
تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں معاشی ناہمواری یعنی عدم مساوات کے حوالے سے بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ معاشی ناہمواری اب انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں تمام لوگوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے حوالے سے تحریک چلانے کا معاملہ ٹھنڈا ہے۔ بہت سے معاملات کی نشاندہی کی جارہی ہے، خرابیوں کا رونا تو بہت رویا جارہا ہے مگر عملاً ایسا کچھ بہت کم کیا جارہا ہے جس سے معاملات کے درست ہونے کی راہ ہموار ہوتی ہو۔ معاشی عدم مساوات کو پروان چڑھانے والی بہت سی شکلیں اب بھی موجود ہیں اور انہیں قبول بھی کیا جارہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب ہر طرف عدم فعالیت ہے۔
ایسے عالم میں کسی کو سترہویں صدی کے تھولوجین ژاک بینائن بوسوئٹ سے موسوم بوسوئٹ پیراڈوکس یاد آئے بغیر نہیں رہے گا۔ یعنی کہ ’’خدا اُن لوگوں پر ہنستا ہے جو نتیجے کا رونا روتے رہتے ہیں مگر سبب کا جشن مناتے رہتے ہیں!‘‘ آج دنیا بھر میں لوگ عدم مساوات کا رونا تو روتے ہیں مگر عملی زندگی میں ہر اس چیز کو قبول اور برداشت کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں صرف عدم مساوات کو راہ ملتی ہے۔ بہت سے چھوٹے اور انفرادی معاملات میں لوگ ایسے آپشن کو اپناتے رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں صرف عدم مساوات کو راہ ملا کرتی ہے۔
فرانس میں حال ہی میں کیے گئے ایک سروے میں ۹۰ فیصد سے زائد رائے دہندگان نے کہا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آمدنی کا فرق کم ہونا چاہیے اور تمام بنیادی سہولتیں ریاست کی طرف سے فراہم کی جانی چاہئیں، تاہم ۵۷ فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ کسی بھی متحرک معیشت میں انفرادی سطح پر آمدنی کا فرق لازمی طور پر پایا جاتا ہے۔ ۸۵ فیصد نے کہا کہ آمدنی کا فرق قبول کیا جاسکتا ہے اگر وہ انفرادی خصوصیات یا خوبیوں کی بنیاد پر دیے جانے والے معاوضے کی بنیاد پر ہو۔
جس صورتحال کا ہم سامنا کر رہے ہیں، وہ عدم مساوات کے خلاف پائے جانے والے شدید جذبات اور اس حالت کو ختم کرنے کے لیے کی جانے والی نیم دلانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ہوسکتا ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو رہا ہو کہ عدم مساوات ختم کرنے کے حوالے سے کی جانے والی کوششیں کبھی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتیں کیونکہ ان کوششوں میں بھرپور لگن کا فقدان ہے۔ ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ بیسویں صدی کے ابتدائی اور درمیانی عشروں کے دوران متعدد مغربی حکومتوں نے آمدنی کے فرق کو کم کرنے میں ڈرامائی کامیابی حاصل کی، جبکہ ایسا کرنے کے لیے کوئی واضح نظریہ بھی موجود نہ تھا۔ تین اہم محرکات البتہ ذہن نشین رہنے چاہئیں۔ یہ خوف موجود تھا کہ اگر معاشی ناہمواری دور نہ کی گئی تو سماجی اور سیاسی سطح پر خرابیاں پیدا ہوں گی۔ دوسرے یہ کہ دو عالمی جنگوں نے معاملات کو بہت خراب کردیا تھا، جس کے باعث فوری طور پر کچھ نہ کچھ ایسا کرنا لازم تھا جس کی مدد سے معاشی ناہمواری دور ہو اور لوگ معاشرتی سطح پر بھی بہتر زندگی بسر کرسکیں۔ تیسرے یہ کہ معاملات کو درست کرنے کی انفرادی ذمہ داری کا تصور زیادہ کارگر نہ رہا تھا۔ معاشی ناہمواری دور کرنے کی شدید ضرورت نے سوشل انشورنس، کم از کم تنخواہ، سماجی بہبود کے اقدامات اور آمدنی کی بنیاد پر لگائے جانے والے انکم ٹیکس کی راہ ہموار کی اور معاشروں میں استحکام پیدا ہوتا گیا۔
چند عشروں کے دوران معاشی اور معاشرتی مساوات کا تصور دھندلا سا گیا ہے۔ بہت سے معاشروں میں آمدنی کا فرق اس قدر بڑھ گیا ہے کہ خرابیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سی تنظیمیں اور ادارے معاشی عدم مساوات ختم کرنے کے مشن کے ساتھ میدان میں ہیں مگر انہیں عملی طور پر کچھ کرنے سے بہت پہلے نظریاتی سطح پر اس حوالے سے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ لوگوں کو باور کرانا ہوگا کہ ان کی آمدنی کی جو بھی سطح ہے، وہ میرٹ کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ناجائز اور غیر قانونی ذرائع سے آمدنی میں اضافے کی راہ مسدود کی جانی چاہیے۔ ایسا کرنے ہی سے معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی اور پریشانی ختم کی جاسکتی ہے۔ چند برسوں میں اس حوالے سے شعور پیدا ہوا ہے اور اب لوگ زیادہ منظم ہوکر معاشی عدم مساوات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
مساوات کی تحریک دینے والے حالات
انیسویں صدی کے دوران اور بیسویں صدی کے اوائل میں محنت کشوں کی تحریکوں نے دنیا بھر میں پائی جانے والی معاشی ناہمواری کے خلاف شعور پیدا کیا۔ دنیا بھر میں عوام کا جینا انتہائی دشوار ہوچلا تھا۔ ایسے میں لازم تھا کہ محنت اور پچھڑے ہوئے طبقے کے لوگ ایک ہوں اور ایک ایسے معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کریں جس میں آمدنی کا فرق بہت کم یا برائے نام ہو۔ مغربی دنیا کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کے پاس دو ہی راستے تھے۔ یا تو معاشی انقلاب قبول کریں یا پھر بہت سی اضافی خرابیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
جرمنی میں قدامت پرست چانسلر اوٹو وان بسمارک نے استعماری ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے جدید فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی۔ وہ چاہتے تھے کہ جرمنی میں سوشلزم جڑ نہ پکڑسکے۔ اور یہ بھی دکھانا مقصود تھا کہ حکومت کو محنت کشوں کے مفادات کا غیر معمولی حد تک احساس ہے۔ ۱۹۱۸ء میں روس پر اشتراکیوں کے قبضے کے بعد دنیا بھر میں معاشی انقلاب کی راہ ہموار ہوئی۔ مشرقی یورپ سمیت بہت سے خطوں اور ممالک میں اشتراکیت کے پنپنے کی راہ ہموار ہوئی۔ پورے یورپ میں اشتراکیت کو مقبولیت حاصل ہونے لگی۔ ۱۹۳۰ء میں رونما ہونے والی شدید ترین کساد بازاری نے یورپ میں اشتراکیت کی راہ ہموار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ بہت سے ممالک میں معاشی عدم مساوات ختم کرنے کی تحریک شروع ہوئی۔ اس حوالے سے اصلاحات کو بیشتر حکومتوں نے اپنے ایجنڈے میں سر فہرست رکھنا شروع کیا۔
پہلی جنگ عظیم سے کئی حکومتوں نے بہت کچھ سیکھا۔ انہیں یقین ہوگیا کہ اگر معاشی عدم مساوات دور نہ کی گئی تو ایک بار پھر لوگ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوں گے اور اپنے حقوق کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم نے عوام کی زندگی کو قومیانے کا عمل کیا۔ ہر شخص کو اپنا وجود خطرے میں دکھائی دینے لگا، اس لیے اس نے اجتماعی وجود کو اپنالیا۔ ریاست کو بیشتر امور کا ذمہ دار قرار دیا جانے لگا۔ یوں فلاحی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔ یورپ بھر میں لاکھوں ہلاکتیں ہوئیں جن سے لوگ متحد رہنے سے متعلق اپنے طریقوں اور ترجیحات کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوئے۔ جارج آرویل نے لکھا کہ ’’اگر جنگ نے آپ کو قتل نہ کردیا تو سوچنے پر مجبور ضرور کرے گی‘‘۔ حقیقت بھی یہی تھی۔ ہر فوجی اپنے بارے میں اور ریاست کے بارے میں نئے انداز سے سوچنے پر مجبور ہوا۔ بھاری بھرکم بوٹوں کے ساتھ زندگی کو خطرے میں ڈالے کسی خندق میں بیٹھا ہوا فوجی بھی سوچنے لگا کہ اس کی زندگی بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی اس کے ساتھی کی یا کسی اور انسان کی۔ ایک فوجی نے لکھا کہ جب سب کو اپنے جیسا سمجھنے کا شعور نمایاں ہوا تو برابری کا احساس پیدا ہوا۔ عالمی جنگ نے انفرادی قومی شناخت کو مضبوط بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ جرمن مصنف رابرٹ میوسِل نے لکھا کہ جرمن فوجیوں نے پہلی بار محسوس کیا کہ دوسرے تمام جرمن باشندوں اور ان میں کچھ نہ کچھ مشترک ضرور ہے۔ پوری قوم میں یگانگت سمجھنے کا احساس شدت اختیار کرگیا۔ سب کے دکھ ایک سے تھے، اس لیے انہیں ایک دوسرے کی مصیبت کا بھرپور احساس ہوا۔
پہلی عالمی جنگ سے امریکا بھی غیر معمولی حد تک تبدیل ہوکر نکلا۔ اس جنگ نے محصولات اور مالیاتی وسائل کی تقسیم سے متعلق امریکی رویّوں کو غیر معمولی حد تک انقلاب زدہ کردیا۔ اس کے نتیجے میں وار ریونیو ایکٹ ۱۹۱۷ء منظور کیا گیا۔ امریکا بھر میں یہ تصور پیدا ہوا کہ جنگ کی قیمت سب کو ادا کرنی چاہیے۔ نوجوانوں میں یہ احساس بہت شدت اختیار کرگیا کہ قومی حمیت کا تقاضا ہے کہ جن کے پاس زیادہ دولت ہے، ان سے زیادہ وصولی کی جائے۔ یعنی یہ درست نہیں کہ کسی بھی ہنگامی حالت میں مالیاتی وسائل جمع کرنے کے حوالے سے سارا بوجھ پچھڑے ہوئے، غریب طبقے پر ڈال دیا جائے۔ ۱۹۴۴ء تک ٹاپ مارجنل ریٹ بڑھتے بڑھتے ۹۵ فیصد ہوگیا۔
امریکا اور یورپ میں انفرادی یا شخصی آزادی کا تصور کسی حد تک دھندلا گیا۔ دو عالمی جنگوں نے ہر انسان کو یہ باور کرادیا کہ تن تنہا زندگی بسر نہیں کی جاسکتی اور یہ کہ شخصی آزادی کو بے لگام نہیں چھوڑا جاسکتا۔ بے لگام شخصی آزادی کو تج کر اجتماعی سطح پر بہت کچھ کرنے کے شعور اور لگن نے جنم لیا۔ فرانس کے سیاسی مفکر لیون بورگوئی نے کہا کہ کوئی بھی انسان جزیرے کے مانند اکیلا نہیں، یعنی سب جڑے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف برطانوی سیاسی مفکر ہاب ہاؤس نے کہا کہ انسان اپنے ماحول کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
اب حقوق و فرائض، میرٹ اور ذمہ داری سے متعلق تصورات تبدیل ہوگئے۔ انیسویں صدی میں شخصی آزادی کے تصور نے غیر معمولی حد تک فروغ پایا تھا۔ ریاست کی ذمہ داری ان لوگوں تک محدود تھی جو زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہوں اور اپنے طور پر کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں نہ سکت۔ یہ تصور عام تھا کہ جو لوگ اپنے بل پر آگے بڑھنے کی صلاحیت اور سکت رکھتے ہوں اور اس حوالے کچھ کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہوں، ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور جو لوگ اپنے حالات تبدیل کرنے کے حوالے سے سنجیدہ نہ ہوں ان کے بارے میں سوچا ہی نہ جائے، یعنی انہیں کسی حد تک سزا دی جائے۔
بیسویں صدی کے وسط تک سیاسی اور سماجی سوچ مکمل طور پر تبدیل ہوچکی تھی۔ امریکا اور یورپ میں انیسویں صدی کے اواخر تک شخصی آزادی کا جو تصور پروان چڑھا تھا اور بیسویں صدی کے اوائل میں جوبن پر تھا، وہ اب ڈگمگاتا دکھائی دے رہا تھا۔ سب نے محسوس کرنا شروع کیا کہ بے لگام شخصی آزادی کی بنیاد پر زندگی ڈھنگ سے بسر نہیں کی جاسکتی۔ یعنی ریاستی ڈھانچے کے لیے لازم ہوگیا کہ وہ شخصی آزادی کو کسی حد تک لگام دے اور اجتماعی ذمہ داری کے تصور کو پروان چڑھائے تاکہ لوگ مل کر ریاست کو چلائیں اور کوئی بھی خود کو گیا گزرا یا نظر انداز کیا ہوا محسوس نہ کرے۔ دو عالمی جنگوں نے حالت کو اس حد تک بگاڑ کر رکھ دیا کہ انفرادی یا شخصی سطح پر کچھ کرنا آسان نہ رہا۔ ہر شخص یہ محسوس کرنے لگا کہ وہ دو عالمی جنگوں کے اثرات جھیلتے جھیلتے جس بحران سے دوچار ہوا ہے، اس کا تدارک اسی میں ہے کہ اجتماعی زندگی کے تصور کو آگے بڑھایا جائے اور بے لگام و بے حساب شخصی آزادی کے تصور سے جان چھڑائی جائے۔ ہر شخص دوسرے کے سہارے کا محتاج یا ضرورت مند تھا۔ ایسے میں لازم ہوگیا کہ مل جل کر زندگی بسر کی جائے۔
شخصی آزادی کا تصور پنپنے سے ہر فرد کی زندگی میں غیر معمولی آزادی ضرور در آئی تھی اور معاشرے میں فرد کے لیے بہت کچھ پیدا ہوا تھا، مگر اس کے نتیجے میں اجتماعی ذمہ داری کا تصور دھندلا سا گیا تھا۔ لازم ہوگیا تھا کہ اجتماعی ذمہ داری کے تصور کو آگے بڑھ کر گلے لگایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو، معاشرے کو ایک بار پھر اجتماعی ذمہ داری کے احساس سے مزیّن کیا جائے۔ دو عالمگیر جنگوں نے انسان کو بہت کچھ سکھایا۔ بڑے پیمانے پر تباہی نے ہر فرد کو اندر سے کھوکھلا کردیا۔ صرف امریکا اور یورپ متاثر نہیں ہوئے بلکہ دنیا بھر میں تباہی کا بازار گرم ہوا جس کے نتیجے میں بیشتر ممالک کی معیشتیں بھی کھوکھلی ہوئیں اور معاشرے بھی سُونے پن کا شکار ہوئے۔ مغرب کے لیے جو مسائل پیدا ہوئے تھے ان سے دوسرے خطے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ویسے بھی ہر معاملے میں مغرب کی نقالی نے ہر ترقی پذیر اور پس ماندہ ملک کے لیے وہی مشکلات کھڑی کردیں، جو خود مغربی ممالک کے لیے پیدا ہوئی تھیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد پوری دنیا میں مساوات کا غلغلہ بلند ہوا۔ بہت سے پس ماندہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ ان زنجیروں کو توڑنا لازم تھا۔ تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے ممالک کو آزادی ملی تو ایک نئی دنیا معرض وجود میں آئی۔ مساوات کے نعرے لگائے جانے لگے۔ پس ماندہ ممالک کی معیشت کو بلند کرنے کی کوششیں تیز ہوئیں۔ مگر مجموعی طور پر کوئی بڑی تبدیلی رونما نہ ہوسکی۔ اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ وسائل بہت کم تھے مگر اِس سے کہیں بڑھ کر یہ کہ سیاسی عزم وہ نہیں تھا جو ہونا چاہیے تھا۔ چند ممالک نے ثابت کردیا کہ سیاسی عزم پختہ ہو اور قائدین ایماندار و محب وطن ہوں تو ترقی کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ حائل نہیں ہوسکتی۔ جاپان نے مکمل تباہی کے باوجود بحالی کا مرحلہ بہت تیزی سے طے کیا اور ایک بار پھر عالمی معیشت پر چھاگیا۔ برصغیر اور دیگر خطے آزادی پانے کے بعد بھی کمزور ہی رہے اور ان کی ترقی کی راہ حقیقی مفہوم میں ہموار نہ ہوسکی۔ عوام میں وہ جذبہ نہیں تھا، جو تعمیر نو کے لیے درکار ہوا کرتا ہے۔
دو عالمگیر جنگوں نے سکھایا ہے کہ مساوات یقینی بنانے کے لیے بھرپور اور غیر متزلزل سیاسی عزم ناگزیر ہے۔ بھرپور سیاسی عزم کے بغیر ترقی ممکن ہوتی ہے نہ دفاع۔ ترقی سے محروم خطوں کے لیے اب بھی مساوات کو اپنانے کا یہی ایک آپشن رہ گیا ہے کہ وہ بھرپور عزم اور لگن کے ساتھ کام کریں اور وہ سب کچھ کر گزریں جو بہتر زندگی کے لیے لازم ہوا کرتا ہے۔
بہت سی حکومتیں اب بھی مساوات یقینی بنانے کی منزل سے بہت دور ہیں۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ وسائل پر چند افراد یا خاندان قابض ہیں۔ یا پھر ایک طبقہ ہے جو تمام امور پر حاوی ہوگیا ہے۔ برصغیر اور مشرق وسطیٰ میں ایسا ہی ہے۔ افریقا اور دوسرے بہت سے خطے قدرتی وسائل سے غیر معمولی حد تک مالا مال ہونے کے باوجود اب تک بہت سی سیاسی اور معاشرتی خرابیوں کی زد میں ہیں۔ قائدین میں وہ دیانت ہے نہ عزم۔ ان کی کوتاہ بینی نے معاملات کو مزید الجھا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ملک اسی وقت ترقی کرسکتا ہے اور عالمی برادری میں اپنے لیے کوئی مقام پیدا کرسکتا ہے، جب اس میں معاشرتی استحکام بھی ہو اور سیاسی بصیرت بھی۔ محض معیشت کے مضبوط ہوجانے سے کوئی بھی ملک حقیقی ترقی کر پاتا ہے نہ مساوات کو یقینی بنا پاتا ہے۔ معاشرے میں ہر فرد کو اس کی صلاحیت اور استحقاق کے مطابق ملے، یہی حقیقی سیاسی کامیابی ہے۔ جس ملک میں قائدین اس امر کو یقینی بناتے ہیں وہی ملک حقیقی مفہوم میں ترقی کا حامل ہو پاتا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“How to Create a Society of Equals”.
(“Foreign Affairs”. Jan-Feb. 2016)
it is a good article.All the meaures to decrease the inequality should be implemented.m