اپ تیار کریں جس کے تحت کسی کو بھی نقصان نہ پہنچے۔
امریکا میں سیاسی و سفارتی امور کے تجزیہ کار قیاس کے گھوڑے دوڑانے میں مصروف ہیں۔ ان کا ایک بنیادی خیال یہ ہے کہ افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کے ذریعے امریکا کو چین کے مقابل مسابقت کے حوالے سے پوزیشن بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی۔ دوسری طرف بہت سے ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ محض خام خیالی ہے۔
امریکی صدر جوزف بائیڈن کہتے ہیں کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم کرنے اور وہاں سے فوج واپس بلانے کی صورت میں امریکا کے لیے چین کے حوالے سے واضح حکمتِ عملی تیار کرنے میں غیر معمولی حد تک مدد ملے گی اور تمام توانائیاں چین کو ایک خاص حد تک رکھنے پر صرف کرنا ممکن ہوسکے گا۔ امریکا کے پالیسی سازوں میں یہ خیال عام ہے کہ چین جس تیزی سے ابھر رہا ہے اور معاشی، ٹیکنالوجیکل اور اسٹریٹجک معاملات میں منہ دینے لگا ہے اُس کے پیشِ نظر لازم ہے کہ ایک بے مقصد اور لامتناہی نوعیت کی جنگ ختم کرکے ساری توجہ چین کو قابو میں رکھنے پر مرکوز کی جائے۔
پالیسی کے حوالے سے ایک بنیادی حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکا اب مشرقِ وسطیٰ سے نکلنا چاہتا ہے۔ وہ اس بکھیڑے سے نکلنے کی کوشش اس لیے کر رہا ہے کہ اب اسے ایشیا و بحرالکاہل کے خطے پر متوجہ رہنا ہے۔ ایک طرف بھارت ہے اور دوسری طرف چین۔ بھارت اگرچہ اب تک مغرب کا حاشیہ بردار ہے تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ وہ معاشی طور پر مضبوط اور مغرب کے لیے کسی حد تک ایک چیلنج ہی ہے۔ بہرکیف، چین کو قابو میں رکھنے کے لیے امریکا کو مشرقِ وسطیٰ سے جان تو چھڑانی ہے۔ عراق سے نکلنے کا بھی بنیادی مقصد یہی تھا اور اب افغانستان سے جان چھڑاکر چین پر متوجہ رہنے کے قابل ہونے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔
ماہرین کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان سے نکل جانے کی صورت میں بھی امریکا کو چین کے مقابل نہ تو اسٹریٹجی کے حوالے سے بالادستی حاصل ہوسکے گی اور نہ ہی وہ معاشی اعتبار سے کچھ زیادہ کرنے کے قابل ہوسکے گا۔ بائیڈن انتظامیہ کا خیال ہے کہ افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کی صورت میں امریکا کے لیے چین کے سامنے زیادہ قوت کے ساتھ کھڑا رہنا ممکن ہوسکے گا۔ افغانستان سے انخلا مکمل ہو جانے کے بعد کی حکمتِ عملی کے اجزا جوں جوں سامنے آتے جارہے ہیں، ماہرین میں یہ رائے زور پکڑتی جارہی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اس انخلا سے وہ فوائد حاصل کرنے میں ناکام رہے گی جو اب تک سوچے جارہے ہیں۔
افغانستان سے مکمل انخلا کی حمایت کرنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغانستان کی دلدل سے نکلنے پر امریکا اپنی عسکری قوت کو ایشیا و بحرالکاہل کے خطے میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے پر زیادہ آسانی سے صرف کرسکے گا۔ افغانستان سے جان چھڑانے کی صورت میں امریکا کے لیے سفارت اور بیورو کریٹک سطح پر بھی چین پر زیادہ توجہ دینا ممکن ہوسکے گا۔ عسکری قوت کے ساتھ ساتھ انتظامی قوت کا بھی معقول حصہ افغانستان کے معاملات پر صرف کرنے سے امریکا کے لیے چین پر خاطر خواہ توجہ دینا ممکن نہیں ہو پارہا تھا۔ ایسے میں انخلا کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔
سب سے پہلے تو اس حقیقت کو سمجھنا لازم ہے کہ افغانستان میں امریکا کئی سال سے اس حد تک فعال نہیں رہا جس حد تک ڈیڑھ عشرے پہلے تھا۔ جوزف بائیڈن کے امریکی صدر کے منصب پر فائز ہونے تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد ایک بریگیڈ کے مساوی رہ گئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں امریکا کی عسکری قوت کا معمولی سا حصہ صَرف ہو رہا تھا۔ ایسے میں یہ سوچنا سادگی کی انتہا ہے کہ افغانستان سے فوجیوں کا انخلا مکمل کرکے ایشیا و بحرالکاہل میں چین کے مقابل عسکری قوت بروئے کار لاکر کوئی انقلاب برپا کیا جاسکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں تعینات امریکی فوجی ایشیا و بحرالکاہل میں چین کے مقابل درکار عسکری قوت کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔ کہا جارہا ہے کہ امریکا اب افغانستان میں فوجی سرگرمیاں ختم کرکے وہاں تعینات فوجیوں کو ایشیا و بحرالکاہل کے محاذ پر بروئے کار لانا چاہتا ہے۔ یہ حقیقت نظر انداز کردی گئی ہے کہ امریکا نے افغانستان سے فوجی تو نکال لیے ہیں مگر وہ وہاں عسکری سرگرمیاں روکنے کے موڈ میں نہیں۔ واضح طور پر کہا جارہا ہے کہ افغان سرزمین پر باہر سے حملے جاری رکھے جائیں گے۔ پورے خطے کے لیے اس کے کتنے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اِس کا اندازہ لگانا کسی بھی سطح پر کوئی مشکل کام نہیں۔
ایک بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ امریکا دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر افغانستان میں جو کچھ کرتا آیا ہے وہ ختم نہیں کرسکتا، کیونکہ امریکی محکمۂ دفاع نے ایک رپورٹ میں واضح طور پر کہا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ دوبارہ منظم اور مضبوط ہوتی جارہی ہے اور وہ طالبان کی چھتر چھایا میں اپنے قدم مضبوط تر بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ ایسے میں امریکا کے لیے افغانستان سے مکمل طور پر بے نیاز رہنا ممکن نہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جو جنگ شروع کی گئی اس کے باعث القاعدہ کی قیادت افغانستان کی سرزمین چھوڑ کر پاک افغان سرحد سے ملحق پاکستانی علاقوں میں مرتکز ہوگئی تھی اور آج تک وہیں ہے۔ ایسے میں امریکا کے لیے ممکن نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مکمل طور پر ختم کردے۔ ایسا کرنے کی صورت میں اگر افغانستان میں طالبان کے ساتھ مل کر بیرونی عسکریت پسندوں نے ایک بار پھر اپنی پوزیشن مضبوط کی تو امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی زیادہ سُبکی ہوگی۔
افغانستان سے عملاً نکل جانے کے بعد وہاں اپنی عسکری سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے امریکا کو اب قطر اور متحدہ عرب امارات پر انحصار کرنا پڑے گا۔ وہاں سے افغانستان تک کا فضائی سفر کئی گھنٹے کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی طیاروں کو افغانستان پر حملوں کے لیے خاصا فاصلہ طے کرنا پڑے گا اور زیادہ قوت کا استعمال بھی آسان نہ ہوگا۔ اس کے نتیجے میں عسکری سرگرمیوں کے اخراجات بڑھیں گے اور معاملات وہیں رہیں گے جہاں اس وقت ہیں۔ امریکی محکمۂ دفاع کے لیے لازم ہوجائے گا کہ افغانستان پر بمباری جاری رکھنے کے لیے زیادہ طیارے مختص کرے اور امریکی طیارہ بردار جہاز کو پاکستان کے ساحلوں سے نزدیک رکھنا بھی امریکا کے لیے لازم ہوگا۔ اطلاعات ہیں کہ امریکی طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس رونالڈ ریگن بحیرۂ جنوبی چین سے نکل کر پاکستان کی طرف جارہا ہے۔
افغانستان سے عسکری انخلا کے بعد بھی امریکی قیادت افغانستان کا میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہتی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں سے نکلنے کے بعد امریکا کے دفاعی اخراجات بڑھ جائیں گے اور خلیجی ممالک میں اپنے اڈوں سے افغان مشن جاری رکھنا دشوار تر ہوگا۔ اس کے لیے زیادہ وسائل مختص کرنا ہوں گے۔
امریکا کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کے اتحادیوں کی واضح اکثریت افغانستان پر فضائی حملوں سے دور رہنا چاہتی ہے۔ افغانستان میں بیرونی فوجی موجودگی میں غالب حصہ امریکا کا ہے۔ نیٹو اتحادیوں کی واضح اکثریت افغانستان سے عسکری انخلا مکمل کرچکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر امریکی قیادت افغانستان میں طالبان کو کمزور کرنے کے لیے فضائی حملے جاری رکھنا چاہتی ہے تو اُسے کم و بیش تمام اخراجات خود ہی برداشت کرنا ہوں اور سفارت کاری کے محاذ پر بھی اتحادیوں کی حمایت حاصل نہ رہے گی۔ امریکا نے افغانستان میں طالبان اور ان کے ہم خیال عناصر کے خلاف دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر جو جنگ دو عشروں تک جاری رکھی اس میں بہت حد تک مالی اور عسکری بوجھ نیٹو اتحادیوں نے برداشت کیا۔ اب صورتِ حال بالکل بدل چکی ہے۔ نیٹو اتحادی پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ افغانستان میں طالبان کو دبوچنے کے نام پر وہ اس خطے میں مزید الجھے رہیں۔ اس کا خمیازہ انہیں اپنی سرزمین پر بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے۔ اب اگر امریکا افغانستان میں اپنا مشن جاری رکھتا ہے تو تمام اخراجات بھی اُسی کو برداشت کرنا ہوں گے اور سفارتی بوجھ بھی خود ہی اٹھانا پڑے گا۔ نیٹو اتحادی اس کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔
ماہرین اور تجزیہ کاروں کا ایک طبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ افغانستان سے نکلنے کی صورت میں امریکا کو چین کے خلاف کوئی مدد تو کیا ملنی ہے، شدید منفی نتائج بھگتنا ہوں گے۔ ان کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ امریکی افواج افغانستان سے اس حالت میں باہر نکل رہی ہیں کہ وہاں کچھ بھی درست نہیں۔ طالبان کو کچلنے کے نام پر وہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے زیرِ عنوان جو کچھ کیا گیا اُس کے نتیجے میں طالبان ختم تو کیا ہوتے، مزید ابھر کر سامنے آگئے ہیں۔
افغانستان سے انخلا نے امریکا کی انتظامی مشینری پر دباؤ میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ افغانستان کے جو لوگ دو عشروں سے امریکا کے لیے کام کرتے رہے ہیں انہیں طالبان سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان لوگوں کو امریکا بلاکر بسانے کی ذمہ داری بھی امریکا کی انتظامی مشینری کو اٹھانا پڑ رہی ہے۔ افغان مترجمین اور دیگر سہولت کاروں کو ان کے اہلِ خانہ سمیت امریکا میں عارضی طور پر بسانے کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے سے امریکا میں انتظامی مشینری کے لیے مشکلات بڑھی ہیں۔ یہ بوجھ چھوٹا موٹا نہیں۔
یہ سوچنا بھی محض خام خیالی کا مظہر ہے کہ افغانستان سے فوجیوں کو نکال لینے کی صورت میں امریکا پر سے مالی بوجھ کم ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بوجھ میں کمی محض برائے نام ہوگی۔ امریکی قیادت کے عزائم بجٹ کے حوالے سے پیچیدہ تر صورتِ حال کو برقرار رکھنے کا سبب بن رہے ہیں اور بنتے رہیں گے۔ اگر افغانستان پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھنا ہے تو امریکی فوجیوں کو کہیں نہ کہیں تو بسانا ہی پڑے گا۔ اب چاہے یہ کام افغانستان میں ہو یا پھر قطر میں یا ٹیکساس میں۔ افغانستان سے فوجی انخلا مکمل کرلینے پر بھی امریکا کے دفاعی اخراجات میں کمی واقع ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“How the Afghanistan withdrawal costs the U.S. with China”. (“theatlantic.com”. July 4, 2021)
Leave a Reply