
کہاوت مشہور ہے کہ کسی بھی معاملے میں ٹائمنگ بہت اہمیت رکھتی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم بہت سے انتہائی اہم معاملات میں فیصلے اور اعلان کی ٹائمنگ کی اہمیت کو سمجھتے بھی ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کی صورت حال کے حوالے سے ابتدائی نوعیت کی تحقیقات کا اہتمام کرنا ایسا کام ہے جو بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔
ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ اب تک تحقیقات نہیں کی گئیں تو اب کیوں اِس پر زور دیا جارہا ہے۔ ہالینڈ کے شہر ’’ہیگ‘‘ میں قائم انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے ۱۶؍جنوری کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے۔
انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے قیام کا بنیادی مقصد اُن تمام مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا تھا جو کسی نہ کسی وجہ سے چھوٹ جاتے ہیں اور دندناتے پھرتے ہیں۔ جن لوگوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہو، اُنہیں گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دلانا ناگزیر ہے۔ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے قیام کا مقصد نہ تو حکومت کی تبدیلی یقینی بنانا تھا اور نہ ہی سیاسی معاملات کا رُخ بدلنا۔ یہ عالمی عدالت احتساب اور انصاف کو ہر حال میں اور ہر قیمت پر یقینی بنانے کے لیے معرض وجود میں لائی گئی ہے۔
انصاف کے بغیر امن ممکن نہیں!
اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ کسی بھی معاشرے میں انصاف یقینی بنائے بغیر حقیقی امن کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ جن معاشروں میں جمہوری اقدار کو پروان چڑھانا ہو، وہاں انصاف کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جاتا ہے کہ ناانصافی کا شکار ہونے والے تشدد کی طرف مائل نہ ہوں اور امن سے رہیں۔ قضیۂ فلسطین میں انصاف کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اِس حوالے سے خصوصی طور پر کچھ بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ فلسطین کے حوالے سے اس وقت بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف تو سرحدوں کا تعین کرنا ہے، بستیوں کی قانونی حیثیت طے کرنی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس قضیے کی نوعیت کے حوالے سے کچھ نہ کچھ حرفِ آخر کے طور پر کہنا ہے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مقبوضہ علاقوں کی صورت حال کے حوالے سے تحقیقات کے لیے فلسطینی اتحاد کی حکومت کی طرف سے یکم جنوری کو دی جانے والی درخواست کی بنیاد پر فلسطین کے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کا رکن بننے کا معاملہ اب یکم اپریل تک چلا گیا ہے۔ تحقیقات کے حوالے سے ٹائمنگ بہت اہمیت رکھتی ہے اور بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں اِس سوال کا ابھرنا معنی خیز ہے کہ اِس وقت ہی کیوں؟
ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا تھا؟ سچ یہ ہے کہ ہمیں کبھی یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا تھا یا نہیں۔ مگر ہاں، ہم ایک حد تک مفروضہ ضرور قائم کرسکتے ہیں۔
کینیاٹا کیس کا جو حشر ہوا، دارفر کیس کی تحقیقات جس طور روک دی گئیں اور شام کے معاملات کی تحقیقات کا جو کچھ ہوا، وہ سب کچھ اِس امر کا تقاضا کرتا تھا کہ مقبوضہ فلسطین کے معاملات کی تحقیقات کے لیے ذرا سخت سی ہیڈ لائن متعارف کرائی جائے۔ اِس وقت دنیا بھر کے میڈیا کے لیے کم ہی ہیڈ لائنز ہیں جو اپنی طرف اُس طرح متوجہ کرتی ہیں جس طرح فلسطین سے متعلق کوئی ہیڈ لائن کرتی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم ممکنہ نتائج کے بارے میں ابھی سے کوئی رائے قائم کر بیٹھیں، بہتر یہ ہوگا کہ پہلے ہم تحقیقات کا تناظر بننے والے چند عوامل پر غور کریں۔ فلسطین کو انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کا رکن بننا چاہیے یا نہیں، یہ سیاسی بحث کا ایک گرما گرم موضوع رہا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ اِیشو دراصل ایک سیاسی ہتھکنڈے سے زیادہ کچھ نہیں۔
اسرائیل نے خبردار کردیا تھا کہ اگر فلسطین نے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی رکنیت حاصل کی تو ایسا کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ اِن نتائج میں ممکنہ طور پر فلسطین کے ٹیکس فنڈز روکنا اور فلسطین کے لیے امریکی امداد کی بندش کے لیے لابنگ کرنا بھی شامل تھا۔ اور اب تو اسرائیل نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ وہ فلسطین کو رکنیت دیے جانے کی صورت میں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی فنڈنگ رکوانے کے لیے بھی لابنگ کرے گا۔
اسرائیل کی طرف سے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے خلاف جانے کا اعلان اُس کی طرف سے اخلاقی و سیاسی پستی کی ایک اور ’’بلندی‘‘ ہے۔ اِس سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ فلسطین کے مسئلے کا کوئی ’’اسٹرکچرڈ‘‘ حل قبول کرنے میں کس حد تک دلچسپی لے رہا ہے۔ کوئی بھی بخوبی اندازہ لگاسکتا ہے کہ اسرائیل کی حکومت احتساب کے لیے کسی بھی سطح پر تیار نہیں اور ہمیں پھر یاد کرلینا چاہیے کہ کسی بھی معاشرے، ملک یا خطے میں حقیقی امن کے لیے احتساب اور انصاف کس حد تک ناگزیر ہے۔
امن عمل
ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ فلسطینی اتھارٹی کا انٹرنیشنل کرمنل کورٹ سے رجوع کرنا دراصل جون ۲۰۱۴ء کے بعد سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کسی بھی فرد کی طرف سے جنگی جرائم یا جنگی جرم کے ارتکاب کی تحقیقات کی خاطر ہے۔ تحقیقات کا مقصد اسرائیلی حکومت یا ریاستی مشینری کو ہدف بنانا نہیں۔ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کسی بھی کیس کا جائزہ لیتے وقت فریقین کا موقف سُن کر اپنی رائے قائم کرے گا اور پھر اُس رائے کا اظہار بھی کرے گا۔
انصاف اور احتساب کے بغیر امن عمل کے تصور کا قابلِ عمل سمجھنا محض خوش فہمی ہے، اور کچھ نہیں۔ امن عمل تو بہت پہلے ختم ہوگیا تھا، جب اسرائیل نے دو ریاستوں کا تصور قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور پھر فلسطینی اتھارٹی کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے راستہ بدلنا پڑا۔ ۲۹ دسمبر ۲۰۱۴ء کو فلسطینی اتھارٹی نے اپنی الگ ریاست قائم کرنے کے لیے اقوام متحدہ میں ایک اور قرارداد پیش کی۔ یہ کوشش محض اس لیے تھی کہ اگر اقوام متحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرنے سے انکار کردے تو فلسطینی اتھارٹی کے پاس روم اسٹیٹیوٹ پر دستخط کرنے اور اُس کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا جواز ہو۔ اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی قرارداد، جیسا کہ یقین تھا، ناکام ہوچکی ہے۔
انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے پراسیکیوٹر نے ابتدائی تحقیقات کے آغاز کی تصدیق کرتے ہوئے اسرائیل، امریکا اور دیگر ممالک کو فلسطینی اتھارٹی کی رکنیت کے خلاف لابنگ سے روک دیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی رکنیت کا حصول ایسی خبر تھی جس کا دنیا بھر میں ملا جلا ردعمل دکھائی دیتا۔ بہت سے ممالک نے فلسطینی اتھارٹی کا اس فورم میں خیر مقدم کیا۔ اسرائیل اور اس کے ہم نواؤں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کو انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی رکنیت کسی طور نہ دی جائے۔ ساتھ ہی اُنہوں نے اِس امر کی کوششیں بھی شروع کردیں کہ فلسطینی اتھارٹی کے کہنے پر اسرائیل کی ریاستی مشینری یا کسی شہری کے خلاف جنگی جرائم کے حوالے سے تحقیقات نہ کی جائیں۔ اِس مقصد کے حصول کی خاطر اب انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی فنڈنگ روکنے کی کوششوں کا آغاز بھی کیا جاچکا ہے۔ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی فنڈنگ روکنے کی کوششیں ایک ایسے ملک کی ایما پر کی جارہی ہیں، جو آج بھی اپنے آپ کو سیاست، سفارت اور عسکری قوت کے اعتبار سے بلند ترین عالمی معیارات کا حامل قرار دیتا ہے۔ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے پراسیکیوٹر نے جنگی جرائم کی تحقیقات کے اعلان کے ذریعے یہ سوال بھی ایک بار پھر اُٹھا دیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام علاقے درحقیقت ریاستی حیثیت رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔ یوں ایک بار پھر فلسطینی ریاست کا معاملہ بحث کا موضوع بن گیا ہے۔
سب سے زیادہ قابلِ غور بات یہ ہے کہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے پہلی بار کسی ایسی ریاست سے کوئی کیس لیا ہے جس کی سرحدوں کا اب تک باضابطہ تعین نہیں کیا گیا ہے۔ یہ اقدام دور رس اثرات کا حامل ثابت ہوگا۔
مستقبل کی اُمّیدیں
ایک بات اور بھی ہے جو قابلِ غور ہے۔ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے پراسیکیوٹر نے جنگی جرائم سے متعلق شکایت تو آگے بڑھا دی ہے، یہ سوال رہنے دیا ہے کہ یہ شکایت کسی باضابطہ ریاست کی طرف سے آئی ہے یا نہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ فی الحال جنگی جرائم کی شکایت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اپنے زیر انتظام علاقوں میں ریاست کس طور قائم کرتی ہے، اِس نکتے پر بعد میں بات یا بحث ہوگی۔
اِس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہمیں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ سے کیا توقع وابستہ کرنی چاہیے؟ کوئی نہیں۔ ابھی تو صرف حقائق جمع کرنے کے عمل کا آغاز ہوا ہے۔ جب یہ عمل مکمل ہوگا تب کہیں جاکر تحقیقات کی ابتدا ہوگی۔ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ جس طور گھونگھے کی رفتار سے کام کرتی ہے، اُسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ تحقیقات سے کچھ خاص حاصل نہ ہوسکے گا۔ مگر خیر، تحقیقات کا آغاز علامتی طور پر بہت سی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرسکتا۔ کوئی بھی مسئلہ رائے عامہ کو اُس قدر منتشر اور منقسم نہیں کرتا جس قدر یہ مسئلہ کرتا ہے۔ اب فلسطینیوں کی حیثیت کے تعین اور اُنہیں ریاست کی حیثیت سے قبول کرنے کا معاملہ آگے بڑھے گا۔ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے ایک بہت بڑا کام اپنے سر لیا ہے اور اب اُسے غیر معمولی احساسِ ذمہ داری کے ساتھ کام کرنا پڑے گا۔ اِس بات کا فیصلہ تو تاریخ ہی کرے گی کہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے اپنے حصے کا کام کس طور انجام دیا۔ یہ ایک طویل سفر ہے جس کی محض ابتدا ہوئی ہے۔
“ICC and Palestine: Why now?”.
(“Al-Jazeera”. Jan. 19, 2015)
Leave a Reply