
پاکستان کا ایٹمی پروگرام ابتدا ہی سے مغربی حکومتوں اور میڈیا کے پروپیگنڈے اور الزامات کا ہدف رہا ہے۔ اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ۱۹۷۴ء میں بھارت کی جانب سے کیے جانے والے ایٹمی دھماکے نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی راہ ہموار کی۔ یہی وہ صورت حال تھی جس کے تحت میں وطن واپس آیا تاکہ ایک مؤثر ایٹمی ڈیٹرنس تیار کیا جاسکے اور وطنِ عزیز کو بھارت کی ایٹمی بلیک میلنگ سے بچایا جاسکے۔
یورپ میں پندرہ سال گزارنے اور یورینیم افزودہ کرنے کے شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے بعد میں نے دسمبر ۱۹۷۵ء میں وطن کی راہ لی۔ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مجھے ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ ۱۰ دسمبر ۱۹۸۴ء کو میں نے اس وقت کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق سے کہا کہ ہم محض ایک ہفتے کے نوٹس پر ایٹمی ہتھیار کا تجربہ کرسکتے ہیں۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے کے دوسرے نصف میں ہم نے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے غیرمعمولی پیش رفت یقینی بنائی۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے کے اوائل میں ایٹمی ہتھیاروں کا ڈلیوری سسٹم تیار کرلیا گیا۔ جو ملک سائیکل کی چین نہیں بناسکتا تھا اُس نے مغربی دنیا کی شدید مخالفت اور بہت سی تکنیکی پیچیدگیوں اور مشکلات کے باوجود محض دو عشروں میں ایٹمی ہتھیار اور میزائل بنالیے جو واقعی بڑی کامیابی تھی۔
یہ سوال خالص علمی نوعیت کا ہے کہ بھارت کے خلاف مؤثر ڈیٹرنس کے لیے کم از کم کتنے ایٹمی ہتھیار درکار ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بھارت کی حکومت چین سے لاحق بے بنیاد خطرے کو جواز بناکر اپنے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھا رہی ہے۔ وہ سپر پاور بننے کا خواب بھی دیکھ رہی ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ ہمارے خلاف بھارت کو بھرپور ڈیٹرنس کے طور پر پانچ اور ہمیں اس کے خلاف دس ایٹمی ہتھیار درکار ہیں۔
دس سال قبل میں کہوٹہ سے الگ ہوگیا تھا، اس لیے مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت پاکستان کا ایٹمی پروگرام کس درجے میں ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب ایٹمی ہتھیاروں کا ڈیزائن بہتر بنانے اور حجم گھٹانے پر کام ہو رہا ہے تاکہ ڈلیوری سسٹم کو اپ گریڈ کیا جاسکے۔ جوابی حملے کی صلاحیت بہتر بنانے کے لیے ایٹمی ہتھیار ملک کے مختلف مقامات پر رکھنے پڑتے ہیں۔ مگر خیر، اس کی بھی چند حدود ہیں۔
ہمیں یہ بات کسی بھی طور نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ آج تک کسی بھی ایٹمی طاقت پر نہ تو حملہ ہوا ہے اور نہ اس پر قبضہ کیا جاسکا ہے اور کسی بھی ایٹمی طاقت کی سرحدوں میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکی۔ اگر عراق اور لیبیا کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوتے تو ان کے خلاف کوئی بھی فوجی ایکشن ایسا آسان نہ ہوتا جیسا کہ ثابت ہوا۔ اگر ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ہوتے تو اس کے خلاف حملہ اور ملک کو دو لخت کرنا ایسا آسان نہ ہوتا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں مختلف زاویوں سے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ اخراجات کے بارے میں بھی بہت سی بے بنیاد اور غیرضروری باتیں کی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایٹمی سائنس دانوں، مواد اور مشینری پر خطیر رقوم خرچ کی جارہی ہیں۔ ابتدا میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر سالانہ ایک کروڑ ڈالر خرچ کیے جاتے تھے۔ اب یہ خرچ مجموعی طور پر دو کروڑ ڈالر تک ہے۔ اس میں تنخواہیں، الائونسز، فنی سامان اور مواد، مشینری اور دیگر تمام اخراجات شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر سالانہ جو رقم خرچ ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ تو اب ایک جدید لڑاکا طیارے کی خریداری پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے اخراجات کے بارے میں ہر دور میں بے بنیاد باتیں پھیلائی جاتی رہی ہیں۔
پاکستان اور بھارت نے سرد جنگ کے اصول کو اپنا رکھا ہے۔ دونوں کو اندازہ ہوگا کہ اب اگر جنگ ہوئی تو دونوں تباہی کے دہانے تک پہنچ جائیں گے۔ یہی سبب ہے کہ چالیس سال سے دونوں کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ ہم نے ایٹمی ڈیٹرنس اِس لیے دیا تھا کہ سیاسی قیادت وطن کے دفاع کے بارے میں بے فکر ہو جائے اور عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنے پر توجہ دے، مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ۲۰ یا ۴۰ سال قبل ملک کی جو حالت تھی اس سے کہیں ابتر حالت اب ہے۔ اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور بھارت کو اب دو طرفہ تعلقات معمول پر لانے اور امن کو بہترین آپشن کی حیثیت سے اپنانے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ میں سوچتا ہوں جب صدیوں کی مخاصمت اور محاذ آرائی کے بعد فرانس اور جرمنی دوستوں کی طرح رہ سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟
(بشکریہ: ’’نیوز ویک پاکستان‘‘۔ ۳ جون ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply