خانہ جنگی کا شکار یمن

ساحلی شہر حدیدہ سے یمن کے دارالحکومت صنعا جانے والی سڑک کے ساتھ سنگلاخ پہاڑوں کا سلسلہ ہے۔ ان پہاڑوں کو کاٹ کر راستہ بنایاگیا ہے۔ساحل پرپرانے تعمیر شدہ فارم ہاؤسز موجود ہیں،فارم ہاؤسز کے گرد پہاڑ سے نیچے آنے والا بارش کا پانی جمع ہے، جنوب میں گھنے جنگلات ہیں،جہاں ببون اور جنگلی بلیاں رہتی ہیں۔ یمن کا وسیع صحرا مشرق تک پھیلا ہوا ہے۔ علاقے کی دلکشی متاثر کن ہے،مگر یہ سب قدرتی خوبصورتی ہے۔ حقیقت میں تو زمین کا یہ خطہ مصائب کی آماجگاہ بن چکا ہے۔

۲۰۱۴ء میں حوثی باغیوں اور حکومت کے درمیان جنگ کے آغاز سے قبل بھی یمن مشرق وسطیٰ کا سب سے غریب ملک تھا۔ جنگ نے غربت میں خطرناک حد تک اضافہ کردیا ہے، جب سے جنگ کا آغاز ہوا ہے یمن موجود ہ دور کی ہیضے کی بدترین وبا کا شکار ہوگیا ہے۔اس کے ساتھ ہی ملک بدترین خشک سالی کے کنارے کھڑا ہے،ایسی خشک سالی جو دنیا میں دہائیوں بعد دیکھی جاتی ہے۔ جنگ نے پانی، تعلیم اور صحت کے نظام کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے،اقوام متحدہ کاکہنا ہے کہ یمن میں بدترین انسانی بحران کا سامنا ہے۔ دو کروڑ ۸۰ لاکھ لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے،یہ کل آبادی کا تین چوتھائی بنتا ہے۔ یمن میں جنگ اور بدترین انسانی بحران کو باہر کی دنیا نے مکمل طور پر نظر انداز کردیا ہے، اس تنازعے کی جڑیں کافی پرانی ہیں اوراب اس میں نئے گروہ اور یمن کے پڑوسی ممالک شامل ہوگئے ہیں۔ لیکن کوئی بھی طاقت ایسی نہیں ہے جو پورے ملک کو متحد رکھے اور امن قائم کرسکے۔ یمن کا انفرااسٹرکچر کافی سالوں سے تباہ حال ہے، اس لیے باہر سے آنے والوں کے لیے اندازہ لگانا مشکل ہے کہ عمارت دھماکا خیز مواد سے تباہ ہوئی یا دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے۔ سعودی اتحاد کی بمباری سے تباہ ہونے والی عمارتوں کی نشاندہی صرف مقامی لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ امریکی اور برطانوی ماہرین کی جانب سے اہداف کا انتخاب کرنے میں سعودیوں کی مدد اور انہیں انتہائی جدید اور زبردست گائیڈیڈ بم فراہم کرنے کے باوجود اکثر فضائی حملوں میں غلط جگہوں کو نشانہ بنایاجاتا ہے۔ حوثی باغی حملوں کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔ حوثی یمن میں اصلاحات اور اقتدار میں کم حصہ ملنے سے ناخوش تھے۔ حوثی اپنے گڑھ شمالی علاقوں سے نکل کر ۲۰۱۴ء میں صنعا پر قابض ہوگئے،جس کے بعد حوثیوں نے جنوب کی جانب پیش قدمی کی اور یمن کے اکثر علاقوں پر قبضہ کرلیا۔

انہیں ایران اور سابق آمر علی عبداللہ صالح کی حمایت حاصل تھی۔صدر’’ منصور ہادی‘‘ پہلے شمالی بندر گاہ عدن فرار ہوئے، پھر سعودی عرب چلے گئے،جہاں وہ اب بھی موجو د ہیں۔ان کی درخواست پر سعودی عرب نے مقامی افواج کی مدد کے لیے قدم اٹھایاتھا۔سعودی اتحاد نے بمباری کے دوران فیکٹریوں، کھانے کی اشیا کے گوداموں کے ساتھ صنعا کے ہوائی اڈے کو بھی نشانہ بنایا۔ دارالحکومت صنعا سے حدیدہ جاتے ہوئے راستے میں بمباری کے نشانات جابجا نظر آتے ہیں۔ بحری جہازوں سے سامان اتارنے کے لیے بندرگاہ پر لگی کرینوں کو فعال کردیا گیا ہے، اب بندرگاہ اپنی سابقہ صلاحیت کے مطابق کام کررہی ہے۔ ایک ماہ قبل امریکا نے نئی کرینیں فراہم کرنے کی کوشش کی تھی مگر خلیجی اتحادی رکاوٹ بن گئے۔ بحری اور ہوائی جہاز کے ذریعے سے کھانے پینے کی اشیا، ایندھن اور ادویات کی فراہمی جاری ہے۔ اقوام متحدہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ان جہازوں کے ذریعے اسلحہ فراہم نہ کیاجائے، مگر اس کے باوجود سعودی اتحاد نے ان جہازوں کا راستہ روک رکھا ہے۔ نومبر میں دو ہفتے تک شمالی بندر گاہ کی ناکہ بندی کرکے جہازوں کو جانے سے روک دیاگیا، ایسی رکاوٹ سے لوگوں کی تکالیف میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ایندھن کی کمی کی وجہ سے پمپنگ اسٹیشن پانی فراہم نہیں کر پاتے، اس لیے مقامی لوگ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے گندی اور کھلی جگہ استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ ہیضے کی شکل میں نکلتا ہے،اور اس بیماری کے علاج کے لیے آنے والی ادویات کو بھی اتحادیوں کی جانب سے روک لیا جاتا ہے۔ بمبار طیاروں سے کچھ بھی محفوظ نہیں ہے، جنگ شروع ہونے کے بعد پہلے چھ ماہ میں ۴۰ بنیادی صحت کے مراکز کو نشانہ بنایاگیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسپتالوں، اسکولوں، بازاروں اور مسجدوں کو اتحادیوں کی جانب سے جان بوجھ کر نشانہ بنائے جانے کا الزام لگایا ہے۔ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ جنگ میں انتہائی تباہ کن ہتھیاروں کے ساتھ کلسٹر بم بھی استعمال کیے جارہے ہیں، کلسٹر بم کے استعمال پر کئی ممالک نے پابندی لگا رکھی ہے۔ اتحادیوں کے ترجمان نے ایک بار پچاس ہزار کی آبادی والے پورے شہر کو فوجی ہدف قرار دے دیا تھا۔ یہاں ’’علی مرحاد‘‘ ایک دہائی سے رہائش پذیر تھے، جنگ کے بعد وہ گھر چھوڑ کر مزراق کے پناہ گزین کیمپ میں منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے۔ ۲۰۱۵ء میں ان کے علاقے میں بمباری کی گئی، جس میں ان کے دو بیٹوں سمیت ۴۰؍افراد مارے گئے۔ علی مرحاد کا کہنا تھا کہ ’’بمباری کے بعد میں کیمپ منتقل ہوگیا‘‘ اس سال کے آغاز میں بھی اتحادیوں کی بمباری کے دوران ایک اور بم ان کے گھر کے قریب گرا۔

یہ حالات یمن کے عام شہریوں کے جنگ سے محفوظ رہنے کی مشکلات کو ظاہر کرتے ہیں، جنگ اور بمباری سے کم از کم ۱۰ہزار عام شہری مارے جاچکے ہیں، جبکہ اس سے ۴۰ گناہ زیادہ افراد شام میں ہلاک ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے پناہ گزینوں کا طوفان یورپ پہنچا۔ شاید اسی وجہ سے شام کی جنگ نے بھرپور عالمی توجہ حاصل کی، جبکہ یمن جنگ کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا۔ برطانیہ کے پچاس فیصد عوام اس جنگ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ شام میں ہلاکتوں کی زیادہ تعداد سے گمراہ کیا جارہا ہے۔

یمن میں جنگ سے زیادہ لوگ خوراک اور ادویات نہ ملنے کی وجہ سے جان سے گئے ہیں، مگر خوراک اور ادویات کی کمی جنگ کا نتیجہ ہے اور جنگ جاری ہے۔ یمن میں جنگ کوئی غیر معمولی بات نہیں، جزیرہ نما عرب کا جنوب مغربی کنارہ ہونے کی وجہ سے یہ ایک اہم تجارتی راستہ ہے، اس پر بیرونی طاقتیں متعدد مرتبہ حملہ کر چکی ہیں۔ گزشتہ صدی میں یہ ملک درجن بھر تنازعات کا شکار رہا، جس میں کئی ممالک ملوث تھے۔ موجودہ جنگ کی کچھ بنیادیں ۱۹۶۰ء کی جنگ سے جاکر ملتی ہیں، جب شمال میں خانہ جنگی جاری تھی اور جنوب میں برطانیہ کے خلاف بغاوت ہوگئی تھی۔ یمن میں دو ریاستوں نے جنم لیا، شمال میں رہنماؤں نے اپنے اقتدار کے جواز کے لیے مذہبی علما کی حمایت حاصل کی، جنوب میں سیکولر رہنماؤں نے مارکس ازم کو اپناتے ہوئے سوویت یونین سے اتحاد قائم کرلیا۔ سیاسی تنازعات ۱۹۷۲ء اور ۱۹۷۹ء میں جنگ کی وجہ بنے، مگر خراب معاشی حالات اور سوویت یونین کے خاتمے نے دونوں ریاستوں کو پھر ایک کردیا۔ ۷۰ اور ۸۰ کی دہائیوں میں ہونے والے ناکام معاہدوں کے بعد شمال اور جنوب نے ۱۹۹۰ء میں نئے آئین پر اتفاق کرلیا، اس امید پر کہ اتحاد کے مظاہرے سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرکے یمن میں زیادہ سے زیادہ تیل نکالا جاسکے گا۔ مختصر عرصے کے لیے سرمایہ ملک میں آیا اور تیل باہر گیا، مگر پھر خانہ جنگی پھیل گئی، جس میں جنوب سے تعلق رکھنے والے صالح کی فوج نے کامیابی حاصل کی، جس کے نتیجہ میں جنرل پیپلز کانگریس پارلیمان میں اکثریت حاصل کرکے مضبوط طاقت بن گئی۔ ۲۰۰۳ء میں پارلیمانی انتخابات کو ملتوی کردیا گیا اور مخالفین کو حراست میں لے لیا گیا، صالح اور ان کے ساتھی سمجھتے تھے کہ ریاست کے اربوں ڈالر وہ لوٹ لیں گے۔ یمن کے اکثر شہریوں کی روز کی آمدن ۳ ڈالر سے بھی کم ہے۔

شیعہ فرقہ زیدیہ یمن کی آبادی کا ۴۰ فیصد ہے، اس فرقے نے محسوس کیا کہ ان کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ حالانکہ خود صالح کا تعلق بھی اسی فرقے سے ہے۔ حوثیوں نے ۱۹۹۰ء میں زیدیہ فرقے سے ہی جنم لیا۔ سعودیوں کے قدامت پسند مذہبی اثرات اور یمن و امریکا کے دہشت گردی کے خلاف اتحاد کے بعد حوثی کافی مضبوط ہوگئے، صالح نے حوثیوں پر اپنی حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش کرنے کا الزام بھی لگایا۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۱۰ء تک حوثیوں اور حکومتی فوج میں جنگ کے نتیجے میں سیکڑوں لوگ ہلاک ہوگئے، جس میں حوثیوں کے قائد حسین بدرالدین بھی شامل ہیں۔ ۲۰۱۱ء میں عرب بہار کے دوران صالح حکومت کے خلاف ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، خلیجی ممالک کے دباؤ پر صالح نے ۲۰۱۲ء میں اقتدار نائب صدر ’’ہادی‘‘ کے حوالے کردیا، جس کے بعد مختصر عرصے کے لیے کچھ امید پیدا ہوئی۔ ۲۰۱۴ء میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی نئے وفاقی اور پارلیمانی آئین کے تشکیل کا منصوبہ پیش کیا گیا، تاکہ جنوب اور شمال میں تقسیم کو کم کیا جاسکے، لیکن حوثیوں کی حکومت پر بداعتمادی قائم رہی اور انہوں نے ۲۰۱۲ء میں انتخابات کا بائیکاٹ کردیا، جس میں ہادی کو فتح حاصل ہوئی۔ حوثیوں نے ۲۰۱۴ء کے معاہدے کے مخالفت بھی کی، ان کا موقف تھا کہ اس طرح وہ محدود وسائل کے ساتھ علاقے میں پھنس جائیں گے اور سمندر بھی پہنچ سے دور ہوجائے گا۔انہیں حکومت میں وہ مقام بھی حاصل نہیں ہوا جو وہ چاہتے تھے، ان کے ساتھ صالح بھی شامل ہوگئے۔ صالح نے یمن میں تبدیلی کو کمزور سمجھا اور اقتدار دوبارہ حاصل کرنے یا بیٹے کو منتقل ہونے کی امید پر حوثیوں سے اتحاد کیا۔ صدر ہادی سے ناراضی اور اصلاح (اخوان سے منسلک اسلامی پارٹی) کی بڑھتی ہوئے طاقت سے خوفزدہ ہوکر صالح اور حوثیوں نے ۲۰۱۴ء میں غیر فطری اتحاد قائم کرلیا۔ اسی برس ستمبر میں اس اتحاد کے جنگجو صنعا میں داخل ہوگئے۔ ہادی کی غیر مؤثر حکومت سے مایوس بہت سے مقامی شہریوں نے صنعا میں ان جنگجوؤں کا استقبال کیا۔ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی حوثیوں اور حکومت کے درمیان اقتدار کی تقسیم کے لیے ہونے والے معاہدے کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا۔ ۲۰۱۵ء کے آغاز میں باغیوں نے دارالحکومت کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد مارچ تک عدن پر بھی قبضہ کرلیا۔ بہرحال یہ واضح ہوگیا کہ حوثیوں نے یمن پر حکومت کرنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی، ان کے زیرقبضہ علاقوں میں گندگی کا ڈھیر لگا ہوا ہے، نقد رقم پاس رکھنا خطرے سے خالی نہیں، علاقے میں روشنی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ کرائسس گروپ سے تعلق رکھنے والے لونگلے کا کہنا ہے کہ ’’میرے خیال میں حوثیوں کے پاس کبھی بھی سیاسی ایجنڈا نہیں رہا، چاہے وہ صالح سے جنگ کا زمانہ ہو یا اتحاد کا‘‘۔ حوثیوں کی نااہلی کی وجہ سے سعودی اتحاد کو مداخلت کا موقع ملا۔ یمن میں سعودی مداخلت کوئی نئی بات نہیں، ۱۹۳۴ء میں سعودی فوجیوں نے زیدیوں کے زیر قبضہ علاقہ دوبارہ حاصل کیا۔ اس وقت سعودیوں کی کمان شہزادہ سعود کررہے تھے جو بعد میں بادشاہ بھی بنے، آج شہزادہ محمد بن سلمان بھی تخت کے وارثوں میں پہلے نمبر پر ہیں، انہوں نے یمن میں مداخلت کا منصوبہ بظاہر مضبوط قائد کی شہرت حاصل کرنے کے لیے بنایا تھا، مگر محمد بن سلمان نے سعودی عرب کو ایک دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ صدر ہادی کی مدد کی اپیل کے جواب میں شہزادہ محمد بن سلمان نے مصر، مراکش، اردن، سوڈان، کویت، امارات، قطر اور بحرین پر مشتمل ممالک کا اتحاد قائم کیا، اس اتحاد نے مارچ ۲۰۱۵ء میں یمن پر فضائی اور سمندری حملوں کا آغاز کیا، ایک ماہ بعد سعودیوں نے فضائی حملے بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ سعودی حکام کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے عسکری اہداف حاصل کرلیے ہیں‘‘۔

سعودیوں کی جانب سے جنگ کے خاتمے کا اعلان حقیقت میں جنگ کا آغاز تھا۔ کسی نئے آپریشن کا مقصد سیاسی حل کے لیے ماحول بہتر بنانا ہونا چاہیے تھا، مقامی جنگجوؤں نے اتحادیوں کے فضائی حملوں کی مدد سے حوثیوں کو پیچھے دھکیل دیا، تاہم وہ حوثیوں سے شمالی علاقے واپس لینے میں ناکام رہے، جس میں صنعا بھی شامل ہے۔ یہ شمالی علاقوں پر سعودی اتحاد کے زیادہ توجہ دینے کے بعد کا نتیجہ تھا، سعودیوں نے تباہ حال یمن کی مصیبت میں بے پناہ اضافہ کیا اور الزام دوسروں پر لگا دیا۔ دوسری طرف حوثیوں اور صالح کے جنگجوؤں نے بھی شہریوں پر بلاتفریق حملے کیے، جس میں عدن اور تیز شہر قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے عام شہریوں کو امداد کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی، ان پر جنگ سے پیسے کمانے کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔ ہادی نے الزام لگایا ہے کہ ’’حوثیوں نے مرکزی بینک سے ۴؍ارب ڈالر لوٹ لیے تاکہ جنگی اخراجات ادا کیے جاسکیں‘‘۔ حوثیوں کا کہنا تھا کہ یہ رقم ادویات اور کھانے پینے کی اشیا پر خرچ کی گئی ہے، ۲۰۱۶ء میں ہادی نے مرکزی بینک کو صنعا سے عدن منتقل کردیا اور شمال میں موجود سرکاری اہلکاروں کی تنخواہیں روک دیں۔ شمال میں رہنے والوں کی اکثریت کو شدید مفلسی کا سامنا ہے، اسکول اور اسپتال بھی بند ہیں۔

سنی ممالک کی قیادت کرنے والے سعودی عرب کو یمن میں دہری شکست کا سامنا ہے، ایک تووہ منصور ہادی کی حکومت بحال کرانے میں ناکام رہا،دوسرا یمن جنگ کے ذریعے ایران کی شیعہ حکومت کو پیغام دینے میں بھی ناکامی کا سامنا رہا۔سعودی عرب اور ایران خطے میں اپنی برتری قائم کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔دونوں طاقتوں کی جنگ شام، لبنان اور عراق میں انتہا کو پہنچ چکی ہے۔سعودیہ کو خدشہ ہے کہ حوثیوں کی شکل میں ایران حزب اللہ کی طرح کی ایک اور شیعہ ’’پراکسی‘‘ کی پرورش کررہا ہے۔ یمن اب بڑی طاقتوں کا میدان جنگ بن چکا ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ ایران نے حوثیوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران حوثیوں کو اسلحہ فراہم کررہا ہے، جس کا ثبوت حوثیوں کی جانب سے میزائل حملوں کی صوررت میں موجود ہے۔ ستمبر میں خطے میں موجود سینئر ترین امریکی ایڈمرل نے نیویارک ٹائمز کو بتایا ’’ایران نے اینٹی شپ اور بیلسٹک میزائل، مائنز اور جنگی کشتیاں یمن میں موجود باغیوں کو فراہم کی ہیں، جن کو وہ بحیرہ احمر میں اتحادیوں پر حملے کے لیے استعمال بھی کررہے ہیں۔ ۴نومبر کو یمن سے ریاض کی جانب داغے گئے میزائل کو گرانے کے بعد سعودی عرب نے اسے ایرانی جارحیت قرار دیا تھا۔

جنگ جلد ختم ہونے کے امکانات بہت کم ہیں، جنگ جاری رکھنے کے لیے سعودی عرب کے پاس کافی طاقت ہے۔ صدر ٹرمپ سعودیوں کی حوصلہ افزائی کے علاوہ کچھ نہیں کررہے۔ اپنے ریاض کے دورے کے دوران ٹرمپ نے حوثیوں کے خلاف سخت کارروائی کی تعریف کی اور ۱۱۰؍ارب ڈالر کا اسلحہ سعودی عرب کو فراہم کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ یہ جنگ برطانوی دفاعی صنعت کے لیے بھی ایک نعمت ہے، جس نے جنگ کے آغاز کے بعد سے سعودی عرب کو میزائل اور بموں کی فروخت میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں یورپی پارلیمان نے جب سعودی عرب کو ہتھیار فروخت کرنے پر پابندی لگائی تو وزیراعظم کیمرون نے سعودی عرب کو فراہم کیے جانے والے برطانوی ہتھیاروں کی تعریف کی، ان کی جگہ لینے والی وزیراعظم تھریسامے نے کم ازکم جنگ پر اپنی تشویش کا اظہار تو کیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ صرف سعودی عرب کی حمایت ہی نہیں کررہے بلکہ انہوں نے دیگر ممالک کو بھی سعودی عرب پر کسی قسم کا دباؤ ڈالنے سے روک دیا ہے۔ فرانس بھی سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرتا ہے، فرانس نے بھی ۲۰۱۵ء میں جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے پینل تشکیل دینے کی اقوام متحدہ کی قرارداد کو بے اثر کردیا تھا۔ اس سال کے آغاز میں فرانس نے نیا پینل تشکیل دینے پر زور دیا ہے، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید نے بین الاقوامی برادری کی جانب سے جنگ کے متاثرین کے لیے انصاف کا مطالبہ نہ کرنے کی مذمت کی ہے، پینل کی منظوری دے دی گئی تھی، مگر امریکا، برطانیہ اور فرانس نے مل کر اسے ناکام بنا دیا۔ اقوام متحدہ امن مذاکرات کے تین دور منعقد کرا چکا ہے، مگر منصور ہادی حکومت کا اصرار ہے کہ حوثی ہتھیار ڈال دیں اور اپنے زیر قبضہ علاقوں کو خالی کردیں، حوثیوں کو شکایت ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد میں صرف ان سے زمین خالی کرنے کا کہا گیا ہے۔ مئی میں اقوام متحدہ کے سفیر اسماعیل احمد کے قافلے پر صنعا میں مظاہرین کی جانب سے حملہ کیا گیا، اس حملے کے ایک ماہ بعد حوثی رہنما صالح الصمد کا کہنا تھا ’’ہمارا اسماعیل سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور انہیں یہاں خوش آمدید نہیں کہا جائے گا‘‘۔ جنگ نے دونوں کو غیر مستحکم کردیا ہے، جنوب میں سعودی عرب اور امارات زمین پر موجود سب بڑی غیر ملکی طاقت ہیں، انہوں نے علیحدگی پسندوں اور مختلف ملیشیا پر مشتمل ایک سلفی اتحاد بنایا ہے، جس کو کنٹرول کرنا ناممکن ہے، ایک مبصر کا کہنا ہے کہ ’’خلیج کے پیسے سے کچھ بھی خریدا جاسکتا ہے‘‘ سلفی اتحاد میں شامل کچھ گروہوں پر جزیرہ عرب میں القاعدہ کے ساتھ کام کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ شمال میں موجود حوثیوں نے صالح پر سعودی اتحاد سے خفیہ مذاکرات کرنے کا الزام لگایا ہے (اگرچہ حوثی خود بھی یہ کام کرچکے ہیں) صالح اس تنازعے کے کمزور فریق ہیں، صالح کو خوف ہے کہ کوئی معاہدہ انہیں باہر رکھ کر نہ کرلیا جائے، اسی تناظر میں اگست میں حالات کافی خراب ہوئے تھے، جب حوثیوں اور صالح کے حامیوں کے درمیان لڑائی میں دونوں جانب کے لوگ مارے گئے، جس کے بعد دونوں جانب سے حالات ٹھیک رہے مگر کشیدگی میں پھر اضافہ ہوگیا ہے۔ حوثی انتہا پسندوں اور اعتدال پسندوں میں تقسیم ہوگئے ہیں، حوثیوں کے قائد عبدالمالک مذاکرات کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ ایک مبصر کاکہنا ہے کہ ’’جنگ جتنی طویل ہوگی، انتہا پسند اتنے ہی مضبوط ہوں گے‘‘۔ اسماعیلی نے تنازعے کا تجزیہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ’’سمجھوتے کے لیے تیار افراد کو کچھ تو دینا ہوگا، ابھی صرف لاٹھی کا استعمال جاری ہے‘‘ اب سعودی عرب پر کچھ بیرونی دباؤ بھی ہے، مگر وہ پیچھے ہٹتے نظر نہیں آتے۔ انہیں امید ہے کہ شمال میں لوگ حوثیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے، حوثیوں کی حکومت سے لوگوں کی مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔ کچھ چیزوں کو صالح بھی بڑھاوا دے رہے ہیں، مگر زیادہ تر سڑکوں پر خاموشی چھائی ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو امن نہیں چاہتے، وار لارڈز کو بھتے اور امدادی سامان کی لوٹ مار سے کافی پیسے ملتے ہیں، ہادی حکومت اور لڑنے والے دیگر گروپس پر الزام ہے کہ وہ مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ اپنے پاس موجود اشیا فروخت کر سکیں، جیسا کہ پیٹرول بھاری منافع پر فروخت کیا جاتا ہے۔ بہت سے مبصرین کی نظر میں اگر سعودی جنگ ختم کردیں تو بھی یمن میں جنگ جاری رہے گی، شمال اور جنوب کے درمیان، اسی طرح حوثیوں، صالح، اصلاح اور دیگر گروپس کے درمیان۔ عام یمنی شہری تقسیم میں کم ہی دلچسپی رکھتا ہے، علی مرحاد کے خیمے کے گرد لوگوں کی کافی بھیڑ جمع تھی، جو اپنی مشکلات بیان کرنا چاہتے تھے، یہ لوگ حوثیوں کے زیر قبضہ علاقوں سے آئے تھے، کہتے تھے کہ ان کے پاس کوئی قبیلہ، گھر اور پیسہ نہیں، مگر صرف اللہ ہے۔ کیا ان تباہ حال لوگوں کو اس بات کی پروا ہے کہ جنگ کون جیتے گا؟؟ ہرگز نہیں، وہ لوگ ظلم کا شکار ہیں، اور بس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

(نوٹ: اس کالم کی اشاعت کے چند روز بعد علی عبداﷲ صالح کو مار دیا گیا تھا)

(ترجمہ: سید طالوت اختر)

“The new Gulf war: How Yemen became the most wretched place on earth”.(“The Economist”. Nov. 30, 2017)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*