ہم نے گننا کیسے سیکھا؟

حساب کتاب، گنتی اور اعداد۔۔۔ ان چیزوں سے ہمارا روزانہ کسی نہ کسی صورت میں واسطہ پڑتا ہے۔ ابتدائی جماعتوں میں جب بچوں کو زبان سکھائی جاتی ہے تو ساتھ ساتھ انہیں گنتی اور حساب وغیرہ کے بارے میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔ پھر جیسے جیسے وہ آگے بڑھتے ہیں، ویسے ویسے حساب کا عمل پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا کہ یہ ہندسے، یہ جمع نفی وغیرہ کب اور کیسے وجود میں آئے؟
انسانی تاریخ کی ہزاروں سال پرانی، بہت ساری باتوں کے بارے میں آج ہم ٹھیک سے نہیں جانتے۔ مثلاً: پہلا پہیہ کس نے ایجاد کیا: وہ کون سا انسان تھا جس نے پہلے پہل آگ جلائی، اوّلین تحریر کس انسان نے لکھی تھی وغیرہ۔ ایسے بہت سارے سوالوں میں آج ہمارے سامنے یہ سوال بھی ہے کہ گنتی (Counting) کا آغاز کب اور کیسے ہوا۔ قدیم انسان کے بہت سے دوسرے کارناموں کی طرح، گنتی کی ابتداء کا اصل واقعہ بھی تاریخ کی دبیز تہہ میں کہیں چھپا ہوا ہے۔
شماری چھڑیوں (Tally Sticks) کے طور جانوروں کی ہڈیوں کا استعمال، غالباً اس کی قدیم ترین شہادت ہے جو ہمیں آثار قدیمہ کی شکل میں ملتی ہے۔ اس طرح کی قدیم ترین دریافت ببون (بندر کی ایک قسم) کی پنڈلی کی ہڈی ہے جو سوازی لینڈ، جنوبی افریقہ سے دریافت ہوئی ہے۔ سائنس دانوں نے حساب لگایا ہے کہ یہ ہڈی لگ بھگ ۳۵۰۰۰ سال قبل مسیح کے زمانے کی ہے۔ اس پر گہری خراشوں جیسے ۲۹ نشانات ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نشانات، چاند کے چکر (Lunar cycle) کو ظاہر کرتے ہیں کیونکہ ان ہڈیوں جیسی چھڑیاں آج بھی نمیبیا کے بعض قبائل میں چاند کی تاریخوں کا حساب رکھنے میں استعمال ہو رہی ہیں۔ اسی مناسبت سے انہیں ’’تقویمی چھڑیاں‘‘ (Calender sticks) بھی کہا جاتا ہے۔
اس نوعیت کی ایک اور دریافت موراویا، چیکوسلواکیہ سے ہوئی ہے۔ یہ ایک بھیڑیئے کی ہڈی ہے جس پر خراشوں جیسے 55نشانات (Notches) لگے ہوئے ہیں۔ یہ تقریباً ۰۰۰و۳۰ سال قبل مسیح جتنی قدیم ہے۔ علاوہ ازیں، زائرے میں جھیل ایڈورڈز کے کنارے سے ۰۰۰و۹ سال قبل مسیح زمانے کی کچھ اوزار نما دریافتیں بھی ہوئی ہیں، جن پر کوارٹز قلمیں پیوست کی گئی ہیں۔ اس طرح کم از کم یہ تو ثابت ہو گیا کہ گنتی کا آغاز شماری نشانات (Marks Tally) سے ہوا۔ قدیم زمانے کے ان شماری نشانات کو کئی جماعتوں میں تقسیم کیا گیا ہے، لیکن یہ معلوم نہیں کہ ان سے کیا کام لیا جاتا تھا اور یہ کس چیز کو ظاہر کرتے ہیں۔
شماری نشانات کی کچھ باقیات ہمیں آج بھی جدید ہندسوں (Numerals) میں دکھائی دیتی ہیں۔ موجودہ اعشاری نظام (Decimal System) کا ایک (۱) اور رومن و چینی گنتی میں ایک، دو اور تین کے لیے استعمال ہونے والی علامات (جو بالترتیب III,II,I ہیں) ہمیں ان ہی قدیم شماری نشانات کی یاد دلاتی ہیں۔
لیکن، گنتی کا یہ طریقہ (جس میں شماری علامات استعمال ہوا کرتی تھیں) بہت محدود تھا اور اس کی مدد سے کوئی لمبا چوڑا حساب کتاب نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لہٰذا انسانی تہذیب نے جیسے جیسے ترقی کی، ویسے ویسے یہ احساس بھی شدت اختیار کرنے لگا کہ اعداد  کا یہ نظام انسانی تہذیب کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ جلد ہی اعداد کے ایسے نظام وجود میں آنے لگے جن میں مختلف ہندسوں کے لیے الگ الگ علامات استعمال کی جاتیں تاکہ زیادہ لمبا چوڑا حساب کتاب رکھنے میں مشکلات کم کی جا سکیں۔ اس طرح کے قدیم عددی نظاموں (Number Systems) میں ۵، ۱۰، ۱۲، ۲۰ اور ۶۰ کو ظاہر کرنے کے لیے علیحدہ اور خصوصی علامات استعمال کی جاتی تھیں۔ یوں لگتا ہے کہ شاید ان عددی نظاموں کے لیے انگلیوں کے ذریعہ گنتی کرنے کے ابتدائی طریقوں ہی کو بنیاد بنایا گیا تھا۔
البتہ، تحریر (خصوصاً اعداد کو ظاہر کرنے والی علامات) کی اوّلین شہادت ہمیں ’’میسوپوٹیمیا‘‘ سے ملی ہے۔ میسوپوٹیمیا کی تہذیب، دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان واقع تھی اور تقریباً ۶۰۰۰ سال پہلے وجود میں آئی تھی۔ یہ قدیم ترین انسانی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ میسوپوٹیمیا میں رہنے والے ’’سمیری‘‘ باشندوں نے ۶۰ کی بنیاد (Base-60) پر ایک عددی نظام ایجاد کیا تھا جس میں ۱،۱۰ اور ۶۰ کے لیے خصوصی علامات استعمال کی گئی تھیں۔ شاید آپ کو یہ عجیب لگ رہا ہو گا، لیکن ۶۰ کی بنیاد والا نظام ہمارے ہاں آج بھی وقت اور زاویوں کی پیمائش میں استعمال ہو رہا ہے۔ ذرا یاد کیجیے کہ ایک گھنٹے میں ۶۰ منٹ اور ایک منٹ میں ۶۰ سیکنڈ ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح زاویئے کے ایک درجے (ڈگری) میں بھی ۶۰ منٹ، جبکہ ہر منٹ میں ۶۰ سیکنڈ ہوتے ہیں۔
یہ سمیری باشندے ہی تھے کہ جنہوں نے عدد میں کسی ہندسے کے مقام (Place) کی مطابقت میں اس کی قدر (Value) کا نظام متعارف کرایا تھا۔ اسی مناسبت سے یہ ’’مقام۔ قدر نظام‘‘ (پلیس ویلیو سسٹم) بھی کہلاتا ہے۔ آج ہم کوئی عدد لکھتے وقت اس میں شامل ہندسوں کو اکائی، دہائی، سینکڑہ اور ہزار وغیرہ جیسے مقامات (Places) پر لکھتے ہیں تو دراصل ہم قدیم سمیریوں ہی کی تقلید کر رہے ہوتے ہیں، جنہوں نے یہ نظام پہلے پہل تقریباً ۲۵۰۰ سے ۳۰۰۰ سال قبل مسیح میں استعمال کیا تھا۔
قدیم زمانے میں تحریر کے لیے چکنی مٹی سے بنی ہوئی ٹکیاں یا تختیاں استعمال کی جاتی تھیں، جبکہ حساب کتاب کرنے کے لیے مختلف شکلوں والے پتھروں سے مدد لی جاتی تھی۔ لگ بھگ ۲۰۰۰ قبل مسیح میں اس طریقے کی جگہ گنتارا (اباکس) نامی آلے کا استعمال ہونے لگا۔ البتہ، فونیقی تہذیب کے باشندوں نے اندازاً ۱۰۰۰ قبل مسیح میں (یعنی آج سے تقریباً تین ہزار سال پہلے) اعداد کا ایسا پہلا نظام وضع کیا تھا کہ جس میں ہر ہندسے (Digit) کو ایک علیحدہ حرف سے (بطور علامت) ظاہر کیا جاتا تھا.... جو آگے چل کر جدید عددی نظام کی بنیاد بنا۔

(بشکریہ: ماہنامہ ’’گلوبل سائنس‘‘ کراچی۔ شمارہ: اپریل ۲۰۰۸ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*