نجی شعبے کے ہاتھوں ایم کیو ایم کا ’’قتل‘‘

ایم کیو ایم نے ایک طویل مدت تک کراچی اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں میں غیر معمولی مینڈیٹ حاصل کیا۔ اس کے قیام اور بقا کے کئی اسباب تھے۔ ایک بڑا سبب یہ وعدہ تھا کہ وہ اردو بولنے والے طبقے کی نئی نسل کو معاش کے بہتر مواقع فراہم کرے گی۔ یہ مواقع سرکاری شعبے میں تلاش کیے جانے تھے۔ جب نجی شعبہ پروان چڑھا تو مسابقت کا معاملہ اٹھ کھڑا ہوا، جس کے نتیجے میں سندھ کے شہری علاقوں میں سرکاری ملازمتوں کی گنجائش کم ہوگئی اور نجی شعبے میں مسابقت بڑھنے سے امکانات محدود ہوتے چلے گئے۔

حالیہ عام انتخابات نے اور کچھ واضح کیا ہو یا نہ کیا ہو، ایک بات تو بالکل واضح ہوگئی کہ متحدہ قومی موومنٹ کی موت واقع ہوچکی ہے۔ آپ یہ سوچ اور پوچھ سکتے ہیں کہ اگر ایک سیاسی جماعت کی موت واقع ہو بھی چکی ہے تو کاروباری امور کے تجزیے سے متعلق ایک جریدے میں یہ بات کیوں کی جارہی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس سیاسی جماعت کی موت بنیادی طور پر معاشی وجوہ سے ہوئی ہے۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اسٹیبلشمنٹ میں کچھ عناصر تھے، جو ایم کیو ایم کی واقع ہوتی ہوئی موت دیکھ کر خوش تھے اور اس عمل کو تیز تر کرنے کی انہوں نے اپنی سی کوشش بھی کی، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کسی بھی حوالے سے ایم کیو ایم کے قیام یا بقا کی ضامن نہ تھی۔ سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایم کیو ایم اس لیے مر رہی ہے کہ اب اس کے زندہ رہنے کا جواز نہیں رہا۔ کچھ لوگ ہیں جو اب بھی ایم کیو ایم کے فلسفے اور نعروں سے چمٹے ہوئے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پارٹی پوری طرح زندہ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اب یہ تاثر دینا انتہائے حماقت کہلائے گا کہ پاکستان میں مہاجر بقا کے مسئلے سے دوچار طبقہ ہے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت مہاجروں کی بقا کے حوالے سے سوالات کھڑے کرے گی تو وہ اپنی موت کا آپ ہی انتظام و اہتمام کرے گی۔

اگر آپ ایم کیو ایم کی موت کے اسباب کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو الطاف حسین کی تقریریں سننے کی ضرورت نہیں۔ کراچی میں آرمی آپریشن کے حوالے سے کچھ جاننے کی بھی ضرورت نہیں۔ اور ہاں، ٹی وی کی اسکرین پر نمودار ہونے والے معروف افراد کے دلائل سننا بھی لازم نہیں۔ بات اتنی سی ہے کہ کراچی میں معاشی امکانات بے حد بڑھ گئے ہیں۔ کل تک جو لوگ غربت کی چکی میں پس رہے تھے اور اپنی اولاد کے مستقبل کے حوالے سے پریشان رہا کرتے تھے وہ اب بے فکر اور مطمئن ہیں۔ ان کی اولاد پڑھ لکھ کر اپنی پسند کی نوکری بھی حاصل کرلیتی ہے اور والدین کے مقابلے میں کہیں زیادہ کما بھی لیتی ہے۔ کراچی کو قومی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی سے مشابہت دی جاتی ہے۔ ٹاور سے شروع ہونے والے ابراہیم اسماعیل چندریگر روڈ پر کچھ دور تک چل کر دیکھیے۔ بلند عمارتوں سے نکلنے والے نوجوانوں سے پوچھیے کہ ان کے لیے معاشی امکانات کیا ہیں، تو وہ بتائیں گے کہ ان کے والدین معمولی اجرت یا مشاہرے پر کام کرتے رہے ہیں جبکہ وہ معقول تنخواہوں پر اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں معاشی امکانات کے بڑھنے سے ہر اس سیاسی گروپ کی موت واقع ہوگئی، جو کل تک مہاجروں کی اولاد کے لیے معاشی امکانات کے نہ ہونے کا راگ الاپتا اور ذہنوں میں خوف کے بیج بوتا تھا۔

کراچی میں پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے بچے اب بہتر معاشی امکانات کے ساتھ جی رہے ہیں۔ رکشا، ٹھیلا یا پان کی دکان چلانے والوں کے بچے کارپوریٹ سیکٹر کے اداروں میں کام کر رہے ہیں۔ تھوڑی بہت تعلیم حاصل کرنے سے ان کے لیے بہتر زندگی کے امکانات روشن تر ہوگئے ہیں۔ کل تک بے روزگاری اور افلاس کا راگ الاپ کر انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا تھا۔ ایم کیو ایم اور اسی قبیل کے دیگر بہت سے سیاسی گروپس نے مہاجروں کی تین نسلوں کو مختلف حوالوں سے خوف میں مبتلا رکھا۔

کراچی میں متوسط طبقہ تیزی سے ابھر رہا ہے، پنپ رہا ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس کے لیے سرکاری ملازمتوں کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جارہی۔ غریب طبقے کے بچوں نے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم پاکر اپنے لیے بہتر زندگی کے امکانات تلاش کرلیے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اچھی تعلیم کے لیے اب سرکاری اسکولوں کی ضرورت بھی زیادہ محسوس نہیں کی جارہی۔ ایسے ماحول میں ایم کیو ایم کی موت کا واقع ہونا فطری امر تھا۔ ایم کیو ایم اس بات سے ڈراتی تھی کہ مہاجروں سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور انہیں سرکاری ملازمتیں آسانی سے فراہم نہیں کی جاتیں۔

قیام پاکستان کے بعد ابتدائی دو عشروں کے دوران مہاجر سول سروس میں چھائے رہے۔ پھر یہ ہوا کہ ملک کے دوسرے نسلی گروہوں کے لوگوں کو آبادی اور جغرافیے کی بنیاد پر طے کیے جانے والے کوٹے کے تحت ملازمتیں دی جانے لگیں۔ کوٹا سسٹم اس لیے لایا گیا تھا کہ سرکاری ملازمتوں میں بعض نسلی گروہوں سے ناانصافی روا رکھی جارہی تھی۔ مہاجروں کے ذہن میں یہ بات گھر کرگئی کہ میرٹ کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ مسئلہ یہ تھا کہ ایک طویل مدت تک ان کے ذہن میں بات گھر کیے رہی کہ ملک کے دیگر نسلی اور ثقافتی گروہوں کے لوگوں میں زیادہ ذہانت اور صلاحیت و سکت پائی نہیں جاتی!

مہاجروں میں سسٹم کے حوالے سے جو بھی گِلے شِکوے پائے جاتے تھے، وہ اگرچہ ادھوری سچائیوں پر مبنی تھے مگر پھر بھی ان کے وجود کا جواز اُس وقت تک تھا جب تک معاشی امکانات کا مدار بہت حد تک سرکاری شعبے پر تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ ایک طبقے سے نکل کر دوسرے اعلیٰ تر طبقے میں شامل ہونے کے لیے لازم تھا کہ سیاسی سرپرستی بھی حاصل ہو اور سرکاری نوکری بھی ملے۔ اب ایسا کچھ لازم نہیں رہا۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں معیشت بہت حد تک آزاد ہوئی اور اس کے نتیجے میں ایک طبقے سے نکل کر دوسرے طبقے میں شامل ہونا قدرے آسان ہوگیا۔ اس وقت ایسے عوامل پیدا کرنے والوں میں خود مہاجر بھی شامل ہیں۔

۱۹۷۰ء کے عشرے میں پسماندہ طبقے میں معاشی امکانات کے حوالے سے جو بے چینی پائی جاتی تھی، وہ اب نہیں رہی۔ ابھرتے ہوئے متوسط طبقے میں شامل ہونے کے لیے اب سرکاری ملازمت کا حصول بھی لازم نہیں رہا۔ یہ کام کارپوریٹ سیکٹر خوب کر رہا ہے۔ جس میں صلاحیت ہوتی ہے وہ اپنے حصے کی جاب حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔ کراچی اور ملک کے تمام بڑے شہروں میں کارپوریٹ سیکٹر کے ادارے پھل پھول رہے ہیں اور ان میں کام کرنے والے اپنے طبقے کو چھوڑ کر متوسط طبقے میں تیزی سے شامل ہو رہے ہیں۔ آئی بی اے، لمز اور اعلیٰ تعلیم کے دیگر اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے کارپوریٹ سیکٹر کے بڑے اداروں میں تیزی سے جگہ بنا رہے ہیں۔ کل تک رجحان یہ تھا کہ انتہائی ذہین طلبہ کاکول اکیڈمی سے منسلک ہو کر اعلیٰ فوجی افسر بننے کو ترجیح دیتے تھے اور جن کا ذہن فوج میں جانے کا نہیں بنتا تھا وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے کر ڈی ایم جی افسر بننے کو ترجیح دیتے تھے۔ کارپوریٹ سیکٹر کے عروج نے سب کچھ بدل ڈالا ہے۔

نجی شعبے کے فروغ اور عروج نے معاشی امکانات کے حوالے سے صورتِ حال اتنی بدل ڈالی ہے کہ اب لوگ سرکاری ملازمت کو ترجیح دینے کے رجحان سے بھی دست کش ہوگئے ہیں۔ کراچی میں کوٹا سسٹم اب بھی نافذ ہے اور جامعہ کراچی سمیت متعدد اداروں میں کوٹا سسٹم کام کر رہا ہے مگر یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بعض مقامات پر سندھ کے شہری علاقوں کے لوگ کوٹے میں اس قدر کم دلچسپی لیتے ہیں کہ اگر ان علاقوں سے کوئی مہاجر کوٹے پر تعلیم کے لیے درخواست دے تو آسانی سے سیٹ مل سکتی ہے!

ایم کیو ایم کی ضرورت اس لیے نہیں رہی کہ مہاجروں میں معاشی امکانات کے حوالے سے پایا جانے والا خوف اب دور ہوچکا ہے۔ وہ بہتر زندگی کے لیے سرکاری ملازمتوں کے محتاج اور ضرورت مند نہیں رہے۔ نجی شعبے کے بڑے اداروں نے اہلِ کراچی کو بہتر معاشی امکانات کے بارے میں سوچنے کی زحمت سے چھٹکارا دلادیا ہے۔ کراچی کا بنیادی کاروباری ڈھانچا اس قدر وسیع ہے کہ اس کے پنپنے کی گنجائش بڑھتی ہی جارہی ہے اور یوں دوسروں کے ساتھ ساتھ مہاجروں کے لیے بہتر زندگی بسر کرنا قدرے آسان ہوگیا ہے۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں مختصر مدت کے لیے اس بات کی گنجائش پیدا ہوئی کہ ایم کیو ایم ذمہ دار سیاسی عناصر کی پارٹی میں تبدیل ہو۔ اس کے بعد ۲۰۱۱ء میں ذوالفقار مرزا سندھ کے وزیر داخلہ بنے تو ایک بار پھر ایم کیو ایم کو نسلی گروہ کی حیثیت سے دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑی اور یہ جماعت ایک بار پھر ٹھگوں کے منظم ٹولے میں تبدیل ہوگئی، جیسی کہ وہ تھی۔

حالیہ انتخابات نے ثابت کردیا ہے کہ کراچی کے مہاجر ایک بار پھر ۱۹۸۸ء سے پہلے کے ووٹنگ پیٹرن کی طرف لوٹ گئے ہیں۔ انہوں نے تحریکِ انصاف اور دیگر قومی جماعتوں کو ووٹ دینے کو ترجیح دی ہے تاکہ شہر کے مسائل ڈھنگ سے حل کیے جاسکیں۔ تحریکِ انصاف کی معاشی ٹیم بنیادی طور پر کراچی سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں وہ لوگ نمایاں ہیں، جنہوں نے کراچی میں کارپوریٹ سیکٹر کے ابھرنے پر بہتر امکانات کے ساتھ اپنے لیے جگہ بنائی۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اس کے معاشی دارالحکومت سے بھی وہی سیاسی جماعت کامیاب ہوئی ہے، جس نے وفاق میں حکومت بنائی ہے۔ یہ حقیقت پارٹی کی پالیسی سازی اور ملک کے سب سے بڑے اور مالدار ترین شہر میں ہر نوع کی ہم آہنگی کے لیے نیک شگون ہے۔

(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)

“How the private sector killed off the MQM”. (“profit.pakistantoday.com.pk”. Aug.27, 2018)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*