آسٹریا: سو سالہ قدیم اسلامی قوانین میں ترمیم

یورپی ملک آسٹریا میں اسلام کے بارے میں ایک صدی پرانے قانون میں حکومت کی جانب سے تبدیلی کے منصوبے پر بحث چِھڑ گئی ہے۔

قانون کے نئے مسودے کا ایک مقصد ملک کو درپیش اسلامی شدت پسندی سے نمٹنا ہے اور حکومت قانونی ترمیم کے ذریعے کسی بھی تنظیم کو بیرونِ ملک سے ملنے والی امداد پر پابندی لگانا چاہتی ہے۔

آسٹریا کی سرکاری اسلامی تنظیم ’اسلامک کمیونٹی‘ کا کہنا ہے کہ قانون میں مجوزہ ترمیم سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر بھروسا نہیں کیا جاتا اور انھیں برابر کا شہری نہیں سمجھا جاتا۔

آسٹریا میں اسلام کو سنہ ۱۹۱۲ء میں سرکاری طور پر ایک مذہب کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا تھا اور شاہ فرانز جوزف کے دور میں بوسنیا ہرزیگووینا پر آسٹریا کے قبضے کے بعد ’اسلام گیزیٹز‘ نامی اسلامی قانون بھی متعارف کروایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت کیتھولک عیسائیوں، یہودیوں اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی طرح مسلمانوں کو بھی کئی حقوق کی ضمانت دی گئی تھی، جن میں سرکاری اسکولوں میں بچوں کی مذہبی تعلیم بھی شامل ہے۔

’اسلامک کمیونٹی‘ سے منسلک کارلا امینہ بغاجاتی کا کہنا ہے کہ آسٹریا کا پرانا قانون ’برِاعظم یورپ‘ میں ایک قسم کا ماڈل یا نمونہ ہے اور اس قانون نے مسلمانوں کو آسٹریا کے معاشرے کا حصہ بننے اور اس میں ضم ہونے میں بہت زیادہ مدد کی ہے۔ اُن کے بقول اس قانون سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے مذہب کو سرکاری سطح پر تسلیم کرنے سے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ملک میں قبولیت حاصل ہے، اس کے بعد ریاست کے ساتھ ان کی وفاداری خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔

آسٹریا میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد تقریباً پانچ لاکھ ہے، جو کہ ملک کی آبادی کا تقریباً چھ فیصد ہے۔ ان میں اکثریت کے آبا و اجداد کا تعلق ترکی یا بوسنیا سے تھا۔

سو سال گزر جانے کے بعد اکثریت کا خیال ہے کہ اسلامی قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے تا کہ اسے جدید آسٹریا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔

اسلامک کمیونٹی مجوزہ ترامیم سے اتفاق نہیں کرتی اور اس کا کہنا ہے کہ خاص طور پر بیرونی ممالک سے مساجد اور اماموں کو امداد پر پابندی کی تجویز غلط ہے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ پابندی تمام شہریوں کے درمیان مساوات کے اصول پر پوری نہیں اترتی۔ لیکن امور خارجہ اور ہم آہنگی کے وزیر سبیس چیئن کرز کا کہنا ہے کہ یہ پابندی ضروری ہے۔ ایک ریڈیو سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر کا کہنا تھا کہ اسلام کے برعکس ہمیں دوسرے مذاہب سے یہ خوف نہیں کہ ان کے ماننے والوں پر بیرون ملک سے کوئی اثر انداز ہو سکتا ہے، اس لیے ہمیں مالی امداد کے بارے میں سختی کرنا پڑے گی۔ ہمیں یہاں آسٹریا کا اپنا اسلام چاہیے۔ آسٹریا میں ہر مسلمان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہونی چاہیے، لیکن ہم نہیں چاہتے کہ کوئی باہر سے مسلمانوں پر اثرانداز ہو یا انہیں کنٹرول کرے۔

آسٹریا میں اکثریت کیتھولک مذہب کے ماننے والوں کی ہے اور باقی یورپی ممالک کے مقابلے میں یہاں مسلمانوں اور اکثریتی مذہب کے درمیان تعلقات عموماً اچھے رہے ہیں، تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے یہاں تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام میں بے چینی میں اضافے کی بڑی وجہ گزشتہ چند ماہ سے آنے والی یہ اطلاعات ہیں کہ آسٹریا سے مسلمان عراق و شام جا کر دولتِ اسلامیہ میں شامل ہو رہے ہیں۔ ان جہادی مسلمانوں میں ویانا کی رہنے والی دو نوجوان لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ ۱۵ سالہ سبینہ سلیموف اور ۱۷ سالہ سامرہ کیسینووک کے والدین بوسنیا سے آئے ہوئے پناہ گزین ہیں۔ یہ دونوں لڑکیاں اپریل میں ویانا سے غائب ہو گئیں۔ حال ہی میں انہوں نے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے دیے جانے والے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ شام پہنچ چکی ہیں اور انہوں نے دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں سے شادیاں کر لی ہیں۔

اگست میں آسٹریا کی حکومت کا کہنا تھا کہ ملک میں اسلامی عسکریت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سرکاری اہلکاروں کے مطابق اب تک تقریباً ۱۵۰؍افراد آسٹریا سے دولتِ اسلامیہ جیسے جہادی گروہوں میں شمولیت کے ارادے سے جا چکے ہیں، جن میں ۴۴ آسٹریا کے شہری شامل ہیں۔

مشہور صحافی گردن ہرر کہتی ہیں کہ شدت پسندی یقیناً ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے، لیکن یہ اسلامی قانون کا موضوع نہیں ہونا چاہیے: ’ہمیں چاہیے کہ ان معاملات کو ایک دوسرے سے الگ رکھیں‘۔ اگر ہم آسٹریا کی آبادی کو سامنے رکھیں، تو میرا خیال ہے کہ ہمیں شدت پسندی سے زیادہ دوسرے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔

گردن ہرر کے خیال میں شدت پسندی کی وجہ ملک کی پرانی مسلمان آبادی نہیں بلکہ حالیہ عرصے میں چیچنیا سے آنے والے پناہ گزین ہیں۔

’’اگر آپ کو ٹھیک طرح سے اسلام پڑھایا گیا ہو تو آپ شدت پسندی کی جانب راغب نہیں ہوتے، بلکہ آپ شدت پسند اس وقت بنتے ہیں جب آپ کے پلّے کچھ نہیں ہوتا‘‘۔

قانون میں ترمیم پر اسلامی کمیونٹی کے تحفظات کے علاوہ قانونی ماہرین نے بھی اس پر تنقید کی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مجوزہ ترامیم سے مسلمانوں کے برابر کے شہری ہونے کے حق کو زک پہنچے گی۔

یونیورسٹی آف ویانا کے پروفیسر اسٹیفن ہیمر کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ حکومت کا قانونی حق ہے کہ وہ دیگر ممالک سے آنے والے عطیات کے غلط استعمال کو روکنے کی کوشش کرے، لیکن اسلامک کمیونٹی کی ہر قسم کی مالی امداد پر پابندی لگانے سے کئی آئینی مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔

دوسرے مذہبی گروہوں اور چرچوں کو بھی باہر سے مدد ملتی ہے، خاص طور پر قدامت پسند روسی چرچ کو ماسکو سے پیسے ملتے ہیں، لہٰذا ایک مذہب کو اجازت دینا اور دوسرے کو نہ دینا حکومت کی جانب سے زیادتی ہوگی۔

’اسلام کمیونٹی‘ سے منسلک کارلا امینہ بغاجاتی کے مطابق نئے قانون کے مسودے کی روح یہی ہے کہ حکومت مسلمانوں پر اعتبار نہیں کر رہی اور انہیں شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔

کارلا امینہ کے بقول انہیں خدشہ ہے کہ مسلمانوں پر شک کو شدت پسند لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔

مذکورہ ترامیم کے مسودے پر آج کل غور کیا جا رہا ہے اور متعلقہ افراد اس کا تفصیلی جائزہ لے رہے ہیں۔ اندازہ ہے کہ مسودے کو منظوری کے لیے اسی ماہ پارلیمان میں پیش کیا جا سکتا ہے۔

اسلامک کمیونٹی سے منسلک عمر الراوی کہتے ہیں کہ اگر قانون کے متنازع حصوں کو تبدیل نہیں کیا جاتا تو ان کی تنظیم کی اگلی منزل آسٹریا کی آئینی عدالت ہوگی۔

(بحوالہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ ۴ نومبر ۲۰۱۴ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*