
برکس (وہ تنظیم جس میں برازیل روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقا شامل ہیں) نے بہت ہی کم مدت میں اپنے سفارتی تعلقات کو بہتر کیا، اپنے ارکان کے لیے سلامتی و معیشت کے بین الاقوامی فورمز پر آواز بلند کی او ر کئی نئے مالیاتی ادارے قائم کیے ہیں۔ان تمام ممالک کی خواہش ہے کہ دنیا عالمی معاملات میں ان کے کردار کو پہچانے۔ مگر اس تنظیم کے دو ممالک، چین اور بھارت میں کافی اختلافات نظر آتے ہیں۔
۳ سے ۵ ستمبر ۲۰۱۷ء کو برکس کے اجلاس کے لیے تمام سربراہان شیامین (چین) میں جمع ہوں گے (یہ کالم اجلاس سے پہلے لکھا گیا تھا)۔ سب کی نظریں چین اور بھارت کے سربراہان پر ہوں گی، جن کے درمیان گزشتہ دنوں فوجی محاذ آرائی کا معاملہ درپیش رہا ہے۔ دو طرفہ سیکورٹی تعلقات کے سرد پڑ جانے سے ان کے مشترکہ مفاد پر بھی ضرب آسکتی ہے۔
برکس کی بنیادـ
برکس کی بنیاد ۲۰۰۰ ء میں پڑی، مگر گولڈمین ساچ کے اس منصوبے کو عملی جامہ ۲۰۰۸ء میں پہنایا گیا۔ چین، روس اور بھارت کے سربراہان نے G8 سے قبل آپس میں ملاقات کی تھیں۔ اس ہی سال روس میں برکس کی پہلی میٹنگ ہوئی تھی (جنوبی افریقا کے علاوہ چاروں ممالک موجود تھے)۔ ۲۰۱۱ء میں وزرائے خارجہ کانفرنس میں ان تمام ممالک نے جنوبی افریقا کو بھی اس میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر ۲۰۱۱ء کی کانفرنس میں یہ پانچ ممالک پر مشتمل ’’برکس بلاک‘‘ مکمل ہوا۔
برکس کے لیے ابھرتی ہوئی عالمی منڈیوں کو اپنے قابو میں رکھنا مشکل کام نہیں۔ مگر یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ اس گروپ بندی کے نتیجے میں تمام ممالک کے مشترکہ مفاد دیرپا ہوں گے یا نہیں۔ پانچوں ممالک کے درمیان معاشی فرق بہت زیادہ ہے۔ چین اور روس سلامتی کونسل کی پانچ میں سے دو نشستوں پر مستقل موجود ہیں اور عالمی سلامتی کے معاملات میں زیادہ موثر انداز میں شریک رہتے ہیں۔ برکس میں چین اور روس آمرانہ انداز سے حکومت چلاتے ہیں نہ کہ جمہوری، اس لیے بھارت، برازیل اور جنوبی افریقا نے اپنا سہ طرفہ ڈائیلاگ فورم (IBSA) بھی بنایا ہوا ہے۔
برکس کیا کام کرتی ہے؟
ابتدا میں برکس کے سربراہان کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مشترکہ طور پر برکس دنیا کے انتظام میں اپنا ایک نمایاں مقام حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ۲۰۰۹ء میں عالمی مالیاتی بحران کی صورتحال میں مشترکہ اعلامیہ میں مالیاتی پالیسی کو G-20 کے تعاون سے ترتیب دینے پر زور دیا گیا تھا۔ مگر اس میں بین الاقوامی اداروں کو مستحکم معیشت والے ممالک کی نمائندگی کے لیے بھی تجاویز تھیں، بالخصوص لیڈر شپ کے انتخاب کے لیے شفاف نظام کا موجود ہونا۔ اس اعلامیہ میں ورلڈ بینک کا صدر (جو کہ ہمیشہ امریکی ہوتا ہے)، آئی ایم ایف کے انتظامی سربراہ (یورپین) کے انتخاب کے پرانے اطوار پر بات کی گئی ہے۔ مزید یہ کہ یورپ کے مضبوط معاشی ممالک کو ووٹ دینے اور شراکت داری (quota share) کا زیادہ حق حاصل ہے۔
۲۰۱۱ء میں تیسری مشترکہ کانفرنس میں یہ بیان سامنے آیا کہ ’’روس اور چین، برکس کے دیگر ممالک کو اقوام متحدہ میں ایک اہم اور نمایاں حیثیت دینے کے حق میں ہیں‘‘۔مگر روس اور چین دونوں نے برکس ممبران کو سلامتی کونسل کی نشست دلوانے کے لیے کوئی جدوجہد نہیں کی۔ ۲۰۱۲ء میں چوتھی کانفرنس میں یہ بیان سامنے آیا کہ ’’برکس دنیا کی ۴۳ فیصد آبادی کی نمائندگی کرتا ہے اور اس ہی لیے انہیں عالمی اداروں میں مزید جگہ دینی چاہیے‘‘۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برکس کے سفارتی تعلقات مستحکم ہوتے جارہے ہیں۔ برکس، جس کا آغاز وزرا خارجہ کی علیحدہ ملاقاتوں سے ہوا تھا، اب ہر سطح کے وزرا کی کانفر نس تک پہنچ گیا ہے۔ جن میں مالیات، سلامتی، بینکنگ، سائنس وٹیکنالوجی، ماحولیات، صحت، بزنس کونسل، تھنک ٹینک فورم، پارلیمانی فورم اور ـ’’شہری و بلدیاتی حکومتوں سے تعاون کا فورم‘‘ شامل ہیں۔ اس ہی وجہ سے مشترکہ بیانات جو کہ ۲۷ صفحات پر مشتمل تھے، ۲۰۱۵ء میں ۴۳ صفحات تک چلے گئے۔ ۲۰۱۰ء میں عالمی اداروں کے لیے شاید اس گروپ کو توڑنا ممکن تھا، مگر اب اسے نظر انداز کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ برکس میں موجود پانچ ممالک نے اس فورم کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ بیسویں صدی کے پرانے اداروں کو تبدیل ہونا ہوگا اور ۲۰۱۲ء میں انہوں نے اس بیان کو عملی شکل دی۔
برکس کے تمام اقدامات میں سب سے قابل ذکر ’’نئے تعمیری بینک‘‘ (NDB)‘کا قیام ہے جو کہ کسی بھی غیر متوقع حالات میں وسائل کا انتظام کرسکتا ہے۔ دراصل یہ ادارہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی اصلاحات کی ناکامی کے جواب میں بنایا گیا ہے۔ چینی سرپرستی میں چلنے والے ایشیائی طرز کے بینک کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ شاید اس لیے کہ چین کے نام سے توجہ حاصل کی جاسکتی ہے یا پھر اس لیے کہ اس نے اپنے ساتھ کئی ممبران کو شامل کرلیا ہے۔
آج این ڈی بی مکمل طور پر فعال ہے۔ تمام پانچوں ممالک نے ۵۰؍ارب ڈالر کی ابتدائی سرمایہ کاری کی ہے اور سب کی برابر نمائندگی موجود ہے۔ بینک کا ہیڈ کوارٹر شنگھائی میں ہے۔ اس کے پہلے صدر کے وی کاماتھ (آئی سی آئی سی بینک بھارت کے سابق صدر) ہیں۔ تمام ممالک کے لیے حکومت اور سربراہی کے یکساں مواقع موجود ہیں۔ اپریل ۲۰۱۷ء میں، بینک نے پانچ سال سے بھی کم عرصے میں اپنے پہلے تعمیراتی قرضے کا معاہدہ برازیل میں کیا۔ ۱۰۰؍ارب ڈالر کے ہنگامی فنڈز، جن کا ۲۰۱۴ء برازیل میں معاہدہ ہوا تھا، کسی بھی قسم کے نامناسب حالات یا بحران میں قرضے کی صورت میں دیے جاسکتے ہیں۔ اس کو قائم کرنے کا بنیادی مقصد آئی ایم ایف کی محتاجی کو ختم کرنا تھا۔
بھارت اور چین کے تنازعات، برکس کے لیے خطرہ!
شیامین میں ہونے والی کانفرنس کے اندر دونوں ممالک کے سربراہان کی ملاقاتیں متوقع ہیں۔ چین اور بھارت کی افواج نے گرمی کے مہینوں میں ہمالیہ کے اندر بھوٹان کی سرحد پر ایک دوسرے سے جھڑپیں کی ہیں۔ جغرافیہ کے لحاظ سے یہ محاذ بڑا تھا اور چین کے میڈیا نے بھارت کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ قابل غور ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان فرق جو پانچ ممالک کو آپس میں جوڑتا ہے صرف یہ ہے کہ وہ ایک بڑی قوت اور غیر مغربی ہیں۔ برکس کے لیے پھر یہ مشکل ہے کہ مشترکہ ایجنڈے پر چل سکیں وہ بھی اس وقت جب کہ دو ممالک کے آپس میں تنازعات کی ایک تاریخ موجود ہو۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ نئی دہلی اور بیجنگ کسی ایک لائحہ عمل پر متفق رہے ہیں، جیسا کہ برکس کے معاملے میں انہوں نے کیا ہے، مگر اس کی بھی کچھ حدود ہیں۔ آج کے دن تک، چین P5 کا اہم رکن ہے، جو بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دینے کے حق میں نہیں۔ اس کشیدگی اور تنازعے کے باوجود، برکس ایک منفرد اتحادی ادارے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ بالخصوص زراعت، تعلیم، صحت اورسیاحت کے شعبے میں معاونت قابل ذکر ہے۔ یہ سب برکس کے معیشت کو مضبوط کرنے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
ادارے نے سلامتی امور پر بھی توجہ مرکوز کی ہے اور سالانہ بنیاد پر اعلیٰ حکام کی مشاورت بھی منعقد ہوتی ہے۔ جولائی کی جی ۲۰ میٹنگ کے بعد برکس میں بھارت کے وزیراعظم نے تجویز پیش کی تھی کہ شیامین کی کانفرنس میں برکس دہشت گردی کے حوالے سے اپناموقف پیش کرے گا کہ ’’برکس ارکان دہشت گرد ممالک کے خلاف کارروائی کریں گے‘‘۔ مگر چین نے اس معاملے میں پاکستان کا نام استعمال کرنے سے انکار کیا اور ایجنڈے میں اس پر بات کرنے سے اختلاف کیا۔
شیامین کی کانفرنس اور مستقبل
ہر سال میزبان ملک، ایک تھیم ترتیب دیتا ہے۔ شیامین کی کانفرنس کے لیے چین نے ’’مستحکم روابط، روشن مستقبل‘‘ کی تھیم پیش کی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ برکس کے تعلقات آپس میں مستحکم ہیں اور انہوں نے، گزشتہ ۸ سالوں میں نئے مالیاتی اداروں کا قیام عمل میں لائے، جنہیں وہ باآسانی چلا رہے ہیں۔ مگر دو ممالک کے درمیان فوجی کشیدگی کے بعد یہ پہلی کانفرنس ہوگی، جس میں برکس کے باقی ممالک موجود ہوں گے۔ کیا واقعی برکس کا مستقبل روشن ہے ؟ یہ بات اس کانفرنس میں ان دو ممالک کے لب و لہجے سے معلوم ہوجائے گی۔
(ترجمہ: عبدالرحمن)
“How the BRICS got here”. (“cfr.org”. August 31, 2017)
Leave a Reply