آج کی گفتگو میں اپنے دوست اور کرم فرما آنجہانی رالف رسل کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ رسل صاحب کا گزشتہ دنوں لندن میں انتقال ہو گیا۔ وہ کئی ماہ سے کینسر کا علاج کروارہے تھے۔ اس مرض کے علاج کے لیے آج کل ڈاکٹروں کے پاس دوائیں تو بہت سی ہوتی ہیں مگر ہم نے آج تک کسی کو شفا ہوتے نہیں دیکھی۔ رسل صاحب بھی کینسر کا شکار ہو گئے۔ کئی ماہ تک وہ دوائوں کی مدد سے اس مرض کا مقابلہ کرتے رہے، آخر کار انہیں اوپر سے بلاوا آ گیا۔
اردو دنیا کے لیے رالف رسل کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ انہوں نے انگریزی پڑھنے والوں کو اردو ادب اور اس کی شخصیتوں سے متعارف کرانے کے لیے آدھی درجن کے قریب کتابیں لکھی ہیں۔ اس زبان سے ان کا واسطہ دوسری جنگ عظیم کے دوران پڑا جب وہ بھرتی ہو کر ہندوستان آئے۔ اس وقت تک اس ملک میں انگریزوں کا راج تھا اور اس راج کو بچانے کے لیے انہیں فوج میں بھرتی ہونا پڑا تھا۔ یہ تو ایک طرح سے ان کی مجبوری تھی۔ مگر ہندوستان آنے کا انہیں ایک فائدہ یہ ہوا کہ اردو سے ان کی شناسائی ہو گئی اور یہ شناسائی پھر زیادہ گہری دلچسپی میں تبدیل ہوتی گئی۔ جنگ سے پہلے رالف رسل کیمبرج یونیورسٹی سے ایک ڈگری لے چکے تھے۔ جنگ کے بعد انہوں نے اردو کا ایک امتحان دیا اور ۱۹۴۹ء میں انہوں نے اردو کی ایک ڈگری بھی لی۔ اس وقت تک وہ روانی سے اردو بولنے لگے تھے۔
ان ہی دنوں کی بات ہے کہ دلّی میں قیام کے دوران رالف رسل سے ہمارا تعارف ہوا۔ ان کی شادی کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اور وہ اپنی بیگم کو دلی دکھانے کے لیے ایک دوست کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔ مئی کا مہینہ تھا اور ان کی بیگم گرمی سے بہت پریشان تھیں مگر رالف صاحب تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گرمی کے عادی ہو چکے ہیں، کھانے کے معاملے میں بھی وہ بہت حد تک ہندوستانی معلوم ہوتے تھے۔ روٹی کے ساتھ اگر ان کی پسند کا سالن نہ ہو تو پیاز اور اچار کے ساتھ ہی گزر کر لیتے۔ انگریزوں والی ان میں کوئی بات معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس وقت تک ہمارے ذہن میں انگریز کا تصور یہ تھا کہ جس کے پاس بہت بڑا بنگلہ ہو، گیراج میں بہت بڑی کار ہو اور نوکروں کی پلٹن اس کے گھر کا کام کرنے کے لیے ہو۔ انگریز ڈپٹی کمشنر کے گھر کا تو ایسا ہی نقشہ ہوتا ہو گا مگر رالف رسل تو ڈپٹی کمشنر نہیں تھے حکومت سے تو ان کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا، کیمبرج یونیورسٹی سے انہوں نے ڈگری لی اور پھر لندن میں افریقی و ایشیائی زبانوں کے اسکول میں اردو پڑھنے لگے۔ اس کے بعد وہاں پڑھانے بھی لگے۔ اپنی اردو دانی زیادہ مضبوط کرنے کے لیے وہ یونیورسٹی سے چھٹی لے کر دلی آگئے اور کچھ عرصہ علی گڑھ بھی رہے۔ ہماری نظر میں تو انہوں نے بہت پڑھ لیا تھا اور زیادہ پڑھنے کی انہیں کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مگر رسل صاحب ایسا نہیں سمجھتے تھے مجھے یہ دیکھ کر ہمیشہ حیرت ہوتی رالف رسل کس قدر لگن سے پڑھتے اور اپنی صلاحیت بڑھانے کے لیے کتنی محنت کرتے تھے۔ مئی جون کی گرم دوپہر کو جب ان کے آس پاس کے بیشتر لوگ اونگھ رہے ہوتے تو رسل صاحب لائبریری میں اپنا سبق تیار کرتے۔
ادبی کاموں میں اس قدر ڈوبے رہنے کے باوجود رالف رسل سیاست سے زیادہ دور نہیں تھے۔ وہ زمانہ جب ہماری رسل صاحب سے پہلی بار ملاقات ہوئی سوویت یونین کے عروج کا تھا۔ جنگ فتح ہو چکی تھی جس میں ہٹلر کے نازی جرمنی کو پوری طرح شکست ہوئی اور سوویت کمیونزم کا اثر نہ صرف اٹلی اور فرانس جیسے ملکوں بلکہ ایشیاء میں بھی پھیل رہا تھا اور یہاں ہندوستان میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کمیونسٹ پارٹی جلد ہی ملک کی سیاست میں ایک بہت بڑی طاقت بن جائے گی۔ ان دنوں جب رالف رسل سے ہمارا تعارف ہوا تو ہمیں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ رسل اور ان کی بیگم دونوں انگلستان میں کمیونسٹ پارٹی کے رکن ہیں۔ مگر رسل جیسا شخص کسی ٹریڈ یونین میں تو کام نہیں کر سکتا تھا ان کے مارکسسٹ ہونے کا مطلب تھا کہ ایک صاحب قلم ہونے کے ناطے وہ عام آدمی کے متعلق بھی لکھیں۔ ان کا ایک کتابچہ مغربی پنجاب کے ایک گائوں کی زندگی کے متعلق بھی ہے جو پڑھنے والی چیز ہے۔ مگر رالف رسل کی زیادہ دلچسپی اردو ادب کی تاریخ میں تھی۔ انہوں نے خورشید الاسلام سے مل کر غالب کی سوانح حیات لکھی اور ان کے خطوط کا ترجمہ بھی کیا۔ ایک کتاب ان کی اردو کے تین شاعروں (میر تقی میر، سودا اور میر حسن) پر ہے۔ رسل صاحب نہ صرف اردو ادب کے مؤرخ تھے اور اچھا لکھتے تھے بلکہ نئے لکھنے والوں کا حوصلہ بھی بڑھاتے۔ میں نے جب لاہور کے متعلق اپنی یادیں قلمبند کرنی شروع کیں تو میرے احباب میں سے بہتوں نے کہاکہ یہ باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں ان کو لکھنے سے کیا فائدہ۔ یہ سن کر میں کئی بار بددل ہو جاتا اور حوصلہ چھوڑ دیتا۔ مگر رالف رسل کا کہنا تھا کہ ان باتوں کی افادیت اب بھی ہے۔ وہ کہتے تم اگر نہیں لکھو گے تو نئی نسل کو تصویر کا دوسرا رُخ کون دکھائے گا۔
رالف رسل نہ صرف لکھنے میں میرے جیسوں کا حوصلہ بڑھاتے بلکہ کتابیں بھیجنے میں بھی بڑے فیاض تھے۔ مجھے جب بھی کبھی انگلستان کی کسی مطبوعہ کتاب کی ضرورت ہوتی اور دلی کے کتب فروشوں کے پاس نہ ملتی تو میں رالف رسل سے کہتا۔ انگلستان میں ایک ادارہ ہے جو اپنے گاہکوں کے لیے کتاب تلاش کر کے دیتا ہے اور تلاش کرنے کی فیس الگ سے لی جاتی ہے۔ رسل صاحب نے کئی کتابیں مجھے اس طرح سے بھجوائیں۔ میں جب کہتا اس کی قیمت تو مجھ سے لے لو تو وہ ہنس کر ٹال دیتے۔ میں اگر بہت اصرار کرتا تو کہتے ’’مجھے یونیورسٹی نے ریٹائر ہونے پر بہت سے پیسے دیے ہیں، تم قیمت کی فکر کیوں کرتے ہو‘‘۔ جب ان پر کینسر کا حملہ ہوا تو ان کے خط آنے کم ہو گئے۔ جب بھی لکھتے اپنی بیماری کا حال بتاتے اور کہتے کہ انہیں ہر روز دوا کی اتنی گولیاں اتنی بار کھانی پڑتی ہیں۔ یہ پڑھ کر مجھے تکلیف ہوتی مگر بیماری کے سامنے تو بڑے بڑے معالج بھی بے بس ہو جاتے ہیں۔ آخر پچھلے ہفتہ کی ایک صبح سُن لیا کہ رالف رسل اب نہیں رہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply