
گزشتہ ساڑھے تین ماہ سے میں جنوبی افغانستان کے صوبے ہلمند میں طالبان کی انتہائی خوں ریز اور دم بہ دم بڑھتی ہوئی یلغار کے خلاف دن رات لڑتا رہا ہوں۔ اس دوران ہمیں ڈھنگ سے سانس لینے کا موقع بھی نہیں ملا۔ ہم کئی بار طالبان کے حملوں کی زد میں آئے مگر پھر بھی ہم نے انہیں آگے نہیں بڑھنے دیا اور بہت بڑے پیمانے پر جانی نقصان سے دوچار کیا۔ اس کے بعد مجھے افغانستان کی اسپیشل فورسز کی قیادت کے لیے دارالحکومت کابل بلایا گیا مگر تب طالبان شہر میں داخل ہو رہے تھے یعنی بہت دیر ہوچکی تھی۔
میں تھک چکا ہوں۔ میرے حواس بھی قابو میں نہیں۔ مجھے امریکی صدر جو بائیڈن کے اِن الفاظ نے شدید رنج پہنچایا ہے کہ امریکی فوجیوں کو ایک ایسی جنگ لڑ کر جان نہیں دینی چاہیے جو خود افغان فورسز بھی نہیں لڑنا چاہتیں۔
یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ افغان فوج لڑنے کا عزم کھوچکی ہے۔ مگر یہ سب کچھ اس لیے ہوا ہے کہ ہم میں یہ احساس بھی بہت شدت کے ساتھ پروان چڑھا ہے کہ ہمارے امریکی شراکت داروں نے ہمیں چھوڑ دیا ہے۔ چند ماہ کے دوران امریکی صدر کے الفاظ سے ہمارے لیے شدید عدمِ احترام جھلکا ہے اور وفاداری بھی کہیں دکھائی نہیں دی۔ افغان فوج کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے بھی مسائل تھے جن میں اقربا پروری، کرپشن اور بیورو کریسی نمایاں ہیں مگر ہم نے لڑنا اس وقت چھوڑا جب ہمارے شراکت داروں نے لڑنا چھوڑ دیا۔
امریکی صدر اور یورپی قائدین افغان قومی فوج کے ناکام ہو جانے کی باتیں کرکے مجھے اور دوسرے بہت سے لوگوں کو شدید دکھ پہنچا رہے ہیں کیونکہ اس صورتِ حال کے اصل اسباب کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا جارہا۔ واشنگٹن اور کابل کے درمیان سیاسی تقسیم نے افغان فوج کو الجھنوں سے دوچار کردیا اور ہم اپنے حصے کا کام ڈھنگ سے کرنے کے قابل نہ ہوسکے۔ امریکا کئی سال سے ہمیں لڑائی کے میدان میں لاجسٹک سپورٹ فراہم کر رہا تھا۔ جب یہ لاجسٹک سپورٹ روک دی گئی تو ہم مفلوج ہوگئے۔ امریکی اور افغان قیادت نے ہماری معقول راہ نمائی بھی نہیں کی۔
میں افغان فوج میں تھری اسٹار جنرل ہوں۔ گیارہ ماہ تک میں نے ۲۱۵ مائیونڈ کور کی قیادت کی۔ میری قیادت میں ۱۵؍ہزار فوجی جنوب مغربی افغانستان میں طالبان سے نبرد آزما رہے۔ میں نے اس لڑائی میں اپنے سیکڑوں افسران اور سپاہی کھوئے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ میں تھکن سے چُور اور قدرے منتشر الخیال فرد کی حیثیت سے، عملی تناظر پیش کرکے افغان فوج کے وقار کے دفاع کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں یہ سب کچھ اس لیے نہیں لکھ رہا ہوں کہ میں افغان فوج کو تمام کوتاہیوں اور خرابیوں سے بری الذمہ قرار دینا چاہتا ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سوں نے پوری شان اور وقار سے اپنے حصے کا کام کیا یعنی میدان میں ڈٹے رہے مگر امریکیوں اور افغان قیادت نے ہمیں دھوکا دیا۔
اگست کے دوران جب ہم جنوبی افغانستان کے شہر لشکر گاہ پر طالبان کو قابض ہونے سے روکنے کی کوشش میں خاصی بے جگری سے لڑ رہے تھے تب افغان صدر اشرف غنی نے اسپیشل فورسز کی قیادت کے لیے میرا نام تجویز کیا۔ میں نے خاصی ہچکچاہٹ کے ساتھ اپنے سپاہیوں کو وہیں چھوڑا اور ۱۵؍اگست کو کابل پہنچا۔ میں لڑنے کے لیے تیار تھا مگر یہ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ صورتِ حال کتنی خراب ہوچکی ہے۔ صدر اشرف غنی نے مجھے کابل کی سکیورٹی یقینی بنانے کا ٹاسک سونپا۔ مجھے اس حوالے سے کچھ کرنے کا موقع ہی نہیں ملا کیونکہ طالبان شہر میں داخل ہو رہے تھے اور اشرف غنی ملک سے فرار ہوچکے تھے۔
یہ احساس اب بھی غیر معمولی شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے کہ ہمیں بُری طرح دھوکا دیا گیا۔ اشرف غنی جس عجلت کے ساتھ فرار ہوئے اس سے انتقالِ اقتدار کے حوالے سے کسی سمجھوتے تک پہنچنے کے مذاکرات کی راہ مسدود ہوگئی۔ اگر ایسا کچھ ہوا ہوتا تو انخلا کے عمل میں اتنی ہڑبونگ دکھائی نہ دی ہوتی۔ نظم و ضبط یقینی بنانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ یہی سبب ہے کہ انتشار پھیلا اور کابل ایئر پورٹ پر دل کو دہلا دینے والے مناظر دکھائی دیے۔
کابل ایئر پورٹ کے مناظر ہی کو بنیاد بناکر امریکی صدر جو بائیڈن نے ۱۶؍اگست کو قوم سے خطاب میں کہا کہ افغان فوج مکمل طور پر ناکام رہی اور یہ کہ کہیں کہیں تو برائے نام بھی لڑائی نہیں ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم آخر تک غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لڑتے رہے۔ دو عشروں کے دوران ہم نے ۶۰ ہزار سپاہی کھوئے ہیں۔ یہ پوری فوج کا کم و بیش ۲۰ فیصد ہے۔
سوال یہ ہے کہ افغان فوج کیوں ناکام ہوئی۔ اس کے جواب کی تین جہتیں ہیں۔
اول یہ کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری ۲۰۲۰ء میں قطر میں طالبان سے جو ڈیل کی اس نے ہماری ناکامی کی راہ ہموار کی۔ اس ڈیل نے خطے میں امریکی مفادات کے خاتمے کی ایک تاریخ متعین کی۔ دوم یہ کہ ہمیں لڑائی جاری رکھنے کے لیے جو کنٹریکٹر لاجسٹکس اور مین ٹیننس سپورٹ درکار تھی وہ ختم ہوگئی۔ سوم یہ کہ اشرف غنی کی حکومت میں کرپشن کا دائرہ غیر معمولی وسعت اختیار کرگیا۔ سینئر فوجی قیادت بھی کرپٹ ہوئی اور اس حقیقت نے میدان میں لڑنے والے سپاہیوں کو ناقابلِ تلافی حد تک مفلوج کردیا۔
ٹرمپ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں موجودہ حالات کی راہ ہموار ہوئی کیونکہ امریکی اور اتحادی افواج کے لیے باضابطہ لڑائی کی گنجائش برائے نام رہ گئی۔ افغان فوج کے لیے امریکا کی طرف سے فضائی امداد کے ضوابط راتوں رات تبدیل ہوگئے اور اس سے طالبان کے حوصلے بڑھ گئے۔ ان کے لیے فتح خاصی آسان ہوگئی۔ اب انہیں صرف امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کے انخلا کا انتظار کرنا تھا۔ اس معاہدے سے قبل طالبان نے افغان فوج کے خلاف کوئی بھی قابلِ ذکر فتح حاصل نہیں کی تھی۔ معاہدے کے بعد؟ ہم یومیہ بنیاد پر درجنوں سپاہیوں سے محروم ہونے لگے۔ اس کے باوجود ہم لڑتے رہے۔ جب اپریل میں صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ وہ افغانستان سے امریکیوں کے انخلا کے اس منصوبے کے حق میں ہیں جو اُن کے پیش رَو ڈونلڈ ٹرمپ نے متعین کیا تھا تب یہ طے ہوگیا کہ اب سب کچھ زوال اور ناکامی کی طرف جائے گا۔
افغان فوج کو امریکیوں نے تربیت دی تھی۔ امریکی فوج کا ماڈل اپناتے ہوئے ہمیں جو تربیت دی گئی تھی اس میں حساس معلومات کا حصول یقینی بنانا اور بے داغ نگرانی ممکن بنانا بھی شامل تھا۔ جدید ترین ہیلی کاپٹروں سے مدد لینا اور کارگر فضائی حملے کرنا بھی سکھایا گیا تھا۔ جب ہماری فضائی امداد ختم کردی گئی اور گولا بارود بھی ختم ہوتا گیا تو طالبان پر ہماری برتری بھی ختم ہوگئی۔
طالبان سے دو عشروں کی جنگ کے دوران ہمارے بمبار اور ٹرانسپورٹ طیاروں کی دیکھ بھال اور مرمت وغیرہ کنٹریکٹرز کے سپرد تھی۔ جولائی تک ۱۷؍ہزار کنٹریکٹرز میں سے بیشتر رخصت ہوچکے تھے۔ ٹیکنیکل اشو اٹھ کھڑا ہوا، جس کا مطلب یہ تھا کہ بلیک ہاک ہیلی کاپٹر، سی۔۱۳۰؍ٹرانسپورٹ طیارہ، نگرانی پر مامور ڈرون… سبھی کچھ گراؤنڈ کردینا پڑا۔
کنٹریکٹر پروپرائٹری سوفٹ ویئر اور ویپنز سسٹم بھی ساتھ لے گئے۔ انہوں نے ہمارے ہیلی کاپٹر میزائل ڈیفنس سسٹم کو بھی الگ کردیا۔ اپنی گاڑیوں، ہتھیاروں اور عملے کا سراغ لگانے کے لیے ہم جس سوفٹ ویئر پر انحصار کرتے تھے وہ بھی غائب ہوگیا۔ اہداف کی ریئل ٹائم انٹیلی جنس بھی ممکن نہ رہی۔ طالبان اسنائپر رائفلز اور دیسی ساخت کے بموں کی مدد سے حملے کرتے رہے جبکہ ہم ایک طرف تو فضائی کارروائیوں کے ذریعے ملنے والی امداد سے محروم ہوگئے اور دوسری طرف لیزر گائڈیڈ اسلحہ بھی ہم سے چھین لیا گیا۔ ہیلی کاپٹر نہ ہونے کے باعث ہم اپنے اڈوں میں موجود فوجیوں کو سپلائی جاری نہیں رکھ سکتے تھے اس لیے سپاہیوں کے پاس اتنا سامان ہوتا ہی نہیں تھا کہ لڑائی جاری رکھ سکیں۔ طالبان نے ہمارے اڈوں پر قبضہ کیا اور کہیں کہیں تو پورے یونٹس نے ہتھیار ڈالے۔
امریکی اور اتحادی فوجیوں اور سفارت کاروں کے تیز رفتار انخلا سے معاملات مزید بگڑ گئے۔ اس حوالے سے زمینی حالات اور زمینی حقیقتوں کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ طالبان کو امریکیوں کی طرف سے ایک واضح حتمی تاریخ مل چکی تھی اور اس عبوری مدت کے دوران وہ جو کچھ بھی کرتے اس کے حوالے سے کسی فوجی کارروائی کا کوئی خطرہ نہ تھا۔ طالبان کو یہ بھی اندازہ تھا کہ امریکا فی الحال فوجی کارروائیوں کے حوالے سے زیادہ پُرعزم نہیں۔ یوں طالبان کی پیش قدمی جاری رہی۔ جولائی کے دوران اور اگست کے پہلے ہفتے میں میرے یونٹ نے صوبۂ ہلمند میں یومیہ سات کار بم دھماکوں کا سامنا کیا مگر پھر بھی ڈٹے رہے، میدان نہیں چھوڑا۔
تباہی اور ناکامی کے تیسرے سبب کو میں کسی بھی طور نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اشرف غنی حکومت اور فوج میں کرپشن اور بدانتظامی بہت زیادہ تھی۔ اس حوالے سے دستاویزی ثبوت بھی موجود تھے۔ امریکا چاہتا تو اس حوالے سے بہت کچھ کرسکتا تھا۔ یہ ہمارے لیے قومی سطح کا المیہ ہے۔ فوج اور سیاسی قیادت میں سے بہت سوں کو ان کی صلاحیتوں کے بجائے ان کے ذاتی تعلقات اور اثر و رسوخ کی بنیاد پر تعینات کیا گیا تھا۔ نا اہل افسران کے تقرر اور تعیناتی سے افغان فوج پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے۔ یہ افسران چونکہ سفارش یا تعلقات کی بنیاد پر آئے تھے اس لیے ان میں مطلوبہ اہلیت برائے نام تھی۔ یہ جنگ کا تجربہ نہیں رکھتے تھے اور ان میں اتنی قابلیت بھی نہیں تھی کہ سپاہیوں کا حوصلہ بڑھاتے، ان میں اعتماد پیدا کرتے اور ان کا اعتبار جیتنے میں کامیاب ہوتے۔ جب کرپشن بڑھی تو فوج کو خوراک، ایندھن اور گولا بارود کے حصول میں دشواریاں پیش آنے لگیں۔ اس کے نتیجے میں پوری فوج کا مورال ہی تباہ ہوگیا۔
لڑائی کے آخری ایام بہت عجیب و غریب تھے۔ ہم طالبان کے خلاف خاصی شدید مزاحمت کر رہے تھے، بڑے پیمانے پر فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا اور ہمارے سروں پر امریکی لڑاکا طیارے منڈلا رہے تھے مگر ان کی حیثیت صرف تماشائی کی تھی۔ ہم میں یہ احساس پوری شدت کے ساتھ موجود تھا کہ ہمیں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے اور غداری کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ امریکی پائلٹس نے بھی شدید بدحواسی اور ذہنی الجھن کا سامنا کیا اور ہمیں بتایا گیا کہ انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ زمین پر ہونے والی لڑائی کو صرف دیکھیں۔ وہ ہماری مدد کرنے سے قاصر تھے۔ طالبان کی طرف سے بڑھ چڑھ کر حملے کیے جارہے تھے اور میرے سپاہی سوال کر رہے تھے کہ امریکی لڑاکا طیارے ہماری مدد کیوں نہیں کر رہے۔ ایسے میں مورال کا خطرناک حد تک گرنا تو فطری امر تھا۔ افغانستان بھر میں قومی فوج کے سپاہیوں نے لڑائی ترک کردی۔ ہم نے شدید لڑائی کے دوران بھی لشکر گاہ پر اپنا قبضہ برقرار رکھا تھا مگر پھر یہ ہوا کہ باقی ملک کی طرح وہاں بھی ہمیں لڑائی جاری رکھنے کے درکار سپلائیز کا ملنا بند ہوگیا اور ایسے میں پسپائی کے سوا چارہ نہ تھا۔ میرے کابل جانے کے بعد بھی میری کور نے لڑائی نہیں روکی تھی۔ اس نے سقوطِ کابل کے بعد ہی ہتھیار ڈالے۔
ہم سے سیاست اور صدور نے غداری کی، دھوکا دیا۔ یہ صرف افغان جنگ نہیں تھی۔ یہ بین الاقوامی جنگ تھی، جس میں کئی افواج ملوث تھیں۔ صرف ایک فوج (افغان فورسز) کے لیے اس جنگ کو جاری رکھنا ممکن نہ تھا۔ یہ عسکری شکست ہے مگر یہ سیاسی ناکام کے بطن سے نکلی ہے۔
(لیفٹیننٹ جنرل سمیع سادات نے جنوب مغربی افغانستان میں افغان نیشنل آرمی کی ۲۱۵ مائیوند کور کی قیادت کی۔ اس سے قبل وہ افغانستان کی نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی کے سینئر ڈائریکٹر تھے۔ وہ ڈیفنس اکیڈمی، برطانیہ کے گریجویٹ ہیں اور کنگز کالج، لندن سے ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں۔)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“I commanded Afghan troops this year.We were betrayed”.(“New York Times”. Aug. 25, 2021)
Leave a Reply