
تدبر سے کام لینا ہوگا، کسی حلیف ملک کی ناراضی مول نہیں لی جاسکتی، یہ وقت اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے سر جوڑ کر بیٹھنے کا ہے، تاکہ مسلم دنیا کو امن کا گہوارہ بنایا جاسکے۔ شام میں جاری بحران اور ایران امریکا ڈیل کے بعد مشرق وسطیٰ کی صورت حال خاصی پیچیدہ ہو گئی ہے۔ عرب ممالک نہ صرف اپنے روایتی حریف، ایران سے خائف ہیں، بلکہ خطے کے ایک اہم ملک سے بھی خفگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ شرق اوسط میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہونے والی ہے۔ دوسری جانب اس کشیدگی کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے ایران اور سعودی عرب دونوں ہی سے برادرانہ تعلقات ہیں، لیکن سعودی عرب اورایران کے درمیان وسیع ہوتی خلیج نے اسلام آباد کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ دونوں ممالک کی خواہش ہے کہ پاکستان ان کے مفادات کو ترجیح دے اور اس مقصد کے لیے وہ پاکستان کو مختلف حربوں سے اپنے قریب لانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
گزشتہ دنوں سعودی عرب نے پاکستان کو ۵ء۱؍ارب ڈالر کی امداد دی ہے اور پھر چند روز بعد بحرین کے فرمانروا نے ۴۰ برس بعد پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر مختلف اقتصادی اور سیکورٹی معاہدوں پر دستخط کیے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ مالی امداد اور بحرین کے ساتھ معاہدے دراصل پاکستان کو عرب ممالک کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے دیے گئے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے ایک اور برادر ملک ایران نے پاکستان پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کے سرحدی محافظوں کو پاکستان میں موجود عسکری تنظیموں نے اغوا کر لیا ہے اور پاکستانی حکومت انہیں جلد ازجلد بازیاب کروائے، بصورت دیگر ایرانی فورسز خود پاکستانی سرحدوں میں داخل ہو کر اپنے اہلکاروں کو بازیاب کروا لیں گی۔ پاکستان کے لیے ایران کا یہ دھمکی آمیز رویہ بھی معنی خیز ہے، لیکن اس ساری صورتحال میں پاکستان کو ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اپنے حلیف ممالک کو ناراض کرنے کے بجائے اپنے مفادات کا خیال رکھنا ہوگا، ورنہ مستقبل میں پاکستان میں جاری دہشت گردی مزید خوفناک ہو سکتی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کے اسباب جاننے کے لیے ہمیں ماضی میں جھانکنا ہوگا اور اُن عوامل پر غور کرنا ہوگا، جن کے نتیجے میں شرقِ اوسط کے ممالک کو آج ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے مشترکہ طور پر ایک انتہائی غیر معمولی سفارتی قدم اٹھاتے ہوئے قطر سے اپنے سفرا کو واپس بلوا لیا۔ اس فیصلے نے عرب ممالک کے درمیان نفاق کو پوری دنیا کے سامنے آشکار کر دیا۔ مذکورہ ممالک نے قطر پر الزام لگایا ہے کہ وہ ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے اور تین ماہ قبل ریاض میں ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرنے میں ناکام رہا ہے۔ قطر نے اس فیصلے پر افسوس اور حیرانی کا اظہار کیا۔ اس فیصلے کے اگلے ہی روز سعودی عرب نے اخوان المسلمون کو باضابطہ طور پر دہشت گرد جماعت قرار دے دیا اور مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی آبادی کے حامل ملک، مصر نے بھی قطر سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرلیے۔ خیال رہے کہ اِخوان المسلمون پر پہلے ہی سعودی عرب میں پابندی عائد ہے، جب کہ قطر کو اخوان المسلمون کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور قطر، مشرقِ وسطیٰ کی تنظیم ’خلیج تعاون کونسل‘ کے اہم ارکان ہیں۔ ان چاروں ممالک کے درمیان سنجیدہ نوعیت کے اختلافات کی خبریں کافی عرصے سے گردش کر رہی تھیں اور پھر مارچ کے دوسرے ہفتے میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ دوحہ میں قائم قطر کے شاہی خاندان کے ٹی وی نیٹ ورک ’’الجزیرہ‘‘ سے بھی سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک کو یہ شکایت ہے کہ قطری چینل ان ممالک کو غیر مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشمکش سے نبرد آزما ہونے کے لیے عرب لیگ کا ایک غیر معمولی اجلاس مارچ کے آخری ہفتے میں کویت میں منعقد ہوا، جس میں شام کے علاوہ تمام عرب ممالک نے شرکت کی (شام کی رکنیت معطل ہے)۔ اجلاس میں دو باتوں پر غور کیا گیا۔ اول، فوری طور پر قطر کا معاملہ طے کرکے عرب ممالک کی ہم آہنگی کو برقرار رکھا جائے۔ دوم، شام کے معاملے کے حل پر خصوصی توجہ دی جائے، تاکہ امت مسلمہ مزید انتشار سے محفوظ رہے۔ قطر اور دیگر ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کی تفصیل میں جانے سے قبل خلیج تعاون کونسل کے کردار پر نظر ڈال لی جائے۔ خلیج فارس یا خلیج عرب دنیا کی انتہائی اہم آبی گزر گاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہیں سے دنیا بھر میں تیل کی تجارت ہوتی ہے۔ خلیج تعاون کونسل، شرقِ اوسط کے چھ خلیجی ممالک سعودی عرب، بحرین، کویت، اومان، قطر اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل ہے۔ کونسل کے اراکین اقتصادی اور سکیورٹی کے معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہتے ہیں اور انہیں امریکا کی بھی حمایت حاصل ہے۔ یہ ۶ ممالک دنیا کے ایک تہائی تیل کے مالک ہیں اور پیٹرو ڈالر نے یہاں ترقیاتی کاموں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یہ ریاستیں گزشتہ ۵۰ برسوں سے دیگر ایشیائی ممالک کے عوام کو روزگار کے بھرپور مواقع فراہم کر رہی ہیں۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی ان ہی ممالک کے باعث کسی حد تک مستحکم رہتے ہیں۔ اب آتے ہیں، خلیجی ممالک کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی طرف۔ مشرقِ وسطیٰ کے حالات پر نظر رکھنے والوں کے مطابق اس کی جڑیں اِخوان المسلمون اور مصر کی فوجی حکومت کے درمیان پائے جانے والے شدید اختلافات سے جاملتی ہیں۔ شام میں لڑائی میں مصروف دو عسکری تنظیموں جبہتہ النصرہ اور دولتِ اسلامیہ فی عراق و شام پر بھی سعودی عرب نے پابندی عائد کردی ہے۔ اس کے علاوہ شام میں لڑنے والے سعودی شہریوں کو پندرہ روز میں وطن واپس آنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی انہیں یہ وارننگ بھی دی ہے کہ کوئی بھی سعودی شہری کسی دوسرے ملک میں جنگ میں ملوث پایا گیا تو اسے قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ سعودی حکومت کی یہ ہدایات اس وجہ سے خاصی حیران کن ہیں کہ سعودی عرب، شامی اپوزیشن کا کھل کر ساتھ دے رہا ہے۔ دوسری جانب قطر اور اخوان المسلمون بھی بشارالاسد حکومت کے مخالف ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک اہم معاملے پر ان تمام ممالک میں ہم آہنگی پائی جاتی تھی تو پھر اختلافات کیسے پیدا ہو گئے؟
اس ضمن میں ایران اور مغرب کے درمیان ہونے والے نیوکلیئر معاہدے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ عرب ممالک کا خیال ہے کہ امریکا کے ساتھ ڈیل کے بعد تہران، واشنگٹن کے لیے ویسی ہی اہمیت اختیار کر گیا ہے جیسی شہنشاہ ایران کے زمانے میں رکھتا تھا۔ امریکا اور دیگر یورپی ممالک نے ماضی میں ایران کو علاقائی طاقت اور مغربی ایشیا کے گیٹ وے کی حیثیت دی تھی، جس کی وجہ سے اسے خطے میں اہم اسٹریٹجک مقام حاصل تھا۔ یوں لگتا ہے کہ افغانستان سے جانے سے قبل امریکا اور نیٹو نے اس خطے میں اپنے حلیفوں کو ازسرِنو منظم کرنا شروع کر دیا ہے اور ایران اس سارے منظر نامے میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ملک ہے۔ خیال رہے کہ امریکا اور ایران، دونوں ہی طالبان کے سخت مخالف ہیں اور عراق کی مالکی حکومت کو بھی ان دونوں ممالک ہی نے سندِ قبولیت دی تھی، جب کہ عرب ممالک عراق میں جاری خونریزی پر سخت خائف ہیں۔
امریکا اور ایران کے درمیان طویل عرصے تک جاری رہنے والی ٹریک ٹو ڈپلومیسی میں غالباً یہ طے کر لیا گیا تھا کہ ایران میں ایک معتدل مزاج سیاسی قیادت لائی جائے (ایرانی صدر حسن روحانی اور وزیر خارجہ جواد ظریف دونوں ہی برطانیہ اور امریکا کے ڈگری ہولڈر ہیں) اور اسرائیل کے سکیورٹی خدشات کو دور کیا جائے۔ شاید اسی وجہ سے موجودہ ایرانی حکومت نے یہودیوں کے تہوار کے موقع پر انہیں مبارکباد پیش کی۔ دریں اثنا ایران شامی خانہ جنگی میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے اور بشار الاسد کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک شامی بحران کے خاتمے کے لیے بھی ایران کو اہمیت دے رہے ہیں۔ اب اس بات پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے کہ آخر اخوان المسلمون سے خلیجی ممالک کو کیا خطرات لاحق ہیں؟ اخوان المسلمون ابتدا ہی سے خود کو اسلامی سیاسی جماعت قرار دیتی ہے اور ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتی ہے۔ سعودی عرب نے نہ صرف مصر میں فوج کے ہاتھوں اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا، بلکہ جنرل السیسی کو مالی امداد بھی فراہم کی، جب کہ قطر، ایران اور ترکی نے اخوان المسلمون کی حمایت کی۔ حالانکہ انقرہ اور ریاض شام کے معاملے میں یکساں موقف رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کا خیال ہے کہ اخوان المسلمون، عرب ممالک کے عوام کو بادشاہتوں کے خلاف بغاوت پر اکسا رہی ہے۔ دوسری جانب خلیجی ممالک القاعدہ سمیت دیگر جہادی تنظیموں سے بھی خائف نظر آتے ہیں۔ شام میں جہادی تنظیموں میں شامل سعودی باشندوں سے سعودی بادشاہت کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں کہ کہیں یہ جنگجو سعودی عوام کو حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت پر مجبور نہ کردیں اور نتیجتاً لبنان، شام، عراق، مصر، لیبیا، صومالیہ، یمن، سوڈان اور پاکستان کی طرح یہاں بھی مختلف عسکری گروپس کو پنپنے کا موقع مل جائے اور وہ ملک میں خون کی ہولی کھیلنا شروع کر دیں۔
جہاد کے نام پر دوسرے مسلم ممالک میں مداخلت کے خونی تجربے کا مسلم دنیا کو گزشتہ بیس برسوں سے سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ گروپ غیر مسلموں سے لڑتے لڑتے خود مسلم ممالک کے لیے خطرہ بن گئے ہیں اور ان ممالک کے استحکام کو تہس نہس کر رہے ہیں۔ لبنان میں ۸۰ کے عشرے میں جس قسم کی خانہ جنگی ہوئی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس خانہ جنگی میں دس لاکھ سے زائد مسلمان لقمۂ اجل بنے، جو مسلم دنیا کے لیے ایک بھیانک خواب ہے اور اب اس صورتحال سے کئی مسلم ممالک بھی دوچار ہیں۔ القاعدہ اور طالبان سمیت دیگر عسکری تنظیموں کی کارروائیوں میں اب تک ۰۰۰,۵۰ سے زیادہ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گناہ زخمی ہو چکے ہیں۔ جبکہ ہم ان واقعات کی ذمہ داری بھارت، امریکا اور روس پر ڈال دیتے ہیں، حالانکہ یہی عسکری گروپس بڑے فخر سے ان ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کی ذمہ داری خود قبول کرتے رہتے ہیں اور پھر من گھڑت تاویلیں بھی پیش کرتے ہیں، جن میں انتقام کا فلسفہ اور اسلام کے نفاذ کی بات کی جاتی ہے اور ان کے خیالات کو بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں اور ان کے ہم خیال اہلِ دانش میں بڑی پذیرائی ملتی ہے، جو اِن کے موقف کو بڑی فصاحت و بلاغت سے میڈیا پر روزانہ پیش کرتے نہیں تھکتے۔ یقینا ایسے ہی تلخ اور خون آشام حقائق سعودی فرماں روائوں کے سامنے بھی ہوں گے۔ شاید وہ دوبارہ اس جال میں پھنسنے کے لیے تیار نہیں۔
مصر میں مئی میں ہونے والے انتخابات میں جنرل السیسی مرکزی امیدوار ہوں گے، جب کہ اخوان المسلمون پابندی کے باعث انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔ اخوان المسلمون کو انتخابی سیاست سے دور رکھنے کے کیا نتائج ہوں گے، اس بارے میں اکثر ممالک تذبذب کا شکار ہیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ مسلم دنیا میں جمہوریت پسپا ہو رہی ہے۔ یہ ان ممالک کی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے لیے لمحۂ فکریہ اور تنبیہ ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے اہم انتخابات اپریل میں، عراق میں ہو رہے ہیں۔ عراق اس وقت شام کے بعد دنیا کا دوسرا خطرناک ترین ملک ہے، جہاں ہر ماہ ہزاروں افراد فرقہ وارانہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے نوری المالکی، عراق پر امریکی قبضے کے بعد سے وزیراعظم ہیں۔ عراق کی سنی آبادی انتخابات میں حصہ لینے سے گریز کرتی ہے، جس کی وجہ سے ملک عدم استحکام کا شکار ہے۔ سنی آبادی کا کہنا ہے کہ نوری المالکی کی حکومت کی موجودگی میں انہیں خیر کی توقع نہیں۔ مہدی ملیشیا نے، جو کہ سب سے طاقتور عسکری گروپ تھا، امریکا کی مخالفت تو کی تھی، لیکن اس نے نوری المالکی کو حکومت بنانے میں مکمل معاونت فراہم کی اور اسی لیے وہ اب تک وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں۔ مگر اب مہدی ملیشیا نے سیاست سے کنارہ کش ہونے کا اعلان کر دیا ہے اور نوری المالکی کو ظالم اور ڈکٹیٹر قرار دیتے ہوئے اپوزیشن کے موقف کو درست قرار دیا ہے۔ عراق کا ایک بڑا علاقہ کُرد آبادی پر مشتمل ہے۔ عراقی کُردستان کے وزیراعظم ادریس بارذانی الیکشن میں حصہ لینے پر راضی ہیں، جب کہ ماضی میں یہ ہمیشہ عراقی حکومتوں کے لیے دردِ سر بنے رہے۔ مصر اور عراق دونوں کے انتخابات ہی مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں اہم ہوں گے کہ ایک ملک میں امریکی انخلا کے بعد پہلی مرتبہ الیکشن ہوں گے، تو دوسرے ملک میں فوجی انقلاب کے بعد پہلی دفعہ پولنگ ہوگی۔
سارا عالمِ اسلام اس صورتحال کی وجہ سے شدید اضطراب میں ہے۔ بالخصوص پاکستان، شام کے حالات اور امریکا، ایران ڈیل کے اثرات کی لپیٹ میں ہے اور اس وقت گومگوں کی کیفیت کا شکار ہے۔ پاکستان کا پڑوسی ملک، ایران نیوکلیئر معاہدے کا حصہ بھی ہے اور شام کی جنگ میں فریق بھی۔ ترکی سمیت مشرقِ وسطیٰ کے مسلم ممالک نے بشار الاسد کا ساتھ نہ دینے اور شامی حزب اختلاف کی حمایت کا فیصلہ اپنے مفادات اور حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کیا۔ یہ ہی خارجہ امور کا بنیادی اصول بھی ہے اور یہ ہی ایک اچھی اسٹریٹجی بھی ہے۔ اس وقت ایران اور سعودی عرب دونوں کی خواہش ہوگی کہ اسلام آباد ان کے مفادات کو اوّلیت دے۔ اس مقصد کے لیے دونوں ممالک لالچ اور دبائو جیسے حربے استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایران نے حال ہی میں پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس کے اغوا شدہ اہل کاروں کو بازیاب نہ کروایا گیا تو وہ خود پاکستان کی سرحدوں میں اپنی افواج داخل کرکے اپنے اہلکار بازیاب کروالے گا۔ ایران کی اس دھمکی سے خاصی بدمزگی پیدا ہوئی اور پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ایران کے اس رویے کو انتہائی افسوسناک قرار دیا۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ سعودی عرب کے ولی عہد پاکستان آئے اور انہوں نے اپنے مؤقف کے لیے پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران قطر اور شام کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ سفارتی نوعیت کی ایسی سرگرمیاں معمول کا حصہ ہیں، لیکن اس پر جیسا ردعمل کچھ حلقوں کی جانب سے سامنے آیا، وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ عالمی امور کی ذرا سی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والے اسے سفارتی معاملات سے لاعلمی قرار دیتے ہیں یا انتہائی جذباتی پن، جو ملکی مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس صورتحال میں مشرقِ وسطیٰ کی سیاست سے آشنا، پاکستان کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ عرب و عجم، دونوں کے موقف کو سنے اور دونوں ہی کو اعتدال کا راستہ دکھائے۔ اس وقت اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی جس قدر ضرورت ہے، اس سے پہلے شاید کبھی نہ تھی۔ اس سلسلے میں پہلی نظر او آئی سی پر ٹھہرتی ہے، جسے فعال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یورپی ممالک یوکرین اور ایران کے معاملے میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے، لیکن نہ جانے کیوں عالم اسلام ان سلگتے معاملات کے حل کے لیے مل بیٹھنے کو تیار نہیں۔ پاکستان اگر تیل کے حصول کی وجہ سے ایران کو اہمیت دیتا ہے تو اس وقت عرب ممالک میں لاکھوں پاکستانی ملازمتیں کر رہے ہیں اور یہ ممالک تیل اور سرمائے کے ذریعے امداد کے علاوہ سرمایہ کاری کے ذریعے بھی پاکستانی معیشت کو مضبوط کر رہے ہیں۔ نیز، کسی بھی مسلم ملک کو قانونی طور پر ہتھیار فروخت کرنے میں کون سی قباحت ہے؟ اگر یہ جرم ہے تو پھر کیوں کہا جاتا کہ مسلم ممالک اقتصادی اور دفاعی معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ پھر مشترکہ ٹیکنالوجی کے منصوبوں کی باتیں کیوں ہوتی ہیں؟ ایسے میں دوست ممالک سے قرضہ اور امداد لینے اور تجارت کو گناہ قرار دینا درست رویہ نہیں۔ ہمارے ہاں آئی ایم ایف سے قرضے کو ڈکٹیشن، ورلڈ بنک سے قرضہ سازش، امریکا سے امداد غلامی، بھارت سے تجارت گناہ اور سعودی عرب سے امداد خارجہ پالیسی میں تبدیلی سمجھی جاتی ہے، جو غیر دانشمندانہ رویہ ہے۔ چین ہی کو دیکھیں، کس قدر اطمینان سے اس نے امریکا جیسے فریق سے معاملات طے کیے۔ روس کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ وہ کیسے یورپ کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بنا ہوا ہے۔ ایران نے کس طرح اپنے جوہری پروگرام پر مغرب سے کمپرومائز کیا۔ فلسطین کو دیکھیں کہ کس طرح اسرائیل کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر بات چیت کر رہا ہے اور ایک ہم پاکستانی ہیں کہ ہمیں خود پر اعتماد نہیں۔ سفارتی اطوار سے بے خبر ہر بات پر شک، ہر قدم پر شبہ، کیا دنیا میں پنپنے کی یہ ہی باتیں ہیں؟ ماہرین اسی امر کا بار بار اعادہ کرتے ہیں کہ اسلام آباد کو ہر معاملے میں اپنے مفادات کو ترجیح دینا ہوگی۔ عوام کی بہتری کس چیز میں ہے، ترقی کے لیے کون سے لوازمات ضروری ہیں، دفاع کے لیے کون سے عناصر لازمی ہیں اور سب سے بڑھ کر دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ہم آہنگی کیسے برقرار رکھی جائے؟ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اسلام آباد کا ایک متوازن تعلق ملکی مفادات کے لیے نہایت اہم اور عالم اسلام کے لیے اہم ترین ہے۔
اسلام آباد اس وقت کسی بھی ملک کی ناراضی مول نہیں لے سکتا، بلکہ ملک کی ترقی کے لیے نہ صرف حلیف ممالک بلکہ دنیا کے دیگر ممالک سے ہم آہنگی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کو سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک اور ایران سے تعلقات بگاڑے بغیر خطے میں امن کے لیے اہم کردار ادا کرنا ہوگا اور اگر اس موقع پر اسلام آباد ہی اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو فعال کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ کرے تو شاید پورے عالم اسلام میں بہتری آسکتی ہے۔ یہ وقت اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے سر جوڑ کر بیٹھنے کا ہے، تاکہ مسلم دنیا کو امن کا گہوارہ بنایا جاسکے۔
(بشکریہ: ’’جنگ سنڈے میگزین‘‘۔ ۶ ؍اپریل ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply