ڈرون حملوں پر بڑھتا ہوا امریکی انحصار

ڈرون حملوں پر امریکی فوج کے انحصار میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاک افغان سرحدی علاقے اور فاٹا کے علاوہ اب صومالیہ اور یمن میں بھی ڈرون حملوں سے متعلق پالیسی بنائی جا رہی ہے تاکہ فوج کا جانی نقصان کم کرنے کی راہ ہموار ہو اور جن شخصیات کی گرفتاری ضروری سمجھی جاتی رہی ہے ان سے گلوخلاصی ہی کر لی جائے۔

حالات و واقعات کے تجزیے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اوباما انتظامیہ اپنے ابتدائی دنوں میں یہ چاہتی تھی کہ بیت اللہ محسود کو گرفتار کیا جائے۔ ۲۵ مارچ ۲۰۰۹ء کو امریکی حکومت نے تحریک طالبان پاکستان کے قائد پر ۵۰ لاکھ ڈالر کا انعام رکھا۔ اس کی گرفتاری بہت سی دوسری گرفتاریوں کی راہ ہموار کر سکتی تھی۔ مگر سی آئی اے ایسا نہیں چاہتی تھی۔ انعام کے اعلان کے ۵ ماہ بعد ہی بیت اللہ محسود کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ بیت اللہ محسود جیسے لوگوں کو گرفتار کرنا سی آئی اے کا بہترین آپشن تھا ہی نہیں۔

قبائلی علاقہ جات میں ڈرون حملوں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب مبصرین اسے توپ کی گولہ باری ہی قرار دینے لگے ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی سے متعلق امور کے امریکی ماہرین اور افسران کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں کا مقصد اب صرف بیت اللہ محسود جیسے ہائی ویلیو ٹارگیٹس کا حصول (یعنی ہلاکت) ہی نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً کسی کو بھی نشانہ بنانا ہے۔

ڈرون حملوں کی منظوری بش انتظامیہ نے دی تھی اور اوباما انتظامیہ نے بھی اسے جاری رکھا ہے۔ اس میں فائدہ یہ ہے کہ فوج کا جانی نقصان برائے نام بھی نہیں ہوتا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ ڈرون حملوں نے اب متوازی جنگ کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ ایک امریکی افسر نے بتایا کہ کسی بھی اہم شخصیت کو گرفتار کرنے سے کہیں آسان ہلاک کرنا ہے اور اب ہلاکت کو بہترین آپشن کا درجہ حاصل ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی حکومت کے ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق سی آئی اے نے ۲۰۰۸ء کے بعد سے ڈرون حملوں میں القاعدہ اور طالبان کے نچلے اور درمیانے درجے کی قیادت اور ارکان کو ۱۲ گنا زیادہ تعداد میں ہلاک کیا ہے۔

پاکستان کی حکومت ڈرون حملوں کی مذمت کرتی آئی ہے مگر سچ یہ ہے کہ ان حملوں میں پاکستانی افسران نے بھی خاصی معاونت کی ہے۔ سوال صرف خفیہ معلومات کی فراہمی کا نہیں بلکہ بسا اوقات امریکی اڈوں پر پاکستانی ایجنٹ اہداف کی نشاندہی کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ موجودہ اور سابق امریکی افسران کا کہنا ہے کہ اہداف کے تعین اور حملوں کے لیے بنیادی تیاری میں پاکستانی ایجنٹوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع اور ایوانِ صدر میں ڈرون ٹیکنالوجی کو اس قدر پسند کیا جاتا ہے کہ افریقا میں بھی اسے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ صومالیہ اور یمن میں ڈرون ٹیکنالوجی پرانحصار بڑھ سکتا ہے۔ امریکا خلیج عدن اور بحرہند میں تجارتی جہازوں کو لوٹنے والے قزاقوں کو بھی ڈرونز کے ذریعے نشانہ بنا سکتا ہے۔ ایک سابق امریکی افسر نے بتایا کہ ڈرون ٹیکنالوجی سے سب کو محبت ہو گئی ہے۔ ڈرون کی مقبولیت میں اضافہ اس لیے بھی ہوا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے امریکا کی ساکھ بہتر بنانے کے لیے بیرونِ ملک جیلیں اور عقوبت خانے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ کسی بھی مطلوب شخصیت کو گرفتار کر کے رکھنا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ آسان حل یہی ہے کہ اسے حملے میں ہلاک کر دیا جائے۔ گرفتاری کے بعد تفتیش کے دوران تشدد اور ایذارسانی سے امریکا پر تنقید میں اضافہ ہو رہا تھا اور اس کی ساکھ مزید خراب ہوتی جا رہی تھی۔

ڈرون حملے اس سوچ کا عکس ہیں کہ کسی بھی مجرم سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُسے قتل کر دیا جائے۔ عام حالات میں اور انفرادی سطح پر مقابلے کا تصور دے کر مار دیا جاتا ہے۔ امریکا یہ تاثر دے رہا تھا کہ اس پر حملوں کی منصوبہ بندی جن ممالک میں کی جاتی ہے ان پر حملے کر کے مطلوب افراد کو ختم کر دینا ہی بہترین پالیسی ہے۔ ڈرون ٹیکنالوجی امریکا سے نفرت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کر رہی ہے۔

(بشکریہ: ’’رائٹرز‘‘ ۱۸ مئی ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*