
مارچ کے آخری ہفتے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون روزگار کے حوالے سے قومی مذاکرے میں شرکت کے لیے تیونس پہنچے تو ملک کے صدر باجی قائد السبسی (Beji Caid Esssebsi) کی بہت تعریف کی اور ’’جمہوری عمل کی کامیابیوں‘‘ پر انہیں مبارکباد دی۔
۲۰۱۱ء میں عوامی بغاوت کے ذریعے ایک عرصے سے ملک پر قابض زین العابدین بن علی کو اقتدار سے بے دخل کرکے تیونس نے بلاشبہ جمہوری استحکام کی سمت میں تیزی سے سفر کیا ہے، جو عرب بَہار کے بعد واحد مثال ہے۔ لیکن اس جمہوری تبدیلی پر ذرا گہری نگاہ ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ اس کا سہرا ملک کی سب سے بڑی اسلامی جماعت ’’النہضہ‘‘ کے سر ہے، جو سیکولر سیاسی قوتوں کے ساتھ سمجھوتے پر راضی ہوئی۔
کبھی کبھی بھونڈے انداز میں ہی سہی، لیکن ووٹروں کو مطمئن کرنے کی غرض سے اس جماعت کو کئی بار اپنا مؤقف تبدیل کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ حکومت میں رہتے ہوئے بھی اسے مجبور کیا گیا کہ اپنے نظریات کے خالص مذہبی پہلوؤں کو نظر انداز کردے۔ اپنے اسلامی خیالات کا دفاع کرتے ہوئے النہضہ نے معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا۔ انتخاب کے چند اہم حلقوں کو بچانے کی خاطر کہیں کہیں پسپائی اختیار کی اور جہاں کہیں ووٹ بچانے ضروری تھے، وہاں جم کر کھڑی ہوگئی۔ آئین سازی کے مشکل، مگر بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہونے والے عمل کے دوران یہ بالکل واضح تھا۔
انہی سمجھوتوں نے پارٹی کو اس قابل کیا کہ وہ ملک میں نوخیز جمہوریت کے ساتھ چل سکے۔ سب سے اہم اس کا وہ کلیدی کردار تھا، جو اس نے جمہوری تسلسل کی خاطر ادا کیا۔ مختصراً یہ کہ تیونس کی مرکزی اسلامی جماعت نے ملک میں نئی نئی جمہوریت کے پنپنے کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی قیمتی حصہ ڈالا۔
النہضہ کا اسلامی تشخص تبدیلی کی ابتدا ہی سے متنازع تھا۔ اسلامی گروہوں کے خلاف بن علی کی کارروائیوں کی وجہ سے اس کے ارکان چھپے ہوئے تھے یا ملک سے باہر تھے، جس کے باعث تنظیم کو کئی دہائیاں زیرِ زمین گزارنا پڑیں اور ۲۰۱۱ء میں عام معافی کے قانون کے نتیجے میں اسے دوبارہ سیاسی منظرنامے پر آنے کا موقع ملا۔ کبھی نہ یکجا ہونے والی منتشر سیکولر جماعتوں کی شکل میں النہضہ کو نئے دشمن ملے، جنہوں نے فوری طور پر اسے تیونسی جمہوریت کے لیے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کے ارکان کو ’’جنونی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ النہضہ کی کامیابی سے خواتین حقوق سے محروم ہوں گی، اور اس کے مذہبی عقائد ووٹروں کو لبھا کر ملک کو مذہبی حکومت کی جانب دھکیل دیں گے۔
النہضہ کے صدر اور شریک بانی راشد الغنوشی کو معلوم تھا کہ ان کی جماعت کو یہ غلط فہمی دور کرنی ہے، اسی لیے انہوں نے عوام کے سامنے اپنا ’’معتدل‘‘ چہرہ روشناس کرانے پر توجہ دی۔ مثلاً جون ۲۰۱۱ء میں مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی امور کے ماہر مارک لِنچ کے ساتھ گفتگو میں بتایا، کہ انہوں نے اپنے ’’حامیوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ تیونس واپسی پر انہیں لینے ہوائی اڈے نہ آئیں تاکہ خمینی کی ایران واپسی کے مناظر دہرائے نہ جاسکیں‘‘۔
بالآخر اکتوبر ۲۰۱۱ء میں النہضہ نے تیونس کے پہلے آزادانہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی، جس کی بنیاد مذہب نہیں بلکہ یہ وعدہ تھا کہ عوام کو گزشتہ حکومت کے جابرانہ ہتھکنڈوں سے نجات دلائی جائے گی۔ پارٹی نے خاص طور پر یقینی بنایا کہ وہ تیونس کے پسماندہ اور عرصے سے نظرانداز اندرونی علاقوں کے ووٹر تک پہنچے۔ درحقیقت النہضہ وہ واحد جماعت تھی، جس نے اپنی انتخابی مہم محض مذہب کی بنیاد پر نہیں چلائی۔ اس کے برعکس اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارتے ہوئے النہضہ کے سیکولر مخالفین نے مذہبیت کے مضمرات پر حد سے زیادہ توجہ دی اور نتیجتاً مات کھائی۔ تیونسی صحافی، انسانی حقوق کی کارکن اور تیونس کے Truth and dignity commission کی سربراہ سہام بن سدرین نے ۲۰۱۴ء میں اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’’تیونس کی سیکولر جماعتوں پر اسلام مخالفت کا بھوت جب بھی سوار تھا اور اب بھی ہے۔ یہی خوف انہیں گزشتہ حکومت کے نقشِ قدم پر دھکیل دیتا ہے۔ ۲۰۱۱ء میں یہ اندازہ نہ کرسکنا ہی ان کی تزویراتی غلطی تھی کہ اسلام پسند موجود ہیں اور بن علی کی معزولی کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہتری کے لیے ہماری جمہوریت کا حصہ بھی بنیں گے‘‘۔
لیکن اقتدار میں آنے کے بعد جب نیا ملکی آئین بنانے کی ذمہ داری ملی تو النہضہ کے اندرونی اختلافات بھی سامنے آنے لگے۔ ۲۰۱۳ء میں جب میں نے آئین ساز اسمبلی کے ارکان سے بات کی تو یہ واضح ہوگیا کہ النہضہ کے ارکان ’’سیاسی اسلام‘‘ کی کسی ایک تشریح پر متفق نہیں ہیں۔ اور گو کہ جماعت اسمبلی میں متفقہ رائے دینے کا عزم رکھتی تھی، لیکن کئی مواقع پر اس کا انتشار واضح ہوا، جس سے الغنوشی کے ارادوں پر کچھ تیونسی شہریوں کو شک ہوا اور وہ پارٹی کی ’’دوہری زبان‘‘ اور منافقت کے بارے میں بات کرنے لگے۔
آئین سازی کے عمل میں دو ماہ بعد ہی النہضہ نے ایک مسودہ جاری کیا، جس میں شریعت کو تیونسی قانون کا بنیادی مآخذ بتایا گیا تھا۔ اس پر سول سوسائٹی نے دباؤ بڑھایا، سڑکوں پر مظاہرے ہوئے اور غنوشی نے اعلان کیا کہ آئین میں شریعت کا ذکر نہیں ہوگا۔ لیکن اس کے فوراً بعد ہی النہضہ کے ایک رکن پارلیمان نے ایک آئینی شق کی تجویز دی، جس کے تحت توہینِ مذہب کو جرم قرار دیا گیا تھا۔ اور پھر بعد میں وزیراعظم بننے والے رکن حمادی الجبالی نے ببانگ دہل النہضہ کی اس خواہش بلکہ اس ذمہ داری کو دہرایا کہ تیونس میں ’’چھٹی خلافت‘‘ قائم ہونی چاہیے۔ سڑکوں پر مظاہرے ہوئے تو جبالی نے کچھ دن بعد اپنا بیان واپس لے لیا۔ یہ شدت پسندانہ توجیہات، جن کی بعد میں وضاحتیں بھی دی گئیں، نہ صرف النہضہ کے اندرونی اختلافات آشکارا کرتی ہیں بلکہ ان سے تیونس میں سیاسی اسلام کے غیرمقبول ہونے کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
آئین میں اسلام کی حیثیت کے حوالے سے النہضہ کے بدلتے مؤقف پر اس کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ بیک وقت قدامت پسند سَلَفی ووٹر کو مطمئن رکھتے ہوئے اپنا معتدل چہرہ سامنے رکھنے کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ النہضہ ایک متَنّوع سیاسی جماعت ہے، جو اپنی خامیاں چھپانے کے لیے وہ سب کچھ کررہی تھی جس سے وہ اپنے حلقہ ہائے انتخاب بچاسکے۔ اور یہ بات آئین سازی کے پورے عمل کے دوران واضح رہی۔ جنوری ۲۰۱۴ء میں جب حتمی مرحلے کی رائے شماری ہوئی تو النہضہ کے ۲۲؍ارکان نے قرآن و سنت کو آئین کی اوّلین شِق کا ’’بنیادی اصول برائے قانون سازی‘‘ بنانے کے حق میں ووٹ دیے، لیکن ۱۷؍ووٹ اس کی مخالفت میں تھے اور پارٹی کے ۳۹؍ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اسی طرح اسلام کو ملک میں ’’قانون سازی کا بنیادی مآخذ‘‘ بنانے کی ترمیم کے سلسلے میں رائے ۱۸ اور ۱۵ کے درمیان بٹی رہی جبکہ ۴۶؍ارکان غیر حاضر رہے۔
تیونسی معاشرے کے دباؤ اور جہادیوں کے حملوں میں تیزی نے بھی النہضہ کو مجبور کیا کہ وہ اسلام کے نام پر تشدد کے خلاف سخت مؤقف اپنائے۔ اسلامی سیاسی سرگرمیوں کو کچلنے کی بن علی کی پالیسی سے فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے پارٹی سَلَفی جہادی گروہوں کے خلاف بات کرنے سے بھی ہچکچاتی رہی، چاہے وہ تشدد کا پرچار ہی کیوں نہ کرتے ہوں۔ سلفی تحریک میں ’’ناپسندیدہ عناصر‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے النہضہ نے ابتدا میں تحریک کے سیاست میں شامل ہونے کی حمایت کی اور کچھ سلفی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا تاکہ وہ اپنا بنیاد پرست ایجنڈا سیاسی ذرائع سے آگے بڑھاسکیں۔ حکمتِ عملی میں یہ تضاد، اپنے لائحہ عمل اور اسلامی نظریے کے دفاع کے حوالے سے پارٹی کے تذبذب کی نشاندہی کرتا ہے۔ دوسری طرف اس سے تیونسی سَلَفیوں میں یہ خیال پروان چڑھا کہ النہضہ مغربی اور سیکولر مفادات کی جانب جھک رہی ہے اور اس کا اسلامی چہرہ محض بناوٹی ہے۔
سلفی گروہوں کے حوالے سے اس شش و پنج نے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع فراہم کردیا کہ النہضہ کوئی قابلِ تسلیم سیاسی فریق نہیں بلکہ تیونس کے لیے بنیاد پرستی پر مبنی خطرہ ہے۔ ’’ندا تیونس پارٹی‘‘ سے تعلق رکھنے والے تیونسی صدر باجی قائد السبسی نے اکتوبر ۲۰۱۲ء میں قتل ہونے والے اپنی پارٹی کے رہنما لطفی نقض کے قتل کا ذمہ دار النہضہ کو ٹھہرایا۔ بعد ازاں شکری بَلعید اور محمد براہمی نامی دو اپوزیشن رہنماؤں کے قتل کے بعد اس دباؤ میں اور اضافہ ہوگیا اور فروری ۲۰۱۳ء میں بلعید کے قتل کے بعد وزارت داخلہ کے سامنے ۴۰ ہزار تیونسیوں نے جمع ہوکر النہضہ کی قیادت پر تنقید کی اور غنوشی کو ’’قاتل‘‘ قرار دیا۔
ان الزامات کے بعد النہضہ نے سلفی جہادیوں کے خلاف کارروائی پر مجبور ہوکر ’’انصار الشریعہ‘‘ نامی تیونس کے سب سے بڑے اور معروف سلفی جہادی گروپ کو اپریل ۲۰۱۳ء میں دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ مارچ ۲۰۱۵ء میں باردو قومی عجائب گھر پر حملے میں اکیس افراد کی ہلاکت اور پچاس سے زائد کے زخمی ہونے اور تین ماہ بعد داعش سے منسلک دہشت گردوں کی جانب سے سُوسہ نامی ساحلی مقام پر حملے کے فوری ردعمل میں النہضہ نے سکیورٹی اقدامات انتہائی سخت کردیے تھے۔
بالآخر النہضہ کو ان اسلام پسند گروہوں سے فاصلہ اختیار کرنا پڑا، جن کو وہ ماضی میں اکیلا چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ اور تو اور، آہستہ آہستہ وہ اس طرح سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بنتی گئی کہ اپنے آمرانہ پیشرو سے مشابہہ ہوگئی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سکیورٹی خطرات میں گھرے تیونس کے سیاسی ماحول میں غنوشی کے لیے سیاسی اسلام کی انتخابی میدان میں وکالت کرنا کس طرح مشکل ہوتا گیا۔
اکتوبر ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں النہضہ کی پارلیمانی اکثریت ندا تیونس کو منتقل ہوگئی۔ بہت سے ووٹر مایوس تھے کہ اپنے تین سالہ دور اقتدار میں النہضہ نے روزگار کے مواقع پیدا کیے، نہ سرحدوں کو محفوظ بنایا اور نہ ہی اصلاحات کیں۔ النہضہ نے شکست تسلیم کی اور ندا تیونس کی جانب سے شدید ہچکچاہٹ کے بعد دونوں جماعتوں نے مخلوط حکومت قائم کی۔ لیکن ۲۰۱۵ء کے دوران ندا تیونس کی اندرونی دراڑیں گہری ہوگئیں، جن میں سرفہرست نظریاتی اختلافات بھی تھے اور یہ سوال بھی کہ ۸۸ سالہ پارٹی سربراہ کا جانشین کون ہوگا۔ جنوری ۲۰۱۶ء تک اختلافات اتنے بڑھے کہ ندا تیونس کے ارکان مستعفی ہوگئے اور النہضہ کو پارلیمان میں اکثریت حاصل ہوگئی۔
تیونس میں سیاسی استحکام کی خاطر النہضہ نے جبر و تشدد کو رد کرکے، جمہوری جواز کو برقرار رکھتے ہوئے اسلام کو مسترد یا مسخ کرنے والوں کی مخالفت کا عَلم اٹھاکر ایک تنے ہوئے رسے پہ چلنا شروع کیا ہے، جس کے دوران وہ دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد بھی کررہی ہے۔ یہ ایک ایسا جمہوری رویہ ہے جسے النہضہ کے اسلامی نظریات پر تنقید کرنے والے اکثر بھول جاتے ہیں، اور یہ ایسا کام ہے جسے دیگر سیاسی جماعتوں نے انتہائی دباؤ میں آنے کے بعد ہی کیا ہے۔ جیسا کہ تیونس کے تجربے نے ثابت کیا ہے، سیاسی اسلام جمہوریت کے ساتھ چل سکتا ہے، تاہم اسے ووٹر کی رائے کا تابع ہوکر سیاسی حالات سے ہم آہنگ ہونا پڑے گا، اور اپنے ابتدائی اسلام پسند چہرے کو ذرا معتدل بنانا ہوگا۔
(ترجمہ: حارث رقیب عظیمی)
“How Tunisia’s Islamists embraced democracy”. (“Foreign Policy”. Mar.31,2016)
کس طرح سے دہشت گردی کو سیاسی اسلامی جمہوری عمل کے مقابلے میں استعمال کرکے اسے اپنے موقف سے بتدریج پسپائی کی پالیسی پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ندا پارٹی اور مغربی ممالک کی دہشت گرد ایجنسیوں نے کس طرح ملی بھگت سے ایک متوازن اسلامی جمہوری پارٹی کو سیکولر سمت میں ڈرا دھمکا کر دھکیل دیا
یہ مضمون اس پر شاہد ہے