
قرآن کتاب ہدایت ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے یہ جان لیا کہ اس دنیا کی زندگی میں کامیاب ترین راستہ اور طریقہ زندگی ’’دین اسلام‘‘ ہے جو کہ انسان کو قربِ الٰہی کے مقام پر پہنچائے گا اور جو یہ بھی جانتے ہیں کہ اس طرف چلنے والوں کو روکنے کے لیے بھی ایک نظام ہے یعنی شیطان کا نظام جسے ’’دینِ کفر‘‘ کہتے ہیں تو اس کے حملوں اور رکاوٹوں سے بچتے ہوئے چلنا ہے۔ اس کامیاب راستہ کو ’’صراط مستقیم‘‘ کہتے ہیں۔ یہی ہر مسلمان کی آرزو ہے اور ہر مسلمان اس کو اپنی نماز کی ہر رکعت میں دہراتا ہے یعنی اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اور اسی آرزو اور سوال کے جواب میں ہدایت کے لیے پورا قرآن نازل ہوا۔ اور اس راستہ کی تمنّا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے متقین کا عنوان دیا اور یقین دلایا کہ یہ قرآن متقین کو لازمی ’’صراط مستقیم‘‘ کی ہدایت دے گا، کامیاب کرے گا اور اس بات میں کوئی شک نہیں۔
’’یہ ہے (وہ) کتاب (نظامِ زندگی) اور اس کا متقین کے لیے ہدایت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے‘‘
تو اس کتاب کی ہر آیت ’’ہر بیان‘‘ اھدنا الصراط المستقیم کی آرزو کرنے والوں کے لیے ہدایت ہے اور اسی حوالے سے قرآن کی اپنی خاص اصطلاحیں ہیں جو کہ ظاہراً لُغوی معنی بھی رکھتی ہیں مگر قرآن ان کو ہدایت کے حوالے سے خاص پس منظر کے ساتھ استعمال کرتا ہے اور اپنی ہر اصطلاح کی وضاحت قرآن خود ہی کرتا ہے تو ان کا بالاستعیاب مطالعہ کیا جائے تو اس اصطلاح کے معنی واضح ہو جاتے ہیں۔
ان بنیادوں پر قرآن کی اصطلاحات (اصطلاحات القرآن) پر کچھ کام کیا گیا ہے۔
شرک:
یہ اصطلاح قرآن میں مختلف اشکال میں قریباً ۱۶۵ مقامات پر آئی ہے۔
ان آیات کے مطالعہ کے بعد ’’شرک‘‘ کے یہ معنی سامنے آتے ہیں کہ ’’اللہ کے علم کے مقابلہ میں کسی کے علم یا اپنے ذاتی علم کو اہمیت دینا، ترجیح دینا یا اللہ کی بات کے مقابلے میں اپنے کسی بڑے یا اپنے نفس کی بات کو اہمیت دینا ’شرک‘ ہے‘‘۔
ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’شرک‘‘ ان تمام انسانوں کی ضرورت ہے جو اپنی خواہشات کی بنیاد پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور اس پر اپنے ضمیر کو مطمئن کر نے کے لے سند تلاش کرتے ہیں۔ تو خواہشات کی پیروی کی سند نہ تو انہیں اللہ سے ملتی ہے نہ رسول سے اور نہ اولیاء سے تو پھر وہ مجبور ہوتے ہیں کہ وہ خواہشات پر چلنے کی سند پر اپنے طور پر کوئی نظریہ بنائیں جو اس کی سند دے مثلاً ڈارون کا نظریہ ارتقاء (کہ یہ دنیا اتفاقی و حادثاتی وجود ہے اس لیے حساب کتاب کا کوئی مسئلہ نہیں ہو گا اس لیے جو چاہے کرو) اور مثلاً مر کر مٹی ہو جانے کا نظریہ ۔
’’اور منکرین لوگوں سے کہتے ہیں، ہم بتائیں تمہیں ایسا شخص جو خبر دیتا ہے کہ جب تمہارے جسم کا ذرّہ ذرّہ منتشر ہو چکا ہو گا اس وقت تم نئے سرے سے پیدا کر دیئے جائو گے، نہ معلوم یہ شخص اللہ کے نام سے جھوٹ گھڑتا ہے یا اسے جنون لاحق ہے۔ نہیں، بلکہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں اور وہی بری طرح بہکے ہوئے ہیں‘‘۔ ( سباء : ۳۴ ۔آیت ۷، ۸)
(ترجمہ قرآن مجید، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)
تو اس آیت سے واضح ہو گیا کہ اعمال پر حساب کتاب نہ ہونے کی خواہش رکھنے والوں نے اپنی خواہش کی سند کے لیے مر کر بالکل ختم ہو جانے کا نظریہ پیش کیا تاکہ وہ ہر نفسانی کام کھل کر کریں اور اس کو اتنی اہمیت دی کہ اس نظریہ کو نہ ماننے والے پر اللہ پر جھوٹ گھڑنے کا الزام دیا۔
یا پھر وہ عظیم شخصیات کے خاکے گھڑتے ہیں یا خواہشات کے بت بناتے ہیں (مثلاً لکشمی دیوی ’’دولت کی دیوی‘‘) اور ان کا درجہ متعین کرتے ہیں اپنی طرف سے کہ یہ اللہ کے بہت قریب ہیں تو ان کو خوش کر دو تو اللہ راضی اور پھر ان کو خوش کرنے کی رسمیں بھی خود بناتے ہیں اور پھر ان کی مصنوعی ہیبت وغیرہ مشہور کر کے خود اس کے مجاور بن کر خواہشات کو سند مہیا کرتے ہیں یا پھر اپنے نفس کو ہی الٰہ کے مقام پر لے جاتے ہیں کہ خواہشات کی پیروی پر کسی سند کی ضرورت نہیں جو دل میں آئے گا کروں گا۔
یہ تمام رویے قرآن نے ذکر کیے ہیں اور قرآن نے ان سب کو ’’غیر اللہ‘‘ کہا ہے جو کہ خواہشات پر زندگی گزارنے کی سند دیتے ہیں کیونکہ خواہشات کا راستہ ہی اللہ سے دور کرتا ہے چاہے نیت کتنی ہی صاف ہو۔ انسان سب سے پہلے اسی وجہ سے قرب الٰہی سے دور ہوا تھا مگر اس کے مقابل جو بھی شخصیات اللہ کے قرب کی طرف لے جائیں اور وہ ان صفات پر ہوں جن کو اللہ نے پسند کیا ہے اور ان کے ہدایت پر ہونے اور پسندیدہ ہونے پر سند دی ہو وہ غیر اللہ نہیں ہیں۔
اس فرق کو قرآن نے خود واضح کیا ہے۔
’’کیا تم مجھ سے ان ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیںجن کے لیے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی‘‘۔ (الاعراف ۷۔ آیت۷۱)
’’دراصل یہ کچھ بھی نہیں مگر بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی‘‘۔ (النجم:۵۳۔ آیت۲۳)
’’اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء اجداد نے رکھ لیے ہیں اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی‘‘۔ (یوسف:۱۲۔ آیت۴۰)
’’اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو خدائے ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے‘‘۔ (القصص:۲۸۔ آیت ۵۰)
تو اس سے یہ مفہوم واضح ہو گیا کہ اگر اللہ کسی کے بارے میں سند دے تو وہ غیر اللہ میں شامل ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے اپنے بندوں کے ذکر میں خود کہا کہ ان کو ہم نے (سند) ’’سلطان مبین‘‘ دے کر بھیجا۔
’’پھر ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور کھلی سند کے ساتھ بھیجا‘‘۔ (المومنون:۲۳۔ آیت۴۵)
اور اپنے اولیاء کو بھی سند دی ہے۔
’’سنو جو اللہ کے دوست ہیں ان کے لیے کسی خوف و رنج کا موقع نہیں‘‘۔ (یونس:۱۰۔ آیت ۶۲)
اور کیونکہ اس قرآنی ہدایت کا مقصد اللہ نے خود یہ بتایا ہے کہ اس ہدایت کی جو پیروی کرے گا اس پر خوف و غم نہ ہو گا۔
’’ہم نے کہا تم سب یہاں سے اتر جائو پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہو گا‘‘۔ (البقرہ:۲ آیت۳۸)
تو خوف و غم سے نکلے ہوئے بندے اللہ کے پیارے ترین بندے ہیں ان کی پیروی، ان کا ذکر اللہ ہی کی طرف لے کر جائے گا اس بناء پر اولیاء سے توسّل ’’شرک‘‘ نہیں ہے۔جبھی ’’اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم‘‘ کے ساتھ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَتَ عَلَیْہِم کا حوالہ دیا گیا ہے۔
{}{}{}
Leave a Reply