
آئیے! آج آپ کو ایک مزے دار کہانی سناتا ہوں۔ ایک رات کی کہانی۔ اور جو کہانی حقیقت بن کر گزر چکی ہو، اس کے مزیدار ہونے میں کیا شک ہے۔ اس وقت جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں، یہ اس سے پورے ایک سال پہلے کا ذکر ہے۔
ترکی کے ساحلی تفریحی شہر ’’مارمریز‘‘ (Marmaris) پر ۱۵ جولائی ۲۰۱۶ء کا دن ختم ہونے کو تھا اور ۱۶ جولائی کے آغاز میں کچھ دیر تھی۔
نیم خنک ہوا کی رفاقت میں ایک پرسکون رات اتر رہی تھی۔ ’’بحیرہ ایجین‘‘ (Aegean) کے گہرے نیلے پانی پہلے شفق کے سرخ اور نارنجی رنگوں میں رنگے گئے، پھر سرمئی چادر نے انہیں ڈھانپا اور بالآخر رات کا سیاہ رنگ ہر دوسرے رنگ کو بے دخل کرکے ان پر غالب آگیا۔ استثناء صرف ساحلی عمارتوں کو تھا جہاں روشنیاں پوری آب و تاب سے موجود تھیں بلکہ گہرے سیاہ رنگ نے انھیں روشن تر کر دیا تھا۔
کچھ خوب صورت عمارتیں بہت ہی روشن تھیں۔ ’’گرانڈ یازیجی ہوٹل (Grand yazici)، یازیجی کلب ہوٹل (yazici club turban)‘‘ اور ملحقہ خوب صورت ولا (villa) انہی عمارتوں میں سے تھے۔ ترکی کا صدر، ۶۲ سالہ جواں عزم رجب طیب ایردوان ہوٹل سے ملحقہ ولا میں اپنے گھرانے کے ساتھ چھٹیوں کی ایک اور رات گزار رہا تھا، اس بات سے بالکل بے خبر کہ اگلے کچھ گھنٹے اس کی زندگی کے اہم اور دشوار ترین لمحات ثابت ہونے والے ہیں۔ اور موت اس سے محض چند منٹ کے فاصلے پر گزرنے آ رہی ہے۔
ترک صدر اپنے دوست ابراہیم کے بیٹے ’’سرکان یازیجی‘‘ (Serkan yazici) کی دعوت پر اس کے پر آسائش ولا میں اپنے گھرانے کے ساتھ چھٹیاں گزارنے آیا تھا۔ سرکان یازیجی کار ریلی میں حصہ لینے والا سابق ڈرائیور تھا، سرکان کا والد ابراہیم سیاست دان اور طیب ایردوان کا دوست تھا۔ ترک پارلیمان کا دو بار رکن رہا تھا، اور ۲۰۱۲ء میں دل کے دورے میں انتقال کرچکا تھا۔ یازیجی فیملی مارمریز شہر میں یازیجی ماریس ہوٹل، ملحقہ گرانڈ یازیجی کلب، ٹربن ہوٹل اور ملحقہ ولا کی مالک تھی۔ مارمریز کے خاموش نیلے پانیوں، تیراکی کے لیے حسین ساحلوں، سرسبز پہاڑوں اور پر لطف موسموں نے ایک زمانے سے سیاحوں کو اپنا اسیر کر رکھا تھا۔ یہاں پہنچ کر اور کچھ وقت گزار کر زندگی نہایت خوب صورت اور پرسکون ہونے پر یقین آجاتا تھا۔ لیکن ہے یوں کہ زندگی کے ہزار رنگ ہیں۔ اس وقت بھی سب کچھ خوب صورت اور پرسکون ہرگز نہیں تھا۔
رات اتر رہی تھی کہ ایردوان کو ٹرکش فرسٹ آرمی کمانڈر امت دندار (Umit Dundar) کی کال موصول ہوئی۔ ’’ایک بڑی بغاوت رونما ہو رہی ہے سر! اور انقرہ میں حالات کنٹرول میں نہیں ہیں۔ آپ کو جان سے مارنے یا گرفتار کرنے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ سر! آپ قانونی صدر ہیں۔ میں آپ کے ساتھ ہوں‘‘۔
اس رات کی کچھ رپورٹس ایسی ہیں جن کے مطابق بغاوت سے چند گھنٹوں پہلے اس سازش کی بو سونگھ لی گئی تھی۔ اعلیٰ افسران کی طرف سے ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کی ہر طرح کی نقل و حرکت پر فوری پابندی لگا دی گئی تھی۔ اور فوجی طیاروں کی پروازیں بند کر دی گئی تھیں۔ باغی ٹولے کو جب ان احکامات کا علم ہوا تو اس میں بے چینی شروع ہوگئی اور اسی گھبراہٹ میں بغاوت کا اصل طے شدہ وقت جو ہفتے کی صبح تین بجے تھا تبدیل کرکے فوری عملدرآمد کا فیصلہ کیا گیا اور جمعہ کی رات سات بجے ہی منصوبے پر عمل کی کارروائی شروع کردی گئی۔ اس کارروائی کے ساتھ انقرہ اور استنبول کی سڑکوں پر ٹینک اور فوجی دستوں کی نقل و حمل شروع ہوچکی تھی۔ استنبول میں باسفورس کے پلوں پر آمد و رفت بند کرنے اور علامتی قبضے کے لیے ٹینک اور مسلح فوجی کھڑے کردیے گئے تھے۔ کچھ ہی دیر میں انقرہ کی فضاؤں میں بارہ ایف سولہ جنگی طیارے پرواز کرنے لگے، منتخب افراد کی گرفتاری یا قتل کے لیے مختلف دستے چل پڑے تھے۔ پارلیمنٹ ہاؤس پر چڑھائی شروع کردی گئی۔ مسلح افواج کے سربراہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ تین بلیک ہاک ہیلی کاپٹر جو رات کی تاریکی میں نظر نہ آسکیں، ایردوان کو گرفتار کرنے کے لیے روانہ کر دیے گئے جن میں چالیس کمانڈوز موجود تھے۔
ایردوان کو بہت جلد اہم فیصلے کرنے تھے۔ وقت بہت نازک بھی تھا اور بہت کم بھی۔ جس وِلا میں ایردوان موجود تھے، اس سے ۹۵ کلومیٹر دور ایک گھنٹے سے زائد کی ڈرائیو پر ڈالمان (Dalaman) ائیرپورٹ تھا جہاں ایردوان کا صدارتی جہاز بلوایا جا سکتا تھا۔ اگرچہ یہ بھی خطرہ تھا کہ وہ ائیرپورٹ باغیوں کے قبضے میں جا چکا ہو۔ یا ایردوان کے پہنچنے تک دشمن بھی پہنچ جائیں۔ دارالحکومت انقرہ، استنبول، ازمیر سے مسلسل تشویشناک خبریں موصول ہو رہی تھیں۔ ایسے میں کچھ موجود ساتھیوں نے ایردوان کو قریبی یونانی ائیرپورٹ پر پناہ لینے کا مشورہ دیا جو ایردوان نے سخت الفاظ میں مسترد کر دیا۔ دوسرا مشورہ روپوش ہوجانے کا تھا، یہ بھی رد کردیا گیا۔ ایردوان نے تیسرا راستہ اختیار کیا۔ اس نے حالات اور بغاوت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جنرل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی کے Sikorsky S-92 ہیلی کاپٹر میں سوار ہوا اور ڈالمان (Dalaman) ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہوا جہاں اس کا صدارتی جہاز آنا تھا۔
لیکن رکیے۔ ذرا واقعات کو یہیں چھوڑ کر میری دو باتیں سن لیجیے جو یہ کہانی سناتے وقت مسلسل میرے ذہن میں چکرا رہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ترکی زبان میں ایردوان کا مطلب ہے پیدائشی دلیر، فطری جنگجو اور سپاہی۔ دوسری بات یہ کہ ۲۷ مئی ۲۰۱۶ء کو میرے محبوب چچا جان اور رہنما مولانا جسٹس محمد تقی عثمانی استنبول میں تھے اور میں ان کے ساتھ تھا۔ عم ِمکرم کے عزیز ترک شاگرد جناب خیری د مرجی نے رات کے کھانے کی دعوت کی۔ یہ خوبصورت مطعم ’’شاخِ زرّیں‘‘ (Golden horn) کے کنارے ’’قاسم پاشا‘‘ کے علاقے میں تھا۔ قاسم پاشا کی ایک خاص بات چچا جان نے اور ایک جناب خیری دمرجی نے بتائی۔ عمِ مکرم نے کہا کہ سلطان محمد فاتح نے فتح قسطنطنیہ کے موقع پر جب جہاز خشکی پر چلائے تھے تو تقسیم (Teksim) کی طرف سے یہ جہاز چڑھائے گئے تھے اور قاسم پاشا وہ جگہ تھی جہاں یہ جہاز شاخ زرّیں میں اتارے گئے۔ خیری دمر جی نے کہا۔ قاسم پاشا جنگجو اور لڑاکوں کے لیے مشہور ہے۔ مخالف کو ڈرانے کے لیے کہا جاتا ہے، ’’میں قاسم پاشا کا ہوں‘‘۔ اور طیب ایردوان قاسم پاشا کا ہے۔
کہانی پھر شروع کرتے ہیں۔ ایردوان کی روانگی کے چند منٹ بعد وہ تینوں بلیک ہاک ہیلی کاپٹر مارمریز آپہنچے جو ایردوان کے لیے آئے تھے۔گرانڈ یازیجی ہوٹل کے قریب اتر کر باغی کمانڈوز کو صدر کی تلاش تھی، لیکن انہیں یہ علم نہیں تھا کہ ایردوان گرانڈ یازیجی ہوٹل میں نہیں ملحقہ ولا میں مقیم تھے۔ کمانڈوز نے ہوٹل کا محاصرہ کرلیا۔ ہوائی فائر کیے اور درّانہ اندر گھستے چلے گئے۔ ہوٹل میں بڑی تعداد میں سیاح خاص طور پر برطانوی باشندے مقیم تھے۔ انہی سیاحوں میں ہالینڈ کا ایک جوڑا گرٹ جان ڈی گراف ( Gert jan de Graaf) اوران کی بیوی تھریسیا بھی تھے۔ رات کو فائرنگ کی آواز سن کر وہ بیدار ہوئے اور ابتدا میں اسے آتش بازی سمجھے۔ تھریسیا نے صورتحال جاننے کے لیے دروازہ کھولا تو اس کا سامنا مسلح فوجیوں سے ہوا جو ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مسلسل چلّا رہے تھے۔ ’’ایردوان کہاں ہے؟ ایردوان کہاں ہے؟‘‘
یہ اندازہ ہونے کے بعد کہ ایردوان ہوٹل میں نہیں ہے، کمانڈوز نے وِلا کا رخ کیا جہاں ایردوان کے تین صدارتی محافظ اور ایک سرکاری عہدے دار موجود تھا۔ فائرنگ کے تبادلے میں دونوں طرف جانی نقصان ہوا۔ ایردوان کے دو محافظ بھی مارے گئے اور باقی کو کمانڈوز نے گرفتار کر لیا۔ ایردوان کی گرفتاری میں ناکامی کے بعد ان کمانڈوز میں سے اکثر انہی ہیلی کاپٹر میں واپس چلے گئے۔ تیسرا ہیلی کاپٹر خراب ہونے کے باعث باقی فوجی اپنا اسلحہ پھینک کر قریبی پہاڑوں میں روپوش ہوگئے۔ اسی دوران انقرہ میں وزیرِ اعظم بن علی یلدرم (Binali yildirim) بھی اپنی تلاش میں سرگرم باغیوں سے بہت معمولی فرق سے بچ نکلے، اور یہ بیان جاری کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ فوج کی ایک مختصر سی اقلیت نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی ہے، جسے کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ادھر استنبول اور انقرہ میں فائرنگ، دھماکوں اور فوجیوں کی نقل و حرکت سے عوام کو سنگینی کا اندازہ ہونا شروع ہوگیا تھا اور لوگ سڑکوں پر نکلنے لگے تھے۔ اسی دوران ترکی سرکاری ٹیلی ویڑن پر قبضہ کر کے خبریں پڑھنے والی خاتون سے گن پوائنٹ پر ایک تحریر پڑھوائی گئی۔ صورت حال واضح ہوگئی تھی۔ ترکی کے عوام کو ایک اور فوجی بغاوت کا سامنا تھا۔ لیکن باغیوں کو کتنی کامیابی مل چکی ہے؟ وہ کہاں کہاں قابض ہیں اور کون کون سی شخصیات ان کی تحویل میں ہیں؟ ان میں سے کچھ واضح نہیں تھا۔ لیکن جو کچھ واضح تھا، اس سے لوگوں میں خوف و ہراس کم تھا اور اشتعال زیادہ۔ ترکی میں ایک نئی روایت کا آغاز تھا۔ بغاوت کے خلاف بغاوت۔
ایک رپورٹ کے مطابق ازمیر کے عدنان مندریس (Adnan Menderes) ائیرپورٹ سے وی آئی پی جہاز ڈالمان ائیرپورٹ بلوایا گیا۔ یہ جہاز رات بارہ بج کر چالیس منٹ پر ڈالمان اترا۔ فوراً تیل بھرا گیا اور اگلی فلائٹ کی تیاری کی گئی۔ اسی دوران طیب ایردوان اور ساتھی بڑا خطرہ مول لے کر ڈالمان ائیرپورٹ پہنچ چکے تھے۔ یہاں جہاز میں بغاوت کی صحیح ترصورتحال ایردوان کے علم میں آئی اور سرکاری ٹیلی ویژن پر قبضے اور باغیوں کی طرف سے اعلان کی اطلاع بھی دی گئی۔ ضروری تھا کہ طیب ایردوان کا ترک عوام سے براہ راست رابطہ ہو، لیکن رابطے بند تھے اور سرکاری ٹیلی ویژن اپنا ترجمان نہیں رہا تھا۔ ایسے میں سی این این ترک (CNN Turk) کی ایک خاتون میزبان سے فیس ٹائم ایپلی کیشن کے ذریعے رابطہ ہوا۔ اس خوف و ہراس کے عالم میں اس جرات مند عورت نے یہ ویڈیو پیغام پورے ترکی اور پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ ایردوان کے اس واضح پیغام نے لوگوں میں ایک تازہ روح پھونک دی کہ ’’عوام سڑکوں اور گلیوں میں نکل آئیں، میں محفوظ ہوں اور ہم عوام کے ساتھ مل کر اس ٹولے کو ناکام بنا دیں گے‘‘۔ محض اس پیغام نے تختہ الٹنے والوں کا تختہ الٹ دیا۔ اسی کے ساتھ ایردوان نے پولیس کو حکم دیا کہ وہ باغیوں کا مقابلہ کرے اور ان سے ہتھیار ڈلوا کر گرفتار کرے۔ پولیس کے حرکت میں آنے سے پہلے ہی لوگ سڑکوں اور گلیوں میں آچکے تھے۔ داد دینی چاہیے کہ ان لوگوں میں ایردوان کے سیاسی مخالف بھی موجود تھے، جو فوجی بغاوت کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔ ٹینکوں کے سامنے نہتے لوگوں کا لیٹ جانا یا اس پر چڑھ کر عملے کو گرفتار کرنا غیر معمولی جرأت اور بہادری چاہتا تھا۔ سچ یہ ہے کہ یہ عمل کارفرما نہ ہوتا تو حکومت تنہا اس طرح، اتنی جلد بغاوت پر قابو نہیں پا سکتی تھی۔
اسی دوران ایردوان کا گلف اسٹریم جی۔۴۵۰ طیارہ پرواز کے لیے تیار تھا۔ یہ خطرہ بالکل سامنے تھا کہ فضا میں موجود باغی ایف۔۱۶ طیارے جو ایردوان کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں، اسے فوراً مار گرائیں گے۔ اس کے علاوہ بڑا سوال یہ تھا کہ دارالحکومت انقرہ جایا جائے یا استنبول یا کسی اور شہر؟ ایردوان نے استنبول جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ بذاتِ خود ایک مشکل فیصلہ تھا، اس لیے کہ استنبول ائیرپورٹ کا کنٹرول ٹاور باغیوں کے قبضے میں جاچکا تھا۔ طیارے کا پائلٹ بارس یورت سیون (Baris Yurtseven) پہلے بھی وی آئی پی فلائٹس کا تجربہ رکھتا تھا۔ اس نے ایردوان کے فیصلے کے مطابق رات ایک بج کر ۴۳ منٹ پر ڈالمان سے استنبول کے لیے اڑان بھری اور ترکی کے شمال مغربی حصے پر اپنا راستہ متعین کیا۔
تکنیکی طور پر یہ TC-ATA طیارہ ٹرانس پونڈر (Transponder) طیارہ ہے، جو اپنی شناخت، بلندی، رفتار،پرواز کی سمت وغیرہ کے سگنل ٹریفک کنٹرول مرکز کے لیے نشر کرتا ہے۔ صدارتی پرواز کی صورت میں ٹرانس پونڈر آف کر دیا جاتا ہے۔ عام صورت میں صدارتی طیارے کا کوڈ ’’ٹرکش ری پبلک ون‘‘ مقرر کیا جاتا ہے۔ بارس اور معاون پائلٹ نے کمال عقل مندی سے ٹرانس پونڈر بند نہیں کیا اور صدارتی طیارے کو چھپانے کے لیے اس کی شناخت ٹی کے۔۸۴۵۶ مقرر کی جو استنبول جانے والی ایک مسافر بردار کمرشل فلائٹ تھی۔ ادھر دشمن ایردوان کی تاک میں تھے۔ انقرہ ایکنجی مستقر (Base Ankara Akinci) باغیوں کے قبضے میں تھا۔ وہاں سے اڑ کر آئے ہوئے دو باغی ایف سولہ فضا میں پرواز کر رہے تھے۔ بعض حوالوں کے مطابق ان طیاروں نے بارس سے شناخت پوچھی اور مسافر بردار طیارہ دیکھ کر تذبذب کا شکار ہوگئے۔ ایک مسافر بردار طیارہ جس میں بین الاقوامی مسافر موجود ہوں مار گرانا بہت بڑا فیصلہ تھا، جس کے سنگین نتائج باغی ٹولے کو بھگتنے پڑ سکتے تھے۔ چنانچہ شبے کا شکار ایف سولہ گلف اسٹریم صدارتی کے ساتھ ساتھ رہے لیکن حملہ نہیں کیا۔ آپ ان کٹھن لمحات کا تصور کرسکتے ہیں۔
اگر درجِ ذیل رپورٹ درست ہے تو اللہ نے ایردوان کی عین اس وقت ایک اور مدد کی جسے معجزہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ امکان موجود تھا کہ جُل دینے کے باوجود صدارتی طیارہ پہچان لیا جائے کیونکہ کڑیاں جوڑنے سے نتیجہ یہی نکلتا تھا کہ یہ صدارتی پرواز ہے۔ لیکن عین اس وقت جب ایک ایف سولہ صدارتی طیارے پر میزائل داغنے کے لیے تیار ہوچکا تھا، ایف سولہ طیاروں کا ایندھن ختم ہوگیا اور انہیں تیل لینے کے لیے علاقے سے ہٹنا پڑا۔
بحر مارمرہ پر پرواز کرتے ہوئے گلف اسٹریم طیارہ صدر ایردوان کو لیے ہوئے رات دو بج کر دس منٹ پر بیگا (Biga) پہنچا جو استنبول سے ۱۷۱ ؍کلومیٹر اور اوسطاً انیس منٹ کے فضائی فاصلے پر ہے۔ ادھر استنبول کنٹرول ٹاور میں باغیوں کا فوجی دستہ موجود تھا لیکن اس نے کسی کارروائی کے بجائے اپنے مزید ساتھیوں کا انتظار بہتر سمجھا۔ جلد ہی حکومت کے حامی پولیس کے دستے آپہنچے اور باغیوں کی گرفتاری شروع کردی گئی۔ اُدھر بیگا پر صدارتی طیارہ استنبول کنٹرول ٹاور کی صورتِ حال واضح ہونے تک ایک گھنٹے سے فضا میں چکّر کاٹ رہا تھا۔ جیسے ہی کنٹرول ٹاور حامیوں کے ہاتھ میں آیا، صدارتی جہاز نے استنبول ائیرپورٹ پر اترنے کی اجازت مانگی۔ ٹاور نے زمینی مخدوش اور غیر یقینی صورت ِحال پائلٹس کو بتائی۔ اس کے باوجود پائلٹ نے لینڈنگ کی تیاری شروع کی اور دونوں ایف سولہ کی پوزیشن معلوم کی۔ ٹاور نے اسے بتایا کہ دونوں ایف سولہ واپس آرہے ہیں، اور ان کی نیّت کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا، نیز رن وے کی روشنیاں بجھا دی گئی ہیں، اس لیے ان سے لینڈنگ میں مدد نہیں مل سکتی۔
ہنگامی صورتحال میں دیکھنے کے لیے جی۔۴۵۰ طیارے میں ایک خصوصی انفرا ریڈ نظام موجود ہوتا ہے جسے ای وی ایس (EVS) کہا جاتا ہے۔ ایردوان نے بارس کو طیارے کی اپنی روشنیوں میں لینڈنگ کرنے کو کہا جو بہرحال ایک خطرہ تھا۔ رات تین بج کر اٹھارہ منٹ پر صدارتی طیارہ ٹریک نمبر ۱۷/۳۵ پر شمالی جنوبی رخ پر بحفاظت اترگیا۔ اور وہاں سے اس نے جنرل ایوی ایشن ایپرن کا رخ کیا۔ پولیس کے خصوصی دستوں نے ایپرن کی ذمے داریاں نبھائیں۔ طیارہ جیسے ہی ایپرن پر رکا، اس کا انجن بند کر دیا گیا اور بتیاں بجھا دی گئیں۔ فوراً بعد ایف سولہ طیارے باسفورس کی طرف سے اتاترک ائیر پورٹ پر آپہنچے۔ لیکن رن وے پر مکمل تاریکی کے باعث طیارے کو تلاش نہ کرسکے۔ نیچی پرواز کرتے اور آواز کی حدود توڑتے ہوئے ایف سولہ کی آواز بم دھماکے جیسی تھی، جس سے کئی ہینگرز کے شیشے ٹوٹ گئے۔ سہمے ہوئے لوگ اور سراسیمہ ہوگئے۔ مشتعل ہجوم اور مشتعل ہوگیا۔
کہانی اس سے آگے بھی چلتی ہے۔ لیکن مجھے یہیں تک یہ قصہ سنانا تھا کیوں کہ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ سب کو معلوم ہے، خاص طور پر استنبول ائیرپورٹ پر خطاب کرتے ہوئے ایردوان کا یہ جملہ کہ ’’یہ خدا کا ایک تحفہ ہے‘‘۔ اور چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ جملہ کہ ’’میں چند منٹ کے فرق سے موت یاگرفتاری سے بچا ہوں ‘‘۔
۲۰۱۶ء میں ترکی فوج کی اس بغاوت کے بارے میں اب تک بہت سی باتیں کہی گئی ہیں۔ اس کے پیچھے فتح اللہ گولن کے لوگ تھے۔ سی آئی اے تھی۔ غیر ملکی سازش تھی۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ تک کہا گیا کہ یہ ڈرامہ خود ایردوان حکومت نے رچایا تھا تاکہ اپنے مقاصد حاصل کرسکے۔ یہ تجزیے میری آج کی تحریر کے دائرے میں نہیں ہیں۔ ایردوان کے سیاسی اور قومی نظریات پر اعتراض اٹھائے جاسکتے ہیں۔ اس کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کی جاسکتی ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ ناکام بغاوت کے بعد حکومتی ردِعمل اور بے شمار لوگوں کی پکڑ دھکڑ سے بہت سے حامی بھی مطمئن نہیں ہیں۔ فتح اللہ گولن سے اس کی مخالفت پر سوال اٹھا ئے جاسکتے ہیں۔ ہر بات پر اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ایک بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔
اور وہ یہ کہ ۱۵؍ اور ۱۶ جولائی ۲۰۱۶ء کی درمیانی رات ایردوان نے للکار کر اپنے مخالفین سے کہا تھا کہ ’’میرا نام ایردوان ہے اور میں قاسم پاشا کا ہوں۔‘‘
(بحوالہ: ’’دلیل ڈاٹ پی کے‘‘۔ ۲۳ جولائی ۲۰۱۷ء)
Leave a Reply