مذہب کے بغیر انسانیت
دنیا پرستوں کی طرف سے یوں تو ہر زمانے میں مذہب کے خلاف ایک جذبۂ نفرت موجود رہا ہے، مگر سوشلزم کے فروغ کے دور میں اس جذبے میں غیر معمولی شدت پیدا ہوئی۔ اور بعض لوگ جذبہ نفرت کے مختلف پہلوئوں اور اس کے منطقی نتائج پر غور کیے بغیر یہ کہنے لگے ہیں کہ آخر انسان مذہب کے اثرات سے آزاد ہو کر کیوں بہتر اور شاد کام زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ جن لوگوں نے کبھی کسی مسئلہ پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا وہ تو خیر اسی راہ پر گامزن رہیں گے اور اُس وقت تک اپنے دل میں مذہب کے خلاف نفرت کے جذبات پالتے رہیں گے جب تک کہ لادینیت اپنی ساری ہولناکیوں کے ساتھ دنیا پر مسلط ہو کر انسانی زندگی کو پوری طرح جہنم نہ بنا دے۔ لیکن وہ حضرات جو وقتی نعروں سے فوراً اثر قبول کرنے کے عادی نہیں ہیں اور آنے والے حالات و واقعات پر غور و فکر کرنے کے خوگر ہیں انہیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا مذہب کے بغیر انسانیت زندہ بھی رہ سکتی ہے؟ اور اگر مذہب دنیا سے رخصت ہو جائے تو پھر انسانیت ناگزیر طور پر کس خوفناک انجام سے دوچار ہو گی؟
اس مسئلہ پر بحث سے پیشتر چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔
۱۔ ہمیں مذہب کی بگڑی ہوئی صورتوں سے کوئی سروکار نہیں۔ اگر بعض چالاک اور عیار لوگوں نے دنیوی مفادات کی خاطر مذاہب کا حُلیہ بگاڑا ہے تو یہ اُن کی عیاریاں ہیں۔ مذہب کو اس سلسلے میں کسی طرح بھی موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
۲۔ دنیا کے مذاہب نے اپنی اپنی جگہ فکر و عمل کا جو نظام دیا ہے وہ بھی اس وقت ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ ہم اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتے ہمیں نفسِ مذہب کی ناگزیر ضرورت اور اس کی غیر معمولی افادیت سے بحث کرنا ہے۔ ہمیں ان صفحات میں صرف یہ دکھانا ہے کہ اگر دنیا سے مذہبی افکار و احساسات بالکل ختم ہو جائیں تو پھر انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کیا نقشہ اور انداز ہو گا اور کیا اس نقشے اور انداز کو متمدن زندگی کہا جا سکے گا۔
وجود باری تعالیٰ
مادیت کے پرستاروں نے مذہب کو بے وزن اور بے کار ثابت کرنے کے لیے جس انداز سے اس کے ارتقاء کی داستان مرتب کی ہے وہ بڑی غلط ہے۔ ان کا چونکہ سارا زور اس بات پر ہے کہ اصل چیز مادہ ہے اور خدا بھی چونکہ مادہ کی اس خارجی دنیا کا انسان کے ذہن میں عکس ہے اس لیے خدا کے بارے میں انسانی تصورات خارجی حالات کی تبدیلی سے بدلتے رہتے ہیں۔ آغاز میں جب انسان کے علم اور مشاہدے کا دائرہ محدود تھا تو وہ لاتعداد مظاہرِ قدرت کو خدا مان کر اُن کی پرستش کیا کرتا تھا اس کے بعد جب اس کے علم کا دائرہ وسیع ہوا اور اس کے اندر مظاہرِ کائنات کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوئی تو خدائوں کی تعداد گھٹتی چلی گئی اور پھر ایک خدا کا تصور باقی رہا اور اب اس خیالی پیکر سے بھی انسان کو نجات ملنی چاہیے کیونکہ یہ بھی محض واہمہ ہی ہے۔
خدا کے بارے میں یہ پورا فلسفہ من گھڑت ہے جس کا حقیقت سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں بلکہ وہ ایک ایسی زندہ اور ناقابلِ انکار حقیقت ہے جسے تسلیم کیے بغیر اس کائنات میں انسانی زندگی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔انسان کی فطرت اور اُس کے قلب و دماغ میں خدا کے وجود کا احساس اسی وقت ودیعت کر دیا گیا تھا جس وقت ابوالبشر کی تخلیق کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس ذات کے شعور و احساس کی بناء پر ہی اس کے اندر اخلاقی احساس پیدا ہوتا ہے جو اسے دوسرے حیوانات سے ممیز اور ممتاز کرتا ہے۔ توحید کا تصور ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے انسان کے قلب و دماغ میں پیدا نہیں ہوا بلکہ وہ اول روز ہی سے موجود ہے۔ یہی تصور صحیح اور برحق ہے اور اسی تصور سے انسان کے اندر صحیح اخلاقی شعور جنم لیتا ہے۔ لہٰذا یہ بات کہ انسان نے مدت دراز کے بعد توحید کے تصور کو اپنایا بالکل غلط ہے۔
عہدِ جدید میں انسانیت کے ماہرین نے بعض قدیم قبائل کے افکار و اعمال کا جائزہ لیا ہے اور اس جائزہ کے لیے ایسے قبائل کو منتخب کیا گیا ہے جو آج کی متمدن دنیا سے بالکل الگ تھلگ ہیں جن کا اندازِ زیست پتھر اور لوہے کے ادوار سے ملتا جلتا ہے لیکن وہ مظاہرِ قدرت کی پرستش کے بجائے خالص توحید کے قائل اور ایک خدا کے پرستار ہیں۔ اس سلسلے میں یوں تو بہت سے محققین نے اپنی تحقیقات پیش کی ہیں مگر شمیٹ Schmidt اور ایچ جے روز (Rose) دو جرمن اہلِ قلم کی تصریحات قابلِ غور ہیں۔ انہوں نے افریقہ اور آسٹریلیا کے متعدد قدیم قبائل کے حالات کا بڑی دقت نظر سے جائزہ لیا اور پھر اپنی تحقیقات کو ایک کتاب ’’مذہب کا آغاز اور اس کی نشوونما‘‘ کی صورت میں مدوّن کیا ہے۔ انہوں نے صاف طور پر یہ کہا ہے:
’’قدیم تمدن میں سب سے اعلیٰ و ارفع ذات خدائے واحد کی ہے اور جو مذہب ایک خدا کو تسلیم کرتا ہے وہ توحیدی مذہب کہلاتا ہے۔ اس صورتحال پر بہت سے مصنفین نے اعتراضات کیے ہیں ان کے جواب میں میں یہ کہتا ہوں کہ بہت سے قبائل ایسے ہیں جن کے ہاں ایک ارفع و اعلیٰ ذات پر ایمان اُن کے توحیدی مزاج کی واضح علامت ہے۔ یہ حقیقت بہت سے پگمی قبائل Pycmy قدیم بش من Bushmen کرنائے Kurnia کیولن Kulin اور جنوب مشرق کے یُون قبیلے کے متعلق وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے‘‘۔
ان نیم متمدن قبائل کے ہاں جنہیں علم کی ہوا تک بھی نہیں لگی، توحید کا تصور اس حقیقت پر شاہد ہے، جسے قرآن مجید نے پیش کیا ہے کہ انسان کی فطرت کو صحیح مذہب پر بنایا گیا ہے اور پھر اول روز ہی سے اُس کے لیے ہدایت الٰہی کا سامان کیا گیا۔ لہٰذا وہ ابتدائے آفرینش ہی سے خدا، وحی، حشر و نشر اور رسالت کے بارے میں صحیح قسم کے احساسات رکھتا ہے۔ اگر وہ اس فطری حالت سے الگ ہو کر کوئی دوسری روش اختیار کرتا ہے تو یہ گمراہی کی راہ ہے جسے اُس نے خود اختیار کیا ہے۔
مذہب کے مطالعہ سے اصل صورت حال یہ سامنے آتی ہے کہ قادرِ مطلق نے جب انسان کو مادی اور روحانی احتیاجات کے ساتھ اس کرۂ ارض پر اُتارا تو ان دونوں قسم کی احتیاجات کی تسکین کا سامان بھی فراہم کیا۔ جس طرح اُس نے انسان کی بھوک، پیاس اور صنفی خواہش کو پورا کرنے کے لیے خوراک، پانی اور اُس کے لیے جوڑے کا انتظام کیا بالکل اسی طرح انسان کی روحانی اور اخلاقی تمنائوں اور آرزوئوں کی تکمیل کے لیے اسے ایک واضح نظامِ ہدایت بھی عطا فرمایا تاکہ اس کی روح تشنہ نہ رہے۔ مثلاً ہر انسان میں جبلّی طور پر یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ یہ جانے کہ اس عالمِ محسوسات سے ماورا کیا ہے؟ اس کا جواب اسے یہ دیا گیا کہ اس عالمِ محسوسات سے ماوراء ایک ارفع و اعلیٰ روحانی نظام موجود ہے جو برابر انسان پر اثر انداز ہو کر اُس کے اندر اخلاقی احساسات پیدا کرتا ہے پھر انسان اپنے متعلق یہ جاننے کے لیے بھی آرزو مند رہتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟ اس کا جواب بھی اسے یہ دیا گیا کہ اُس کا آغاز بھی اُس قادرِ مطلق ذات نے کیا ہے اور انجام کار بھی۔ وہ اُس کے حضور میں حاضر ہو گا پھر دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے اندر ایک لامحدود، لامتناہی، قادرِ مطلق اور ان دیکھے خدائی وجود کا احساس موجود نہ ہو۔ ہر فرد کائنات کی اس بنیادی حقیقت کے بارے میں سوچتا ہے اور اس کی فطرت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اس کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کر لے۔ دنیا میں کوئی فرد ایسا نہیں جو اس احساس سے خالی ہو۔ یہ احساس انسان کے اندر اسی طرح ایک گہری خلش پیدا کرتا ہے جس طرح کہ بھوک اور پیاس یا دوسری جبلّی خواہشات خلش پیدا کرتی ہیں۔ یہ احساس وقتی طور پر دَب تو سکتا ہے مگر مٹ نہیں سکتا اور ہلکی سی لے کی طرح ہر وقت موجود رہتا ہے۔ انسان اس حقیقت سے تو بہرحال واقف ہے کہ اس کی ہر شعوری اور جذباتی کیفیت کے لیے ایک معروض Objective کا ہونا ضروری ہے۔ اگر غصہ آ جائے تو کس بات یا شخص پر ہو گا۔ خوشی پیدا ہو گی تو کس چیز یا خیال سے پیدا ہو گی۔اب اگر دوسری نفسی کیفیات کے لیے معروض کا وجود ضروری ہے تو انسان کی اس سب سے بڑی اہم کیفیت کے لیے معروض کیوں نہ ہو۔ اس کا جواب بھی مذہب نے یہ دیا ہے کہ یہ کیفیت انسان کی روحانی اور اخلاقی اساس ہے اور اس کا معروض دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے جو خارجی دنیا میں سوچ سے زیادہ روشن اور داخلی طور پر اس کی اپنی زندگی یعنی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’رسولوں نے کہا کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے‘‘۔(سورۃ ابراہیم)
نفسِ انسانی کے بنیادی احساسات
یہ سارے احساسات جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے انسانی نفس کے بنیادی احساسات ہیں جن سے کسی صورت میں مفر نہیں۔ پھر ان کی نوعیت ایسی ہے کہ کوئی انسان محض مادی زندگی کے شواہد اور حقائق سے ان کی تسکین نہیں کر سکتا۔ آخر سوچیے کہ اس عالمِ محسوسات سے ماوراء حقیقتِ کبریٰ کو جاننے اور اس کے ساتھ اپنی زندگی کو ہم آہنگ کرنے کی آرزو کو یہ کہہ کر کس طرح پورا کیا جا سکتا ہے کہ یہ محض وہم ہے؟ یہ سارے احساسات تو کسی گہری روحانی اور وجدانی کیفیت کے ترجمان ہیں جن کی تسکین انباء الغیب ہی سے ممکن ہے، اگر ہم ان کی نفی کر دیں تو یہ احساسات تو مٹ نہیں سکتے۔ یہ اپنی تسکین کے لیے کوئی اور راستہ پیدا کر لیں گے۔ ہم یہاں اس راستہ کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس پر گامزن قافلۂ انسانیت کے مصائب اور دشواریوں کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ مذہب کے دشمن جھٹ سے یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ مذہب انسانوں کے لیے افیون اور سامراج کے ہاتھ میں ظلم کا ہتھیار ہے مگر انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ مذہب کے بغیر انسانیت کی کس طرح مٹی پلید ہوتی ہے۔
بعض سادہ لوگ اس فریب میں بھی مبتلا ہوتے ہیں کہ دنیا کی بعض قوموں نے مذہب کو تیاگ کر بھی ایک اجتماعی زندگی کی بنیاد رکھی ہے اور یہ اس بات کی شہادت ہے کہ مذہب کے بغیر بھی زندگی بسر کی جا سکتی ہے۔ حقیقی صورتحال کا یہ ایک بالکل سطحی مطالعہ ہے مذہب سے انسان چونکہ ہزاروں سال سے مانوس چلا آ رہا ہے اس لیے اس کے لاشعور میں ابھی تک اخلاقی احساسات موجود ہیں اور ان کی وجہ سے وہ ابھی تک بعض ایسی بنیادی انسانی صفات سے یکسر محروم نہیں ہوا جن کے ناپید ہونے سے اُس کی زندگی پوری طرح درندگی کا نمونہ بن جائے۔ انسان کا حشر اس وقت دیکھنے کے قابل ہو گا جب وہ ان اخلاقی احساسات سے یکسر تہی دامن ہو جائے گا۔
دوسرے ابھی تک یہ قومیں دورِ تعمیر سے گزر رہی ہیں اس لیے ان کے سامنے لادینیت کے منطقی نتائج ابھر کر سامنے نہیں آئے۔ پھر دوسری قوموں کے خلاف ان کے دل میں جو بے پناہ جذبہ نفرت و حقارت پیدا کر دیا گیا ہے اس سے بھی ان کے اندر ایک مصنوعی قوتِ عمل پیدا ہوئی ہے جس نے ان کے اخلاقی شعور کو وقتی طور پر اس حد تک مفلوج کر دیا ہے کہ ان کے اندر احساس زیاں باقی نہیں رہا۔ مگر انسان کے اخلاقی شعور یا دوسرے لفظوں میں اس کی انسانیت کو دیر تک اس حالت میں نہیں رکھا جا سکتا۔ وہ ترقی کے اس طلسم کے ٹوٹتے ہی بیدار ہو گی اور اُسے یہ احساس ہو گا کہ اسے ان احساسات سے محروم کر کے اس کے ساتھ ایک شرمناک کھیل کھیلا گیا ہے۔ اس بناء پر مذہب دشمن قوتوں کی موجودہ صورتحال کو لادینیت کے حق میں وجہ جواز نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ اس صورتحال کے نتائج ابھی کھل کر سامنے نہیں آئے۔ مذہب کے بغیر انسانیت کا حُلیہ اس طرح بگڑے گا اس کا ایک ہلکا سا ادراک موجودہ حالات کی روشنی میں بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں ہم سب سے پہلے انکارِ خدا ہی کو لیتے ہیں۔
خدا کی ہستی کا شعور و ادراک، جیسا کہ ہم پہلے گزارش کر چکے ہیں انسانی فطرت کا بنیادی تقاضا ہے۔ انسان اس احساس سے ایک لمحہ کے لیے بھی دست کش نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ اس احساس کی تسکین کے لیے صحیح راہ نہیں پاتا تو وہ نہ صرف انسانیت کے سب سے شیریں عنصر سے محروم رہتا ہے بلکہ بڑی غلط راہوں پر چل نکلتا ہے۔ چنانچہ دیکھیے جن قوموں نے خدا کا انکار کیا انہوں نے قومیت یا ریاست جیسے جھوٹے خدائوں کی پرستش اختیار کی اور اپنے جذبہ روحانی کی تسکین کے لیے ان کے ساتھ اس طرح کا والہانہ جذبۂ عقیدت استوار کیا جس طرح کہ ایک خدا پرست انسان سچے خالق اور مالک کے ساتھ کرتا ہے۔ ایک فلسفی نے کس قدر صحیح کہا ہے کہ خدا کے ساتھ روحانی تعلق انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ وہ اگر اس تعلق کے لیے خدا کو نہیں پہچانتا تو پھر شیطان کے ساتھ رشتہ عبودیت استوار کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔ قوم، وطن یا مملکت کی پرستش کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس ایک معبود کے سامنے دوسرے معبودوں کا ابطال کیا جائے۔ اس احساس کے تحت ’’جارحانہ قوم پرستی‘‘ کا نظریہ پیدا ہوا جس کی رُو سے دنیا کی ہر قوم دوسری قوموں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے پر تُل گئی۔ پھر اپنے گھر کے اندر قوم کے سارے افراد نے اسے خدا سمجھ کر اس کے ہر جائز و ناجائز مطالبے کو پورا کرنے کی کوشش کی اور اسی کو ہی زندگی کی معراج خیال کیا۔ ظاہر بات ہے کہ قومی مطالبے قوم اور وطن کے سربراہوں کی زبان سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سربراہوں کو معاشرے میں اسی بلند مقام پر فائز کر دیا گیا جس مقام پر کہ مذہب میں خدا کے پیغمبر فائز کیے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ انسان اپنے روحانی احساسات کی تسکین کے لیے جو مادّی مذہب اختیار کرنے پر مجبور ہوا ہے اس میں خدا کی جگہ قوم کی پرستش اور رسول کی غیر مشروط اور خوشدلانہ اطاعت کی جگہ اربابِ اختیار کی بے چون و چرا اطاعت موجود ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس اندازِ فکر اور طرزِ عمل سے انسان کی روح کو تسکین حاصل ہو سکتی ہے؟ قوم اور وطن دونوں الوہیّت کے اس لطیف اور شیریں عنصر سے عاری ہیں جو انسان کو حق تعالیٰ کی بلند و بالا ذات میں مل سکتا ہے۔ انسان فطری طور پر عالمِ محسوسات سے ماوراء کسی اعلیٰ و ارفع ذات سے رشتۂ عبودیت استوار کرنے کا آرزو مند ہوتا ہے اور اسے جب کسی پیکرِ محسوس کی پرستش پر آمادہ کیا جائے تو لازمی طور پر وہ اپنی زندگی میں ایک خوفناک خلا محسوس کرتا ہے۔ اس کے قلب و دماغ کو یہ دیکھ کر بھی شدید اذیت ہوتی ہے کہ جن لوگوں کو وہ اس جھوٹے خدا کے ترجمان اور اس کے احکام کے شارح قرار دے کر خود کو ان کی غیر مشروط اطاعت کے لیے تیار کر رہا ہے وہ بھی اپنے اندر کوئی ایسی روحانی اور اخلاقی کشش نہیں رکھتے جس سے انسان کی روح تسکین حاصل کرے اور اسے یہ محسوس ہو کہ ان مقدس ہستیوں کی پیروی سے وہ اپنے آپ کو ایک روحانی نظامِ اخلاق سے ہم آہنگ کر رہا ہے۔ ’’جارحانہ قوم پرستی‘‘ کے ان رہنمائوں کی اطاعت سے ان کی روحیں مجروح ہوتی ہیں کیونکہ انہیں ہر قدم پر یہ احساس ستانے لگتا ہے کہ وہ جبرو استبداد، مکر و فریب، خود غرضی اور دنیا پرستی کی راہ پر گامزن ہیں اور ان کی زندگی لطیف احساسات سے یکسر تہی دامن ہوتی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں دلوں میں قوم یا مملکت کی خدائی کا نقش مستقل طور پر قائم کرنے کے لیے اور عوام کو اربابِ اختیار کا پرستار بنانے کی خاطر یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی حمد و ثناء میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جائیں۔ انہیں ایسی غیر معمولی اور مافوق البشر صفات کا مظہر قرار دیا جائے جن کی بناء پر ان کے اندر الوہیّت کی شان پیدا ہو۔ اس احمقانہ اور خطرناک رجحان نے پوری دنیا کی اخلاقی حالت کو جس طرح متاثر کیا ہے۔ وہ سب کے سامنے ہے اور اس سے جو مزید فتنے پیدا ہونے کا امکان ہے ان کا تصور بھی کچھ مشکل نہیں۔
مذہبی احساسات سے محروم ہو کر انسان اپنی انسانیت کو بھی برقرار نہیں رکھ سکتا آپ غور کریں کہ انسان اگر حیوان سے ممیز و ممتاز ہے تو اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہے کہ وہ اخلاقی احساسات رکھنے کی بناء پر اپنی حسّی اور مادّی خواہشات کو اخلاقی حدود کے اندر رہ کر پورا کرتا ہے اور ان احساسات کی وجہ ہی سے وہ مادّی سود و زیاں سے بلند تر ہو کر اچھے اور پاکیزہ مقاصد کے حصول کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ انسان کا اخلاقی شعور مذہبی احساس کی وجہ سے قائم ہے۔ اگر یہ ختم ہو جائے تو انسان کے اندر حسّی لذات اور مادی مفادات سے بلند تر ہو کر سوچنے اور اعلیٰ اخلاقی مقاصد کے حصول کی خاطر زندہ رہنے کی کوئی تمنا باقی نہیں رہتی اور انسان زندگی کا وہی نہج اختیار کر لیتا ہے جو حیوانوں کا ہے۔
غیر اخلاقی عمل کا محرک اور اس کے نتائج:
اخلاقی احساس کی عدم موجودگی میں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ انسانی عمل کا محرک کیا ہے؟ اس کا ایک ہی جواب ممکن ہے کہ جب روحانی اور اخلاقی احساس موجود ہے تو پھر حسّی لذت کی تسکین، مادی منفعت کی چاٹ اور نفع عاجلہ کی امید ہی کو عمل کا سب سے بڑا محرک قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر انسان کے اندر کسی بلند روحانی نصب العین کے حصول کی خواہش نہ ہو تو لامحالہ وہ حسّی خواہشات کی تکمیل ہی کے لیے سرگرم عمل ہو گا۔ انسان کے لاشعور میں مذہب کے بچے کھچے اثرات موجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ ابھی تک درندگی کی اس سطح پر نہیں اُترا جس پر اسے فی الواقع اُتر جانا چاہیے تھا لیکن اگر مذہب کے خلاف نفرت کا یہی جذبہ پرورش پاتا رہا تو دنیا کی کوئی قوت اسے پست سطح پر گرنے سے نہیں بچا سکتی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ انسان کو مذہب کے بغیر بھی انسانیت کے وسیع تر مفادات کے لیے ایثار و قربانی پر ابھار سکتے ہیں، انسانی فطرت کے بارے میں شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ یہ لوگ غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ ایک مخصوص قسم کے نظامِ تعلیم و تربیت کے ذریعہ عوام کے اندر اجتماعی مفادات کی محبت پیدا کر کے انہیں غیر معمولی ایثار پر آمادہ کر سکیں گے۔ مگر یہ ایثار کی نفسیاتی کیفیت سے شاید یکسر ناواقف ہیں۔ اگر کوئی انسان اپنے ذاتی مفادات کو وسیع تر مفادات کی خاطر قربان کرتا ہے تو وہ یہ عظیم قربانی بھی روحانی احساس کے تحت کرتا ہے ورنہ حسّی لذات اور مادّی خواہشات تو انسان کے اندر خود غرضی اور نفس پرستی کے جذبات پیدا کرتی ہیں۔ انسان کے اندر اجتماعی زندگی کی تشکیل کے لیے ایثار، بنی نوع انسان سے بے لوث محبت، دوسروں کے دکھ درد میں ان سے تعاون، مصیبت کے وقت ان کی معاونت اور دستگیری، کمزوروں اور بے بسوں پر رحم، بڑے مستحسن جذبات ہیں اور یہ سب روحانی احساسات کے مختلف مظاہر ہیں۔ اگر یہ احساسات مٹ جائیں تو انسان خود غرضی اور شعاوتِ قلبی کا پیکر بن جاتا ہے اور اپنے طرزِ عمل میں درندوں سے بھی زیادہ خونخوار ہو جاتا ہے۔ غور فرمائیں کہ اس صورت میں کیا کسی تہذیب کا نام و نشان باقی رہ سکتا ہے؟ اگر اخلاقی حِس ناپید ہے تو انسان کو اس بات کی آخر کیا ضرورت ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو قربان کر کے دوسروں کو آرام و سکون فراہم کرنے کا التزام کرے اور کمزوروں اور بے بسوں کو دنیا سے مٹا کر اپنے وسائل میں وسعت پیدا کرنے کے بجائے اُن سے تعاون کرے اور انہیں زندہ رکھ کر ان وسائل میں انہیں شریک ٹھہرائے؟ سوچیے کہ آخر وہ کون سا جذبہ ہے جس کے تحت نوجوان اپنے بوڑھے والدین کا ہنسی خوشی بوجھ اٹھاتے ہیں حالانکہ ان سے نفع کی کوئی امید باقی نہیں ہوتی۔ مادی نقطۂ نظر سے تو یہ لوگ خاندان اور معاشرے پر بار ہوتے ہیں اور ان کا سب سے اچھا مصرف یہی ہے کہ ان کے نحیف اور بے کار وجود سے دنیا کو پاک کیا جائے اور ان کے جسموں سے پیداوار بڑھانے کا کام لیا ہے۔
ایک نہیں بہت سے ایسے قواعد و ضوابط ہیں جن کی پابندی لادینی عناصر اور معاشرے بھی کرتے ہیں لیکن دراصل ان کی تہہ میں مذہب کے پیداکردہ اخلاقی احساسات ہی کارفرما ہوتے ہیں۔ ماں، بہن اور بیٹی سے نکاح کو جو سخت ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو اس کی وجہ بھی مذہبی احساس ہی ہے ورنہ خالص مادّی نقطہ نظر سے تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ ان رشتوں میں ایک خاص نوعیت کی جو تقدیس پائی جاتی ہے وہ صرف مذہب کی رہینِ منت ہے۔ انسان خواہ زبان سے مذہب کا مخالف اور دشمن ہو مگر اس کے لاشعور میں بہن اور بیوی کے درمیان یا بیوی اور ماں کے درمیان جو ایک واضح امتیاز ہوتا ہے وہ صرف مذہب کا پیدا کردہ ہے کیونکہ خالص حیوانی نقطۂ نظر سے اس تفریق اور امتیاز کا کوئی جواز نہیں۔
آپ غور کریں کہ اگر انسان اپنے حسّی محرکات کے تحت ہی زندگی بسر کر سکتا تھا تو اس کی ہدایت کے لیے آخر اتنے لاتعداد انبیاء کیوں بھیجے گئے؟ کائنات کی ان مقدس ہستیوں کی جدوجہد کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ جو کام انہوں نے کیا اگرچہ دنیا کا سب سے سخت ترین اور صبر آزما کام ہے مگر انسانوں کے کرنے کا کام یہی ہے انسانیت کا حقیقی جوہر اسی کام کے ذریعے کھلتا ہے اور اُس جوہر کی بدولت انسان نہ صرف حیوانوں کی سطح سے بلند ہوتا ہے بلکہ اخلاقی رفعتوں میں فرشتوں کو بھی پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ فرشتوں میں تو حیوانیت کا کوئی عنصر سرے سے ہوتا ہی نہیں اس لیے وہ حسّی خواہشات کی لذت سے یکسر محروم ہوتے ہیں اور اس بناء پر یہ خواہشات ان کے عمل کا کسی صورت بھی محرک نہیں بن سکیں۔ انسان کی اصل انسانیت بلکہ اس کی حقیقی عظمت کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ وہ حسّی خواہشات اور مادّی تمنائوں کی قوت کو اپنے اندر محسوس کرنے کے باوجود انہیں اپنے آپ پر غالب نہ ہونے دے بلکہ انہیں اخلاقی احساسات کا پابند بنا کر تعمیر و ترقی کی راہ پر لگائے۔ انسانیت درحقیقت انسان کی اپنی حیوانیت پر اس کی اخلاقی حس اور اس کی روح کی فتح کا دوسرا نام ہے اور یہ فتح و کامرانی مذہبی تعلیمات ہی سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
مذہب نے اخلاقی اساس کو نہ صرف پیدا کیا ہے بلکہ اس کی پرورش کا بھی انتظام کیا ہے۔ اس احساس کے تحت انسان خاکی ہونے کے باوجود وطن کا پرستار نہیں بنتا بلکہ انسانیت کی وسیع تر برادری سے رشتۂ اخوت استوار کرتا ہے۔ اسی احساس کی بدولت وہ مادّی سود و زیاں سے بے پروا ہو کر زندگی کے بیشتر معاملات اخلاقی بنیادوں پر طے کرتا ہے اور اسی احساس کے تحت والدین کی عزت و تکریم کرتا ہے، کمزوروں اور ناداروں کے سر پر دستِ شفقت رکھتا ہے، بے سہارا لوگوں کو سہارا دیتا ہے حالانکہ مادّی نقطۂ نظر سے یہ سراسر گھاٹے کے سودے ہیں۔ اسی احساس سے ان کے اندر استغناء، تحمل، بردباری اور ایثار جیسی بلند و اعلیٰ صفات پرورش پاتی ہیں۔ پھر یہی احساس اس کے اندر اخلاص اور بے لوثی کی ایسی متاعِ عظیم پیدا کرتا ہے جس کی رو سے وہ اپنی ساری خدمات اور قربانیوں کے بدلے کسی دنیوی فائدے، شہرت یا عزت کا طلب گار نہیں ہوتا بلکہ یہ سارے کام وہ خدا کی رضا جوئی کے مقدس جذبے سے کرتا ہے خدا کی رضا کے لیے جینے اور مرنے کا عزم انسان کی پوری زندگی کو خدا ترسی کا نمونہ بناتا ہے اور انسان زندگی کے ہر چھوٹے بڑے کام کو بڑے اخلاص کے ساتھ سرانجام دیتا ہے۔ اس مقدس جذبہ کی موجودگی انسان کے اندر دو رنگی اور منافقت ختم کر دیتی ہے اور انسان سراپا اخلاص بن جاتا ہے۔
مذہب اور مذہبی احساسات و معتقدات انسان کی سب سے زیادہ قیمتی متاع ہیں مگر افسوس، انسان ان کی اصل قدر و قیمت سے ناآشنا ہوتا جا رہا ہے۔ مادّی ذرائع و وسائل کی فراوانی نے اس کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا ہے۔ اس لیے وہ اُس متاعِ عزیز سے غافل ہو گیا ے جس سے اس کی انسانیت وابستہ ہے۔ ہوا اور روشنی ہماری مادّی زندگی کے لیے جس قدر ضروری ہیں اس سے سب واقف ہیں، مگر ہم ان کی پوری طرح قدر نہیں کرتے کیونکہ یہ ہمیں بغیر کسی تکلیف اور محنت کے میسر آجاتی ہیں۔ اسی طرح مذہب جو انسانیت کا سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہے اور جس پر اس کی اخلاقی اور روحانی زندگی کا سارا انحصار ہے ہم اس کی غیر معمولی اہمیت پہچاننے سے قاصر ہیں۔ جس طرح ہوا اور روشنی کی اصل قدر اس وقت معلوم ہوتی ہے جب انسان اس سے محروم ہو جائے۔ اسی طرح مذہب کی حقیقی قدر و قیمت کا اندازہ انسانیت کو اس وقت ہو گا جب انسان اس گنجِ گراں مایہ سے بالکل تہی دست ہو جائے گا۔ اُس وقت اُسے معلوم ہو گا کہ اُس محرومی سے وہ درندگی کے کس پست مقام پر پہنچ چکا ہے۔ حیوانوں میں تو بعض ایسی جبلتیں موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ مل کر زندگی بسر کر لیتے ہیں، مگر انسان میں یہ جبلتیں بڑی کمزور ہیں اور ان کے مقابلے میں خود غرضی کے جذبات زیادہ طاقتور ہیں، اس لیے انسان کے اندر اگر اخلاقی اور مذہبی احساسات باقی نہ رہے تو وہ درندوں سے بھی زیادہ خونخوار ہو گا۔ خدا وہ دن نہ دکھائے جب انسان مذہب کے شیریں اور حیات آفریں عنصر سے محروم ہو کر درندہ بن جائے کیونکہ اگر اس کا مقام پر پہنچ گیا تو پھر دنیا میں خیر و بھلائی کا نام و نشان باقی نہ رہے گا۔
(بحوالہ کتاب: ’’مذہب اور تجدیدِ مذہب‘‘)