
اگر میں امریکی خارجہ پالیسی میں کسی ایک تبدیلی کی خواہش کروں تو وہ کیا ہو سکتی ہے؟ جواب آسان ہے لیکن یہ وہ چیز نہیں ہے۔ جسے بہت سارے لوگ خارجہ پالیسی تصور کرتے ہیں۔ میں ایک بہت ہی سنجیدہ قومی پروگرام تشکیل دوں گا جس کا مقصد توانائی میں خودانحصاری اور خودکفالتی کا حصول ہو گا۔ تیل پر اگر ہم اپنے انحصار کو کم کر سکیں تو یہ امریکی قوت کو دنیا میں کئی گنا بڑھا دینے والا عامل ثابت ہو گا۔ میں یہ بات اقتصادیات کے ماہرین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ طے کریں کہ امریکی معیشت کی ترقی اور افراطِ زر کے امکانات کے حوالے سے اس مہنگے تیل کا کیا کردار ہے۔ اس پر کم ہی توجہ دی گئی ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کے لیے یہ صورت حال کس قدر نقصان دہ ہے۔ The ideas that conquer the world کے مصنف Michael Mandelbaum کا خیال ہے کہ ’’ہر وہ کام جسے ہم دنیا میں انجام دینے کی کوشش کر رہے ہیں وہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت کی موجودہ صورت کے سبب مشکل تر ہوتا جارہا ہے‘‘۔
دہشت گردی: ۳۰ سال سے زائد عرصے سے اسلامی انتہا پسندی اور تشدد کی دو ممالک مالی سرپرستی کر رہے ہیں یعنی سعودی عربیہ اور ایران‘ یہ اتفاق نہیں ہے کہ یہ دونوں باالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر کے آئل ایکسپورٹر ہیں۔ دونوں ممالک اس وقت دولت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ان کے لیے کنٹرول سرے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کی دولت کا کچھ حصہ نقد رقم کی صورت میں یقینا بعض ناپسندیدہ گروہ اور افراد کو جاتا ہے۔
جمہوریت: بش کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کی حوصلہ افزائی ہے لیکن دنیا میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت کے پیشِ نظر اس غبارے سے بہ آسانی ہوا نکل سکتی ہے۔ حکومتیں ریفارم کا کام کریں گی‘ جب انہیں کرنا ہو گا۔ لیکن مشرقِ وسطیٰ کی بہت ساری حکومتوں کی توانائی سے بڑے ذخائر تک رسائی آسان ہونے والی ہے جو سالہاسال کام آئیں گے اور اسی بنا پر وہ کسی بھی ممکنہ تبدیلی سے بہ آسانی گریز کر سکتی ہیں۔ سعودی عربیہ کا شاید اس سال ۲۶ بلین ڈالر سے زائد کا اضافی بجٹ ہو اس لیے کہ تیل کی قیمت اس قدر بڑھ گئی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا گیا تھا‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اپنی پرانی روش کو باقی اور جاری رکھے گایعنی وہابی اماموں کو نوازتا رہے گا‘ فوج اور نیشنل گارڈ کوفنڈ دیتا رہے گا اور اس طرح کے کاموں کیلئے اپنی سرپرستی والے پروگرام پر آزادی کے ساتھ عمل پیرا رہے گا۔ اس کے بعد بھی ان کے پاس اتنی وافر رقم بچے گی کہ وہ درجنوں شاہی محلات اور تفریحی بحری جہازوں کے اخراجات بہ آسانی پورا کر سکے گا۔ یہی حال دوسری بدعنوان اور نیم فیوڈل ریاستوں کا ہو گا۔
ایران: تہران نے ایک عرصہ تک سکون کا سانس لے کر پھر سے عزائم سے معمور اپنی خارجہ پالیسی کا آغاز کر دیا ہے اور اس نے جوہری راہ پر گامزن رہنے کا عزم مصمم کیا ہوا ہے نیز اس نے ہمسایہ عراق میں اپنے اثر و نفوذ کو یقینی اور پختہ بنانے کا بھی تہیہ کیا ہوا ہے۔ اس کا مطلب اس سے ہرگز کم نہیں ہے کہ وہ خطے میں امریکا کو بے دخل کر کے اس خطے میں خود ایک بالادست قوت کی حیثیت سے ابھرنا چاہتا ہے۔ یہ مقابلے کے میدان میں اپنے آپ کو ایک انتہائی مشکل حریف ثابت کرے گا‘ محض اپنے موجودہ وسائل و ذرائع کی بنیاد پر۔ نااہلیوں اور بدعنوانیوں سے پُر اپنی معیشت کے باوجود‘ ایران نے تقریباً ۳۰ بلین ڈالر فارن ریزروس جمع کر رکھے ہیں۔
روس: یورپ سے مضبوطی کے ساتھ مربوط ایک جدید اور مغرب زدہ روس خطے میں امن و استحکام کا باعث ہو گا لیکن تیل کی دولت نے کریملین کی قوت میں اضافہ کر دیا ہے اورپیوٹن کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنی قوت کو مستحکم کریں‘ اپنے مخالفین پر وسائل کے دروازے بند کر دیں‘ اپنے حریف سیاسی قوتوں کو تباہ کر دیں اور چیچنیا میں تباہ کن اور مہنگی جنگ کو جاری رکھیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیشتر وسط ایشیائی ریاستوں میں روسی ماڈل کو شرفِ قبولیت حاصل ہوئی ہے۔
لاطینی امریکا: لاطینی امریکا کی دو دہائیوں پر مشتمل سیاسی اور معاشی ترقی کے بعد ہم محسوس کرتے ہیں کہ وہاں امریکا مخالف تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ وینزویلا کے Hugo Chavez نے بڑھتی ہوئی تیل کی دولت سے حوصلہ پاکر امریکی اثر و رسوخ کے خلاف حالیہ سالوں میں سب سے پہلا باغی لیڈر اپنے آپ کو ثابت کیا ہے۔ لیکن ایسے ہی جذبات کی بازگشت دوسرے ممالک میں بھی یعنی Ecuadoy سے Bolioia تک محسوس ہو رہی ہے۔ میں وسطی ایشیا سے نائیجریا تک چلتا جاتا ہوں تقریباً ہر خطے میں ایک قدرے مستحکم‘ پرامن اور کھلے عالمی نظام پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت کے پیشِ نظر مداہنت کی جارہی ہے۔ جبکہ امریکا اس مسئلے کی علامات سے نمٹنے کے لیے بہت زیادہ وقت اور پیسہ خرچ کر رہا نیز بہت زیادہ جدوجہد میں مصروف ہے تو گویا ہم اس کاز کو بھرپور انداز میں غذا فراہم کر رہے ہیں۔
ہمیں توانائی کے موجودہ جال سے چھٹکارے سے Manhattan منصوبے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی پہلے ہی سے موجود ہے لیکن ہمیں جس چیز کی تلاش ہے شاید قدرے سخت قیادت اور ویژن کی تلاش ہے۔
(اداریہ: امریکی ہفت روزہ ’’نیوزویک‘‘۔ ۲۹ اگست ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply