
اس میں کوئی شک نہیں کہ ترک وزارتِ خارجہ کے انڈر سیکرٹری فریدوں سینیا لوزو (Feridun Sinirlioglu) اِس وقت ترکی کے خارجہ امور کے ’’مردِ آہن‘‘ ہیں۔ وہ صدر طیب ایردوان یا وزیراعظم احمد دائود اولو کی سطح کے تو نہیں، لیکن انہیں ترکی کی ’’مشرقِ وسطیٰ پالیسی‘‘ کے معمار کے طور پر جانا جاتا ہے، جس پالیسی پر آج کل شدید تنقید کی جارہی ہے۔ انڈر سیکرٹری کا عہدہ سفارت کاروں میں سب سے اہم عہدہ سمجھا جاتا ہے، فریدوں گزشتہ چھ سال سے اس عہدے پر تعینات ہیں۔ وزارت خارجہ کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک ہی فرد انڈر سیکرٹری ہو اور اس کے ساتھ ساتھ وہ وزیرِ خارجہ بھی ہو، یہ اعزاز صرف فریدوں کو حاصل ہے۔ سات جون اور پھر یکم نومبر کو دوبارہ ہونے والے انتخابات کے دوران نگراں حکومت میں بھی وہ وزیر خارجہ اور انڈر سیکرٹری کے فرائض انجام دیتے رہے۔
فریدوں صرف ایک ملک کے سفیر رہنے کے بعد انڈر سیکرٹری بن گئے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ ایک ملک امریکا، برطانیہ یا روس نہیں (عموماً ان ممالک میں سفارت کاری کے فرائض انجام دینے والوں کو ترقی دے کر انڈر سیکرٹری یا اس جیسے دوسرے اہم عہدوں پر تعینات کر دیا جاتا ہے) بلکہ اسرائیل ہے۔ فریدوں اسلامی پارٹی، جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ (AKP یا آق پارٹی) کے آخری پانچ سالہ دورِ حکومت میں اسرئیل میں ترکی کے سفیر کی حیثیت سے تعینات رہے۔ اس سے بھی زیادہ ناقابلِ یقین بات یہ ہے کہ صرف ایک ملک میں سفیر کی حیثیت سے کام کرنے والے اور انتہائی سیکولر سفارت کار اب ترک خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایردوان کے معتمد خاص ہیں۔
تل ابیب میں تعیناتی کے دوران انہوں نے اسرائیلی قیادت سے قریبی تعلقات قائم کیے اور اُن کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ ترکی کے ایک مؤثر سفارت کار ہیں، جو اسرائیل اور شام میں ثالث کا کردار ادا کر رہے تھے۔ دونوں ممالک مذاکرات سے تنازعات کے حل کے قریب تھے کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ چھیڑ دی۔ تاہم فریدوں نے اس دوران موساد کے مستقبل کے سربراہ (Yossi Cohen) اور سفیر (Joseph Ciechanover) کے ساتھ ذاتی مراسم قائم کرلیے (یہ دونوں شخصیات آج کل فریدوں کے ساتھ خفیہ مذاکرات میں شامل ہیں)۔ اِسی لیے ترک اسرائیل تعلقات خراب ہونے کے باوجود بھی منقطع نہیں ہوئے۔ اور اب، جب حالات دونوں ممالک کو تعلقات کی بحالی کی طرف لے جا رہے ہیں، تو ایردوان کے پاس اس کام کے لیے فریدوں سے بہتر کوئی شخص نہیں۔
جب دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے خفیہ سفارتی ملاقاتوں کی تفصیلات میڈیا تک پہنچیں تو حکومتی جماعت میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور پھر ترک وزیرِ ثقافت عمر چیلک (جو کہ آق پارٹی کے ترجمان بھی ہیں) کے اس بیان نے کارکنان کے غصے میں مزید اضافہ کر دیا کہ ’’اسرائیلی ریاست اور اسرائیلی قوم ہماری دوست ہے، ہم نے آج تک صرف ان کی انتہا پسندانہ کارروائیوں کی مخالفت کی ہے‘‘۔ گزشتہ چند دنوں میں احمد دائود اولو سمیت ترک حکام نے اپنے بیانات میں کہا کہ اسرائیل سے تعلقات معمول پر نہیں پہنچے، لیکن مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
آج کل آق پارٹی کے راہنما، جہاں ایک طرف اپنے کارکنان میں موجود اسرائیل مخالف جذبات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہیں وہ اسرائیل سے ممکنہ معاہدے کے لیے رائے عامہ بھی ہموار کر رہے ہیں۔ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کی بڑی وجہ ترک فضائیہ کی جانب سے روسی طیارہ گرائے جانے کے بعد ترک روس تعلقات میں کشیدگی ہے۔ اگر روس تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے ترکی کو قدرتی گیس کی فراہمی منقطع کر دیتا ہے تو ترکی پر اس کے بہت برے اثرات مرتب ہوں گے۔ حالانکہ روس نے ایسا کرنے سے منع کر دیا ہے لیکن اگر حالات میں مزید کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو مستقبل میں کچھ بھی ممکن ہے۔ ترکی اپنی درآمدی گیس کا ۶۰ فیصد روس سے درآمد کرتا ہے اور اس کی بجلی سے چلنے والی صنعتوں کا زیادہ تر انحصار اسی گیس پر ہے۔ روس کی جانب سے گیس کی فراہمی میں کسی بھی قسم کی کٹوتی کے ترک معیشت پر مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔
ترک حکام گزشتہ تین ہفتوں سے گیس کی فراہمی کے متبادل ذرئع کی تلاش کے لیے سر توڑ کوششیں کررہے ہیں۔ اسی سلسلے میں ایردوان نے قطر، اور احمد دائود اولو نے آزربائیجان کا دورہ کیا ہے جبکہ انقرہ ارابیل حکومت کے درمیان بھی کردستانی گیس کے لیے بات چیت جاری ہے۔
اسرائیل بھی انہی متبادل ذرائع میں سے ایک ہے۔ اسرئیل سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’المانیٹر‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ایردوان کے خاندان کے کچھ افراد روس سے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے گیس کے متبادل ذرائع کے لیے اسرائیل سے تعلقات بہتر بنانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں (یاد رہے کہ نئی حکومت میں توانائی کی وزارت صدر ایردوان کے داماد کے پاس ہے)۔
اسرائیل فریڈم فلوٹیلا والے واقعہ پر پہلے ہی معافی مانگ چکا ہے۔ فریدوں اور دو اسرائیلی شخصیات کے درمیان ہونے والی بات چیت کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، اُن کے مطابق اسرائیل متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دینے کے لیے بھی تیار ہے۔ تاہم ترکی غزہ پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کررہا ہے، اس نکتہ پر دونوں ممالک کے درمیان بات چیت عارضی بحران کا شکار ہے۔ لیکن یہ سب مسئلے ایسے ہیں جن کا حل ممکن ہے۔ شام کے حالات اور خطے میں عالمی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے ترک اسرائیل تعلقات میں بہتری کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ انقرہ کے پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ روس کی شام میں مداخلت اور روسی طیارے کو گرائے جانے کے بعد ترکی کی مخالفت میں ماسکو تہران اتحاد کھل کر سامنے آگیا ہے۔ ترک پالیسی ساز کردستان ورکر پارٹی (PYD) اور شام میں اسی کی برادر تنظیم ڈیموکریٹک یونین پارٹی کی سرگرمیوں کو بھی ماسکو تہران اتحاد کے تناظر میں ہی دیکھ رہے ہیں۔
ترکی نے جیسے جیسے اپنے آپ کو مغربی طاقتوں اور واشنگٹن، نیٹو، قطر، سعودی عرب اور اب اسرائیل کے قریب کیا ہے، وہیں اس نے ترکی کے جنوب مشرق میں کردستان ورکر پارٹی کے خلاف آپریشن تیز کر دیا ہے۔ اب یہ لڑائی وسیع علاقے میں پھیل چکی ہے۔ جس طرح ایران نے دمشق اور بغداد کی شیعہ حکومتوں کی مدد کی ہے، اُسی طرح اب ترکی بھی مسعود بارزانی کے زیرِ اثر سُنی عراقی کُردوں اور کُرد علاقائی حکومت کو اعتماد میں لینے کے لیے سنجیدہ کوششیں کررہا ہے۔
اسرائیل کے عراقی کردوں سے ۱۹۶۱ء سے ہی (جب کردوں نے بغداد میں قائم عربوں کی حکومت کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا تھا) خفیہ اور مضبوط تعلقات قائم ہیں۔ اس کے برعکس پی کے کے کی پرورش شام میں فلسطینی تحریک کے زیرِ اثر ہوئی ہے، اس لیے وہ اسرائیل کے شدید مخالف ہیں۔
ترک پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ اسرائیل سے تعلقات معمول پر آنے سے یہودی ریاست، جو ترک حکومت کے خاتمے کے لیے سرگرداں تھی اور کرد باغی، جو ترکی کی سالمیت کے لیے مستقل خطرہ ہیں، ان کے درمیان باہمی تعاون کا خاتمہ ممکن ہوگا۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“How Turkey’s foreign affairs ‘strongman’ left his mark”. (“al-monitor.com”. Dec.22, 2015)
Leave a Reply