اگر آپ موجودہ حیات اجتماعی کا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ اس معاشی دوڑ نے افراد کی اس ابتری میں کیا تبدیلیاںپیدا کی ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ اجتماعی زندگی میں کامیابی کا معیار آج کل صرف ایک ہوگیا ہے۔ یعنی دولت بہ شکل زر۔ اور اب عزت‘ زر یا آمدنی سے ناپی جاتی ہے۔ پچھلے زمانہ میں بھی دولت سے عزت حاصل ہوتی تھی‘ لیکن ساتھ ہی کچھ اور صفات بھی شمار کے قابل سمجھی جاتی تھیں۔ اب حسن‘ قوت‘ نیکی‘ عقلمندی‘ ہنر‘ خاندانی شرافت‘ ان سب کی ایک ہی کسوٹی ہے اور وہ یہ کہ کیا ان سے دولت ہاتھ آسکتی ہے۔ اب ایک باکمال شاعر‘ مصور‘ سنگتراش اور طبیب کو اپنا کمال ثابت کرنے کے لیے انکم ٹیکس کا تحفہ پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس دور میں دولت کی دوسری خصوصیت اس کا ماخذ ہے۔ پرانے زمانہ میں ہر قسم کی دولت کا ماخذ سیاسی ہوتا تھا۔ قوت سے دولت حاصل ہوتی تھی‘ اب دولت سے قوت حاصل ہوتی ہے اور دولت کا ماخذ معاشی ہو گیا ہے۔ اب معاشرہ کا طبقۂ اعلیٰ یا طبقۂ شرفاء محض معاشی قابلیت کی بناء پر وجود میں آتا ہے۔ اب معاشیات کے نمائندے یعنی کاروباری طبقے انتظام مملکت میں پیش پیش ہیں۔
جدید معاشرے میں کاروباری طبقہ کے مخالف اگر کچھ ہیں تو وہ صرف بڑے شہروں کے عوام الناس‘ جن کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ کسی چیز کے مالک نہیں ہیں‘ لیکن ہر چیز کی ملکیت کے دعویدار ہیں اور وہ خود بھی اس معاشی دور کی پیداوار ہیں۔ دولت کے اضافے اور تعلیم کی ترقی نے ان کو اتنا بلند کردیا ہے کہ اب وہ اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کرنے لگے۔ سیاسیات میں ان کا دخل اب روز افزوں ہے‘ ان کی بلند آہنگیوں نے پارلیمانی نظام پیدا کردیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اب مملکت کی قوت مختلف معاشی اغراض کا ذریعہ بن گئی ہے۔ اس معاشی دوڑ میں جمہوریت کے معنی ملی بھگت کے ہیں۔
معاشرہ پر مشینی نظام کا اہم ترین اثر‘ اہم ترین اس وجہ سے کہ وہ اندر ہی اندر اپنا کام کررہا ہے اور اس کے نتائج بہت دور رس ہیں۔ اس کا اثر انسان کی ذہنی زندگی پر پڑا ہے۔ انسان فخر کے ساتھ اپنے گردوپیش پر نظر ڈالتا ہے۔ اسے ہر طرف تہذیب ذہنی کے لاتعداد آثار نظر آتے ہیں۔ کاٹن کی پیداوار پچھلی صدی میں ۱۶ گنا زیادہ ہوگئی ہے۔ روزانہ ہزاروں کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ کیا کوئی اور زمانہ اس حیرت انگیز ذہنی جدوجہد کی مثال پیش کرسکتا ہے۔اور پھر یہ تو دیکھیے کہ اشاعت تہذیب کے ذرائع کتنے بڑھ گئے ہیں۔ ہم نے جس طرح پانی‘ بجلی اور گیس کی تقسیم کے نئے نئے طریقے پیدا کیے ہیں اسی طرح سے اشاعت تہذیب کے ذرائع بڑھائے ہیں۔ سرکاری مدارس‘ سرکاری کتب خانے‘ سرکاری نمائشیں اور پھر سینما‘ تھیٹر‘ ریڈیو‘ سب ہی انسان کو مہذب بنانے میں مصروف ہیں۔ کیا یہ ترقی کی علامتیں نہیں ہیں‘ کیا بنی نوع انسان اس ثقافتی ترقی پر اپنے آپ کو مبارکباد نہ دے۔
لیکن تحقیق کیجیے تو اس حیرت آفرین اور وسیع ذہنی ثقافت کی بنیاد پر ایک خاص قسم کی مادی تہذیب پر رکھی ہوئی نظر آتی ہے اور وہ بھی انہیں معنوں میں ایک سیاسی پیداوار ہے‘ جن معنوں میں کہ تجارت‘ قدیم زمانہ میں بڑے بڑے علماء اور فلاسفہ کو بھی اپنی بسر اوقات کے لیے کچھ نہ کچھ دھندا کرنا پڑتا ہے اور اس طرح تخلیقی ذہانت پر ایک طرح کی بندش تھی۔ لیکن اب اضافہ دولت کی وجہ سے ان شغلوں کی تعداد میں اور اس طرح سے ان کی اشاعت تہذیب کی مقدار اور رفتار میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اب دن رات کے ہر گھنٹے میں ناشرین‘ طابعین اور تھیٹر اور سینما کے مالک ذرائع تہذیب کی فراہمی اور ان کی تقسیم میں مصروف رہ کر منافع حاصل کرتے ہیں۔ آج کل کتابوں کی بہت بڑی تعداد صرف اس وجہ سے تیار کی جاتی ہے کہ بڑے بڑے چھاپے خانے بیکار نہ رہیں۔
جس ثقافت کی بنیاد کاروباری ہو‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس پرموجودہ مشینی دور کے اثرات نہ پڑیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس ثقافت میں فرد کی حیثیت گم ہوکر رہ گئی ہے اور عالم کی کمر آج کل علم کے بوجھ سے جھکی جارہی ہے۔ اب وہ پناہ لینے کے لیے راستہ ڈھونڈھتا پھرتا ہے اور اپنے لیے خصوصی میدان تلاش کرتا ہے‘ اس لیے کہ اب وہ کائناتی نقطہ نظر کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ غیر معروف کاملینِ فن کی جو کثرت آج ہے وہ شاید ہی پہلے کبھی ہو اور یہ سب ناقدریٔ زمانہ کے شاکی ہیں۔ سب کو اپنی اپنی جگہ جدت اور ندرت کا دعویٰ ہے‘ لیکن دراصل وہ ایک دوسرے کے نقال ہیں۔ پھر ثقافتی پیداوار کا اس اکثریت نے علم کے معیار کو پست کردیا ہے‘ ظاہر ہے کہ جب افراد کی ایک بہت بڑی تعداد الگ کونے میں کام کرے گی تو معیار ضرور پست ہوگا۔ لیکن دوسری طرف اوسط دماغوں کی خاطر سے بھی یہ معیار پست کردیا گیا ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ جب امریکا میں ۴۰۰پروفیسر عمرانیات پر کتابیں لکھتے ہوں تو عمرانیات والے داد حاصل کرنے اور معلومات جمع کرنے کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں۔
مقدار اور معیار کے علاوہ اس معاشی دوڑ نے ذہنی ثقافت کے موضوعات کو بدل ڈالا ہے۔ اب تہذیب کی شکلیں ہی دوسری ہیں اور ان کے متعلق نقطۂ نظر بھی بدل گیا۔ فلسفہ کی ہمہ گیر حیثیت ختم کردی گئی اور اس کی جگہ علیحدہ علیحد ہ علوم نے لے لی اور پھر یہ علوم بھی مقتضائے وقت کے مطابق بنادیئے گئے۔ سائنس کی صرف وہی قسم ترقی کے قابل سمجھی جاتی ہے‘ جو علوم طبیعی کی مدد سے مادی ثقافت کے نشوونما میں مدد دے سائنسدان زمانہ حال کا اسیر ہے۔ اسے اتنی مہلت نہیں کہ نظم و ربط کائنات پر غور کرے‘ وہ اب صرف فطرت کو اس نظر سے دیکھتا ہے کہ اس پر تصرف کیونکر حاصل کیا جائے‘ اس کی فکر و نظر کی بلندی یہ ہے کہ ہوا سے نائٹروجن کیوں کر نکلا جائے اور ہوائی جہاز کس طرح بنائے جائیں۔ کاروباری تقسیم عمل کا اصول اب علم کی دنیا میں بھی کارفرما ہے‘ جس صنعت میں اس اصول نے دستکار کو صرف مشین کا دستہ گھمانے والا بنادیا ہے اسی طرح مادی وسائل و آلات کی کثرت سے اب عالم بھی علمی فیکٹری کا مزدور بن چکا ہے۔
اور ستم بالائے ستم یہ کہ علوم طبعی کے مقاصد اور طریقے علوم ذہنی میں بھی استعمال کیے گئے‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مادی اقدار روحانی اقدار پر غالب آگئیں۔ مثلاً آج کل کے کسی نفسیاتی ناول کو پڑھیے۔ معلوم ہوتا ہے کہ گویا طلباء کالج کی نفسیاتی مشقوں کو پڑھ رہے ہیں۔ تھیٹر میں مادی ساز و سامان کی وہ کثرت ہوئی کہ اب وہ بجائے فن لطیف کے کاریگر بن کر رہ گیاہے۔
اس تمام انقلاب میں افراد انسانی پر کیا گزری‘ گزشتہ صدی نے ان سے کیا چھینا اور اس کے بجائے کیا دیا۔ سب سے کاری ضرب جو مشین نے انسانیت پر لگائی یہ تھی کہ ایمان بالغیب سے محروم کرکے اس کی دنیاوی زندگی کا رشتہ ہر قسم کے ماورائی تعلقات سے منقطع کردیا۔ وہ فطرت سے بیگانہ بن گیا۔ اب ایک ایسی نسل انسانی وجود میں آگئی ہے‘ جس کی زندگی مطاہر فطرت سے خالی ہے‘ سلسلۂ روز و شب اور موسموں کا تواتر اب اس کی زندگی کے اجزاء نہیں رہے‘ بلکہ مدرسہ کے اسباق ہیں۔ اس نسلِ انسانی کی زندگی اب فطری وجود کا جزو نہیں‘ بلکہ اسباق مدرسہ‘ جیبی گھڑیوں‘ اخبارات‘ کتابوں‘ سیاسیات اور بجلی کی روشنی کا معجون مرکب ہے۔اگر ایک طرف شہری زندگی کی رست و خیز نے انسان اور فطرت کی ہم آہنگی ختم کردی تو دوسری طرف قدیم اجتماعات کی پراگندگی کی وجہ سے خود انسان کے باہمی تعلقات بھی متزلزل ہوگئے اور یہ چیز نسلِ انسانی کے مستقبل کے لیے فال بد ہے۔ یہ قدیم تعلقات‘ دیہی برادریوں اورپیشیوں کی پنچائتوں کی شکل میں نہ صرف انسان کے لیے آسودگی اور طمانیت کا باعث تھے بلکہ اس کا اخلاقی سہارا بھی تھے اگر ایک طرف اس پر بندشیں عائد کرتے تھے تو دوسری طرف اتفاق باہمی اور بقاکے بھی ذمہ دار تھے۔ مشینی اثرات نے آج یہ پرانے بندھن ڈھیلے کردیے اور افراد کو زندگی کی داروگیر میں یکہ و تنہا چھوڑ دیا۔ انسان آج جس قدر تنہا ہے‘ شاید ہی تاریخ میں کبھی پہلے ہوا ہو‘ جو نئے اجتماعات وجود میں آتے ہیں‘ یعنی انجمن مزدوران‘ پارٹیاں‘ طبقے‘ ان سب میں شیرازہ بندی کا وہ رنگ مفقود ہے‘ جو دیہی برادریوں اور پیشوں کی پنچائتوں میں پایا جاتا تھا۔ آج کل کے اجتماعات میں رہ کر بھی ہر فرد دوسرے کو اپنا مخالف سمجھتا ہے اور اگر کوئی قدر مشترک ہے تو یہی کہ انسانوں کے اس جنگل میں ہر شخص اپنی اپنی جگہ یکہ و تنہا ہے۔ اب انسان محرومِ انسانیت ہے۔ وہ نہ خدا پر اعتقاد رکھتا ہے‘ نہ انسان پر بھروسہ۔
اضافۂ دولت نے آج زندگی کو زیادہ خوشحال بنادیا ہے۔ لیکن خوشحالی کے معنی اب تن آسانی کے ہیں۔ اب غریب سے غریب شخص بھی سیمنٹ کی سڑکوں‘ بجلی کی روشنی‘ آراستہ چائے خانوں او رپارکوں کے آرام و آسائش سے بہرہ مند ہے‘ اس کی ز ندگی ہماہمی کی زندگی ہے۔ کھیل ہیں‘ تہوار ہیں‘ سیاسی جلسے ہیں‘ اخباروں‘ رسالوں اور کتابوں کا سیلاب ہے۔ غرضیکہ زندگی کی نبض پوری سرعت کے ساتھ چل رہی ہے اور ایک علمی قسم کی مادیت روح کی جڑوں تک سرایت کرچکی ہیں۔
ہم آج بیشک زیادہ دولتمند ہیں‘ اتنے دولتمند کہ تاریخ میں اس ے پہلے کبھی نہ تھے لیکن اسی دولت نے ہمیں بندۂ ضروریات بنادیا ہے اور ضروریات کا یہ سلسلہ بڑھتا ہی جارہا ہے اور پوری بنی نوع انسان کے دل میں ایک طرح کی طلب اور تشنگی کا احساس موجود ہے‘ روح میں جو خلاء پیدا ہوگیا ہے‘ اسے پُر کرنے کے لیے انسان نت نئی تفریحیں تلاش کررہا ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’بیداری‘‘ حیدرآباد۔ شمارہ: جولائی ۲۰۰۶ء۔۔۔ ترجمہ: سید وہاج الدین احمد)
Leave a Reply