
دکن ہندوستان میں مسلمانوں نے قریب سات سو سال شان و شوکت اور جاہ و جلال سے حکومت کی۔ آخری سوا دو سو سال میں آصف جاہی خاندان کی حکمرانی تھی جس نے اس خطے کو پرامن بنایا۔ مذہبی رواداری اور امن و چین بخشا۔ تہذیب کی آبیاری کی۔ برادرانِ وطن میں نہ فرق کیا اور نہ فرق آنے دیا۔ سیاسی، تعلیمی، تجارتی، صنعتی، زرعی، فلاحی، اعلیٰ عدالتی غرض ہر شعبے میں وہ ترقی ہوئی کہ حیدرآباد ہندوستان کی مثال اور ترقی یافتہ مملکت بنی۔ ایسی مضبوط ریاست کا صرف پانچ دن کی فوجی کارروائی میں خاتمہ ہونا حیرت ناک ہی نہیں عبرتناک بھی ہے۔
انسانی سرگرمیوں کی تاریخ جبر و اختیار سے عبارت ہے۔ یہی وہ دھوپ چھائوں ہے جس میں اقوام اور ان کی تہذیب و تمدن کبھی جھلس جاتا ہے اور کبھی سستاتا بھی ہے۔ یہ ایک قانونِ فطرت ہے۔ تاریخ بعض اوقات حالات کے جبر کا نتیجہ ہوتی ہے اور بعض اوقات تاریخ ساز انسانوں کے عمل کا نتیجہ۔ تاریخ ساز انسان اپنی دانشمندی اور اولوالعزمی سے زوال پذیر قوم کو سہارا دے کر عروج کی طرف گامزن کرتے ہیں جب کہ قوم و ملک اچانک زوال آمادہ ہو جاتی ہے۔ حیدرآباد کے زوال کی تاریخ میں یہ دونوں عوامل کار فرما ہیں۔ تاریخ کا یہ جبر کہ جس گروہ انسان میں فہم و شعور کا فقدان تھا وہ زوال کی طرف مائل ہوا اور دوسری طرف وہ شخصیتیں جو حالات کے رُخ کو متعین کرنے کا مقام رکھتی تھیں انہوں نے حالات کا صحیح اندازہ نہیں لگایا۔ اگر اندازہ لگایا بھی تو دانشمندی اور فراست کے ساتھ حالات کے دھارے کو بدلنے کی کوشش نہیں کی اور جو ہوا کے رُخ کو بھانپ چکے تھے انہوں نے مقابلے کی کوئی تیاری نہیں کی۔
زوال حیدرآباد کے المناک سانحے کے بارے میں (اس کتاب کے) گزشتہ ابواب میں جو روشنی ڈالی گئی ہے اس کی نوعیت واقعاتی ہے اور اس وقت کے حالات کے پس منظر میں ان کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ اس پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں نکل سکتی جو واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں اور جو شخصیتیں فیصلوں کا حصہ بنی ہیں یا پھر ان پر اثر انداز ہوئی ہیں زوالِ حیدرآباد کی ذمہ دار نظر آتی ہیں۔ ساتھ ہی ایک طویل عرصہ کی غفلت اور بے شعوری تھی جس نے بھی زوال پیدا کیے۔
حیدرآباد کا زوال عملاً ایک تہذیب اور ایک زبان کا زوال تھا۔ جس کی شروعات ۱۸۰۰ء میں اس وقت ہوئی جب کہ نظام دکن نے انگریزوں کو ساحلی علاقے حوالے کرنے کے ساتھ ساتھ عہد معاونت کا ناعاقبت اندیشانہ معاہدہ کیا تھا جس کے نتیجے میں نہ صرف نظام کے اقتدار پر ضرب لگی بلکہ حکومت ساحل سمندر سے محروم ہو گئی۔ چاروں طرف برطانوی ہند سے محصور ہونے کی وجہ سے بیرونی دنیا سے آزادانہ رابطہ کی اہلیت کھو بیٹھی۔ مغربی تہذیب بتدریج حیدرآباد کی منفرد تہذیب پر غیر محسوس اثر چھوڑنے لگی اور ساتھ ہی ساتھ نظام دکن کی آزادی اور خود مختاری پر بھی سائے ڈالنے لگی تھی لیکن اس کے ادراک کے لیے دوربین نظر درکار تھی۔ اس خاموش تبدیلی کے باوجود سلطنتِ آصفیہ اردو تہذیب اور اردو زبان کی علامت بنی ہوئی تھی جس سے عام مسلمان ایک جذباتی آسودگی حاصل کرتا تھا۔ انگریزوں نے اپنے قدم تو جما لیے تھے لیکن انہوں نے حکمرانِ دکن کو چلنے کی آزادی دے رکھی تھی۔ نتیجے میں شخصی حکمرانی کے زیرِ اثر یہ تہذیب و زبان ایک ایسے گنگا جمنی معاشرہ کی آبیاری کر رہی تھی جو ہند و مسلم طبقات کے درمیان مفاہمت پرمبنی باہمی خلوص و محبت کے جذبات سے گوندھا جا رہا تھا۔ اس تہذیب کا گہوارہ جاگیردارانہ نظام تھا اس لیے یہ تہذیب طبقۂ اشرافیہ کے محلات اور محفلوں سے نکل کر عوام کی سطح پر ایک نقالی کی صورت میں جلوہ گر ہو گئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جو تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں وہ عام شعور کی گرفت سے باہر تھیں۔
انگریزوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں اس فراست سے کام نہیں لیا گیا جس کو آج ڈپلومیسی کہا جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں معاملات ٹھوک بجا کر مفاد کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ نظام اور ان کے بعد کے آصف جاہی بادشاہوں نے انگریزوں کے ساتھ جو شریفانہ اور فراخدلانہ سلوک کیا اس کا صلہ انگریزوں نے جس منفی انداز میں دیا تھا وہ نظام ہفتم کے لیے سبق آموز تھا۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے نازک لمحات کے دوران انگریز، نظام ہفتم سے ویسے ہی فراخدلانہ مدد و تعاون کے منتظر تھے یہی وہ موقع تھا جب کہ مطالبات منوا لیے جاتے، حقوق اور چھینے ہوئے علاقے واپس لیے جاتے لیکن یہ حکمتِ عملی اختیار نہیں کی گئی۔ وفا کا دامن ہی پکڑے رہے جبکہ وہ وفا کا دامن جھٹک کر چلے گئے۔
اوائل بیسویں صدی سے لے کر ۱۹۳۷ء تک کا زمانہ حیدرآباد کی سیاسی اور سماجی زندگی میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ تحریکات اور تبدیلی کا زمانہ تھا۔ تحریکِ آزادی کا جو طوفان اٹھ رہا تھا اس کی طاقت اور اثرات کا صحیح اور مدبرانہ جائزہ لینے میں حیدرآباد دانستہ یا نادانستہ طور پر ناکام رہا۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کے نتیجے میں حیدرآباد میں تعلیم یافتہ متوسط طبقے کو فروغ حاصل ہوا۔ مواصلاتی نظام جیسے کئی ایک ادارے وجود میں آ گئے۔ سماجی اصلاحات اور ذمہ دارانہ حکومت کے لیے متعدد کانفرنسیں منعقد کی گئیں۔ یہ سرگرمیاں ایک معنی میں حیدرآباد میں شعور کی بیداری کی عکاسی کرتی تھیں۔ جس کے جواب میں روشن خیالی درکار تھی لیکن ان تحریکات کو دبانے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے۔ یہ تدبر اور تدبیر کے فقدان کا نتیجہ تھا۔ اس کا ردعمل یہ ہوا کہ ہندوستان میں تحریکِ آزادی زور پکڑنے کے ساتھ ہی ساتھ حیدرآباد میں شخصی حکمرانی کے خلاف جذبات فروغ پانے لگے۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے ایک ایسا متوسط تعلیم یافتہ طبقہ باہر آیا تھا جو دائیں اور بائیں بازو نظریات کا حامی تھا۔ اس نے اپنا ایک حلقۂ اثر پیدا کر لیا تھا۔ یہ تو ایک حقیقت رہی ہے کہ جب تحریکات نظریاتی اساس پر وجود میں آتی ہیں تو دوسرے خطوں میں سرگرم رہنے والے ہم خیال گروپ سے رابطہ قائم کیا جاتا ہے تاکہ اپنے علاقے میں تحریک کو مستحکم بنانے میں تعاون حاصل کیا جائے چنانچہ حیدرآباد میں ایسا ہی ہوا۔ دائیں اور بائیں بازو کی جو تحریکیں چل رہی تھیں اس کے قائدین اور کارکنوں نے ہندوستان کی اپنی ہم خیال تنظیموں سے رابطہ قائم کر لیا تھا جس کے نتیجے میں حیدرآباد میں عوامی بے چینی اپنی خاموشی توڑنے لگی تھی۔
تحریکات کے اس نازک دور میں دوسرا فریق جو اکثریت میں تھی اس کے جذبات احساسات اور مفاد کا پاس و لحاظ کرنا اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت تھی۔ تحریکات کے اثرات سے حیدرآباد کی فضا کا متاثر ہونا لازمی تھا اور فضا کو مکدر ہوتے دینا حیدرآباد کے حق اور مفاد کے خلاف تھا اسی لیے بہادر یار جنگ نے دیگر ہوش مند اور ذی عقل رہنمائوں کے تعاون سے دوسرے فریق کے سلجھے ہوئے رہنمائوں سے مفاہمانہ گفتگو کا آغاز کیا۔ حیدرآباد کے بھائی چارہ اور خلوص بھری تہذیب کے ماحول کو باقی رکھنے کے لیے دونوں نے مل کر ایک مفاہمانہ فارمولا تیار کر لیا تھا جو دونوں فریقین کے لیے قابلِ قبول تھا۔ لیکن حکومت کے ایوان نے اسے سبوتاژ کیا جو ایک غیر دانشمندانہ اقدام تھا۔ یہ فارمولا قبول کر لیا جاتا اور روبہ عمل لایا جاتا اور بہادر یار جنگ جیسے دونوں فرقوں کے مقبول رہنما باقی رہتے تو شاید حیدرآباد کو یہ برے دن دیکھنے نصیب نہ ہوتے۔
ہندوستان میں آزادی کی تحریک جیسے جیسے اپنی منزل کے قریب پہنچ رہی تھی حیدرآباد میں اس تحریک کے حامیوں میں ایک نیا اعتماد بھی پیدا ہو رہا تھا اور جب ملک کے بٹوارے کی باتیں کی جانے لگیں تو عوامی سطح پر شکوک و شبہات نے اپنا گھر بنا لیا۔ آخر کار جب تقسیمِ ملک کا وقت آیا تو حیدرآباد کے گنگا جمنی معاشرے میں تہذیبی و لسانی اور کسی حد تک مذہبی اساس پر اپنی اپنی شناخت منوانے کے جذبات ابھرنے لگے۔ نظام حیدرآباد کی پریشان حال حکمرانی تھی اور اس کے تحفظ کے لیے صرف مسلمان تھے اور ان کی جذباتی قیادت دور اندیشی سے عاری تھی جس کے ہاں مصلحت کا نام بزدلی، جذبات کا نام جرأت اور بہادری تھی۔ ان حقیقتوں کے مدنظر حکومت سے کوئی موزوں سمجھوتے کی حکمتِ عملی ہی عقلی دلیل تھی۔ رزم آرائی یا مقابلہ غیر موزوں تھا۔ ابتداًجب حکومت ہند پریشان تھی، بجائے معاہدۂ انتظام جاریہ کے ایک مستقل معاہدہ حاصل کرنے کے مواقع تھے جو ضائع کیے گئے۔ معاہدے انتظام جاریہ کے وقت قاسم رضوی کی غیر ذمہ دارانہ حرکت نے (چاہے وہ نظام کے اشارے سے ہی کیوں نہ کی گئی ہو) حکومتِ ہند کو مشکوک کر دیا اور بعد میں قاسم رضوی کی جذباتی اور غیر ہوش مندانہ تقاریر سے مزید نقصان پہنچا۔ کمزور موقف کی وجہ سے مذاکرات اور سمجھوتہ پر اپنی ساری طاقت صرف کی اور بڑی مہارت کا ثبوت دیا۔ لیکن حکومت ہند کے ارادے صاف نہ تھے وہ حیدرآباد کو مذاکرات میں ہی الجھائے رکھنا چاہتی تھی اور کوئی ایسا معاہدہ نہیں چاہتی تھی جس سے حیدرآباد کی آزادی باقی رہے۔ حیدرآباد نے اس سے واقف ہوتے ہوئے بھی کہ آخری رزم آرائی ہے جتنی توجہ مذاکرات پر دی اتنی توجہ دفاع پر نہ دی اور دفاع کی ساری ذمہ داری ایک نااہل اور سازشی کمانڈر پر چھوڑ کر نظام اور خاص کر لائق علی، ان کی کابینہ اور قاسم رضوی اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کی۔
وطن فروش اور گھر کے بھیدیوں سے مسلم مملکتوں کو ہمیشہ بڑا نقصان پہنچا۔ قرطبہ اور غرناطہ کی مملکتوں کو انہی مفاد پرستوں نے بیچ ڈالا تھا۔ نظام اور ٹیپو کا اتحاد انہی کی وجہ سے نہ ہو سکا تھا۔ نظام سابع کا دربار انہی مفاد پرست اور وطن فروش بھیدیوں سے بھرا پڑا تھا اور انہیں نظام کی سرپرستی حاصل تھی۔ حکومت اور فوج کے سارے راز انہی کی بدولت حکومتِ ہند کو با آسانی مہیا ہو گئے تھے جس کی وجہ سے حکومتِ ہند جان گئی تھی کہ حیدرآباد کی فوجی طاقت نہایت کمزور ہے اور وہ معاہدہ کر کے باقی رہنا چاہتی ہے اس لیے راستہ آسان ہو گیا تھا۔ حکومتِ ہند نے ان سازشوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بغیر کسی رزم آرائی یا مقابلے کے با آسانی حیدرآباد پر قبضہ کر لیا۔ حضور نظام کے اس سجے سجائے دربار کو ان کے مفادات تو مل گئے لیکن مملکت باقی نہ رہی۔ اس عبرتناک نتیجے پر یقین ہے کہ وہ بھی اور ان کی اولاد بھی آج کفِ افسوس مَل رہی ہو گی۔
اب ان حالات اور ناعاقبت اندیشانہ اقدامات کی وجہ سے سلطنت آصفیہ تاریخی جبر کا شکار ہو گئی تھی۔ اپنی غلطیوں کی وجہ سے اختیار اس کے ہاتھ سے نکل چکا تھا اور یہ مخالف طاقتوں کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا چوں کہ وقت کی نبض پر سے انگلیاں اٹھ چکی تھیں۔ اس لیے یہ اندازہ نہیں کیا گیا کہ کون کہاں ٹھہرا ہے؟ یہی سمجھا جاتا رہا کہ سلطنتِ آصفیہ اب ان فیصلوں کا اختیار رکھتی ہے۔ یہ عصری آگہی کا فقدان تھا جس کا خمیازہ زوال کی صورت میں بھگتنا پڑا اور اس کے منطقی نتیجے میں وہ تہذیب جو دلّی سے نکل کر دکن میں ایک نئی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوئی تھی تاریخ کا ایک حصہ بن گئی۔
انگریزوں سے آزادی سے قبل ہندوستان میں کئی دیسی ریاستوں کا وجود تھا اور جب انگریز یہاں سے رخصت ہوا تو ان ریاستوں میں سے اکثر ریاستیں ہند سے الحاق پر کسی طور راضی تھیں مگر ریاست حیدرآباد کا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ ریاست حیدرآباد مسلمانوں کی ایک خوشحال مملکت تھی جس میں تمام مذہب کے لوگ یکجہتی کی ایک مثال بنے ہوئے تھے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ ملک کو آزادی دلانے میں اہم جماعت ایک سیکولر پارٹی کے طور پر اپنی شناخت رکھتی تھی مگر اس دور کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو اس پارٹی میں بھگوا ذہن کے حامل کئی افراد اپنی طاقت اور رسوخ بنا چکے تھے۔
زوال حیدرآباد جسے سقوطِ حیدرآباد سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ نہ صرف ایک ریاست کا اختتام تھا بلکہ یہ ایک تہذیب، ایک قوم اور ایک زبان کی پامالی کی بنیاد بن گیا۔ ’’زوال حیدرآباد‘‘ نامی یہ کتاب جس سے یہ اقتباس ماخوذ ہے۔ اس تباہی اور بربادی کی روداد خاصی تفصیل سے فراہم کرتی ہے جس میں ہمیں اپنے میں عقل کا فقدان اور اپنوں ہی میں غداروں کی موجودگی نے دشمنوں کو کمک پہنچائی اور یہ ریاست جس کے چرچے دور دور تک ہوتے تھے اب صرف کاغذوں میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔
یہ کتاب ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو اپنی کمزوریوں کو جاننا چاہتا ہے۔ کیونکہ علامہ اقبال کہہ گئے ہیں کہ:
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
(بحوالہ: ’’روزنامہ انقلاب‘‘۔ممبئی)
Leave a Reply