
اردو زبان کا ادب کتنی مختلف قدروں سے آراستہ ہے، ہم اس سے بخوبی واقف ہیں لیکن اردو زبان میں مقبول سائنس (پاپولر سائنس) کے لکھنے میں ابھی تک پوری توجہ نہیں دی گئی ہے۔ جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سائنس کے موضوع پر جو مضامین شائع ہوئے ہیں، ان کی تعداد زیادہ نہیں کہی جاسکتی اور بچوں کے لیے مقبول سائنس کے مضامین کی کمی تو شدت کے ساتھ اردو زبان میں محسوس کی جاتی ہے۔ ماہرین نے اس کی جانب توجہ چاہی ہے۔ بچوں کے لیے سائنس کے موضوع پر لکھنے میں مضمون نگار کے لیے پہلا مسئلہ موضوع کے طے کرنے کا یا تعین کا ہوتا ہے۔ مضمون نگار کو قارئین کے خیالات اور ان کی دلچسپی کو سامنے رکھنا ہوتا ہے اور خاص طور پر تب جب بچوں کے لیے سائنس کے موضوع پر عام فہم مضمون لکھنا چاہ رہا ہو کیونکہ جب بچے دس سال سے بڑے ہو جاتے ہیں تو ان کے سوچنے کا انداز ایک نیا موڑ لیتا ہے۔ وہ معلومات حاصل کرنے کے لیے مطالعہ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔
سائنسی حقائق اور مختلف سائنسی ایجادوں میں ان کی دلچسپی بڑھنے لگتی ہے۔ اس لیے موضوع کو طے کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس طرح بچوں کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ طے کیا جائے کہ کس عمر کے بچوں کے لیے سائنس کا کون سا موضوع زیادہ مناسب ہو گا تاکہ اس مضمون کو پڑھنے میں دلچسپی لے سکیں اور موضوع اس طرح کا ہو کہ مضمون کو پڑھنے میں ان کی دلچسپی قائم رہے۔ زبان آسان اور جملے چھوٹے ہوں۔ مضمون نگار کو مشکل الفاظ اور پیچیدہ جملوں سے گریز کرنا چاہیے۔ میرے خیال میں تکنیکی یعنی ٹیکنیکل لفظوں کو بچوں کے مضمون میں استعمال کرنا چاہیے جبکہ کچھ ماہرین اس کے مخالف ہیں۔ کیونکہ ان لفظوں کے استعمال سے بقول ان کے مطالعے میں بچوں کی دلچسپی کم ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن بچے بالخصوص گیارہ سال سے سولہ سال کی عمر کے دوران آسان تکنیکی لفظوں سے ہی روشناس نہیں ہوں گے تو سائنس کے تکنیکی لفظوں کو کس طرح ان کے لیے مقبول سائنس کے مضامین میں آئندہ استعمال میں لائے جائیں گے۔ مثلاً پروٹین لفظ کو لے لیجئے جس کا اردو سائنسی لفظ ’’لحمیہ‘‘ ہے۔ سیل کا ’’خلیہ‘‘ ہے وٹامن کا ’’حیاتین‘‘ ہے، اسپیس کا ’’خلاء‘‘ ہے۔ یہ تکنیکی الفاظ آسان اور عام فہم ہیں۔ ایسے لفظوں کو بچوں کے مقبول سائنسی مضامین میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ بچے آئندہ مطالعے کے دوران سائنس کے ایسے تکنیکی لفظوں سے الجھن محسوس نہیں کریں گے۔
اس طرح مضمون نگار اپنی کوشش سے اس مسئلے کو بخوبی حل کر سکتا ہے جو اس کے اندازِ بیاں سے پیدا ہو گا اور اسے اس کا خیال رکھنا ہو گا کہ سائنسی موضوع کو بچوں کے سامنے کس انداز میں پیش کرنا ہے۔ اس میں آج سب سے مقبول ذریعہ اخبارات اور رسائل کا ہے۔ یہ خوشی کا مقام ہے کہ اردو زبان میں اخبارات اور اردو رسائل مین دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے اردو قارئین کی دلچسپی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان میں مقبول سائنس کے مضامین اب بھی کم شائع ہوتے ہیں۔ بالخصوص بچوں کے لیے سائنسی موضوعات پر یہ غور طلب مسئلہ ہے۔
اردو اخبارات اور رسائل میں بچوں کے لیے مضمون نگار کو اس طرح مضمون لکھنا چاہیے کہ پڑھنے والے بچوں کی دلچسپی کم نہ ہونے پائے اور وہ دلچسپی مضمون کے آخر تک قائم رہے۔ کیونکہ غیردلچسپ مضامین کو آخر بچے کیوں پڑھیں؟ اس طرح مضمون نگار کو مضمون میں دلچسپی کا اہتمام کرنا ہو گا۔ مثلاً اگر کوئی سائنس فکشن یا سائنسی کہانی ہے تو پہلے پیرا گراف میں مضمون نگار کوئی کہانی سنا رہا ہے اور یہ انداز دلچسپی پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ لیکن ایسے فکشن اردو زبان میں بہت کمی کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ ان کے ذریعے سائنسی معلومات کو بچوں تک پہنچانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ایک دوسرا طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بچوں کے لیے کسی خاص دلچسپ واقعہ کو بیان کیا جائے۔ کبھی کبھی مضمون کے کسی اہم نکتے کو آسان لفظوں میں تفصیل کے ساتھ بیان کرنے سے بھی بچے سائنسی مضامین کو پڑھنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ بچے بھی ماضی کی تہذیبی روایات سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس طرح انہیں ماضی کی سائنسی ترقی کہانی کی شکل میں پیش کی جاسکتی ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ’’لکھنا لکھتے ہی لکھتے آتا ہے‘‘۔
بچوں کے سائنسی ادب میں تحریر کے دوران اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ان مضامین میں ’’توہمات‘‘ یا وہم کو تقویت نہ پہنچے کیونکہ بچوں کے دماغ میں ایک مرتبہ اس طرح کی کوئی غلط بات بیٹھ جاتی ہے تو اس کے نکلنے میں وقت لگتا ہے جبکہ مضمون نگار کا ایک خاص مقصد بچوں میں اپنے مضمون کے ذریعے سائنسی مزاج پیدا کرنا ہے تاکہ ان میں سے سائنسی سوجھ بوجھ پیدا ہو۔ مضمون نگار کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اسی موضوع کا انتخاب کرے جس پر اسے مہارت حاصل ہو۔ اگر مضمون نگار کا تعلق حیاتیاتی سائنس کے میدان سے ہے تو انہیں اپنی تحریروں میں طبیعیات یا خلائی سائنس کو اپنا تحریری موضوع نہیں بنانا چاہیے۔
بچوں کے لیے سائنسی مضمون لکھتے وقت ایسے موضوع کو ترجیح دیں جس میں تصاویر کا بھی اہتمام ضرور ہو۔ سائنسی مواد کے بیان سے مضمون میں خشکی پیدا نہ ہو ورنہ بچے اسے نامکمل چھوڑ دیں گے۔ اس سے مضمون نگار کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔ میں یہاں اپنے محسن بزرگ ساتھی محترم اطہر پرویز مرحوم اور محترم سراج انور مرحوم کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا جو اکثر ملاقاتوں کے دوران مجھ سے کہا کرتے تھے کہ بچوں کے لیے لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ان کے مضامین جو مشہور زمانہ رسالہ ’’کھلونا‘‘ میں چھپے ہیں، اس سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ مجھے آج بھی آپ سب ماہرین کے سامنے یہ کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہو رہی ہے کہ میرے جو مضامین بچوں کے لیے ۱۹۷۵ء کے بعد ’’کھلونا‘‘ میں عرصہ تک شائع ہوئے، وہ آج بھی بچوں کے سائنسی ادب میں درپیش مسائل کے دوران مجھے خود غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ میں اب بھی یہ محسوس کرتا ہوں کہ بچوں کے لیے ابھی بہت کچھ لکھنے کی ضرورت ہے اور انھیں راغب کرنے کے لیے ابھی تحریری طور پر بہت کچھ کرنا باقی ہے کیونکہ ملکی ترقی میں بچے ہی کل کا ہندوستان ہیں۔ یہ خوشی کا مقام ہے کہ اب لوگ بچوں کے سائنسی ادب کو اہم محسوس کر رہے ہیں۔ اس وقت شائع ہونے والے متعدد اردو رسالوں میں ’’پیامِ تعلیم‘‘ (دہلی)، ’’نور‘‘ (رامپور)، ’’اُمنگ‘‘ (نئی دہلی)، ’’گل بوٹے‘‘ (ممبئی)، ماہنامہ ’’سائنس‘‘ (نئی دہلی) اور رسالہ ’’سائنس کی دنیا‘‘ (نئی دہلی) سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ رسالہ ’’سائنس کی دنیا‘‘ جو اپنی کامیاب اشاعت کے ساتھ سلور جوبلی سال سے گزر کر تیسویں سال میں قدم رکھ رہا ہے جس میں بچوں اور طالب علموں کے لیے کئی خصوصی کالموں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ماہنامہ ’’سائنس‘‘ میں بھی طلبا کی دلچسپی کا وافر مواد ہوتا ہے جو گذشتہ ۱۴ برسوں سے مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ اس طرح بچوں کو اردو رسالے ’’بچوں کے سائنسی ادب‘‘ کے مطالعے کی جانب آنے کی دعوت دے رہے ہیں تاکہ عوام اس کی اہمیت سمجھ سکیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’اردو بک ریویو‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: مئی،جون ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply