قریباً چار سال سے ایران کی جانب سے ایٹمی اسلحہ تیار کرنے کی سرگرمیاں روک دی گئی ہیں۔ ایران نے امریکا اور دیگر طاقتوں سے۲۰۱۵ء میں ایک معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت اس کے ایٹمی پروگرام کوپُرامن یا غیر عسکری مقاصد (civilian uses) جیسے پیداوارِ توانائی (power-generation) کے حصول تک محدود کردیاگیا تھا۔ ایران میں نیوکلیائی سرگرمیوں کا پتا چلانے کے لیے جو اقدامات کیے گئے، اس حوالے سے ایران کو معائنے کے لیے سخت ترین حکومت (toughest inspection regime) کہا گیا۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایران معاہدے کی تعمیل کررہا ہے اور اس کی نیوکلیائی سرگرمیاں محدود ہیں۔لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس نیوکلیائی معاہدے کو ختم کردیا، جس کی وجہ سے ایران نے یورینیم کی افزودگی پھر سے شروع کر دی ہے۔معاہدے میں۳۰۰ کلو گرام کی حد کا تعین کیا گیا تھا اور ایران اس کی خلاف ورزی کرنے میں کچھ تامل کا شکار ہے لیکن اس کی جانب سے یورینیم کی افزودگی کی سطح میں اضافے کی دھمکی بھی سامنے آرہی ہے، جس کی وجہ سے اب ایران اس مواد سے قریب ہورہا ہے جو بم بنانے میں معاون ہے۔
خوش قسمتی سے ایران کے ایٹمی طاقت بننے کے فوری امکانات نہیں۔ ایران دوبارہ اپنے نیوکلیائی پروگرام کو استعمال کررہا ہے تاکہ امریکا پر اپنا دباؤ بڑھا سکے۔ یہ ایک تباہ کُن پہلو ہے۔ امریکا نے ایران پر الزام لگا یا ہے کہ اس نے مئی کے بعد سے ہرموز (Hormuz) کے مقام پر چھ بحری جہازوں پر حملہ کیا۔ ۲۰ جون کو ایران نے ایک امریکی جاسوس ڈرون کو مار گرایا۔ اس بارے میں امریکا کا اصرار ہے کہ یہ جاسوسی جہاز عالمی سمندری حدود (International waters) سے بھی اونچی پرواز کررہا تھا۔ ایسے میں ایران کی سمندری حد کی خلاف ورزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس پر امریکی جنگی جہازوں کو دوبارہ حملہ کرنے کے لیے روانہ کیا گیا، لیکن ان جنگی جہازوں کے ایران میں نشانوں پر حملہ کرنے سے صرف دس منٹ پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ حملے معطل کردیے اور اس کی جگہ سائبر حملے کرنے پر اپنے آپ کو مطمئن کرلیا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ، امریکا کی اتحادی قوتیں اور ایران کی حکومت مشرقِ وسطیٰ میں کسی نئی بڑی جنگ کے خواہش مند نہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکمتِ عملی ہے کہ ایران پر دباؤ بڑھایا جائے، لیکن دونوں جانب سے ہمیشہ کی طرح خوفناک دھمکیاں سامنے آرہی ہیں۔ صدرِ امریکا کی جنگی چالوں کا دائرہ سکڑتا جارہا ہے۔ایران جس تیزی سے جارحانہ رویہ اختیار کررہا ہے، اسی رفتار سے اقدامات کی ضرورت کوبھی محسوس کیا جارہا ہے۔ ان اقدامات کی ضرورت کو صرف صدر کی جماعت ہی محسوس نہیں کررہی۔ اس سے پہلے کہ تناؤ کے سبب حالات قابو سے باہر ہوجائیں، ددنوں ممالک کو مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔ مذاکرات کے آغاز کا فیصلہ کوئی ایسا ناممکن کام نہیں جیسا کہ اس وقت محسوس ہورہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کے بارے میں حکمتِ عملی کی اساس اُس مفروضے پر ہے کہ بارک اوبامانے بہت آسانی سے ایران کو ایسا راستہ فراہم کیا جسے۲۰۱۵ء میں ہونے والے معاہدے کی صورت میں د یکھا جاسکتا ہے۔گزشتہ سال صدر ٹرمپ نے معاہدے کو منسوخ کرتے ہوئے ایران پر ایسی معاشی پابندیاں عائد کیں، جن کی وجہ سے اس کی معیشت کمزور ہوئی۔ ٹرمپ کے مشیروں کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال کمزور ایران کو ایک ایسے نئے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کردے گی، جو گزشہ معاہدے سے زیادہ عرصے کے لیے ہوگا یعنی اس معاہدے کی اکثر شرائط۲۰۳۰ء تک قابل عمل رہیں گی۔ ٹرمپ کے مشیر یہ بھی چاہتے ہیں کہ ایران کے میزائل پروگرام پربھی پابندیاں عائد کی جائیں اور ایران کی خطے میں جارحانہ دخل اندازی کو بھی ختم کیا جائے۔سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو ایران کی جانب سے حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی جارحیت کو ایک ایسے اشارے سے تعبیر کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ حکمتِ عملی اپنی درست سمت میں کام انجام دے رہی ہے۔
۲۰۱۵ء کی سخت پابندیوں نے ایران کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کیا تھا لیکن ٹرمپ جو تبدیلیاں چاہتے ہیں، اُن پر عمل درآمد ممکن نہیں۔ ا س کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ٹرمپ نے حسن روحانی کو رُسوا کیا جو ایران کے صدر ہیں اور ایران کے نیوکلیائی پروگرام کے پُر زور حامی بھی ہیں۔ اس ابھرتی صورتحال میں(ایرانی )انتہاپسند حالات کواپنے مفاد میں استعمال کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ دوسر ی بات یہ ہے کہ امریکا ان حالات میں تنہا رہ گیا ہے۔۲۰۱۵ء میں اس ضمن میں جوعالمی سطح پر اتحاد سامنے آیا اس میں یورپ کی اتحادی طاقتوں کے ساتھ ساتھ رو س اور چین بھی شامل تھے۔
ٹرمپ کی ’’بھرپور دباؤ‘‘ کی پالیسی نے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں۔ مذہبی راہنما اور ان کے پاسداران انقلاب یہ ثابت کرکے اپنا لوہا منوانا چاہتے ہیں کہ ٹرمپ نے جو کچھ بھی کیا ہے اس سے ہر شخص کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ بحری جہازوں پر حملے ہوں یا ڈرون کو مار گرائے جانے کے واقعات، ان سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ وہ گروہ جو اپنی شناخت مخفی رکھ کر ایران کی ایما پر سعودی عرب کی پائپ لائنوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان پر یہ بھی شبہ ظاہر کیا گیا ہے کہ انھوں نے امریکی فوجیوں کے بھیس میں عراقی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ اگرمعاشی پابندیاں نہیں اٹھائی گئیں تو ایران آبنائے ہرمز بند کرنے کا کام کرسکتا ہے، جہاں سے دنیا کو تیل کا پانچواں حصہ فراہم کیا جاتا ہے۔
جان بولٹن، مشیرِ سلامتی، کا شمار اُن جنگ پسندوں میں ہوتا ہے جن کا کہنا ہے کہ اگر ایران جنگ چاہتا ہے تو اس کے ساتھ جنگ ہی ہونی چاہیے لیکن یہ سب کچھ بہت نقصان دہ ہوسکتا ہے۔کسی ایسے عملی معاہدے سے پیچھے ہٹنے کا مطلب یہ نہ ہو کہ ایران پر حملہ کرنے کی صورت میں امریکا کو جو تعاون اپنے یورپی اتحادیوں سے میسر آتا ہے، کھو بیٹھے۔ چین اور روس اس حوالے سے کسی بھی حملے کی زبردست مخالفت کریں گے۔
شاید معاشی پابندیوں یا جنگ کی صورت میں ایرانی حکومت ختم بھی ہوسکتی ہے لیکن یہ حکمتِ عملی شاید ہی کہیں زیر ِ غور ہو۔ کیوبا نے معاشی پابندیوں کا مقابلہ کئی عشروں تک کیا۔ شکست خوردہ ایران شایدایٹمی طاقت شمالی کوریا سے کچھ سبق حاصل کرے گا اور بم بنانے کی جانب اپنے اقدامات کو مزید تیز کردے گا۔ بولٹن بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایران کی نیوکلیائی سرگرمیوں کو تباہ کرنے سے اس نے جو عملی معلومات اس ضمن میں حاصل کرلی ہیں ان کو کوئی نقصان نہ ہوسکے گا۔ اگر ایران نے ’’عالمی معائنہ کاروں‘‘سے تعاون نہ کیا تو اس کا یہ پروگرام زیرِ زمین جاسکتا ہے، جس کے بعد اس کو روکنا بہت مشکل ہوگا۔
موجودہ حالات میں امریکا اور ایران کے لیے متبادل راستہ گفت و شنید کا ہے، جو وقت مشکل نظر آتا ہے۔ ایران کی وزاتِ خارخہ نے بیان دیا ہے کہ امریکا کی جانب سے آیت اللہ خامنہ ای اور دیگر اہم منصب داروں پر پابندیوں نے سفارت کاری کے لیے مکمل طور پردروازہ بند کردیا ہے۔ جناب روحانی نے کہا ہے وائٹ ہاؤس دماغی معذوری کا شکار ہے، جس کا ثبوت ٹرمپ کے دھمکی آمیر بیانات ہیں۔
مثبت خیال (optimists) اس قسم کی محاذ آرائی کو یاد کرتے ہیں، جو امریکی صدر اور شمالی کوریا کے کِم جونگ اُن کے مابین ان دونوں کی سنگاپور میں ملاقات سے پہلے رہی ہے اور اس ملاقات کے موقعے پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ اب ہم ایک دوسرے پر فریفتہ ہیں۔ اگر مذہبی رہنماؤں کو شکست سے دوچار کرنے کی دھمکی نہ دی جائے تو صدر ٹرمپ کو ایران کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے اور ایران کو ــ’’دوبارہ عظیم بننے‘‘ کا موقع دیا جائے۔ ایران کی معیشت کمزور ہوکر سکڑ تی جارہی ہے، قیمتیں بڑھ رہی ہیں، افراد تناؤ کا شکار ہیں۔ اس صورتحال میں جناب خامنہ ای پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنے غیر لچک دار رویے کے بارے میں جواب دیں۔
شاید ایران کو امریکاکی جانب سے خلوصِ نیت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کی پیشکش دی جائے اور اُن ممالک کو بھی ایرانی تیل خریدنے کی اجازت دی جائے، جن پر تاحال پابندی ہے۔ اس کے جواب میں ایران نیوکلیائی معاہدے پر دوبارہ عمل پیرا ہوسکتا ہے۔پسِ پردہ ایران کے راہ نماؤں نے اپنی رضا مندی ظاہر کی ہے، وہ پر انے معاہدے پر کچھ اضافے کے ساتھ دستخط کرسکتے ہیں۔ معاہدے کی ان اضافی شقوں میں یہ بھی شامل ہے کہ اس معاہدے کو ۲۰۳۰ء سے آگے بھی لے جاسکتے ہیں۔ اس معاملے میں مذاکرات قطعی طور پر آسان نہ ہوں گے۔ ایرانی عوام اس معاہدے پر ناخوش ہیں۔ معاہدے پر دستخط کی صورت میں صدر ٹرمپ کامیابی کے دعوے دار ہوں گے جیسا کہ گزشتہ سال امریکا، میکسیکو اور کینیڈا کے مابین معاہدہ کی صورت میں کامیابی کے دعوے سامنے آئے تھے۔ ایسا ہی ایک معاہدہ اس عنوان سے بھی سامنے آیا ہے: معاہدہ برائے آزاد تجارت شمالی امریکا (North American Free Trade Agreement)۔
جہاں تک ایران کے میزائل پروگرام پر پابندی اور اسے خطے میں محدود کرنے کا معاملہ ہے تو اس بارے میں ٹرمپ محسوس کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک بار میں ممکن نہیں۔نیا معاہدہ اُن تمام مسائل کا حل نہیں پیش کرسکتا جو ایران نے پیدا کیے ہیں یا امریکا سے ایران کے تعلقات ایک دم ہموار نہیں ہوسکتے، جن کی تاریخ کئی عشروں پر مبنی ہے۔ امریکا کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کو آج بھی مکمل طور پر ہٹایا نہیں جاسکا ہے اور نہ ہی پہلے معاہدے پر عمل درآمد ہوسکا ہے۔ اگر یہ سب کچھ درست سمت میں ہوتا تو یہ معاہدہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو دوبارہ بند کرنے میں معاون ہوتا اور اس طرح بغیر جنگ کیے دوسری مشکلات پر بھی قابو پایا جاسکتاتھا۔
(ترجمہ: جاوید احمد خورشید)
“How to contain Iran”.(“Economist.com”. June 29, 2019)
Leave a Reply