میڈیا میں مسلمانوں کو جس طرح پیش کیا جاتا ہے، اُس سے ایک تیر سے دو نشانے لگائے جاتے ہیں۔ ملک کے اندر استحصال اور ظلم کا جواز فراہم کرنا اور بیرون ملک استعماری انداز سے تباہی یقینی بنانا۔
مغربی میڈیا اسلامو فوبیا کو بڑھا چڑھاکر پیش کرتا ہے یا پھر نہایت نزاکت سے، ڈھکے چھپے انداز سے یہی بات بیان کرتا ہے۔ نارتھ لین کی کتاب ’’دی اسلامو فوبیا انڈسٹری: ہاؤ دی رائٹ مینوفیکچرز دی فیئرز آف مسلمز‘‘ کے پیش لفظ میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے جان ایسپزیٹو نے لکھا ہے: ’’نائن الیون اور اسی نوعیت کے دیگر حملوں نے اسلامو فوبیا کو پروان چڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ایک ایسی صورت حال پیدا ہوئی ہے جس میں اسلام اور مشرق وسطیٰ کو خبروں میں منفی انداز ہی سے جگہ ملتی ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے صحافی اور اسکالر نپے تلے انداز سے، پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کام کر رہے ہیں‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بطن سے کوئی بھی کام کی بات برآمد نہیں ہوئی۔ یہ واقعہ مسلمانوں سے اہل مغرب کی بے بنیاد نفرت کا مظہر تھا۔ برطانوی صحافی رابرٹ فسک نے نائن الیون کے فوراً بعد دی نیشن میں لکھا: ’’چند دنوں میں دنیا سے جس جنگ کی حمایت کرنے یا نہ کرنے کا پوچھا جائے گا وہ جمہوریت اور دہشت گردی کے بارے میں نہیں۔ یہ جنگ ان امریکی میزائلوں سے متعلق بھی ہے جو فلسطینی گھروں میں جا گھسے۔ یہ جنگ ۱۹۹۶ء میں لبنان کے ایک گاؤں میں ایمبولینس کو امریکی ہیلی کاپٹر سے نشانہ بنائے جانے سے متعلق بھی ہے۔ یہ جنگ اس لبنانی ملیشیا کے بارے میں بھی ہے جو امریکا کے اسرائیلی اتحادیوں کی حمایت سے کام کرتی رہی تھی اور اس نے بڑے پیمانے پر بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی کی تھیں‘‘۔
رابرٹ فسک نے مزید لکھا: ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابی اور قبولیت کا مدار اس بات پر ہے کہ عرب دنیا کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ہے، وہ کسی کو یاد نہ رہے۔ امریکا نے عراق پر پابندیاں عائد کرکے کم و بیش پانچ لاکھ بچوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ فاکس نیوز اور چند دوسرے میڈیا آؤٹ لیٹس نے صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی سُرخیاں لگائیں جن سے مغرب اور مسلمانوں کے درمیان نفرت مزید گہری ہوئی۔ ’’فاکس نیوز‘‘ نے نائن الیون کی شہ سرخی میں کہا کہ عرفات کو حملے پر افسوس، فلسطینی خوشی منا رہے ہیں، باقی دنیا صدمے سے دوچار‘‘۔
مسلمانوں کو بدنام کرنے میں ماہرین نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ مشہور سائیکو پیتھ پامیلا گیلر نے مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ قابل نفرت بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ مغرب میں مرکزی دھارے کے میڈیا اور علمی حلقوں میں اسلام کے خلاف نظریات اور تصورات کو بہت نازک اور ڈھکے چھپے انداز سے پیش کیا جاتا ہے تاکہ اسلام کے خلاف غیر محسوس طور پر نفرت جنم لیتی رہے۔ برطانیہ میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اینڈ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر نفیس مصدق احمد کہتے ہیں: ’’گریٹر لندن اتھارٹی کی جانب سے ۲۰۰۷ء میں ایک اسٹڈی کی گئی۔ ایک ہفتے کے دوران میڈیا میں اسلام سے متعلق شائع ہونے والے ۳۵۲ مضامین کا جائزہ لیا گیا اور ان میں ۹۱ فیصد اسلام مخالف نکلے‘‘۔
مغرب میں بہت مہارت سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فضا تیاری کی گئی۔ برطانوی اخبار ’’ان ڈی پینڈنٹ‘‘ کے لیے ۲۰۰۸ء میں شائع ہونے والے مضمون “The Shameful Islamophobia at the Heart of Britian’s Press” میں پیٹر بورن لکھتے ہیں: ’’چند میڈیا آؤٹ لیٹس نے واضح طور پر جُھکاؤ اور جانب داری کا ثبوت دیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اگر کسی نے کوئی جملہ ادا کیا تو اس کی بھی رپورٹنگ ہوئی۔ مقصود صرف یہ تھا کہ نفرت پروان چڑھے‘‘۔
’’دی سن‘‘ اور دیگر بہت سے اخبارات نے ہنگامہ آرائی اور احتجاج سے متعلق ایسی خبریں شائع کیں جن کے ذریعے مسلمانوں کو مطعون اور بدنام کیا گیا۔ اگر کہیں مسلمانوں نے مل کر کوئی حملہ کیا تو مجمع کو نفرت کی بنیاد پر ایکشن لینے والا بتایا گیا، جبکہ کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں ایسا کہنے سے گریز کیا گیا۔ اوسبورن نے لکھا ہے کہ کئی بار یوں بھی ہوا کہ مسلمانوں کا ذکر نمایاں کیا گیا اور بعد میں پتا چلا کہ مسلمانوں کا نام بلا سبب لیا گیا تھا! ایک بار یہ بھی ہوا کہ شہ سرخی میں کہا گیا کہ ایک بچی کے اغوا میں ’’مسلم ذہنی مریض‘‘ ملوث ہیں۔ مگر خبر کے آخر میں بیان کیا گیا تھا کہ لڑکی کے اغوا میں اس کے والدین ہی ملوث پائے گئے ہیں۔
اوسبورن کے مطابق ’’دی سن‘‘ نے فلپ ڈیویز کا یہ جملہ بھی شائع کیا کہ ’’کہیں بھی کچھ ایسا ویسا ہوتا ہے تو اس کی پشت پر مسلمان ہی ہوں گے۔‘‘
داڑھی اور تہذیب
جان ایسپزیٹو نے ’’دی اسلامو فوبیا انڈسٹری‘‘ کی تمہید میں لکھا ہے کہ امریکا میں اسلامو فوبیا نے بہت گل کھلائے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’نصف امریکیوں نے رائے عامہ کے جائزوں میں کہا کہ مسلمان ملک کے وفادار نہیں ہوسکتے۔ بائیس فیصد امریکیوں کاکہنا ہے کہ وہ اپنے پڑوس میں کسی مسلمان کو دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔ اکتیس فیصد امریکیوں کا کہنا ہے کہ اگر ان کے ساتھ فلائٹ پر کوئی مسلمان ہو تو انہیں الجھن اور خوف محسوس ہوگا۔ اٹھارہ فیصد کی رائے یہ ہے کہ اگر وہ فلائٹ پر کسی مسلم خاتون کو دیکھیں گے تو ذہنی دباؤ محسوس کریں گے۔ چالیس فیصد امریکی چاہتے ہیں عام امریکیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے چیکنگ کا سخت تر طریقِ کار ہونا چاہیے۔ یعنی طیاروں پر سوار ہونے سے قبل ان کی زیادہ سخت چیکنگ کی جائے اور ان کے لیے خصوصی شناخت علامات اور دستاویزات ہونی چاہئیں۔
یہ اندازہ لگانا کچھ دشوار نہیں کہ اس نوعیت کا امتیازی ماحول مسلم مخالف تشدد کو کس قدر ہوا دیتا ہوگا۔ مختلف علامات کو تضحیک کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ مرکزی دھارے کے میڈیا میں بھی ’’باریش وحشی‘‘ (Bearded Savages) جیسے بیانات عام ہوچلے ہیں۔ ۱۹۹۸ء میں ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں عمان (اومان) کے حوالے سے ایک مضمون کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے: ’’خلیج فارس کا سوچیے اور آپ کے ذہن کے پردے پر کیا اُبھرتا ہے؟ خلیجی جنگ کے سپاہی، جلتا ہوا تیل، باریش جنونی، آلودہ سمندر اور سپاٹ، بے آب و گیاہ صحرا‘‘۔
عمان نے خود کو جیوڈتھ ملر پر ایک ’’مہذب‘‘ ملک کی حیثیت سے پیش کیا۔ عراق کے وسیع تباہی کے ہتھیاروں کی غلط رپورٹس کے مقابل جیوڈتھ ملر نے بتایا کہ عمان کے ساحل پر کچھوے بڑی تعداد میں انڈے دینے آتے ہیں!
حقیقت یہ ہے کہ میڈیا میں مسلمانوں کو جس انداز سے پیش کیا جاتا ہے، اس سے ایک تیر میں دو نشانے لگائے جاتے ہیں۔ ایک طرف تو اندرون ملک امتیازی سلوک کی راہ ہموار ہوتی ہے اور دوسری طرف بیرون ملک استعماری انداز کی تباہی آسان ہو جاتی ہے۔
(“How to Write About Muslims”…”Aljazeera.com”. April 2nd, 2013)
Leave a Reply