ابنِ خَلدون۔۔۔ بے مثال مورخ!

ولی الدین عبدالرحمن ابن محمد عرف ابنِ خلدون (۱۳۳۲۔۸۲/۷۳۲۔۸۴) کو آفاقی طور سے عمرانیات اور تاریخِ علوم کا بانی اور بابا آدم تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ اپنی بہترین کتاب ’’مقدمۃ‘‘ کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ ابنِ خلدون کا سب سے اہم کارنامہ فلسفۂ تاریخ و عمرانیات سے متعلق ہے۔ اس نے تاریخ عالم لکھنے کی کاوش کی تو اس کی پہلی جلد مقدمہ کے عنوان سے لکھی جس میں تاریخی واقعات کا تجزیہ پیش کرنا مقصود تھا۔ کتاب ’’مقدمۃ‘‘ ابنِ خلدون کی غیرمعمولی ایپروچ کی آئینہ دار ہے اور تاریخ و عمرانیات کے فلسفے پر ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس یادگار تصنیف کا اہم موضوع نفسیاتی‘ معاشی‘ ماحولیاتی اور سماجیاتی حقائق کی دریافت ہے جو انسانی تہذیب کی ترقی اور تاریخ کے دھاروں کے تعین میں معاون ہوتے ہیں۔ اس سیاق و سباق میں ابنِ خلدون نے گروہی تعلقات کی فعالیت و اثرپزیری کا تجزیہ کیا اور بتایا کہ کس طرح گروہی احساسات یعنی عصبیت کسی نئی تہذیب اور سیاسی طاقت کے عروج کا سبب بنتی ہے اور کس طرح بعد میں اس کا پھیلائو ایک قدرے عمومی تہذیب کی تشکیل کا سبب بنتا ہے جو پھر ایک نئی عصبیت کو اس کی اصلی شکل میں جنم دیتی ہے۔ اس نے انسانی تہذیب کے عروج و زوال میں ایک مسلسل تکرار کو دریافت کیا اور ان عوامل کا تجزیہ کیا ہے جو تہذیبوں کے عروج و زوال میں موثر ہوتے ہیں۔ تاریخ کے حوالے سے ابنِ خلدون کا خاص کارنامہ یہ ہے کہ وہ اپنے پیش رو مصنفین کے برعکس جنہوں نے زیادہ تر تاریخ کی تعبیر سیاسی سیاق و سباق میں کی ہے‘ ماحولیاتی‘ عمرانی‘ نفسیاتی اور معاشی عوامل پر زور دیتا ہے جو نمایاں واقعات پر حاوی ہوتے ہیں۔ اس کی اس سوچ نے علمِ تاریخ میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور عمرانیات کی بھی بنیاد ڈال دی۔ مقدمہ سے قطع نظر جو کہ اس کی زندگی میں بھی ایک اہم آزاد کتاب گردانی جاتی تھی۔ ابن خلدون کی تصنیف کردہ تاریخِ عالم ’’کتاب العبار‘‘ کی دوسری جلدیں عربوں کی تاریخ‘ اس وقت کے مسلم حکمراں‘ اس وقت کے یورپی حکمراں‘ عربوں‘ یہودیوں‘ یونانیوں‘ رومیوں‘ اہلِ فارس وغیرہ کی قدیم تاریخ سے بحث کرتی ہیں نیز اسلامی‘ مصری‘ شمالی افریقہ کی بالخصوص بربروں اور متصل علاقوں میں رہنے والے قبائل کی تاریخ پر روشنی ڈالتی ہیں۔ آخری جلد میں ابنِ خلدون نے خود اپنی زندگی کے واقعات پر بالتفصیل روشنی ڈالی ہے جو ’’التصریف‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ یہ تصنیف بھی علمی انداز کی ہے اور اس نے فنِ سوانح نگاری میں تجزیے کی ایک نئی روایت کی بنا ڈالی ہے۔ علمِ ریاضی پر ایک کتاب ابنِ خلدون نے جو لکھی تھی وہ موجود نہیں ہے۔ ابنِ خلدون کی زندگی تین حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ ۲۰ سالوں پر مشتمل ہے جس میں اس کے بچپن اور تعلیم کا ذکر ہے۔ دوسرا حصہ ۲۳ سالوں پر مشتمل ہے جس میں اس کے تعلیمی‘ تسلسل اور سیاسی مہم جوئیوں کا ذکر ہے۔ تیسرا حصہ ۳۱ سالوں پر مشتمل ہے جس میں بطور دانشور‘ معلم اور مجسٹریٹ کے اس کی زندگی کا ذکر ہے۔ زندگی کے پہلے دو حصے اس نے مسلم مغرب میں گزارے اور آخری حصہ مغرب (تیونس اور مراکش وغیرہ) اور مصر میں گزارے۔ اس کے والدین کا تعلق اصلاً یمن سے تھا جو اسپین میں آکر آباد ہو گئے تھے لیکن سیویلی کے سقوط کے بعد تیونس ہجرت کر گئے تھے۔ وہ ۱۳۳۲ عیسوی میں تیونس میں پیدا ہوا جہاں اس نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی اوجہاں وہ جبکہ عین عالمِ جوانی میں تھا‘ مصری حکمراں اور سلطان ہرقوق کی سرکار میں ملازمت کر لی۔ ایک ترقی یافتہ علم کے لیے اس کی پیاس اور ایک بہتر علمی ماحول کی خواہش نے اسے جلد ہی سلطان کی نوکری چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور وہ فیز (Fez) ہجرت کر گیا۔ اس کے بعد اسے کافی عرصے تک سکون میسر نہیں آیا‘ جس کی وجہ اس وقت کی سیاسی دشمنیاں تھیں‘ جس نے اس کے کیریئر کو بری طرح متاثر کیا۔ شورش سے پُرامن عرصے میں اس کی ۳ سالہ پناہ گزینی کا دور بھی شامل ہے جو اس نے الجزائر کے ایک چھوٹے سے گائوں قلات ابنِ سلمان میں گزارے جہاں اسے ’’مقدمہ‘‘ لکھنے کا موقع میسر آ گیا۔ یعنی تاریخِ عالم کا پہلا حصہ جس نے اسے مورخین‘ ماہرینِ عمرانیات اور فلسفیوں کے درمیان ایک مرتبۂ دوام بخشا۔ اس کے کیریئر کو اب غیریقینیت کا سامنا رہا یہاں تک کہ اس نے مصر کو اپنی آخری جائے رہائش بنالی‘ جہاں اس نے اپنے آخری ۲۴ سال گزارے۔ اس نے بہت ہی عزت و شہرت کی زندگی گزاری۔ وہ عدلیہ کا چیف جسٹس بھی رہا اور الازہر یونیورسٹی میں لیکچر بھی دیتا رہا۔ لیکن لوگوں کے حسد کے باعث اسے عدلیہ کے اعلیٰ عہدے سے کوئی پانچ بار سبکدوش ہونا پڑا۔ تاریخ و فلسفۂ تاریخ‘ عمرانیات‘ علمِ سیاسیات اور تعلیم کے موضوع پر ابنِ خلدون کے ثرات اس کی زندگی ہی سے غیرمعمولی تھے۔ اس کی کتابیں مشرق و مغرب کی بہت ساری زبانوں میں منتقل ہوئیں جو بعد میں ان علوم کی ترقی کا سبب بنیں۔ مثلاً Prof. Gum Ploughs اور Kolosio مقدمہ کے علمی مرتبہ کو ایک صدی بعد لکھی گئی‘ میکاولی کے The Prince سے اعلیٰ اور برتر خیال کرتے ہیں۔ جیسا کہ سابق الذکر اپنی تشخص کی بنیاد زیادہ ثقافتی‘ عمرانی‘ معاشی اور نفسیاتی عوامل پر رکھتا ہے۔

(بشکریہ: ’’حج و عمرہ‘‘۔ مارچ ۲۰۰۵ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*