
سال ۲۰۱۵ء میں بین الاقوامی مذاکرات کے دوران امریکی سفارتی ٹیم کی قیادت میں مذاکرات کے نتیجے میں ایران سے جوہری معاہدہ طے پایاتھا۔ مذاکرات کے دوران بہت کم ہی ایرانی وفد نے متوقع جوہری معاہدے کے دیر پا ہونے کے بارے میں سوال کیا۔ری پبلکن کی اکثریت اس معاہدے کی مخالف تھی اور ان کی نظریں ۲۰۱۶ء کے انتخابات پر لگی تھیں۔ ایرانی پریشان تھے کہ اگر مخالفین وائٹ ہاؤس میں آگئے تو معاہدے کا مستقبل کیا ہوگا۔ میں جواب میں اس جیسا ہی سوال کرتی تھی کہ کیا ہوگا اگر ایرانی شدت پسند جوہری معاہدے کی مخالفت کرکے اقتدار میں آجائیں، عام طور پر یہاں آکر بحث ختم ہوجاتی تھی۔ میرا ہمیشہ سے یہی خیال رہا تھا کہ معاہدے کو سب سے بڑا خطرہ ایران سے ہے ناکہ امریکی صدر کے سیاسی عزائم سے، یقینا میں غلط تھی۔ رواں برس مئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فیصلہ کیا کہ امریکا جوہری معاہدے سے دستبردار ہوجائے گا اور ایران پر دوبارہ سے پابندی عائد کردی جائے گی۔یہ امریکی سفارتی تاریخ کا بدترین فیصلہ تھا۔ایرانی جوہری معاہدہ بہترین نہیں تھا اور کوئی معاہدہ بھی بہترین نہیں ہوتا،لیکن یہ ایک مکمل’’پلان آف ایکشن‘‘ تھا، اس معاہدے میں یقینی بنایا گیا تھا کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہ کرسکے۔ مجھے نہیں معلوم کہ امریکی پابندی کے نفاذ کے بعدجوہری معاہدہ برقرار رہ پائے گا یہ نہیں، یہ پابندیاں امریکا نے ایران کی جانب سے کچھ وعدوں کے بعد ہٹالی تھیں، جس میں یورینیم کی افزودگی کو انتہائی کم کرنا، ہتھیار بنانے کے لیے پلاٹونیم پیدا نہ کرنا اور ان باتوں پر سختی سے عمل درآمد کے لیے بین الاقوامی معائنہ کاروں کو تنصیبات کے دورے کی اجازت دینا شامل تھا۔اس معاہدے کے ذریعے ایران کے جوہری ہتھیاروں کے لیے مواد حاصل کرنے کے ہر راستے کو بند کردیا گیا تھا۔معاہدے میں ایران پر لگائی گئی کچھ پابندیوں کا خاتمہ ۱۰، ۱۵، ۲۰ یا ۲۵ برس کے بعد ہونا تھا، لیکن جوہری ہتھیار بنانے پر پابندی ہمیشہ کے لیے عائد کی گئی تھی۔ اس معاہدے نے ایران کو مکمل طور پر جکڑ لیاتھا۔
ٹرمپ کے فیصلے سے امریکی سفارت کاری پر سے دنیا کا اعتماد اُٹھ گیا۔ ٹرمپ کی جانب سے معاہدے کا مذاق اڑانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ناقابل اعتبار ممالک سے نمٹنے کے لیے پابندیاں اورانہیں مسلسل تنہا کرنے کا ماڈل اپنایا جاتا ہے تاکہ انہیں مذاکرات پر مجبور کردیا جائے۔ ٹرمپ کی جانب سے اس پالیسی کو ترک کرنے سے قبل اس ماڈل کے ذریعے امریکی مفاد کے تحفظ کے ساتھ دنیا کو بھی محفوظ بنایا جارہا تھا۔ ٹرمپ کی جانب سے ایران سے معاہدے کو بدترین معاہدہ قرار دیا گیا۔ یہ ناقابل اعتبار ممالک سے نمٹنے کاالگ ماڈل ہے، جس کی جھلک ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جوہری ہتھیاروں پر شمالی کوریا سے مذاکرات میں نظرآنی چاہیے تھی، لیکن اس صورت میں تو ٹرمپ کا سارا انحصار دھمکی آمیز بیانات دینے پر ہو جاتا، بہرحال ٹرمپ کی ٹیم سیکھ رہی ہے کہ مخالفین سے براہ راست مذاکرات کرنا مشکل ہے، اس کے لیے ہمت، استقامت اور اپنی طاقت کا درست اندازہ لگانا ضروری ہوتا ہے۔
زیادہ تر ایرانی قیادت انقلابِ ایران ۱۹۷۹ ء کے دور سے تعلق رکھتی ہے، جب آیت اللہ خمینی کے ماننے والوں نے دیگر کے ساتھ مل کر شاہ ایران کا تختہ الٹ دیاتھا۔جس کے ایک برس بعد خمینی کے حامیوں اور ایرانی یورسٹیوں کے طلبہ نے تہران میں امریکی سفارخانے پر قبضہ کرکے۵۲ سفارت کاروں کو یرغمال بنالیا۔
انقلابیوں کی کامیابیوں نے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ ایرانی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی اکثریت براہ راست انقلاب لانے والوں میں شامل رہی ہے، ان میں کچھ امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنانے والے بھی شامل ہیں، انقلاب میں شریک ہونے کا تجربہ آج بھی ایران کی سیاسی اشرافیہ کو متحد رکھتا ہے۔ یہ پس منظراس بات کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہے کہ جوہری معاہدے پر بات چیت کے دوران ایرانی سوچ کیا تھی۔ تہران میں حکومتی شخصیات کے درمیان اختلافات موجود ہیں، مشرق وسطیٰ کی دیگر حکومتوں کی طرح ہی تہران میں بھی آیت اللہ خامنہ ای اور منتخب صدر روحانی کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔ معاشرہ کافی حد تک مضبوط ہے، ملک میں بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ مڈل کلاس موجود ہے۔ حکومت طاقتور ہونے کے باوجود بہت سے اندرونی چیلنجوں کا مقابلے کرنے میں تاحال ناکام ہے، لیکن تہران بیرون ملک اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی مدد کرکے اپنی طاقت کا اظہار کررہا ہے، عراق میں شیعہ ملیشیا کی مدد بھی کی جارہی ہے، اس کے ساتھ شام کی خانہ جنگی میں اسد حکومت کو مدد اور مالی وسائل فراہم کیے جارہے ہیں۔ اندرون ملک آمرانہ طرز حکومت اور بیرون ملک پُراعتماد مداخلت نے ایرانی قیادت کو انتہائی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ خود کو امریکاکے زیر قیادت اسلام مخالف مغربی قوتوں میں گِھرا تصور کرتے ہیں، تہران کو وہم ہے کہ مغربی طاقتیں ایران مخالف قوتوں کے ساتھ مل کر خطے میں اس کے کردار کے خاتمے کی سازش کررہی ہیں اور وہ اسلامی ریاست کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ان خطرات کے حوالے سے تیاری کرنے کے لیے ایرانی حکومت اپنے شہریوں کے سامنے امریکا کو بڑا خطرہ بنا کرپیش کرتی ہے۔ صدر اوباما کی قیادت میں ہم اس امید کے ساتھ اس معاہدے پر متفق ہوئے تھے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانابند کردے گا۔اوباما نے اپنے خطا ب میں آمرانہ حکومتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاتھاکہ’’وہ ایک قدم بڑھائیں گے توہم دس قدم بڑھائیں گے‘‘۔یہ بیان امریکا کی ایران کے حوالے سے گزشتہ۲۵ برس کی پالیسی میں بڑی تبدیلی تھی۔
سفارت کاروں کو یرغمال بنانے کے فوری بعد امریکا نے ایران پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔۱۹۸۴ء میں لبنان میں۲۴۱؍ امریکی اہلکاروں کی ہلاکت میں ایرانی حکومت کے ملوث ہونے کا یقین ہونے کے بعد ریگن انتظامیہ نے ایران پر مزید پابندیاں عائد کردیں۔کلنٹن نے اپنے دورحکومت میں ایرانی تیل کی صنعت پر امریکی کمپنیوں کے سرمایہ لگانے پر پابندی عائد کی،۱۱ستمبر کے حملوں کے بعدصدربش نے ایران کو بدی کے محور ممالک میں شامل قرار دیا اور ایران سے تجارت کرنے والوں کو سزادینے کے لیے پابندی عائد کردی۔ ۲۰۰۳ ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اہم یورپی ممالک کے ساتھ ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر بات چیت کا آغاز کیا۔ لیکن صرف تین برس بعد ہی بات چیت کا سلسلہ منقطع ہوگیا، جس کے بعد اقوام متحدہ اور امریکا نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کردیں، جس میں اس کی بم بنانے کی صلاحیت کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ پھر یورپی یونین اور چھ ممالک (چین، فرانس،روس،برطانیہ، امریکا،جرمنی) نے مل کر مشترکہ حکمت عملی تشکیل دی،انہوں نے ایران کو یورینیم کی افزودگی روکنے کے بدلے پابندیوں کے خاتمے کی پیشکش کی،اس دوران دباؤ ڈال کرایران کے لیے جوہری پروگرام کی معاشی قیمت کو بہت بڑھا دیا گیا۔۲۰۰۶ء میں ایران نطنز کے علاقے میں۱۶۴ سینٹری فیوجز پر مشتمل یورینیم کی افزودگی کا پروگرام چلا رہاتھا، اس وقت کثیر ملکی مذاکرات بھرپور انداز میں جاری تھے،۲۰۱۳ء میں سخت ترین پابندیاں عائد کی گئیں، اس وقت ایران کے پاس۱۹؍ہزار آپریشنل سینٹری فیوجز موجود تھے، پابندیوں سے ایرانی معیشت کو نقصان پہنچا، لیکن اس کے جوہری عزائم پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ امریکا، سعودی عرب اور اسرائیل میں موجود سخت گیر عناصر طویل عرصے سے ایرانی جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کا مشورہ دے رہے تھے، لیکن فضائی حملے ایرانیوں کو جوہری بم بنانے کے عزائم سے باز نہیں رکھ سکتے تھے۔فضائی حملوں سے بھاری نقصان تو پہنچایا جاسکتاتھالیکن جوہری پروگرام کا خاتمہ ناممکن تھا۔اگر بمباری سے جوہری پروگرام تین سے پانچ برس پیچھے چلابھی جاتا تواس حملے سے ایران کو جوہری بم بنانے کی کوششیں تیز کرنے کا زبردست جواز بھی مل جاتا اور وہ یہ کام انتہائی راز داری کے ساتھ کرتا۔اوباما کو کوئی غلط فہمی نہیں تھی کہ بھاری وسائل خرچ ہونے کی وجہ سے ایران جلد اپنا جوہری پروگرام ختم کرنے پر مجبو ر ہوگا، اس لیے ہی وہ بات چیت جاری رکھنے پر یقین رکھتے تھے،اس دوران انہوں نے ایران کی ترقی روکنے کے لیے یکطرفہ اقدامات کیے۔۲۰۱۱ء میں نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یورینیم کو افزودہ کرنے والے سینٹری فیوجز کومتاثر کرنے کے لیے ایران کے ایٹمی ایجنسی کے نیٹ ورک میں کمپیوٹر وائرس داخل کیا گیا۔ اوباما نے نیا۳۰ ہزار پاؤنڈ کا بم بھی فوج کو دیا، جوایران کی زیرزمین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا، اس کے ساتھ اوباما انتظامیہ ایران پر معاشی پابندیاں سخت کرتی چلی گئی،جس میں ایرانی تیل کی برآمدات روکنے کے لیے دیگر ممالک کو بھی شامل کرلیا گیا۔ صدر کا مقصد صرف ایرانیوں کو دھمکانا نہیں تھا بلکہ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالنا بھی تھا۔
عباس ارغچی اور ماجد روانچی سے میری پہلی ملاقات ۲۰۱۳ء کے جنر ل اسمبلی اجلاس کے دوران نیویارک میں ہوئی، بعد میں ان دونوں نے مذاکرات میں ایران کی نمائندگی کی۔ اس سے قبل حسن روحانی ایرانی صدر منتخب ہوچکے تھے، روحانی نے محمد جواد ظریف کو اپنا وزیرخارجہ مقرر کردیا، جواد سان فرانسسکو کی ریاستی یونیورسٹی میں طالب علم رہ چکے ہیں، جب کہ انہوں نے بین الاقوامی امور میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری ڈینور یونیورسٹی سے حاصل کی، جواد زمانہ طالب علمی میں انقلابی رہ چکے ہیں، انہوں نے انقلاب کے دوران سان فرانسسکو میں موجود ایرانی قونصل خانے پر قبضہ کرکے سفارکاروں کو نکال باہر کیا تھا۔ ان سب چیزوں کے باوجود جواد کے امریکیوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔۸۰ کی دہائی کے آغاز میں جواد امریکا واپس آکر اقوام متحدہ میں موجود ایرانی مشن کا حصہ بن گئے، جس کے بعد وہ ترقی کرتے ہوئے سفیر کے عہد تک پہنچے۔روحانی کے نئے وزیر خارجہ جواد نے ایک بار پھر نیویارک میں حوصلے کے ساتھ ذمہ داری سنبھال لی تھی۔ عباس اور ساجد بھی نئے وزیر خارجہ کے ہمراہ تھے، ان کی آمد کا ایک مقصد امریکی ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ ولیم برنس اور نائب امریکی صدر جو بائیڈن کے مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان سے ملاقات کرنا بھی تھا۔ ولیم اور جیک وائٹ ہاؤس اور وزارت خارجہ کے اہلکاروں پر مشتمل مختصر ٹیم کے ہمراہ کئی مہینوں تک اومان میں ساجد اور عباس سے خفیہ مذاکرات کرتے رہے تھے، یہ انقلاب ایر ان کے بعد پہلی بار امریکی اور ایرانی حکام کا اعلیٰ سطحی رابطہ تھا۔ ۲۰۱۲ میں اومان کے سلطان قابوس نے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے سینیٹرجان کیری سے رابطہ کیاتھا۔ جان کیری امریکی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ بھی تھے، سلطان قابوس نے جان کیری کو امریکا اورایران کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کی پیشکش کی تھی۔ جس کے بعدجان کیری نے کئی مرتبہ اومان کا دورہ کیاتھا، ان دوروں کا مقصد یہ جاننا تھا کہ کیا واقعی سلطان قابوس امریکا کا بیک چینل رابطہ ایران کے بااختیار افراد سے کراسکتے ہیں، جس میں خامنہ ای بھی شامل ہیں۔اس کے بعد جیک وائٹ ہاؤس کے مشرق وسطیٰ امور کے ماہر پیونیٹ تالوار کے ہمرا ہ اومان گئے اور ایرانی حکام سے ملاقات کی۔انہوں نے واپس آکر اوباما اور ہیلری کلنٹن کو رپورٹ دی کہ ایران امریکی صدر کی پیشکش پر مذاکرات کرنے میں بظاہر سنجیدہ نظر آتا ہے۔جس کے بعد سرکاری سطح پر مذاکرات کے لیے ولیم نے مجھے ایک انڈر سیکرٹری اور امریکی وفد کی سربراہ کی طور پرعباس اور ساجد سے متعارف کرایا، اس دن سے پس پردہ مذاکرات سرکاری مذاکرت میں تبدیل ہوگئے۔ یہ ایک بہت مشکل اجلاس تھا، عباس اورساجد بہت محتاط تھے، انہوں نے اپنے قدامت پسند اسلامی نظریات کے مطابق مجھ سے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کیا، پھر بھی انہوں نے ہمیں حوصلہ دیا کہ حسن روحانی کا منتخب ہونا مذاکرات میں ایک نیا آغاز ہے،ہم جانتے تھے کہ حسن روحانی مغرب سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ پابندیوں نے عام ایرانی کی زندگی کو انتہائی مشکل بنادیا ہے، ملک میں مہنگائی انتہا پر ہے، لوگوں کو بنیادی اشیا کی خریداری کے لیے بھاری رقوم ادا کرنی پڑتی ہیں،حسن روحانی اپنے پیش رو احمدی نژاد کے برعکس عوام کا معیار زندگی بلند کرنا چاہتے ہیں، اور جواد ظریف کی تقرری اس بات کا ثبوت ہے کہ حسن روحانی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیا رہیں۔حسن روحانی منتخب ہونے کے بعد یہ جان کرحیران اور خوش ہوئے کہ امریکا اور ایران کے درمیان پہلے ہی مذاکرات جاری ہیں،حلف اٹھانے کے تین دن بعد ہی انہوں نے چھ ملکی مذاکرات کی بحالی کا اعلان کردیا، یہ مذاکرات ایران میں انتخابی مہم کے دوران معطل ہوگئے تھے۔روحانی کے صدر بننے سے پس پردہ مذاکرات کو نئی طاقت مل گئی تھی،ادھر امریکا میں بھی حکومتی عہدوں میں اہم تبدیلیاں ہوئی تھیں۔
۲۰۰۳ء میں ایران میں یورینیم افزودہ کیے جانے کی تصدیق ہوچکی تھی،اس وقت سے واشنگٹن ایران سے یورینیم افزودگی مکمل طور پر بند کرنے کا مطالبہ کررہاتھا، جب کہ ایرانیوں کا دعویٰ تھا کہ یورینیم صرف غیر فوجی مقاصد کے لیے افزودہ کی جارہی ہے، یہ خودمختار قوم کی حیثیت سے ان کا حق ہے اور یہ کسی معاہدے کی خلاف ورزی بھی نہیں۔ صدر اوباما نے فیصلہ کیا کہ ایران کو محدود پیمانے پر یورینیم افزودہ کرنے کی ا جازت دینے کی پیشکش کی جائے، جس کے لیے ایران کو یورینیم افزودہ کرنے کے عمل کی کڑی نگرانی کی اجازت دینی ہوگی، بہرحال یہ پیشکش واشنگٹن کے اتحادی یورپی ممالک پہلے ہی ایران کو کر چکے تھے۔ عملی طور پر اوباما نے بہت زیادہ کی پیشکش نہیں کی تھی۔ ایرانی پہلے ہی یورینیم افزودہ کرنے میں ماہر تھے اور وہ امریکا کی پرواہ کیے بغیرافزودہ یورینیم ذخیرہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھ سکتے تھے، یورینیم افزودگی پر مکمل پابندی عائد کرنے پر اصرار سے امریکا اور یورپی اتحادیوں کو مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملناتھا، اس سے ایران کو واشنگٹن کو ایک ضدی فریق کے طور پر پیش کرنے کا موقع ملتا۔ دوسری طرف نئی پیشکش کے ذریعے ایران میں یورینیم کی افزودگی کو محدودکیا جاسکتا تھا، اس سے ایران کویہ کہنے کا موقع بھی ملتا کہ وہ دنیا سے سول جوہری پروگرام کا حق منوانے میں کامیاب ہوگیا ہے، اس کے ساتھ ہی مشروط طور پر ایران پرسے پابندیوں کا خاتمہ بھی ہوجاتا،تزویراتی طو رپر ایران اس پیشکش سے انکار نہیں کرسکتا تھا اور سیاسی طور پر بھی اس کے پاس ہاں کہنے کا جواز موجود تھا۔ اس سال نومبر میں جب چھ ملکی مذاکرات جنیوا میں بحال ہوئے تومیرا خیال تھا کہ ایرانیوں سے روز ہونے والی ملاقاتوں کے دوران ذاتی تعلق بنانا مشکل کام ہوگا، یہ میرے لیے بڑا مسئلہ تھا، میرے ایرانی ہم منصب ابھی تک مجھ سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے، قدامت پسند مسلمان جنس مخالف کو چھونا پسند نہیں کرتے۔ مشرق وسطی جانے والے سفارت کاروں اور دیگر افراد کو کام کی جگہ پر اپنے لیے بہتر ماحول بنانا پڑتا ہے۔ ایک دن مذاکرات میں وقفے کے دوران میں نے عباس اور ساجد کے ساتھ خواتین سے ہاتھ نہیں ملانے کا موضوع چھیڑ دیا۔ میں نے بتایا کہ میرا بچپن بالٹی مور میں یہودیوں کے درمیان گزرا ہے۔ میرے بہت سارے پڑوسی آرتھوڈکس یہودی تھے،ان میں کچھ لوگ قدامت پسند مسلمانوں کی طرح قریبی رشتوں کو چھوڑ کر جنس مخالف کو چھونے سے گریز کرتے تھے۔ عباس اور ساجد نے میری کہانی بڑی دلچسپی سے سنی، انہیں پتا ہی نہیں تھا کہ ہاتھ نہیں ملانے کی روایت ان میں اور آرتھوڈکس یہودیوں میں مشترک ہے، میں نے انہیں اپنے پس منظر کے بارے میں بتایا تھا، میں صرف امریکا کی نمائندہ نہیں تھی، میں ایک انسان کے طور پر ان کی ثقافت کا احترام کرتی تھی۔ ایران کے ساتھ مشترکہ پس منظر قائم کرنا سیاسی اور نفسیاتی طورپربہت اہم تھا، کیوں کہ اس سے ان کی گفتگو کا لہجہ تبدیل ہوگیا تھا، جو وہ امریکیوں کے حوالے سے رکھتے تھے۔ یہ مذاکرات ایرانیوں کے لیے ذاتی اور پیشہ ورانہ طور پر ہم سے زیادہ اہم تھے۔ اگر ہماری ٹیم معاہدہ کرنے میں ناکام رہتی یا ہماری ملک میں مقامی مخالفین ہماری واپسی کا مطالبہ کررہے ہوتے اور معاہدے کو غداری قرار دیا جارہاہ وتا تو بھی ہمارا کیرئیر ختم نہیں ہوتا اور ہماری ساکھ بھی برقرار رہتی۔ ہمارے ملک کو زبردست خطرہ لاحق ہوسکتا ہے لیکن ایک عام امریکی اس کوفوری محسوس نہیں کرتا ہے،لیکن ایرانی اس طرح نہیں سوچتے ہیں۔ ایک اور پریشانی یہ تھی کہ ایرانیوں کو غصہ تھا کہ سابق نوآبادیاتی طاقتوں کے نمائندے انہیں بتارہے ہیں کہ ایران کے پاس کون سے ہتھیارہوسکتے ہیں۔۱۹۵۳ء میں امریکا اور برطانیہ نے ایران کی جمہوری حکومت کیخلاف فوجی بغاوت کرائی تھی،تاکہ ایک ماتحت ریاست تشکیل دی جاسکے، ایرانیوں کے خیال میں اس وقت یہ سب کچھ تیل کے لیے کیا جارہا تھا، لیکن ایرانی مزاحمت نے اسے انتہائی نامعقول راہ پر ڈال دیاتھا۔ پابندیاں نرم کرنے کی پیشکش کے جواب میں ایرانیوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ دعویٰ نامعقول تھا، مگر ایرانیوں کی طرف سے اپنی عزت کے اظہار کے لیے ضروری تھا۔ ان کے لیے مذاکرات میں شریک ہر شخص مغربی کرپشن اور تکبرکی علامت تھا، جس کا انقلاب ایک عرصے سے سامنا کررہاتھا۔ عالمی طاقتوں کی خواہشات نے ان کی خود اعتمادی کو دھوکا دیاتھا۔ نومبر ۲۰۱۳ء کے اختتام تک فریقین اہم اختلافات ختم کرکے ایک عبوری معاہدے پر متفق ہوچکے تھے۔چھ ممالک نے ایران پر سے کچھ پابندیوں کاخاتمہ کردیا،جس سے اس کو معاشی طور پر فائدہ ہوا، ایران کے بیرون ممالک میں موجود ۷؍ارب ڈالر کے منجمد بینک اکاؤنٹس بحال کر دیے گئے، ایرانی آٹوانڈسٹری اور طیاروں کے پرزوں کے حوالے سے پابندیاں ختم کردی گئیں تاکہ ایران اپنی کمزور ایئر لائن کو مضبوط بنا سکے۔ بدلے میں ایران کو بڑے پیمانے پر یورینیم کی افزودگی روکنا تھی اور عالمی معائنہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے کی اجازت دیناتھی،اس طرح یہ منصوبہ تھاطویل مدتی معاہدے کے لیے ایرانیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کا اورایرانی عوام کو بتانے کا کہ اس معاہدے سے کیا کچھ حاصل کیاجاسکتاہے۔ادھر ایران سے مذاکرات کے حوالے سے امریکامیں بھی بہت کچھ ہورہاتھا،اوباما کے ایران سے مذاکرات کے فیصلے کو سخت مخالفت کا سامنا تھا، جیسے عام طور پر ریاستوں کو قائم رکھنے کے لیے کیاجاتاہے،جیسے ہی معاہدے نے حتمی شکل لینی شروع کی کانگریس کی مخالفت حکومتی سربراہ کو پریشان کرنے لگی،ایران سے معاہدہ کوئی ٹریٹی نہیں تھا، جس کی منظوری کے لیے سینیٹ میں ۶۰ووٹوں کی ضرورت پڑے۔یہ معاہدہ امریکی آئین کے مطابق انتظامی اختیارات کے ساتھ بھی کیا جاسکتا تھا۔ حالیہ برسوں میں دیگر ممالک سے بڑے پیمانے پر کاروبار کی وجہ سے صدر ٹریٹی کے بجائے معاہدوں کو ترجیح دیتا ہے، کیونکہ ٹریٹی کو سینیٹ سے منظورکرانا مشکل ہوتا ہے۔۲۰۱۲ء میں ری پبلکن سینیٹ نے معذوروں کے حوالے سے ایک ٹریٹی کو مسترد کر دیا تھا۔ اوباما کے پاس ایران سے معاہدے کو انتظامی اختیار کے تحت منظور کرنے کی ایک اور اہم وجہ موجود تھی۔ معاہدے کے تحت ایرانی سرگرمیوں پر مسلسل نظر رکھی جانی تھی اور خلاف ورزی کی صورت میں پابندیاں دوبارہ نافذ کی جانی تھیں، ایک ٹریٹی میں اس طرح کی گنجائش نکلنا بہت مشکل کام تھا۔ بہرحال کانگریس کو انتظامی اختیار کے تحت پابندیاں ختم کرنے کے فیصلے کو مسترد کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ جیسے ہی معاہدہ مکمل ہونے کے قریب پہنچا سینیٹرز نے معاہدے پرایوان میں ووٹنگ کرانے کے لیے دباؤ بڑھا دیا۔ اس سے نہ صرف اختیارات کے حوالے سے سوالات کھڑے ہوسکتے تھے بلکہ پورا معاہدہ ہی خطرے میں پڑ سکتاتھا۔ بہرحال اس معاہدے کے حوالے سے دونوں جماعتوں کے بہت سے سوالات جائز تھے، سیاسی وجوہات کی بنا پر ری پبلکن اس معاہدے کوناکام ہوتا دیکھنا چاہتے تھے،جیسے ہی معاہدے کو حتمی شکل دی گئی، حزب اختلاف نے دباؤ میں اضافہ کردیا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو آغاز سے ہی اوباما انتظامیہ کومتنبہ کررہے تھے کہ ایران سے مذاکرات اس کو جوہری صلاحیت حاصل کرنے کے لیے مزید وقت دینے کے مترادف ہے، وہ مسلسل ایرانی جوہری تنصیبات پر فوجی حملے کا مشورہ دے رہے تھے۔۲۰۱۵ء میں اسرائیلی وزیراعظم نے ری پبلکن اسپیکر کی جانب سے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے کی دعوت قبول کی۔ اس خطاب میں نیتن یاہو نے غیر معمولی انداز میں معاہدے کی مذمت کی اور پارٹی کو وائٹ ہاؤس میں تبدیلی کے لیے اکسایا، یہ خطاب مذاکرات پر کوئی بم پھینکنے جیسا تھا۔ ایرانی مذاکرات کار نیتن یاہو کے سخت بیانات کے عادی ہوچکے تھے، مگردرحقیقت بہت پریشان تھے کہ امریکی کانگریس اس معاہدے کو تسلیم کرے گی۔ نیتن یاہو کا خطاب تو صرف ایک آغاز تھا، کچھ دن بعد ری پبلکن سینیٹر’’ٹام کاٹن‘‘نے ایرانی قیادت کے نام ایک کھلا خط لکھا۔ جس میں کہا گیا کہ امریکی کانگریس کی منظوری کے بغیر کوئی بھی معاہدہ صرف اوبا ما کے دورحکومت تک برقرار رہ سکے گا، اگلا صدر یک جنبش قلم معاہدے کو منسوخ کردے گا اور کانگریس معاہدے کی شرائط بھی تبدیل کرسکتی ہے۔ خط نے امریکی مذاکراتی ٹیم کو حیران کرکے رکھ دیا تھا، اس خط پرمزید۴۶ ری پبلکن سینیٹرز کے دستخط موجود تھے۔ہم میں سے کوئی بھول نہیں پائے گا کہ خارجہ امور کے حوالے سے انتظامی فیصلے کو کانگریس کھلے عام تباہ کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
ٹام کرٹن نئے نئے سینیٹر بنے تھے، وہ عراق میں جنگ لڑ چکے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ایران میں حکومت کی تبدیلی بہت ضروری ہے۔مگر ٹام اور اہم تنقید نگار سفارت کاری کا اہم اصول بھول رہے تھے، ’’آپ کو حالات کے مطابق چیزوں سے نمٹنا ہوتا ہے ناکہ اپنی خواہشات کے مطابق‘‘، کیا ہمارے خیال میں ہمیں تہران میں قدامت پسند حکومت کے خاتمے تک انتظار کرنا چاہیے، لیکن اس کے بعد تو مذاکرات کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ اچھا سفارت کار کبھی بھی موقع ضائع نہیں کرتا، ہم نے نیتن یاہو کی تقریر اور ٹام کا خط اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔ جب ایرانی دعویٰ کررہے تھے کہ ہم ان سے بہت زیادہ مانگ رہے ہیں اور اس معاہدے کو تہران سے قبول کرانا مشکل ہوجائے گا تو ہم نے بتایا کہ صرف آپ ہی سیاسی خطرے کا سامنا نہیں کر رہے، آپ نیتن یاہو کا خطاب اور ٹام کا خط دیکھ سکتے ہیں، ہمیں بھی اپنے ملک میں مسائل کاسامنا ہے۔ بہرحال ۱۴؍جولائی ۲۰۱۵ ء کو چھ ممالک نے باقاعدہ معاہدے کا اعلان کردیا۔
ڈیموکرٹیس نے سینیٹ میں ری پبلکن کو معاہدے کے خلاف اقدامات سے روک دیا تھا۔ اس موسم بہار میں واضح ہوگیا تھا کہ صدر ٹرمپ اس معاہدے سے پیچھے ہٹنے کامنصوبہ رکھتے ہیں۔ ایران اب تک اپنی توقع کے مطابق پابندیوں کے خاتمے کے معاشی فوائدبھی نہیں اٹھا سکا تھا۔ امریکی کانگریس ایران کی عراق میں بڑھتی موجودگی، حزب اللہ اور شام میں اسد حکومت کی حمایت پر سخت ناراض تھی۔ ایران پرجوہری معاہدے کے نتیجے میں ختم نہ ہونے والی پابندیاں بھی برقرار تھیں۔ ایران عالمی کمپنیوں کی مقامی منڈیوں میں شمولیت کے حوالے سے مشکلات بھی دور کرنے میں ناکام رہا تھا۔کئی بڑی کمپنیا ں جیسے ایئر بس، ایلینز، بوئنگ، پیگوٹ، رینولٹ، سیمنز اور ٹوٹل وغیرہ نے ایران میں کام کاآغاز کیاتھا، سکیورٹی تحفظات اور کرپشن کے خدشات کی وجہ سے کئی مغربی بین الاقوامی کمپنیوں نے ایران میں سرمایہ کاری نہیں کی۔ایران میں دہری شہریت کے حامل افراد کو سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے نشانہ بنایاجانا معمول ہے، اس حوالے سے کئی افراد کو گرفتار بھی کیا جاچکا ہے۔ٹر مپ کی صدارت نے معاہدے کے حوالے سے صورتحال کو سنگین کردیا تھا، ٹرمپ انتظامیہ نے معاہدے کو کمزور کرنے کے لیے قانون سازی کی تجویز دی اور امریکی کمپنیوں کو ایران میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا، ان اقدامات سے ایران میں قدامت پسندوں کو فائدہ ہوا، قدامت پرستوں کا کہنا ہے کہ ثابت ہوگیا کہ امریکا کبھی بھی معاہدے کا احترام کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا، صدر ٹرمپ ہمیشہ معاہدے پر تنقیدی ٹوئٹ کرتے رہتے ہیں، امریکی نقطہ نظر کے مطابق سچ یہ ہے کہ معاہدہ بہت بہترین انداز میں اپنا کام کررہا تھا۔
ایران کی جانب سے جوہری تنصیبات کے معائنے کی شرائط پر عمل درآمد کیا گیا اور ایران نے ہر بار صورتحال کو بہتر بنایا۔ اپریل میں میری جواد ظریف سے اس صورتحال پر گفتگو ہوئی، اگرچہ وہ پرسکون تھے مگر میں جانتی ہوں کہ انہیں صورتحال کا مکمل ادراک تھا، انہوں نے خدشے کا اظہار کیا کہ اگر امریکا معاہدے سے پیچھے ہٹا تو کیا ہوگا۔ معاہدے پر چھ ممالک نے دستخط کیے، ان میں امریکا محض ایک فریق ہے، مگر امریکا کی معاشی طاقت اس کی اہمیت کو بڑھا دیتی ہے، امریکی پابندیوں کی بحالی معاہدے کوختم کرکے رکھ دے گی، خاص طور پر ایرانی مرکزی بینک کے ساتھ کام کرنے والی کمپنیوں پر امریکا میں پابندی سے صورتحال مزید سنگین ہوجائے گی، اس سے ایران کی بیرونی سرمایہ کاری لانے کی ہر کوشش ناکام ہوجائے گی۔ میں نے جواد ظریف سے ایک اور اہم بات کہی کہ کیا ایران واقعی معاہدے پر عمل جاری رکھے گا، یورینیم کی افزودگی معاہدے میں طے مقدار کے مطابق ہو گی اورعالمی معائنہ کاروں کے لیے اس کے دروازے کھلے رہیں گے۔ میں نے ایک اور بات انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ معاہدے پر عدم اعتماد کی وجہ ایران کی عراق، لبنان، شام اور یمن میں مداخلت ہے۔ڈیموکریٹس اور ری پبلکن کے نزدیک یہ خطرناک سرگرمیاں عدم استحکام پیدا کررہی ہیں۔ میں نے تسلیم کیا کہ جوہری معاہدہ ایران کی اپنی سرحد سے باہر کی سرگرمیوں کااحاطہ نہیں کرتا، لیکن انتظامیہ معاہدے کی آڑ میں ایران کو مشرق وسطیٰ کو کنٹرول کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی۔ میں نے جواد ظریف کو سمجھایا کہ انہیں اپنی حکومت کو ماحول کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے قائل کرنا چاہیے اور ایران میں موجود امریکیوں کو گھر جانے کی اجازت دینی چاہیے۔
ٹرمپ نے امریکا کی جانب سے معاہدہ ختم کرنے کا باقاعدہ اعلان کرنے میں کافی تاخیر کی، ٹرمپ کی پالیسیوں میں کم ہی معقولیت نظر آتی ہے، وہ صرف اوباما کے فیصلوں کو ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، پھر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نتائج اور حالات کیا ہوں گے، صدر کے چھ ملکی معاہدے سے نکلنے کو ہمیشہ پاگل پن ہی کہاجائے گا۔ ٹرمپ کے ابتدائی دور کے مشیروں کی مہربانی سے معاہدے کومزید کچھ وقت مل گیا، کیوں کہ وہ اس معاہدے کی اہمیت جانتے تھے، لیکن ٹرمپ انتظامیہ میں جاری انتشار کی وجہ سے وہ مشیر زیادہ عرصہ کام نہیں کرسکے۔ اب ٹرمپ انتظامیہ میں سخت گیر جان بولٹن نے قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر ایران کے حوالے سے پالیسی کا کنٹرول سنبھالا ہے، بظاہر ایسا لگتا ہے کہ صدر اسرائیل اور سعودی عرب کوخوش کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ کی جانب سے اب ایران میں طاقت کے زور سے حکومت کی تبدیلی کی دھمکی دی جارہی ہے۔ حیران کن طور پر یہ سب وہ حکومت کررہی ہے جو افغانستان، شام اور جزیرہ نما کوریا سے فوجیوں کا انخلا چاہتی ہے۔ اگر ٹرمپ نے ایران میں امریکی خون اور پیسہ بہانے کا فیصلہ کرلیا، تو لڑائی کو ایران تک محدود رکھنا مشکل ہوجائے گا، جب کہ تہران میں قدامت پسندوں کی حکومت بھی برقرار رہے گی اور ہمیشہ کی طرح امریکا ناقابل اعتبار ٹھہرے گا، عراق، شام اور دیگر جگہوں پر حالات بہتر بنانے کی کوششیں بھی ناکام ہوجائیں گی۔ اگر یورپ جوہری معاہدے پر قائم بھی رہتا ہے تو ایران کے ساتھ اس کا تعاون غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوجائے گا اور یورپ کو امریکا کے دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔تقریبا تمام بڑی کمپنیوں نے ہی ایران میں کام کرنے کے منصوبوں کو ترک کردیا ہے، ایران معاہدے کے نتیجے میں معاشی ترقی کے لیے پر امید تھا، اس صورتحال کے بعد ایرانی حکومت اپنا رخ روس اور چین کی طرف کرلے گی۔ سب سے بدترین صورتحال ایران کی جانب سے معاہدہ منسوخ کرنے اور عالمی معائنہ کاروں کو روکنے کا فیصلہ ہوگا، اس سے ایران کے جوہری بم بنانے کا خطرہ بہت زیادہ بڑ ھ جائے گا۔ تہران کے حالیہ بدتر رویے کے مدنظر جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران بدترین ہوگا کیوں کہ اس سے ایران زیادہ جارحانہ اندازمیں آگے بڑھ سکے گا اورامریکا اور اس کے اتحادیوں کو پیچھے دھکیل دے گا۔
ٹرمپ نے ایران کو مستقبل کی حکومت کے لیے ناقابل حل مسئلہ بنا دیا ہے، ٹرمپ کے رویے نے واشنگٹن پر اس کے اتحادیوں کا اعتماد کم کردیا ہے، اب امریکی اتحادیوں کے لیے مستقبل میں کوئی معاہدہ کرتے ہوئے واشنگٹن کے مفادات کا خیال رکھنا مشکل ہوگا۔ ٹرمپ نے ایک اچھے جوہری معاہدے کو اٹھا کر باہر پھینک دیا ہے، انہوں نے معاہد ے کی توثیق کا نیا معیار متعارف کرایا ہے، اس سے امریکی پابندیوں کا مضبوط جال کمزور ہوگیا ہے۔ اب مخصوص بین الاقوامی حالات جن میں ایران نے معاہدہ کیا تھا دوبارہ پیدا کرنا مشکل ہوگا۔ چھ ملکی معاہدہ سفارت کاری کا بہترین نمونہ تھا۔ اب ٹرمپ شمالی کوریا سے معاہدہ کرنے میں حائل مشکلات کا حل تلاش کررہے ہیں۔ امریکی اتحادیوں اور حریفوں کے لیے شمالی کوریاکے ساتھ ایک قابل بھروسہ جوہری معاہدے کی حمایت کرنا مشکل ہوگا۔ ٹرمپ کے ہر دھمکی آمیز ٹوئٹ اور خالی وعدوں کی فہرست سامنے آنے کے بعد مجھے ایرانی جوہری معاہدہ مزید بہتر لگنے لگتا ہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“How we got the Iran deal”.(“Foreign Affairs”. August 2018)
Leave a Reply