
۱۹۳۹ء کی دوسری جنگ عظیم کا عفریت جب لاکھوں انسانوں کو موت کی وادی میں اتار چکا‘ جنگی جنون اپنی انتہا پر پہنچ گیا اور انسانیت بلبلا اٹھی تو سفاکیت کی اس شب تاریک سے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک کرن طلوع ہوئی بالآخر یہ مطالبہ پورا ہوا اور ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق مرتب کرنے اور پاس کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس پس منظر میں ۱۰ دسمبر کو عالمی سطح پر بنیادی حقوق انسانی کے دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔
دوعالم گیر جنگوں کے بعد ۱۹۴۵ء میں اقوامِ متحدہ کے قیام کے وقت ہی یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ عالمی امن کو اگر حقیقت کے روپ میں ڈھالنا ہے تو صرف امنِ عالم کے قیام کے اداروں سے یہ مقصد حاصل نہ ہو گا‘ جب تک کہ انسانی شخصیت کے احترام کو عالمی طور پر تسلیم نہ کیا جائے۔ چنانچہ اردو انسائیکلو پیڈیا کے مطابق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اقوامِ عالم کو انسانی حقوق کا ایک منشور دیا‘ جس میں اولاً اجمالی طور پر شخصی یا شہری آزادی‘ سیاسی آزادی‘ معاشی آزادی اور عالمگیر برادری کے ہر رکن کے لیے معاشی‘ سماجی و تہذیبی حقوق تسلیم کیے گئے‘ اس کے بعد یورپین کنونشن اور آرگن آف امریکن اسٹیٹس کے اعلانات کے مطابق اقوامِ متحدہ کی طرف سے حقوقِ انسانی کا تفصیلی چارٹر جاری کیا گیا۔
اگر واقعی دیانت داری کے ساتھ عالمی منشور کا نفاذ عمل میں آتا تو یہ انسانیت کے لیے بارانِ رحمت ثابت ہوتا‘ لیکن ایسا کچھ نہیں ہو پایا‘ ایک تو یہ تحریک ہی رضاکارانہ ہے‘ دوسرے مختلف ملکوں نے انسانی حقوق کے الگ الگ پیمانے قائم کر لیے ہیں۔ امریکا جو اقوامِ متحدہ کا سب سے بڑا حامی اور حقوقِ انسانی کا سب سے بڑا علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے‘ اسی نے حقوقِ انسانی کی سب سے زیادہ پامالی کی ہے۔ یوں تو امریکی جارحیت کی ایک طویل فہرست ہے لیکن ۱۹۴۸ء میں حقوقِ انسانی کا عالمی منشور مرتب ہونے کے بعد بھی امریکی جارحیت کی سرکش موجیں بدستور انسانیت کو تہہ و بالا کر رہی ہیں۔
چنانچہ امریکا نے ۱۹۶۱ء میں کیوبا پر حملہ کی کوشش کی۔ اسی سال ویت نام کی جنگ چھڑی ہو ۱۹۷۱ء تک چلی‘ ۱۹۶۲ء میں جمہوڈو منیکان پر حملہ ہوا‘ ۱۹۷۰ء میں کمبوڈیا کی باری آئی‘ ۱۹۸۳ء میں جزیرہ گرنا ڈاکو جارحیت کا نشانہ بنایا گیا‘ ۱۹۸۶ء میں امریکی فضائیہ نے لیبیا کے دو شہروں طرابلس اور بن غازی پر حملہ کر کے تباہی مچائی۔ ۱۹۹۶ء میں امریکا نے سوڈان کے پڑوسی ملک ایتھوپیا اور یوگنڈا کو دو کروڑ کی مالی امداد دے کر اکسایا اور اس پر حملہ کرایا‘ سرب عیسائی فوجوں نے امریکا و یورپ کی پشت پناہی میں ۱۹۹۸ء سے بوسنیائی مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کیا ۱۹۸۹ء میں نیاما پر دوبارہ حملہ ہوا‘ ۱۹۹۱ء میں عراق کو تباہ کرنے کے ئیل تمام تر طاقت کا استعمال کیا گیا‘ ۱۹۹۳ء میں امریکا نے مقدونیا پر حملہ کر کے ہزاروں افراد کو ابدی نیند سو جانے پر مجبور کر دیا‘ ۱۹۹۴ء میں امریکا نے روانڈا میں مداخلت کر کے لاکھوں افراد کی زندگیاں چھین لیں۔ ۲۰۰۱ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگون پر حملہ کا بہانہ بنا کر افغانستان پر کلسٹر بم‘ کروز میزائل اور جراثیمی اسلحہ کی بارش کر کے طالبان کی حکومت کو بے دخل کر دیا۔ ۱۹ مارچ ۲۰۰۳ء میں ایک بار پھر عراق امریکی دہشت گردی کا شکار ہوا‘ جہاں ابھی تک امریکی دہشت گردی کا بازار گرم ہے اور نہ جانے یہ دہشت گردی اور ظلم و ستم کا یہ سلسلہ کب تک چلے گا‘ کروڑوں افراد کے خون پینے کے بعد بھی امریکی حکام کی تشنگی دور نہ ہوئی‘ اب وہ ایک بار پھر نیوکلیائی ہتھیار بنانے کی وجہ سے ایران پر فوجی کارروائی کی تیاری کر رہے ہیں‘ اس کا انجام کیا ہو گا‘ اس کی گواہی مستقبل کے واقعات دیں گے۔
اقوامِ متحدہ کی حیثیت اس وقت مشکوک ہو جاتی ہے جب عالمی واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔ حال ہی میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ عراقیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیے۔ جنیوا کنونشن کی دھجیاں بکھیر دیں۔ روس چیچن عوام کی زندگی دوبھر کر رہا ہے۔ اسرائیل نصف صدی سے فلسطینی عوام کی نسل کشی کر رہا ہے۔ اس طرح کے نہ جانے کتنے واقعات وجود میں آئے‘ اس کے ردِعمل میں اقوامِ متحدہ نے صرف یہ کہا کہ ’’اقوامِ متحدہ نے اس کو حقوقِ انسانی کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور بس!!!‘‘
اقوامِ متحدہ کی بے بسی کا کھلا ثبوت ماضی قریب میں یورپ کے قلب ’’بوسنیا‘‘ میں ساری دنیا نے دیکھا۔ ۳۰ نومبر ۱۹۷۳ء کو جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نسلی امتیاز کو قابلِ سرزنش جرم قرار دینے کی غرض سے ایک تجویز پاس کی تو امریکا اور برطانیہ نے اس کی سب سے پہلے مخالفت کی‘ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خود قانون بنانے والوں کی نگاہ میں ان قوانین کی کتنی اہمیت ہے؟
حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں کے سلسلے میں یورپی دنیا کی جو مجموعی صورتحال ہے‘ وہ بھی انتہائی تشویشناک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۸۰۰ ملین آبادی بے روزگاری کی شکار ہے‘ گذشتہ ۱۵ سال کے درمیان ۱۷ ملین سے زائد افراد جنگوں کی نذر ہو چکے ہیں اور ساڑھے چار ملین سے زائد زخمی ہیں۔ اس وقت ۱۳ ملین سے زائد بچے غریب الوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ حالات خود ان ’’مہذب ممالک‘‘ کے ہیں جو حقوق انسان کے سب سے بڑے علم بردار اور محافظ مانے جاتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام چین کے دارالحکومت بیجنگ میں خواتین کے مسائل سے متعلق چوتھی عالمی کانفرنس ۴ ستمبر ۱۹۹۵ء سے ۱۵ ستمبر ۱۹۹۵ء تک جاری رہی۔ کانفرنس کے اغراض و مقاصد و موضوعات اتنے مختلف فیہ تھے کہ اس نے شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی افادیت کھو دی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین کے کچھ بنیادی مسائل ہیں‘ ان کا حل ہونا بھی ضروری ہے‘ اس وقت پوری دنیا میں جو انسانی آبادی فقر و افلاس کی شکار ہے‘ اس میں ۶۰ فیصد خواتین ہیں۔ امریکا جیسے ملک میں ۲۳ فیصد سے زیادہ خواتین غربت کی سطح سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہیں اور ۶۵ فیصد خواتین ناخواندہ ہیں اور ۴۰ فیصد ایڈز کے مرض میں گرفتار ہیں‘ انگلینڈ میں ہر اٹھارہویں منٹ پر کوئی نہ کوئی عورت تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت جتنے بھی پناہ گزیں پائے جاتے ہیں‘ ان میں بھی خواتین کی تعداد ۸۰ فیصد ہے۔
ہندوستان کی حالت بھی انتہائی خراب ہے‘ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا لیبل لگنے کے باوجود بھی فرقہ پرستوں کی طرف سے حقوق انسانی کی اتنی پامالی ہو رہی ہے جن کو تحریر کرنا مشکل ہے‘ بدعنوانی‘ رشوت خوری‘ چوری‘ ڈکیتی‘ اقلیتوں پر ظلم‘ مذہبی مقامات کی بے حرمتی‘ فتنہ و فسادات اس ملک کا طرۂ امتیاز بن چکا ہے۔ ہندوستان میں جہیز کم لانے پر خواتین تشدد کا شکار ہو رہی ہیں اور ان کو جلائے جانے کی خبروں سے اخبارات بھرے رہتے ہیں۔
ظاہر ہے مندرجہ بالا مسائل ایسے ہیں جن کے پائیدار حل کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے اور ان سماجی برائیوں کے خلاف عالمی رائے کو بھی بیدار ہونا چاہیے اور اقوامِ متحدہ کو بھی ان برائیوں کی بیخ کنی میں اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اور نہ ہی ہو سکتا ہے کیونکہ اقوامِ متحدہ نے امنِ عالم اور حقوقِ انسانی کے تحفظ کے لیے اپنے بنیادی رول سے دست کش ہونا گوارہ کر لیا ہے اور ذرائع ابلاغ میں خواہ مخواہ شور مچاتی رہتی ہے‘ مگر کرتی کچھ نہیں۔
غرض یہ کہ اقوامِ متحدہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو ڈرانے‘ دھمکانے اور ان کا استحصال کرنے کا ایک موثر ترین ذریعہ ہے۔ اسی طرح مسلم ممالک کے تئیں اقوامِ متحدہ کا رویہ ہمیشہ جارحانہ رہا ہے۔ اس کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی مسلم ملک اپنے تحفظ کے لیے دفاعی اور جوہری اسلحہ تیار کرتا ہے تو اسے اقوامِ متحدہ کی طرف سے دہشت گردی کا اچھوتا خطاب دیا جاتا ہے‘ تفتیشی ٹیمیں بھیجی جاتی ہیں‘ اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں‘ ان حقائق سے واضح ہو جاتا ہے کہ اقوامِ متحدہ مسلمانوں کے خلاف کی گئی سازش کا شاخسانہ ہے‘ کیونکہ اقوامِ متحدہ کے پاس ایک لاکھ سے زائد افواج ہیں اور ان افواج کے ذریعہ امریکا‘ برطانیہ‘ روس اور اسرائیل پر قدغن لگا سکتی تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اور نہ کبھی ہو گا بلکہ یوں ہی یورپی ممالک اور امریکا اقوامِ متحدہ کا لبادہ اوڑھ کر اپنی ڈکٹیٹر شپ اور حقوقِ انسانی کی پامالی کی المناک داستان لکھتے رہیں گے۔
مضمون نگہار شادہ وجیہ الدین اکیڈمی‘ سرخیز احمد آباد میں ریسرچ اسکالر ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply