فیروز عباسی کو پچھلے ہفتے گوانتا ناموبے قید خانے سے اٹھارہ مہینوں کی قید کے بعد امریکیوں نے آزاد کیا ہے۔ حکومت امریکا نے ان پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ القاعدہ کے رکن ہیں۔ انہیں برطانیہ کے دبائو کی بنا پر رہا کیا گیا۔ عباسی برطانوی شہری ہیں۔ انہیں برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا ہے لیکن برطانوی انٹیلی جنس عہدیداروں کا کہنا ہے کہ انہیں زیادہ عرصہ تک حراست میں نہیں رکھا جائے گا۔ کیونکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے کہ ان سے سلامتی کے لیے کوئی خطرہ درپیش ہے۔ عباسی کے وکیل کا بیان ہے کہ انہوں نے اٹھارہ مہینوں تک قید تنہائی ایک ایسے کمرے میں بھگتی ہے جس میں کوئی کھڑکی تک نہیں تھی۔ کسی بھی انسان سے حتیٰ کہ گارڈز سے بھی انہیں ملنے نہیں دیا جاتا تھا اور ہر وقت ایک ٹی وی کیمرے کے ذریعے ان پر نگرانی رکھی جاتی تھی۔ انہیں بار بار ایک ایسے نامعلوم مادے سے بھرے انجکشن دیے جاتے تھے جس کی بنا پر وہ نفسیاتی مریض بن کر رہ گئے تھے۔ اب وہ دماغی خلل میں مبتلا ہیں انہیں عجیب و غریب مناظر آنے کی شکایت ہے اور وہ اپنے آپ سے ہی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ عباسی برطانوی شہری ہیں اور برطانیہ میں رائے عامہ‘ انسانی حقوق کے تعلق سے امریکی رائے عامہ کی بہ نسبت زیادہ حساس ہے اس لیے انہیں اٹھارہ مہینوں بعد رہا کر دیا گیا لیکن ابھی تک گوانتا ناموبے کی جیل میں ۵۶۰ ایسے قیدی بند ہیں جن کی قومیت کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔ امریکی عہدیدار اس بات کا انکشاف بھی نہیں کرتے ہیں کہ ان دوسرے قیدیوں کے تعلق سے آیا کوئی ثبوت ان کے پاس ہیں بھی یا نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ مستقبل قریب میں ان میں سے زیادہ تر کی رہائی ممکن نظر نہیں آتی۔ اگر آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ برطانیہ کا انسانی حقوق کے تعلق سے ریکارڈ امریکا کی بہ نسبت بہتر ہے تو آپ کا خیال غلط نہیں ہے لیکن بہتر ایک اضافی لفظ ہے۔ برطانوی قانون کے مطابق ایسے غیربرطانوی افراد جن پر دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا شبہ ہو‘ انہیں غیرمعینہ مدت تک بغیر مقدمے کے بلکہ بغیر کوئی الزام لگائے جیل میں بند رکھا جاسکتا ہے۔ پچھلے مہینے برطانیہ کے ماہرینِ قانون نے یہ رائے ظاہر کی کہ متذکرہ قانون جانبدارانہ ہے کیونکہ اس کے تحت بیرونی افراد کے تعلق سے برطانوی شہریوں کے برخلاف جداگانہ طرزِ عمل اختیار کیا جاتا ہے۔ اس قانون میں اب ایسی تبدیلی لائی جائے گی کہ اربابِ اختیار تمام مشکوک افراد کو بغیر ان پر کوئی الزام لگائے یا مقدمہ چلائے قید میں رکھ سکتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہو گا کہ انہیں جیل بھیجا جائے گا بلکہ کسی طرح کی ایسی نظربندی اختیار کی جائے گی جس کی تفصیلات ابھی طے نہیں کی جاسکی ہیں۔ اس نئے قانون کے تحت نہ صرف حراست میں لیے گئے افراد کو الزامات کے بارے میں پتا نہیں ہو گا (کیونکہ دراصل کوئی الزامات ہی نہیں ہوں گے)۔ بلکہ انہیں یہ تک بتایا نہیں جائے گا کہ ان کے خلاف ثبوت کیا ہیں؟ مشتبہ افراد‘ قیدیوں کو ایک ہی اختیار یہ حاصل رہے گا کہ وہ حکومت کی جانب سے خصوصی طور پر تقرر کردہ وکلا کی خدمات سے استفادہ کر سکیں۔ یہ وکلا مشتبہ افراد کے خلاف ثبوتوں کا جائزہ لیں گے لیکن انہیں اپنے موکلین سے مشورے کرنے کی اجازت حاصل نہیں رہے گی۔ آپ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ اس بات کے افسوسناک ہونے کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ نے قوانین کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ القاعدہ کی جانب سے درپیش خطرے نے شہری آزادی اور انسانی حقوق سے متعلق تمام روایتی نظریات میں تبدیلی کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں‘ کسی قدر جواز کے ساتھ کہ ان مقدموں کی بنیاد دہشت گردی پر ہے۔ ان میں سزائیں دلانا ہمیشہ ممکن نہیں ہے کیونکہ اکثر گواہ اتنے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ وہ گواہی دینے کے لیے آگے نہیں آتے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی دہشت گردوں کی جانب سے انتقام کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ ان تمام دلیلوں کے باوجود میرے لیے یہ تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے کہ گوانتا ناموبے میں امریکا جو کچھ کر رہا ہے وہ اخلاقی طور پر قابلِ مدافعت ہو سکتا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عباسی اپنے ساتھ سلوک کے بارے میں غلط بیانی سے کام بھی لے رہے ہوں لیکن مجھے ایک عمومی خیال سے تو اتفاق کرنا ہی پڑے گا کہ دہشت گردی عام جرائم کے برخلاف بالکل ہی جداگانہ قوانین کا تقاضا کرتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا امریکا یا برطانیہ پانچ سال قبل اس نکتے کو تسلیم کر سکتے ہیں؟ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ہم مغربی ممالک کی اس مسلسل تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں کہ ہماری سکیورٹی فورسز کشمیر جیسی شورش زدہ علاقوں میں مشتبہ افراد کے انسانی حقوق کے تعلق سے کوئی اقدام نہیں کرتی ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply