
آمر اچھے نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن بعض آمر بعض دوسرے آمروں سے بہتر ہوتے ہیں۔ جو اچھے آمر ہوتے ہیں، وہ اظہارِ رائے کی آزادی دیتے ہیں، قانون کی حکمرانی اور اقتصادی ترقی یقینی بناتے ہیں جن کی بنا پر جمہوری ذہن رکھنے والا ایک متوسط طبقہ پیدا ہوتا ہے جو بالآخر ان آمروں کو کنارے لگا دیتا ہے۔ جنوبی کوریا پر غور کریں جہاں ٹھیک اس کے برعکس بدترین آمروں نے سِول سوسائٹی کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔ انھوں نے غربت و افلاس اور فرقہ وارانہ منافرت کو جنم دیا نیز ان تمام اداروں کو پامال کر دیا جہاں سے لبرلزم پھل پھول سکتا تھا۔ بدترین آمروں کو بالآخر جانا ہی پڑتا ہے لیکن جب وہ جاتے ہیں تو تمام بَلائیں، مصیبتیں یکبارگی حملہ آور ہوتی ہیں۔ ذرا عراق پر غور کیجیے۔
امریکا کی خارجہ پالیسی کو آج ایک عظیم ترین چیلنج کا سامنا ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کے فوجی حکمراں پرویز مشرف کو ایک بہترین آمر جس حد تک کہ وہ بن سکتے ہیں، کس طرح بنایا جائے؟ یہ ایک بے وقار ہدف ہو سکتا ہے۔ ایک آئیڈیل دنیا میں امریکا مشرف سے کہہ سکتا ہے کہ آپ کو اس وقت تک کوئی امداد نہیں دی جائے گی تاآنکہ آپ اقتدار دوسروں کو حوالے نہ کر دیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اقتدار ہمیشہ فوج کے پاس ہی رہا ہے حتیٰ کہ اُس وقت بھی جب عوامی نمائندے بظاہر برسرِ اقتدار رہے ہیں۔ جیسا کہ معاصر فارن افیئرز میں امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک افسر Daniel Markey رقم طراز ہیں کہ بہت سارے پاکستانی حکام امریکا پر اعتماد نہیں کرتے ہیں۔ کیونکہ نوے کی دہائی میں اس نے پاکستان کی امداد میں تخفیف کر دی تھی۔ دوبارہ اس طرح کی دھمکیوں کا دہرایا جانا شاید اس بات کا سبب بنے گا کہ اسلام آباد اپنے ایک دوسرے عظیم ترین اتحادی چین کی گود میں چلا جائے اور پھر اس بنا پر پاکستان القاعدہ اور طالبان کے خلاف کارروائی کے لیے بہت زیادہ مددگار ثابت نہ ہو پائے۔ امریکا مشرف کو کنارے نہیں لگا سکتا۔ البتہ وہ پرویز مشرف کے طریقۂ حکمرانی پر کچھ گرفت ضرور رکھ سکتا ہے۔ پاکستانی معیارات کے مطابق ان کی آٹھ سالہ حکومت خوفناک نہیں رہی ہے۔ پرویز مشرف نے پریس کو کچھ آزادی بھی دے رکھی ہے (اس میں وہ مزاحیہ خاکہ شامل ہے جس میں خود پرویز مشرف کا مذاق اڑایا گیا ہے)۔ انھوں نے اپنے وزیراعظم اور سابق سٹی بینک افسر شوکت عزیز کی رہنمائی سے پاکستان کی اقتصادیات کو بھی ترقی دی ہے۔ یہ خبریں خوش کُن ہیں۔ بری خبر یہ ہے کہ پاکستان کے ترقی پذیر متوسط طبقہ کو مضبوط کرنے کے بجائے (جنہیں امریکا چاہتا ہے کہ وہ حتماً مضبوط کیے جائیں) پرویز مشرف نے پاکستان کے اسلامی بنیاد پرستوں کو مضبوط کیا۔ پاکستانی جنرلوں کی یہ روایت رہی ہے کہ انھوں نے جہادی انتہا پسندوں کو آگے بڑھایا ہے تاکہ وہ انھیں اپنے علاقائی دشمنوں کے خلاف ڈنڈے کے طور پر استعمال کریں۔ مثلاً بھارت کے خلاف یا پھر اپنے آپ کو۔ اقتدار میں برقرار رکھنے کے لیے ان کو بہانہ بنائیں۔ پرویز مشرف ان سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ ۲۰۰۲ء میں انھوں نے پارلیمانی انتخاب کا ڈھونگ رچایا تاکہ افغان سرحد سے متصل صوبوں کا کنٹرول انھیں دیا جاسکے۔ انھوں نے پاکستان کی بڑی اور نسبتاً سیکولر پارٹیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے مدارس اور مساجد کو سیاسی اظہار کے موثر پلیٹ فارم کے طور پر باقی رکھا۔
مشرف پاکستان کو ایک لبرل سوسائٹی میں تبدیل کرنے کے حوالے سے بہت ہی اچھی گفتگو کر لیتے ہیں لیکن اتحادیوں کا انتخاب یہ ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ اس حوالے سے سنجیدہ نہیں ہیں اور یہ کہ اس حوالے سے انھوں نے کوئی خاص کام نہیں کیا ہے۔ یہ موسمِ بہار ممکن ہے صورتِ حال کی تبدیلی میں بہترین موقع ثابت ہو۔ مشرف کا پانچ سالہ دورِ صدارت جو انھیں اُس پارلیمنٹ سے عطا ہوا تھا جس میں انھوں نے دھاندلی سے کام لیا تھا، اب ختم ہو رہا ہے۔ نئے پارلیمانی انتخابات کو ۲۰۰۸ء کے اوائل میں منعقد ہونا ہے۔ اگر وہ اس میں دھاندلی کرتے ہیں یا انتخابات کو منسوخ کرتے ہیں تو پاکستان میں دھماکہ ہو سکتا ہے اور پھر پرویز مشرف اقتدار میں اپنے آپ کو باقی رکھنے کی خاطر طاقت کا بڑی بے دردی سے استعمال کریں گے۔ اس صورتِ حال سے اسلامی شدت پسند مزید مستحکم ہوں گے اور ایسی صورتِ حال کی پرورش انتشار و اضطراب ہی پر منحصر ہے یا پھر ایک نئی فوجی بغاوت کا سامنا ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں پرویز مشرف کے مقابلے میں پہلے سے کہیں زیادہ امریکا مخالف جنرل برسرِ اقتدار آجائے گا۔
واشنگٹن کے لیے بہتر راستہ یہ ہے کہ وہ پرویز مشرف کو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ ڈیل کرنے پر آمادہ کرے جو کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کی رہنما ہیں اور جو بدعنوانیوں کے الزامات کی بنا پر ۱۹۹۹ء سے جلاوطن ہیں، مشرف کو کچھ اقتدار چھوڑنا پڑے گا۔ ممکن ہے انھیں فوج کے سربراہ جیسے طاقتور منصب سے مستعفی ہونا پڑے لیکن بطور صدر پرویز مشرف اور بطور وزیراعظم بے نظیر بھٹو اقتدار میں شراکت کریں۔ پھر وہ آزادانہ انتخابات کرانے کے متحمل ہو سکتے ہیں کیونکہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ان کا اتحاد پارلیمنٹ میں انھیں حقیقی حمایت دلوا سکتا ہے۔ اس طرح کا انتظام پھر بھی جمہوری نہیں ہو گا اور وزیراعظم کی حیثیت سے بے نظیر بھٹو کا سابقہ دور ان کی انتظامی صلاحیتوں کے لیے شاید ہی کسی اعتماد کا شاہد ہے۔ لیکن اس سے مشرف کی حکومت مزید جواب دہ ہو جائے گی اور سیکولر پارٹیوں کو مزید تقویت ملے گی جو اسلام پسندوں کی حکومت کے خلاف ایک بہترین اور طویل المیعاد رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔
اس سے بھی زیادہ یہ کہ نسبتاً ترقی پسند بھٹو کے ساتھ اتحاد صرف داخلی اصلاحات کو متعارف کرانے میں معاون ہو سکتا ہے، پاکستان کو جن کی اشد ضرورت ہے۔ مثلاً یہ کہ اس کے تباہ کن تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور خواتین کے حقوق کو مستحکم طریقے سے مشخص کیا جاسکتا ہے۔ بہتری کی طرف مائل ہونے کی صورت میں پاکستان بتدریج ترکی کی مانند ہو جائے گا جس کی طاقتور فوج جو اب تک سیاست میں مداخلت کرتی رہی ہے، مگر ایک معتدل اسلامی حکمراں پارٹی جو واضح انداز میں ایک لبرل پارٹی بھی ہے، کو برداشت کیے ہوئے ہے۔ یہ حکمراں پارٹی ۲۲ جولائی کو دوبارہ منتخب ہو گئی ہے جس کی وجہ سے Civil Liberties اور قانون کی حکمرانی کو کافی تقویت ملی ہے۔ اس سے خراب بات القاعدہ کے لیے کچھ بھی نہیں ہو گی اور اس سے اچھی بات امریکا کے لیے کچھ بھی نہیں ہو گی۔ پاکستان کے لیے ترکی کی طرح کی جمہوریت بھی بہت دور کی بات ہے لیکن امریکا کو چاہیے کہ وہ وہاں تک پہنچنے میں اس کی مدد کرے۔ اگر پاکستان ترکی کی رُخ پر آگے نہیں بڑھتا ہے تو پھر شاید یہ طالبان کے رُخ پر آگے بڑھے گا اور پھر امریکا کا انتخاب حقیقتاً اور بھی بھیانک ہو گا۔ مشرف ہمیشہ ایک آمر رہے گا لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ ایک اچھا آمر ثابت ہو۔ اس لیے کہ اگر وہ ایسا نہیں ہوا تو جو کچھ اس کے بعد ہو گا، وہ بہت ہی برا ہو گا۔
نوٹ: مضمون نگار کونسل برائے تعلقاتِ خارجہ میں سینئر فیلو ہیں۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘۔ شمارہ: ۶ اگست ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply