مجھے سرگرمیوں کا قانونی جواز عوام نے دیا ہے!

اِخوان المسلمون کے مرشد عام محمد مہدی عاکف ہفتہ وار ’الاحرام‘ کے عامرہ ہویدی کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ ’’اخوان کی جیت عوام کے مرہون منت ہے اور واشنگٹن کی اِخوان المسلمون سے مذاکرات کی کوشش کو غیرمخلصانہ ٹہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کا مقصد محض امریکی مفادات کا تحفظ اور لوگوں کو ہمارے خلاف مائل کرنا ہے‘‘۔
استاذ محمد عثمان عاکف ۲۱ جولائی ۱۹۲۸ء کو مصر کی ریاست (صوبہ قہلیہ) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم منصورہ (مصر) میں حاصل کی‘ پھر اپنے والد اور بھائیوں کے ساتھ قاہرہ منتقل ہو گئے۔ وہیں پر ۱۹۶۰ء میں بارہ سالہ محمد مہدی عثمان عاکف کا اِخوان سے تعارف ہوا۔
۱۹۵۰ء میں استاذ محمد عثمان عاکف نے فزیکل ایجوکیشن میں گریجویشن کی اور بحیثیت فزیکل ٹیچر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ ساتھ ہی ۱۹۵۲ء تک برطانوی سامراج کے قبضہ کے خلاف تحریک کا حصہ رہے۔ ۱۹۵۴ء میں ان کو گرفتار کر کے موت کی سزا سنائی گئی۔ جسے بعد میں عمر قید میں بدل دیا گیا اور بالآخر ۱۹۷۴ء میں انہیں رہا کر دیا گیا۔
گزشتہ تیس برسوں میں استاذ مرکز عالمی اخوان کی تنظیم میں مصروف رہے جس کی بنیاد ۱۹۸۰ء میں رکھی گئی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے اسلامک یوتھ کیمپ کے درجنوں مراکز عرب‘ ایشیا اور یورپین ممالک میں قائم کیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے امریکا میں نیوجرسی اور میونخ جرمنی میں اسلامی کرز قائم کیے۔


س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اب اخوان المسلمون کے منتخب وزراء کی اس پارلیمنٹ میں حکمت عملی مختلف ہوگی؟

ج: ہماری کارکردگی گزشتہ پارلیمنٹ کی حکمت عملی کا ایک تسلسل ہوگی گو کہ اس مرتبہ اخوان ایک بڑی بے مثال اکثریت میں ہیں اور یہ بڑی ذمے داری ہے۔ مگر میں اس بات کا دعویٰ کرسکتا ہوں کہ گزشتہ پارلیمنٹ میں اخوا ن المسلمون کی کارکردگی نمایاں تھی اور ایک بڑی تعداد اسکا اعتراف کرتی ہے۔

س: مگر اب سیاسی افق تبدیل ہوگیا ہے اور حکومتی پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔ یہ کس طرح آپ کی پارلیمنٹری حیثیت پر اثر انداز ہوسکتی ہے؟

ج: سب کچھ بدل گیا ہے سوائے حکومتی پالیسی کے! جیسا کہ آپ دیکھ چکے ہیں کے کیا ہوا ہے ان انتخابات میں۔

س: اگر ہم موازنہ کریں ۱۹۹۵ء اور ۲۰۰۰ء کے انتخابات سے تو ہم دیکھتے ہیں کہ پالیسی تبدیل ہوئی ہے؟

ج: آپ کہتے ہیں کہ پالیسی تبدیل ہو ئی ہے اور میں سمجھتا ہو کہ نہیں ہوئی ہے۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ اس وقت بھی ۱۲۰۰ اخوان زیر حراست ہیں۔ اگر پالیسی میں تبدیلی آئی ہوتی تو ایک بھی اخوان حراست میں نہیں ہوتا۔

س: سن ۲۰۰۰ء میں اسیران کی تعداد ۶۰۰۰ ہزار تھی مگر اب اس میں بہت کمی واقع ہوئی ہے؟

ج: گزشتہ پارلیمنٹ میں ۷۵ میں سے صرف ۱۷ سیٹوں پر اخوان تھے۔ اگر انتخابات منصفانہ ہوتے تو ہم یقینا ۵۰ سیٹیں جیت جاتے۔ تبدیلی مصر کے عام ماحول میں آئی ہے جس میں مصری سیا ست کے مقابلے میں مصری شعور کا کردار اہم ہے۔

س: یہ تبدیلی کیسے واقع ہوئی؟ آپ کوئی مثال دے سکتے ہیں؟

ج: امیدواروں کا ووٹنگ کے لیے اسرار اور مہم ایک بالکل نئی بات ہے‘ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کیونکہ سیکورٹی فورسس کی وجہ سے ووٹرز گھروں سے نہیں نکلتے تھے۔

س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس تبدیلی کی وجہ کوئی بیرونی یا اندرونی دبائو ہوسکتا ہے؟

ج: میرا خیال ہے کہ بیرونی دبائو محض مصر ی حکومت کو کمزور کرنا ہے اور یہ مصر کے مفاد میں نہیں ہے۔ اگر بیرونی دبائو مصر کے حق میں بہتر ہوتا اور خالص جمہوریت کی جانب گامزن ہوتا‘ تو جو کچھ اہل اقتدار نے ان انتخابات میں کیا وہ ہر گز نہ ہوتا۔ جو کچھ بھی مصری اہل اقتدار بے خوف و خطر کر رہے ہیں وہ ہرگز مصری جمہوریت کے لیے مفید نہیں ہے۔ امریکی طرزجمہوریت یہاں تنزلی کا سبب بن رہی ہے۔

س: کیا یہ سچ ہے کے آپ نے اپنے وزراء کی تربیت کے لیے تربیتی ورکشاپس کا منصوبہ بنایا ہے؟

ج: ہم ہمیشہ سے ایسا کرتے آئے ہیں۔ اس سلسلے کے اہم لوگ اخوان ہی ہیں مگر ہم ہر طرح کے ماہرین کا تعاون چاہتے ہیں۔

س: کیا آپ اب غیر سیاسی معاملات کو نظر انداز کرینگے، جیسا کہ پچھلی پارلیمنٹ میں کتابوں پر سنسر شپ کا معاملہ تنازعہ کا سبب بنا تھا؟

ج: ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اس واقع پر شرمندہ ہوں یا معافی مانگیں۔ہم نے بالکل بھی کتابوں کی سنسر شپ کی بات نہیں کی تھی اور اس حوالے سے ہم بالکل واضح موقف رکھتے ہیں۔ ہم نے جس چیز پر اعتراض کیا تھا وہ جنسی مواد کی طباعت تھی جو وزارتِ ثقافت عوام کے ٹیکس کے ذریعہ پبلش کر رہی تھی۔

س: ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ــ’اصلاح ‘ کا لفظ آپ کے خطبات میں اہمیت کا حامل ہے، کیا یہ نئے پارلیمنٹری ایجنڈے کا حصہ ہوگا اور کیا کچھ سیاسی معاملات زیادہ قابل ترجیح ہونگے بہ نسبت اور معاملات کے؟

ج: ہم بلا شبہ بہت سے معاملات میں گھرے ہوئے ہیں۔ بطور مرشد عام میرے سامنے بہت سے مسئلے ہیںجن میں آزادی، ایمر جنسی قانون کی منسوخی، ملٹری عدالتیں اور صدر کے اختیارات میں کمی اور آئین کے آرٹیکلز ۷۶ اور ۷۷ میں ترامیم ہمارے پیش نظر ہیں۔

س: کیا آپ نیشنل فرنٹ کو اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہیں گے؟

ج: یقینا، اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر پائینگے۔ ہم اقلیت میں ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ وہ کس طرح پارلیمنٹ کو چلاتے ہیں۔ میں اپنی آواز بلند کرتا ہوں تو میرے پیچھے ۱۵۰ وزراء کی آواز شامل ہوتی ہے۔ اگر کوئی اسپیکر سے کہہ کر بحث ختم بھی کروادیتا ہے اور اکثریت کے زور پر ہمیں روک دیتا ہے تب بھی ہم لوگوں تک اپنا موقف پہنچادیتے ہیں۔ مگر فیصلہ بالاخر این ڈی پی کے حق میں ہوتا ہے۔

س: بہت سے ناقدین سمجھتے ہیں کے اہل اقتدار اب تک ۵۰۰ درخواستوں کو نظر انداز کر چکے ہیںاورعدالتی احکامات کو بھی تاکہ بعد میں اگر اخوان المسلمون کی نمائندگی تکلیف دہ ہوئی تو پارلیمنٹ تحلیل کی جاسکے؟

ج: میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہے۔ این ڈی پی نے واضح طور پر ۷۵فیصد سیٹیں جیتی ہیں۔ انھوں نے ۱۴۵ سیٹیں حاصل کی ہیں اور اس میں پھیلائو بھی آیا ہے۔ کیونکہ پارٹی چھوڑنے والے دوبارہ واپس آگئے ہیں۔ حکومت اب اس طرز عمل کو ہر گز نہیں دہرانا چاہے گی کہ پارلیمنٹ کو تحلیل کرکے دوبارہ الیکشن ہوں۔

س: اخوان المسلمون کو اس وقت ناقدین اور ہمدردوں دونوں کی تنقید کا سامنا ہے۔ آپ اس کو کس طرح دیکھ رہے ہیں؟

ج: (ہنستے ہوئے) میں آپ کو کچھ بتائوں گا ضرور اگر اخوان کے مخالفین ہمیں یہ بتادیں کے وہ کہاں تبدیلی کے متمنی ہیں ہم وہ تبدیلی لائیں گے۔ مگر بد قسمتی سے وہ کبھی ہمارا موقف جاننے کی کوشش نہیں کرتے اور نہ ہی ہمارا لٹریچر پڑھتے ہیں۔

س: کیا آپ یہ توقع کرتے ہیں کہ ہر آدمی یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ ’اسلام ہی حل ہے‘ اوراس کے لیے آپ کے لٹریچر کا مطالعہ کرے؟

ج: ہاں! مجھ پر تنقید کرنے سے پہلے انھیں مطالعہ کرنا چاہیے اور بغیر صحیح علم کے گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔ انھیں ہم سے بات کرنے کے لیے ہمارے بارے میں پڑھنا چاہیے۔

س: اخوان کا الیکشن پلیٹ فارم کہتا ہے کہ اسلامی طرز حکومت ’سول‘ ہے جبکہ آپ نے اپنا تعارف The Muslim Brotherhood in Parliament 2000 میں لکھا ہے کہ آپ کی شراکت داری پارلیمنٹ میں اور سول تنظیموں میں صرف ایک سانچے کی تخلیق ہے جو اسلامی ریاست کی شکل میں سامنے آئے گا؟ آپ کیسے اس تضاد کی وضاحت کریں گے؟

ج: اسلامی ریاست کے لیے ہمیں ایک طویل وقت درکار ہے اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب لوگ بھی ایسا ہی چاہتے ہوں۔ میرا رجحان اسلامی ریاست کی اصطلاح استعمال کرنے کی طرف نہیں ہے۔ میں ترجیح دونگا کہ ہم جائز حکومت اور مجلس جمہوریہ کی اصطلاح استعمال کریںکیونکہ ریاست کے اسلامی ہونے کی تو آئینی حیثیت ہے۔

س: اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی ہے؟

ج: نہیں قطعاً ایسا نہیں ہے! بلکہ ہم وہ ممکنہ تمام راستے تلاش کر رہے ہیں جن سے ہمیں اپنے ہدف کو حاصل کرنا آسان ہو‘ جس کے لیے بہت جدوجہد درکار ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم اپنی دعوت ایک مسلمان سے شروع کرتے ہیں اور پھر خاندان کی طرف رجوع کرتے ہیں اور آخر میں مسلم معاشرے کو مجموئی طور پر مخاطب کرتے ہیں۔

س: مگر اس میں مطابقت نہیں ہے کہ آپ اسے اسلامی ریاست کہتے ہیں جبکہ آپ کے پلیٹ فارم سے سول حکومت کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے؟

ج: اسلامی اور سول میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام میں مذہبی طرز حکومت کی کوئی اصطلاح نہیں ہے اور نہ ہی اسکا کوئی وجود ہے۔ یہ ایک سول حکومت ہے۔ جب اسلام کسی ریاست کو وجود میں لاتا ہے تو اس کا طریقۂ کار بہت جدید ہوتا ہے جیسا کہ آج کی جدید ریاست ہوسکتی ہے۔ یہ طریقہ کار اسلام میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہ زمانے سے ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ اختیارات کا ایک ذریعہ ہیں اور کسی بھی حکمران کو چنا جاتا ہے۔ جو اصول کسی بھی ایک سول ریاست کے ہوسکتے ہیں وہ ہی اسلام کے بھی ہیں۔

س: آپ کیوں بلدیاتی کونسل اور شوریٰ کے انتخابات لڑنا چاہتے ہیں؟

ج: یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے۔ ہماری پالیسی ہے انتخابات لڑنے کی مثلاً طلبہ کے انتخابات اور لیجسلیٹو انتخابات وغیرہ وغیرہ۔ مثال کہ طور پر پارلیمنٹری انتخابات میں ہمارا طریقۂ کار یہ ہوتاہے کہ اخوان کہ ادارے پوری صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں اور حکمت عملی وضع کرتے ہیں کہ آیا یہ ہمارے ا ور لوگوں کے لیے مفید ہے کہ نہیں۔ بالکل یسا ہی بلدیاتی انتخابات کہ لیے ہے کہ ہم غور کرتے ہیں اور پھر تجزیہ کرتے ہیں۔

س: آپ کہ انتخابات لڑنے کی حکمت عملی تنقید کا نشانہ ہے اور کہا یہ جارہا ہے کہ یہ صرف ایک کوشش ہے اس ۵فیصد حمایت کو محفوظ رکھنے کی جو آپ کو بلدیاتی انتخابات سے حاصل سے ہوسکتی ہے جس کی بنیاد پر اگلے انتخابات میں صدارتی امیدوار کے انتخاب کی راہ ہموار ہو۔

ج: اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

س: ایسا سمجھنا کیوں غلط ہے جبکہ آپ کی سیاسی طاقت ایک زندہ حقیقت ہے؟

ج: ہاں! مگر ہمیں ہمارے قانونی حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ ہمارے ذہنوں میں اس حوالے سے کچھ نہیں ہے اور نہ ہی ۲۰۱۱ کہ انتخابات کے لیے ایسا کچھ ہے۔

س: کیوں نہیں ! کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ چیز مشکلات پیدا کرے گی؟

ج: صدارت کہ لیے سوچنا قبل از وقت ہوگا اور یہ یقینا دقت آمیز بھی ہوگا۔ ہم نے پارلیمانی انتخابات میں ۱۵۰ امیدواراس لیے کھڑے کیے تھے کہ وہ بنیادی مسائل کو حل کریں اور اصلاحی ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جس سے یہ قوم آگے کی طرف بڑھے۔

س: جب امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اخوان سے رابطے کی بات کی‘ تو آپ نے کہا کہ ہم جو بھی بات کرینگے وہ بذریعہ مصری حکومت کرینگے۔ آپ کس طرح کے اندیشے کو دور کرنا چاہتے ہیں؟

ج: ہم ہر طرح کی بات چیت اور معاملات میں شریک ہیں اور اس سلسلے میں ہمارا رابطہ اداروں، افراد، جامعات، معاشرتی تنظیمیں اور تھنک ٹینکس سے بغیر کسی امتیاز کے ہے‘ سوائے اسرائیل کہ جسے ہم نہیں مانتے۔ میں کسی طرح کے بھی مذاکرات کسی بھی طرح کی حکومت سے کرنے کو تیار ہوںمگر بذریعہ مصری حکومت۔

س: لیکن آپ تو موجودہ حکومت کو ناجائز سمجھتے ہیں۔نائب مرشد عام جناب خیرت الشتر نے الجزیرہ چینل پر یہ بات کہی تھی کہ موجودہ مصری حکومت جائز نہیں ہے؟

ج: کیونکہ موجودہ حکومت کا قانونی جواز لوگوں کا فراہم کردہ نہیں ہے اور حکومت حسنی مبارک کی نہیں ہے بلکہ اداروں کی ہے جن کا ہم احترام کرتے ہیں۔

س: امریکا آپ کے منتخب وزراء کہ لیے کیا تجاویز پیش کرتا ہے؟

ج: مجھے امریکا پر بالکل بھروسہ نہیں ہے۔

س: ایک خیال واشنگٹن میں پروان چڑھ رہا ہے کہ اسلام پسندوں سے بات چیت کی جائے؟

ج: کس کے مفاد میں؟ امریکا اور اسرائیل کے؟ مجھے یقین ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں بات چیت میں الجھا کر لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکا سکیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارا اور ان کا ٹکرائو نا گزیر ہے اور اس کی وجہ ان کی عراق، افغانستان اور فلسطین میں جارحانہ پالیسیاں ہیں۔ جہاں تک بات چیت کی خواہش کا تعلق ہے وہ محض ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ہم نہیں سمجھتے کہ ان کے پاس ہمارے مفاد کے حوالے سے کچھ ہے۔

س: آپ کے ہی الفاظ ہیں کہ اگر ہم اقتدار میں آتے ہیں تو مصر‘ اسرائیل معاہدے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا جبکہ آپ کے انتخابی پلیٹ فارم نے بائیکاٹ کیا تھا اور مصر اسرائیل کہ حوالے سے نظر ثانی کا مطالبہ کیا تھا؟

ج: میں اعلان کرچکا ہوں کے ہم کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرینگے کیونکہ وہ خطے کا ایک ناسور ہے۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ جلد ہی اس ناسور کوکاٹ دیا جائے گا اور اگر وہ ہمارے ساتھ شہریوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں تو ہم انھیں ان کے حقوق دینگے اور ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مگر یہ جبرو استبداد کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔

س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کیمپ ڈیوڈ پر نظرثانی ہونی چاہیے؟

ج: اس بات کا فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ اگر میرے پاس طاقت ہوتی تو اس بات کا اختیار میں عوام کو منتقل کردیتا۔

س: ترکی کی طرز حکومت کے نمونے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا یہ عرب دنیا میں مطلق العنانیت طرز حکومت کا مداوا ہوسکتا ہے؟

ج: لوگ ہمارے اور ترک ، طالبان، ایران اور الجزائری نظاماتِ حکومت میں مطابقت کی کوشش کرتے ہیں جو کہ غیر معقول طرز عمل ہے۔

س: لیکن مغرب میں جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ و پارٹی کو ایک کامیاب جماعت کہ طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کیا یہ بات آپ کو متاثر کرتی ہے؟

ج: جب میں ترکی میں تھا اس وقت سے میں انھیں اچھی طرح جانتا ہوںاور ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان اور اربکان بہت قریبی دوست ہیں۔ اور میں ان کے کام کرنے کی طرز سے اچھی طرح واقف ہوں اور جانتا ہوں کے کس طرح امریکا نے اردگان کو چنا تھا جو کہ ایک متاثر کن شخصیت اور فصیح مبلغ ہیں۔ اردگان نے اربکان کی معاشی اور معاشرتی اصلاحات کو نافذ کیا اور کامیابی سے ان پر عمل کیا جو کہ برسوں کی محنت کا ثمر تھا۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اردگان سیاسی حوالے سے ناکام رہے کیونکہ حسنی مبارک نے کبھی اسرائیل کا دورہ نہیں کیا مگر اردگان نے ایسا کیا۔

س: کیا اخوان اس قابل ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات میں مقابلہ کرسکے اور وہ خدمات مہیا کرسکے جس کی بنیاد پر وہ ریاست کی بیورو کریسی کا مقابلہ کرسکے؟

ج: ہم پہلے ہی اس کی حکمت عملی وضع کر چکے ہیں اور سوئیز اور گزہ سے کونسل جیت چکے ہیں۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں پہلے اس کے لیے خود کو اہل بناتے ہیں۔

س: آنے والے انتخابات میں کتنے امیدوار حصہ لینگے؟

ج: اس کا فیصلہ کرنا صرف میرا کام نہیں ہے۔ ہم اس حوالے سے حکمت عملی وضع کر رہے ہیں۔

س: کیا آپ سمجھتے ہیں کے حکومت آپ کو اس کی اجازت دے گی؟

ج: ہمیں اجازت دی جائے یا نہیں ہم اپنا کام جاری رکھیں گے۔ مجھے کسی سے اجازت کی ضرورت نہیں ہے میں نے ۲۰ سال قید میں گزارے ہیں۔

س: اپنی قانونی حیثیت کہ لیے آپ کیا حکمت عملی طے کر رہے ہیں؟

ج: یہ احمقانہ بات ہے۔ دو ہفتے قبل میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرے نام کے ساتھ لفظ ’غیر قانونی‘ قومی پریس کے اخبار ’الاہرام‘ سے غائب ہوگیا۔ ’الجمہوریہ‘ نے میرا انٹر ویو لیا اور میرا حوالہ اخوان کہ ایک بڑے رہنما کہ طور پر دیا۔ کیونکہ وہ ہماری طاقت کا اور پھیلائو کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اور میں درحقیقت کس کے مقابلے پر ہوں؟ ایک نظام اور غلامانہ ذہنیتیں جو اپنے اقتدار کو طول دیتی ہیں تاکہ لوگوں پر ظلم اور زیادتی کر سکیں۔ یہ بات میں پہلے دن سے جانتا ہوں کہ مجھے سرگرمیوں کا قانونی جواز حکومت نے نہیں‘ عوام نے دیا ہے۔

س: گویا آپ اپنی غیر قانونی حیثیت پر مطمئن ہیں جو کہ اخوان کے لیے گرفتاریوں اور خوف کا سبب بنتی ہے؟

ج: ہم کچھ بھول رہے ہیں؟ (آفس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جہاں ہم بیٹھے تھے) کہ یہ ایک چھوٹا سا مرشد عام کا دفتر ہے۔ میرے مرشد عام بننے سے پہلے میرے پاس ایک بہت بڑا دفتر تھا۔ میں کبھی بھی اپنی سیا سی حیثیت کے لیے رجوع نہیں کرونگا جب تک کہ سیاسی جماعتوں کی کمیٹی موجود ہے۔ اگر یہ کبھی منسوخ ہوتی ہے تو میں اپنے آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے جماعت کا اعلان کرونگا۔ اگر ایسا ہوتا ہے اور ہم ایک جماعت تشکیل دیتے ہیں تب بھی اخوان ایک اسلامی تنظیم ہی رہے گی۔

س: کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ اخوان کی کیبنٹ کی وزارتیں رکھنا آپ کا حق ہے جیسا کے کالم نگار Magdi Mehanna نے ’مصری الیوم‘ میں اپنے کالم میں کہا ہے؟

ج: جب ہم سب سے پہلے پارلیمنٹری حقوق رکھتے ہیں تو کیا پارلیمنٹ کا ایک پانچواں حصہ نہیں کہلائینگے؟ لیکن نہیں! کیونکہ NDPاہل اقتدار کو ووٹ دیتے ہیں اس لیے کہ وہ بڑی تعداد میں ہیں۔۔۔اور یہ ہی NDPکے رہنمائو ں کی ذہنیت ہے۔

س: کیا مختلف ذہنی طرز عمل رکھنے والے زمام اقتدار کی باگیں تھامے ہوئے ہیں؟

ج: جی ہاں!

س: اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟

ج: یہ ایک اشارہ ہے ایسی جدوجہد کی طرف جس سے ہمارا واسطہ پڑ نے والا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم پر اور ہمارے ملک پررحم کرے۔ یہ محض مصر کے مفاد کی جدوجہد نہیں بلکہ دولت اور طاقت کے خلاف بھی ایک کوشش ہے۔

(ترجمہ: ناصر فاروق۔ بشکریہ: ہفت روزہ ’’ریڈینس‘‘۔ نئی دہلی۔ جنوری ۲۰۰۶)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*